اشارہ: مسز فاطمہ گراھم سنہ 1959 کو برطانیہ مین پیدا ہوئیں اور 16 سال کی عمر میں مسلمان ہوئیں اور دو سال بعد وسیع مطالعہ کرنے کے بعد شیعہ ہوگئیں۔ وہ اپنے نومسلم شیعہ خاوند مسٹر ابراہیم ایلن کے ہمراہ اسکاٹ لینڈ میں سکونت پذیر ہیں اور روایتی و نباتاتی طب کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس سال جنوری مین ایرانی طلبہ کے ایک وفد نے اسکاٹ لینڈ میں ان سے ملاقات کی اور انھوں نے طلبہ سے خطاب کیا جس کا متن یہاں قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
تقریر کا متن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج میں ایسے دو موضوعات کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں جن پر میں مسلمان ہونے کے لمحے سے یقین کامل اور ایمان راسخ رکھتی تھی اور آج بھی ان پر اتنا ہی یقین کامل اور ایمان راسخ رکھتی ہوں:
1۔ اسلام اور دین میں سادگی
2۔ اسلام اور انسان کا قلب و روح
ابتداء میں اختصار کے ساتھ اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتانا چاہوں گی۔
میں 16 سال کی عمر میں مسلمان ہوئی۔ بچپن میں بھی میں تقریبا مذہبی انسان تھی۔ میرے والد عیسائی تھے تا ہم وہ مذہبی فرائض پر عمل نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کے برعکس میری والدہ اور نانی بہت ہی مذہبی خواتین تھیں۔ وہ دونوں دیندار کیتھولک تھیں۔ میں کیتھولک اسکول گئی؛ جہاں ہم ہر سبق شروع ہونے سے قبل مناجات کیا کرتے تھے۔ میں ایک نوجوان (18 سال سے کم بچی) کے عنوان سے مختلف مذہبی موضوعات میں تحقیق و مطالعہ کرنے لگی؛ میں نے دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب کا مطالعہ کیا اور میں نے کوشش کی کہ اس چیز کو ڈھونڈ نکالوں جو میری نظر میں درست تھی؛ جس کے ذریعے میں سکون کا احساس کرسکوں۔ لیکن کتابوں میں صرف نظریات Theories تھیں۔ ابھی میں سولہ سال کی تھی کہ اسکول سے کالج چلی گئی اور وہاں مجھے متعدد مسلمان دوستوں سے ملنے کا موقع ملا جن کی اکثریت ایشیائی معاشروں سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک روز دن کے کھانے کے وقت ان کے پاس چلی گئی لیکن میں نے دیکھا کہ ان سب نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ میں بہت حیرت زدہ ہوئی اور ان سے روزے کے بارے میں سوالات پوچھے۔ ان سے میں نے ان کے عقائد کے بارے میں بھی متعدد سوالات پوچھے۔
کیتھولک عیسائی بھی اپنے دین میں ایک قسم کے روزے کا تصور رکھتے ہیں جس کو lent کہا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا روزہ زیادہ سنجیدہ ہے جو مسلمانوں کے ایثار، فداکاری اور زیادہ صبر و تحمل کی علامت ہے۔
میرے دوستوں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ میرے حوالے کیا۔ جب میں نے قرآن کی تلاوت شروع کی تو میرے قلب اور قرآن کے درمیان ایک رشتہ قائم ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ "اپنے گھر آپہنچی ہوں اور یہی میرا دین ہے"۔ میں نے اپنا دین پالیا تھا۔ اس وقت کے جذبات بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کوئی بھی پیچیدہ مطالعہ اور کوئی بھی طویل مباحثہ نہیں ہوا؛ صرف ایک فوری رشتہ اور تعلق قرآن اور میرے قلب کے درمیان قائم ہوا۔ اس کے چند ہی روز بعد اپنے بہن بھائیوں میں سے ایک کے گھر میں میں نے شہادتین جاری کئے۔ ایک عالم دین نے ایک متن عربی زبان میں پڑھ لیا اور میں نے وہی عبارت دہرائی اور ایک شخص نے اس عبارت کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا۔ انھوں نے کہا: "مبارک ہو"، "دین اسلام میں خوش آمدید"، "اب آپ مسلمان ہیں"۔
میں نے دل ہی دل میں کہا: کتنا آسان اور کتنا سادہ! اسلام میرے لئے دین کامل، دین خالص اور دین پاک ہے جس میں نسلی امتیاز وجود نہیں رکھتا؛ اس میں عورت اور مرد برابر ہیں؛ اس میں عدل و انصاف کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور اس میں معاشروں کے لئے ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جو بہت ہی سادہ اور بہت ہی کامل ہیں۔
جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) سے ایک جملہ نقل ہوا ہے جس کا مضمون یہ ہے: "اسلام بہترین دین ہے لیکن مسلمان ایک دین کے بہترین پیروکار نہیں ہیں"۔ (1)
بعد میں میں نے اس موضوع کے بارے میں سوچا کہ مسلمان اور دین اسلام کے پیروکار دین اسلام کے برعکس غیر کامل (ناقص) اور غیر سادہ (دنیا کی چمک دمک میں ڈوبے اور پیچیدہ) ہوسکتے ہے۔ جب میں نے دیگر نومسلموں سے بات چیت کی تو ان کا بھی یہی خیال تھا۔
ابتداء میں جب آپ اسلام کے ساتھ روشناس ہوتے ہیں گویا ایک طاقتور معنوی و روحانی رابطہ و تعلق قائم ہوجاتا ہے جو آپ کو خدا اور دین اسلام تک پہنچا دیتا ہے۔ مجھے ایک نومسلم فرد کی حیثیت سے بعض قوانین کا پاس رکھنا پڑ رہا تھا؛ لباس کی کیفیت و نوعیت، بعض خاص قسم کی غذائیں کھانا اور بعض غذاؤں سے پرہیز کرنا، وہ اعمال جو انجام دینا ضروری ہیں اور وہ امور جن سے اجتناب کرنا چاہئے ۔۔۔
کئی سال کا عرصہ گذرا اور میں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا کہ "آپ ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کو قائل نہیں کرسکتے چنانچہ آپ کو زندگی کے لئے ایک راہنما کی ضرورت ہے تا کہ ایک صحیح سمت میں عبادات بجا لاسکیں۔ چنانچہ میں نے مطالعہ و تحقیق کے بعد مذہب شیعہ کا انتخاب کیا اور یہ اپنی جگہ ایک دوسری داستان ہے۔
اب اسلام میں سادگی کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہمارا دین (اسلام) صلح و آشتی، عدل و انصاف اور مہربانی و انسانیت کی حمایت کرتا ہے۔ "یو این ڈی پی" (United Nation’s Development Program) نے عرب ملکوں کی ترقیاتی امور کے بارے میں اپنی رپورٹ 2002 میں مطلوبہ حکمرانی کے سلسلے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے چھ اقوال ذکر کئے ہیں؛ میں یہاں ان چھ اقوال میں سے دو اقوال نقل کرنا چاہوں گی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام عدل و انصاف کے قیام کے بارے میں کس قسم کے پروگرام رکھتا ہے:
1۔ "لوگ دو حالوں سے خارج نہیں ہیں، یا تو وہ تمہاری دینی برادران ہیں یا پھر انسان ہیں بالکل تمہاری مانند"۔ (2)
2۔ پرہیزگار انسان دنیا میں برتر فضیلتوں کی مالک ہیں، ان کی باتیں سچی، ان کا لباس میانہ روی اور ان کی چال تواضع اور فروتنی پر مبنی ہے؛ اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں ان چیزوں پر جو اللہ نے حرام کردی ہیں اور اپنے کانوں کو مفید علوم کے لئے وقف کرچکے ہیں۔ تنگدستی اور فراخی میں ان کا حال یکسان ہے۔ (3)
یہ ان مکمل اور سادہ تعلیمات میں سے ہیں جنہوں نے مجھے اسلام کی طرف جذب کیا۔ اسلام میں اتنی عظیم اور پرشکوہ مثالوں کے برعکس آپ اسکاٹ لینڈ، برطانیہ اور یورپ کی سڑکوں پر میں کسی غیر مسلم سے پوچھیں کہ چند الفاظ میں اسلام کا خلاصہ بیان کرے تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان چند الفاظ میں اسلام کا خلاصہ بیان کریں گے: "متشدد، سختگیر و بے لچک، تشدد، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، یہ لوگ ہمارے دین کے بارے میں اس طرح کیوں سوچیں؟
اسلام قبول کرنے والے دیگر افراد بھی اپنے لئے مذہب کا انتخاب کرلیتے ہیں، باعث افسوس ہے کہ بعض لوگ سلفیت کے کنویں میں گرجاتے ہیں، مجھے کہنا چاہئے کہ اگر وہ (نومسلم) خوش نصیب ہوں تو سنی بن جاتے ہیں اور اگر اس سے زیادہ خوش قسمت ہوں تو ان صوفیوں کی صف میں جاکھڑے ہوتے ہیں جو اہل بیت علیہم السلام سے عقیدت رکھتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بہت تھوڑے ـ مگر نہایت خوش قسمت ـ لوگ اسلام میں تشیع کی حقیقت سے آگہی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ موضوع اپنی جگہ قابل بحث ہے۔
جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں قوانین اور احکام کے ایک مجموعے کا سامنا کرتے ہیں۔ حرام و حلال۔ انہیں بعض عربی اصطلاحات سکھائی جاتی ہیں جیسے حرام، کفر، مکر اور شرک۔ افسوس کی بات ہے کہ انہیں اجازت نہیں دی جاتی کہ اسلام کی سادہ شکل اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ مسلمانوں سے مسلسل یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ "کیا وہ سنی ہیں یا شیعہ ہیں؟" "کس مذہب کے پیروکار ہیں؟"، "اگر شیعہ ہیں تو کس مرجع کی تقلید کرتے ہیں"۔
نو مسلم افراد کا ایمان کمزور ہوتا ہے اور اس سلسلے میں ان کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ وہ صرف "مسلمانی" کا نام لے کر پھرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو مسلمان پیدا ہوئے ہیں ان کی بھی اس سلسلے میں کوئی رائے نہیں ہوتی کہ انہیں کیوں سنی یا شیعہ ہونا چاہئے۔ ان کی اس بارے میں کوئی رائے نہیں ہوتی کہ انہیں کیوں حنفی یا شافعی یا مالکی یا جعفری ہونا چاہئے؟۔ وہ عام طور پر ایک خاص مذہب کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ ان کے خاندان اور معاشرے کے مسلمانوں کی اکثریت اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایسا ہی عمل کرتی ہے۔
ایک نومسلم کس طرح حیرت اور سرگردانی کا شکار ہوجاتا ہے، اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گی۔ میں نے ایک سنی بہن سے وضو کا طریقہ سیکھا۔ مجھے البتہ یاد نہیں ہے کہ وہ کس مذہب کی پیروکار تھیں۔ عرصہ بعد جب میں شیعہ ہوگئی اور ایران گئی تھی۔ وہاں میں وضو کررہی تھی تو میری ایک مذہبی بہن نے مجھے بتایا کہ میرا وضو درست نہیں ہے اور اس نے مجھے صحیح وضو کا طریقہ سکھایا۔ میں کئی برسوں تک اسی روش سے وضو کرتی تھی اور کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا کیونکہ جب میں اس شیعہ بہن سے ملی تو اس نے مجھ صحیح وضو کا طریقہ سکھایا تھا۔ عرصہ بعد حنفی سنیوں کے درمیان حاضر تھی اور وضو کررہی تھی تو حنفی خواتین حیران ہوئیں اور انھوں نے مجھے اپنے وضو کا طریقہ سکھانا شروع کیا اور یہ بات میرے لئے بہت ہے اذیت ناک تھی۔
اسلام میں وضو کا طریقہ ان موضوعات میں سے ہے جس کی روش کے صحیح یا غلط ہونے کے سلسلے میں نو مسلم افراد حیرت و سرگردانی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان وضو کی روش کے حوالے سے بہت سے اختلافات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان دیگر موضوعات جیسے: حجاب، روزہ کے قوانین اور مسافر کی نماز کے سلسلے میں بھی اختلافات بہت ہیں۔
نومسلم افراد کی ایک بہت بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ دین اسلام کے قوانین و احکام پر عمل کرنے کے لئے کئی راستے اور کئی روشیں اور کئے مکاتب ہیں۔ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ اسلام میں کئی مذاہب ہیں بلکہ انہیں صرف یہی کہا جاتا ہے کہ "یہ کام درست ہے اور یہ کام غلط"۔ ایک مسلمان کہیں سے آتا ہے اور نومسلم فرد کو بعض قوانین و احکام کی یادآوری کراتا ہے دوسرا مسلمان آتا ہے اور وہ ایسے قوانین اور احکام سناتا ہے جو پہلے مسلمان کے سنائے ہوئے احکام و قوانین کے بالکل برعکس ہیں۔ چنانچہ اس طرح سے نومسلم فرد احکام دین پر عمل کرنے کے سلسلے میں سرگردانی اور حیرت کا شکار ہوجوتا ہے۔
لہذا میں نے پانچوں اسلامی مذاہب کا گہرا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ فیصلہ کرسکوں کہ کونسا مذہب زیادہ سے زیادہ منطقی اور معقول ہے۔ البتہ جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ انسان صحیح راستے اور صحت سمت پر گامزن ہوجائے اور میری اللہ سے التجا یہی تھی کہ مجھے صحیح راستے پر ہدایت عطا فرمائے۔
میں نے جعفری مذہب میں اپنی موجودگی کے دلائل قبول کرلئے ہیں اور ذاتی طور پر اس موضوع پر دوسروں کے ساتھ بحث کرسکتی ہوں کہ میں مذہب جعفری سے کیوں وابستہ ہوں اور کیوں شیعیان اہل بیت (ع) کے درمیان ہوں۔ مگر کیا دوسرے بھی ایسا کرسکتے ہیں؟ وہ لوگ کیا کریں جو مطالعہ و تحقیق کے لئے زیادہ فرصت نہیں پاتے؟ بعض مسلمان حتی دیگر اسلامی مذاہب سے بالکل بے اطلاع ہیں۔ ان کے پاس خاص قسم کی معلومات ہیں جو دوسرے مسلمانوں کے بالکل برعکس ہیں۔
ایک ایسے وقت جبکہ ہمارے مسلمانوں نے اپنے قوانین کے تحت اسلام کی سادگی کو پیچیدگی میں تبدیل کردیا ہے، نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کا سادہ اور آسان اور مکمل دین دنیا والوں کے سامنے ایک پیچیدہ اور نہایت سخت دین کی صورت میں جلوہ گر ہوگا۔ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث شریف مد نظر رکھ لینی چاہئے کہ "لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دو جبکہ انہیں خوشنود کررہے ہو اس طرح سے نہیں کہ انہیں بیزار اور بے رغبت کردو اور کوشش کرو کہ اسلام کے احکام انہیں آسان اور سادہ نظر آئیں نہ یہ کہ یہ احکام انہیں سخت اور متشددانہ شکل میں ظاہر ہوں"۔ (4)
اب دوسرے موضوع پر بات کرتی ہوں اور دوسرا موضوع "اسلام اور قلب و روح انسان"؛ کہا جاتا ہے کہ ہر انسان دو قلبوں اور دو روحوں کا مالک ہے۔ ایک قلب وہ ہے جو انسان کی سینی میں تڑپتا ہے اور ایک دل معنوی اور روحانی دل ہے جس کا کوئی اندازہ اور کوئی حد نہیں ہے اور حتی بعض لوگ تو اس قلب کو پورے عالم وجود سے بڑا سمجھتے ہیں؛ چونکہ انسان کے قلب و روح میں نیکی اور بدی دونوں کی گنجائش ہے لہذا قلب و روح کی حفاظت بہت ضروری ہے۔
قلب و روح کی حفاظت ذکر اور یاد خدا کے ذریعے ممکن ہے۔ دینی مبلغین کا کہنا ہے کہ جو شخص اللہ کو یاد کرے اللہ کا نور اس کے قلب پر وارد ہوجاتا ہے جو اس روح اور اس قلب میں شیطان کے داخلے کو ناممکن بنادیتا ہے۔
پس اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ جتنا اللہ کو زیادہ یاد کروگے اتنا ہی تم نے اپنے قلب و روح کی حفاظت کی ہے۔ میں نے اس موضوع کی طرف اشارہ اس لئے کیا کہ یہ امور ـ یعنی عبادت، ذکر اور صلوات و درود ـ صرف اسلام کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ساتھ ربط و تعلق کے قیام اور انسانوں کے قلب و روح کی حفاظت کی بیش بہاء روشیں ہیں۔
میں ان اعمال میں نماز کا اضافہ کرنا چاہوں گی کیونکہ اگرچہ نماز کے لئے قوانین ہیں مثلاً نماز کی رکعتوں کی تعداد معین ہے لیکن نماز خدا کے ساتھ تعلق جوڑنے کے لئے ایک خصوصی راستہ ہے اور اس تعلق اور اس رشتے کی قدر و منزلت چند رکعت نماز پڑھنے سے کہیں زیادہ ہے۔ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ "آداب نماز" میں فرماتے ہیں: شرع مبین میں نماز کے لئے بعض ظاہری اشیاء معین ہیں جن پر عمل کرنا لازمی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نماز کی ایک گہرائی ہے اور اس کی ایک روح ہے؛ اس کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
اب ہمارے معاشرے اور ہمارے دین میں ایسے قوانین کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اسلام اپنے اندر آداب و رسوم کے لئے قوانین کا حامل ہے۔ یہ قوانین احکام و آداب کو پیچیدہ بنانے کے لئے وضع نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس لئے وضع کئے گئے ہیں کہ لوگ ان پر عمل کریں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کی توجہ ان قوانین کی روح اور ان کے عمق و حقیقت سے قطع نظر ان کی شکل اور ظاہری مفاہیم پر مرکوز ہے؛ البتہ محض معنوی قلب پر مرکوز ہونا اور ان قوانین سے بے اعتنائی برتنا بھی غلط ہے؛ لیکن جب ان قوانین کے ظواہر پر توجہ افراط و زیادہ روی اور انتہاپسندی کی حد تک پہنچتی ہے اور مسلمانوں کی توجہ صرف قوانین و ضوابط پر مرکوز ہوتی ہے تو ہمیں دہشت گردی اور تشدد کی مختلف شکلیں نظر آنے لگتی ہیں۔
جو لوگ انتہاپسندانہ اقدامات بجالاتے ہیں ایک معنوی قلب کے ذریعے اللہ کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔
دین، اور بالخصوص دین اسلام ـ جس کے دائرے میں ہم ہیں ـ محض ایک خارجی اور ظاہری ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ اس کی داخلی اور باطنی حقیقت بھی ہے۔
نظر تو یوں آرہا ہے کہ آج کے اس زمانے میں اکثر مبلغین ـ خاص طور پر وہ مبلغین جو اہل سنت اور سلفی بھائیوں اور بہنوں کی نمائندگی کرتے ہیں ـ اسلام کی ایک خارجی اور بیرونی شکل بنائے ہوئے ہیں اور وہ دین خدا کی اندرونی روح اور خالص حقیقت کا تعارف نہیں کراتے۔
مثال کے طور پر دعا اور ذکر و مناجات درحقیقت خدا کے ساتھ تعلق اور اللہ کے حضور مشرف ہونے کے وسائل ہیں اور اس صورت میں انسان کو مطیع و فرمانبردار مرید بننا پڑتا ہے۔ قرآن مقدس میں ایسی کثیر آیتیں ہیں جن کا تعلق انسان کے قلب و روح سے ہے۔ اگر خدا ارادہ کرے تو بعض لوگوں کے دلوں پر تالے ڈال دیتا ہے اور اگر ارادہ کرے تو کئی دیگر انسانوں کے قلب و روح سے تالے کھول دیتا ہے؛ ارشاد ہوتا ہے: «وجعلنا علی قلوبهم اکنة ان يفقهوه وفي آذانهم وقرا»، (اے میرے حبیبب) ہم نے ان کے قلبوں پر پردے ڈال دیئے تا کہ وہ آپ کا کلام نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بھاری پن قرار دیا۔ (5)
پس یہ اللہ کی لطف و رحمت کی علامت ہے۔ ہماری روح اور ہمارے دل کا تالا اللہ کی رحمت سے اٹھالیا گیا ہے۔
میں نے اس بات پر بہت غور کیا ہے کہ ہمارے مسلم بہن بھائی بڑی آسانی سے غیرمسلموں پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں بڑی آسانی سے کافر کہہ کر پکارتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو کہیں اتفاق سے کسی ایسے شخص سے آمنا سامنا ہو جو گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کی زندگی بہت بری ہے لیکن ذات خدا ایسی ذات ہے کہ اگر وہ ارادہ فرمائے تو چند ہی ثانیوں میں کسی کے قلب سے اندھیرے برطرف کردیتا ہے اور اس کی روح و قلب سے پردے اٹھا دیتا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ فرد خدا پر ایمان لے آئے اور شہادتین زبان پر جاری کرے۔ ہم کون ہیں جو اللہ کے عزم و ارادے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں یا فیصلہ کریں۔
اگر ہم حق گو ہوں اور صراحت سے بات کرنا چاہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے قلبوں کے اندر خدا کے ساتھ ربط و تعلق اہم ترین چیز ہے جو ہمارے اسلامی مذاہب میں مشترک ہے۔ ہم سب اپنے قلب و روح کے ذریعے خدا کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بعض اوقات مسلمان اسلام کے قوانین کے سلسلے میں اندھے پن کا شکار ہیں اور اپنے قلب و روح کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ یہ کیسی بات ہے کہ "ایک مسلمان جب اپنے قلب و روح کی صدا سن رہا ہے وہ اسی وقت کسی مقام پر بم بھی رکھ رہا ہو تا کہ عورتوں اور بچوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے؟"
یہ انتہاپسند اور مفرط افراد اپنے آپ کو قائل کرلیتے ہیں کہ "جن لوگوں کو اس نے قتل کردیا ہے انھوں نے اللہ تعالی کی ذات کی بجائے سیاسی اہداف و مقاصد کو اپنی زندگی کا مطمع نظر قرار دیا تھا چنانچہ انہیں جینے کا ہرگز حق نہیں ہے۔ (6)
میں اپنی باتیں اس آیت الہی پر ختم کردیتی ہوں جس میں اللہ تعالی نے ان تمام چیزوں کو سمیٹا ہوا ہے جو میں یہاں کہنا چاہتی تھی: کہ اللہ تعالی نے یہ احکام تمہارے سکون و آسودگی کی خاطر وضع کئے ہیں تمہیں سختی میں ڈالنے کے لئے نہیں۔
«يريدالله بکم اليسر ولايريد بکم العسر»، (7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ '' Islam is the best religion and Muslims are the worst followers."
2۔ نہجالبلاغہ، صبحی صالح، خط نمبر 53، ص 427.
3۔ خطبہ ہمّام یا خطبۃالمتقین (خطبہ نمبر 185) نہج البلاغہ-
4۔ (صحيح مسلم ، 3، ص 1587 ؛ نيز کنزالمعال ص 29)
5۔ وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ ـ ـ (سورہ انعام آیت 25)
ان میں سے بعض آپ کی باتیں سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں تا کہ وہ آپ کی باتیں نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں ہم نے بھاری پن قرار دیا؛ اور (وہ اتنی ہٹ دھرم ہیں کہ وہ) اگر حق کی تمام نشانیوں کا مشاہدہ بھی کریں پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے؛ یہاں تک کہ جب وہ جدال و تکرار کرنے کے لئے آپ کے پاس آتے ہیں کافرین کہتے ہیں: "یہ محض گذرے ہوئے لوگوں کے افسانے ہیں"۔
6۔ برطانیہ میں بیٹھے کسی مسلمان کو بہتر اندازہ ہوسکتا ہے کہ عالمی اسلام میں ہمارے اعمال حتی ہمارے عقائد کی صدائے بازگشت کی صورت کیا ہے؟؛ اس میں شک نہیں ہے لیکن انہوں نے ہمارے دہشت گردوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا ہے وہ ان کے نفس کی سلامتی کا نتیجہ ہے ورنہ یہ دہشت گرد کسی چیز کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ان کے پاس روح و قلب کا کیا تصور ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بھائیوں کو جاسوسی کے الزام میں بھیڑ بکریوں کی مانند ذبح کرتے ہیں اور سوات میں اپنے ہی اٹھارہ زخمی ساتھیوں کو اس لئے ذبح کرتے ہیں کہ کہیں وہ افواج کے ہاتھوں اسیر نہ ہوجائیں؛ وہ ان کو گولی مار کر قتل نہیں کرتے بلکہ انہیں ذبح کرتے ہیں تا کہ ان کی خونخوار فطرت کو سکون حاصل ہو خون کسی کا بھی ہو۔ انہیں معلوم نہیں کس نے قائل کرلیا ہے کہ جن لوگوں کو وہ قتل کرتے ہیں وہ در حقیقت کفار کے حامی ہیں یا کافر ہیں۔ البتہ ان کا دین اسلام سے الگ ہے کیونکہ اسلام میں عیسائی اور یہودی اور دیگر ادیان کے لوگوں تک کو بھی مکمل آزادی حاصل ہے اور مدینہ میں رسول اللہ کے زمانے میں یہ لوگ رہتے تھے اور رسول اللہ نے کسی کو بھی ان کے دین کی وجہ سے نہیں للکارا۔ دہشت گردوں کا خدا اور ان کا پیغمبر یقیناً مسلمانوں کے خدا اور پیغمبر سے الگ ہیں اور وہ کفار کے دشمن نہیں ہیں بلکہ اسلام کے دشمن ہیں اور کفر و شرک و استکبار ان ہی کے سہاری علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کررہے ہیں۔ آج تک ان کا ایک حملہ بھی کسی دشمن اسلام کے خلاف نہیں ہوا اگر کوئی ایسا حملہ ہوتا بھی ہے تو وہ دشمنوں کے ساتھ ہماہنگ ہوکر ہوتا ہے اور اس میں بھی دشمنوں کے اہداف و مقاصد ہوتے ہیں۔
7۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (بقره ـ 185)
(روزہ، چند گنے ہوئے ایام میں) ماہ مبارک رمضان ہے وہ مہینہ جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان تمییز کی نشانیوں پر مشتمل ہے۔ پس جو شخص تم میں سے ماہ مبارک کے دوران حَضَر (اپنے وطن) میں ہو وہ روزہ رکھے؛ اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو، ان ایام کی بجائے دیگر ایام میں روزہ رکھے۔ خداوند متعال تمہارے لئے آرام و آسائش چاہتا ہے تمہارے لئے زحمت نہیں چاہتا۔ مقصد یہ ہے کہ ان ایام (کے روزوں) کو مکمل کرو اور اللہ تعالی کو برزگ و برتر سمجھو اس لئے کہ اس نے تمہیں ہدایت سے نوازا ہے؛ شاید تم شکرگزاری کرو۔
source : http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=182402