اردو
Thursday 14th of November 2024
0
نفر 0

قرآن، کائنات اور انسان

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری زمین جو ہمیں اتنی وسیع و عریض نظر آتی ہے، کائنات میں اس کی حیثیت سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے سے بھی کم ہے؟ حالانکہ اس کا Diameter تقریباً تیرہ ہزار کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین، سورج کا ایک سیارہ (Planet) ہے اور اس کا سورج سے اوسطاً فاصلہ چودہ کروڑ اٹھاسی لاکھ کلومیٹر ہے۔ یہ اپنے مرکز کے گرد سولہ سو کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے Rotate اور خلا میں سورج کے گرد ایک لاکھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے Revolve کر رہی ہے۔ یعنی ہم جتنی دیر میں دو گھنٹے کی ایک وڈیو فلم دیکھتے ہیں، یہ ہمیں لے کر دو لاکھ بیس ہزار کلومیٹر فاصلہ طے کر جاتی ہے اور وہ بھی یوں کہ ہمیں کسی قسم کی حرکت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ سورج کے گرد اس کا ایک چکر چھیانوے کروڑ کلومیٹر کا ہوتا ہے اور وہ اسے ایک سال میں مکمل کرتی ہے۔

ہماری زمین کے علاوہ، سورج کی فیملی میں آٹھ سیارے اور بھی ہیں۔ مشتری (Jupiter) اس فیملی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کے حجم کا حال یہ ہے کہ اس میں ہماری زمین جیسی ایک ہزار زمینیں سما سکتی ہیں۔ یہ سورج سے 773280000 کلومیٹر دور ہے۔ دیگر سیارے عطارد (Mercury)، زہرہ (Venus)، مریخ (Mars)، زحل (Saturn)، یورینس (Uranus)، نیپچون (Neptune) اور پلاٹو (Pluto) ہیں۔ پلوٹو سورج کی فیملی کا آخری سیارہ ہے اور سوج سے اس کا فاصلہ 5872000000 کلومیٹر ہے۔

خود ہمارا یہ سورج جسے ہم روز دیکھتے ہیں اور جو ہمیں ایک معمولی Ball کی طرح دکھائی دیتا ہے، ہماری زمین جیسی چودہ لاکھ زمینوں کو اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ یہ بھی ساکن نہیں، بلکہ خلا میں گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ یہ اپنے عظیم حجم کے باوجود ہماری Galaxy (جسے ہم Milky Way کہتے ہیں) کا درمیانے حجم کا ایک ستارہ ہے۔

ہماری اس گلیکسی کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورج اس کے اندر اپنا ایک چکر گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کرتا ہوا پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ ہماری اس گلیکسی کا Diameter تقریباً ایک لاکھ نوری سال (Light Years) ہے۔ یعنی اگر ہم ایک ایسا راکٹ یا Space Ship بنا لیں جو 297600 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر سکے تو تب بھی اسے ہماری گلیکسی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے ایک لاکھ سال لگیں گے۔

ہماری گلیکسی میں سورج کے علاوہ ایک سو بلین مزید ستارے ہیں جن میں سے بعض سورج سے کروڑہا گنا بڑے اور ہزارہا گنا زیادہ روشن ہیں مثلاً ستارہ Antaresسورج سے 3500 گنا زیادہ روشن اور اپنے اندر چھ کروڑ سورج سمو سکتا ہے۔ یہ ہم سے تقریباً 330 نوری سال دور ہے۔ اس سے بھی بڑا ایک اور ستارہ Betelguse سورج سے 17000 گنا زیادہ روشن اور ہم سے 270 نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ Scheat, Riegel, W. Cephai, Aurigai اور Hereules ہماری گلیکسی کے ان سے بھی بڑے ستارے ہیں، انھیں Super giants کہتے ہیں۔ ان سے کروڑہا کلومیٹر بلند اٹھنے والے شعلے اللہ تعالی کی جلالی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ان ستاروں کو سورج کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو نہ صرف ہماری دنیا بلکہ ہمارے Solar System میں سوائے آگ کے کچھ نہ ہو۔ مثلاً اگر Scheat کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو زہرہ اس کے محیط میں آ جائے اور اگر Betelguse سورج کی جگہ آ جائے تو ہماری زمین اور مریخ کو اپنے اندر نگل لے اور اگر Aurgai سورج کے مقام پر آ جائے تو سیارہ Uranus اس کے محیط میں آ جائے گا۔ یعنی سورج سے لے کر یورینس تک آگ ہی آگ ہوگی اور نظام شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں گے۔

انسان ان اجرام فلکی کے حجم، چمک اور رفتار کے تصور سے کانپ جاتا ہے۔ ان کی تخلیق کے متعلق سوچنے لگیں تو عقل ساتھ نہیں دیتی، ذرا فاصلوں پر غور کریں تو اگر ہم روشنی کی رفتار (جو دو لاکھ ستانوے ہزار چھ سو کلومیٹر فی سیکنڈ ہے) سے سفر کریں تو بھی اپنی ساری زندگی میں ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان میں سے بعض ستارے بغیر کسی دوربین کے آسمان پر چمکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ ہمیں ان کی عظمت کا علم نہیں، لہذا وہ ہمارے لیے محض ایک معمولی نقطہ ہوتے ہیں۔

قرآن مجید میں سب سے زیادہ اصرار اس بات پر کیا گیا ہے کہ ہم عقل استعمال کر کے اپنے گرد و پیش میں بکھرے مظاہر قدرت کی حقیقت کو جاننے کی سعی کریں۔ چونکہ اس کے بغیر نہ ان سب کو بنانے والی ہستی کی عظمت کا ہمیں شعور ہو سکے گا نہ ہم اس کی صحیح معرفت حاصل کر سکیں گے اور نہ اس سے اتنا ڈریں گے جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیے:

"بے شک، اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈریں گے جو علم رکھنے والے ہیں، بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ہے۔" (فاطر 35:28)

بہرحال یہ حقیقت تو صرف ہماری کہکشاں کے 100 بلین ستاروں میں سے چند ایک کی ہے جس کے پیمانے بھی شاید ہماری محدود عقل میں آنے مشکل ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو خود ہماری کہکشاں کا کائنات میں کوئی مقام نہیں۔ ہم اپنی کہکشاں کے علاوہ محض آنکھ سے مزید تین کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک Andromeda ہے جو ہم سے اکیس لاکھ اسی ہزار نوری سال دور ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے ڈھائی گنا بڑی ہے۔ یعنی اس میں ستاروں کی تعداد ڈھائی سو بلین ہے۔

اس کائنات میں اربوں کہکشائیں ایسی بھی ہیں جنھیں محض عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ انھیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقت ور دوربینیں درکار ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے قریب نہیں، بلکہ ان کے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے ہیں۔ یہ تمام کہکشائیں ساکن نہیں، بلکہ اپنے مرکز کے گرد Rotate کر رہی ہیں اور خلا میں چل بھی رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی رفتار کروڑ ہا میل فی گھنٹا ہے اور یہ ہم سے لاکھوں کروڑوں نوری سال دور ہیں۔ ان لاتعداد کہکشاؤں کے گھومنے اور ناقابل تصور رفتار سے سفر کرنے کا جادوئی منظر دوربینوں کی مدد سے Deep Space میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں تو تب بھی یہی نظارہ ہوگا اور اس سے آگے بھی یہی نظارہ ہوگا، کیونکہ کائنات میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ انسانی علم ترقی کرتے کرتے، اس صدی میں پہنچ کر یہ چیزیں بیان کرنے کے قابل ہوا ہے، لیکن قرآن مجید نے پندرہ سو سال پہلے ہی یہ اطلاع ہمیں دے دی تھی:

"اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔"

(الذاریات 51:47)

یہ ہے اس کائنات کے پیمانوں کا ہلکا سا عکس، جو انسان بھی اس بے پایاں قوت، حیرت انگیز رفتار اور نور کے سیلاب پر غور کرے گا، وہ یقیناً پکار اٹھے گا:

"اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں بنایا۔ تو اس بات سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے، سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔"

(آل عمران 3:191)

پھر انسان کو اپنی یہ زندگی اور دنیا مصنوعی سی لگنے لگے گی۔ اس کا دل کانپنے لگے گا اور اس کے لیے یہ یقین کرنا قطعاً مشکل نہ رہے گا کہ اصل زندگی واقعی پردے کے پیچھے آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے، جسے ممکن بنانے والا کوئی ہماری طرح کا انسان نہیں، بلکہ وہ ہستی ہے جس نے یہ حیرت انگیز کائنات بنائی ہے۔

انسان کی دوبارہ تخلیق آسان تر ہے

قرآن مجید میں اللہ تعالی بارہا انسان سے سوال پوچھتے ہیں:"کیا تمھیں (مر کھپ جانے کے بعد دوبارہ) بنانا مشکل ہے یا اس کائنات کو جسے ہم نے بنایا ہے؟" (النٰزعٰت 79:27)

"کیا انھوں نے نہیں سوچا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، وہ قادر ہے کہ ان کی مانند پھر پیدا کر دے۔" (بنی اسرائیل 17:99)

"کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں، وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔"

(احقاف 46:33)

ان سوالات کا جواب کوئی بھی انسان جسے اللہ کے وجود پر یقین ہے، کیا دے سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ اے اللہ، واقعی تیرے لیے میرا دوبارہ پیدا کرنا مشکل نہیں، لیکن یہ جواب دینے سے پہلے اسے اپنے اوپر، اپنے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی نشانیوں پر غور کرنا ہوگا، ورنہ اسے ہمیشہ اپنا دوبارہ پیدا کیا جانا مشکل نظر آتا رہے گا، حالانکہ اگر کسی شے کو بنانے میں مشکل پیش آسکتی ہے تو پہلی دفعہ آ سکتی ہے، دوبارہ بنانا تو آسان تر ہے۔

اس حقیقت کی طرف اللہ تعالی سورہ روم میں انسان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں:"اور وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے، پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان (Easier) ہے۔" (30:27)


source : http://www.altanzeel.com/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=138:tanzeel&catid=96:2010-04-28-12-53-04&Itemid=104
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کربلا کے فورا بعد وجود پانے والے انقلابات
علما کی ذمے داریوں کا بیان
نبو ت عامہ (چھٹی فصل )
امیر المومنین علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت ...
قرآن مجید میں امانت داری کی اہمیت
اسلام اور مقام زن
غیبت ِ صغریٰ
نبی ۖکا امام حسین (ع) کی شہا دت کی خبر دینا
ایران کا نیوکلیر معاہدہ ۔۔۔۔ مجرم کے سر منصف کا ...
امریکی جوان نے شیعہ ہونے کے بعد حرم امیر ...

 
user comment