شيخ مفيد کا مرتبہ و منزلت اس حد تک بلند ہے کہ حضرت ولي عصر (عج) آپ کي وفات پر مرثيہ پڑھتے ہيں :
لا صوت الناعي بفقدک انہ يوم عليٰ آل الرسول عظيم
يعني تمہاري وفات کي مصيبت آل رسول (ص) کے لئے بہت بڑي مصيبت ہے -
آپ کے لئے اس سے بڑھ کر فخر کي بات کيا ہوسکتي ہے کہ حضرت امام مہدي (عج) آپ کو خطاب کرکے فرماتے ہيں :
” سلام عليک ايہا العبد الصالح الناصر للحق الداعي بکلمۃ الصدق “ سلام ہو تم پر اے خدا کے نيک بندے ، حق کي مدد کرنے والے اور راہ راست کي طرف دعوت دينے والے-
شيخ مفيد کا نمونہ
يہ جملے امام معصوم کي طرف سے ايک غير معصوم شخص کے لئے بہت اہم ہيں ، شيخ مفيد کيا کام کرتے تھے کہ حضرت امام زمانہ (عج) کي طرف سے ان جملون کے ساتھ توصيف کے لائق ہوگئے ؟ - امير المۆمنين حضرت علي عليہ السلام اس خطبہ ميں کہ جس کا ايک حصہ حضرت رسول اکرم (ص) کي تعريف و توصيف ميں ہے ، اس بات کے بيان ميں کہ حضرت رسول خدا (ص) کے آخري زمانہ حيات ميں حالات کيسے پيدا ہوگئے کہ لوگ فوج در فوج دين اسلام ميں داخل ہوگئے اور بقول قرآن ” و رايت الناس يدخلون في دين اللہ افواجاً “ آپ نے ديکھا کہ لوگ دين خدا ميں فوج در فوج داخل ہورہے ہيں ، ارشاد فرماتے ہيں :
” وثقوا بالقائد فاتّبعوہ “ يعني لوگوں نے پيغمبر اسلام (ص) پر اعتماد و اطمينان پيدا کرليا پس ان کي پيروي کي -
شيخ مفيد نے اس نکتہ کو درک کيا تھا اور ايسا کام کيا کہ لوگ ان پر اعتماد و اطمينان پيدا کريں ، جو لوگ ، لوگوں کي ہدايت کرنا چاہتے ہيں انہيں اس نکتہ سے غافل نہ ہونا چاہئے اور دوسروں کے لئے قابل اعتماد و اطمينان ہونا چاہئے -
شيخ مفيد اور امام زمانہ (عج) کا خط دريافت کرنا
سيد بحر العلوم اس بحث کے ضمن ميں کہ شيخ مفيد نے حضرت امام زمانہ (عج) کو نہيں ديکھا تھا اور اس زمانے ميں کوئي نائب بھي نہ تھا کہ يہ خط اس کے واسطے سے شيخ مفيد کے ہاتھ ميں پہونچے پس يہ خط کيسے شيخ مفيد کے ہاتھ ميں پہونچا ہے ؟ کہتے ہيں :
” چونکہ خط دريافت کرنے کا زمانہ غيبت کبريٰ کا زمانہ تھا ، اور طے نہيں تھا کہ اس زمانہ ميں کوئي شخص واسطہ اور خاص نائب کے عنوان سے حضرت امام زمانہ (عج) کي خدمت ميں پہونچے اور جس شخص نے خط شيخ مفيد کو ديا ہے اس نے بھي نہيں کہا کہ امام زمانہ (عج) نے يہ خط مجھے ديا ہے ، ان تمام اوضاع و احوال کے ساتھ شيخ مفيد کا مرتبہ باعث ہوا کہ يہ استثناء ( فضيلت ) انہيں کے بارے ميں صورت پذير ہو “ -
خلاصہ يہ کہ شيخ مفيد امير المۆمنين حضرت علي عليہ السلام کے ارشاد کے بموجب حضرت رسول اکرم (ص) کے وصف کے حامل تھے ، وہ يہ کہ ” آپ سچے اور امين و معتمد تھے “
ايک سني عالم جو کہ شيخ مفيد سے بہت خار رکھتا تھا ، کہتا ہے کہ:
با وجوديکہ شيخ مفيد کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ بادشاہ ، تاجر افراد اور مختلف شخصيتيں ان کے سامنے تواضع کرتي تھيں اور ان کے ديدار کي کوشش کرتي تھيں ، پھر بھي ” کان يلبس الخشن “ شيخ مفيد ہميشہ خشن اور موٹے لباس زيب تن کرتے تھے - مشہور ہے کہ جملہ فعليہ استمرار ميں ظہور رکھتا ہے يعني ايسا نہيں ہے کہ ايک بار يا دوبار دکھاوے کے طور پر موٹے لباس پہن ليں ، بلکہ وہ ہميشہ ايسا ہي پہنتے تھے -
source : tebyan