امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف كے وجود مبارك اور ان كی باعظمت شخصیت كے حوالے سے پیغمبر اسلام اور ائمہ اھل بیت رسول علیھم السلام سے منقول تمام تر احادیث ہم آھنگ اور ملتی جلتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے كہ روز اول سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان كے برحق معصوم جانشین ائمہ اھل بیت علیھم السلام امام مہدی(عج) اور ان كے ذریعہ سارے جہان پر اسلام كے غلبے والے مسئلہ پر خصوصی عنایت ركھتے تھے اور چاہتے تھے كہ اپنے پیروكاروں كو بھی اس اہم موضوع سے بھی صحیح طریقے سے باخبر كریں۔
بڑے بڑے محدثین اور مصنفین جیسے حمیری قرب الاسناد میں، محمد یعقوب كلینی كافی میں، محمد بن علی صدوق عیون اخبار الرضا میں، ابو جعفر محمد بن حسن طوسی كتاب غیبت میں اور مكتب امامت اھل بیت كے دیگر علماء فضلاء كرام نے امام رضاعلیہ السلام سے مہدی موعود(عج) اور قائم آل محمد كے بارے میں بہت سی احادیث نقل فرمائیں، مسند الامام الرضا كے مصنف كے مطابق امام رضا علیہ السلام سے امام مہدی(عج) كے بار ے میں تقریبا پینتیس احادیث منقول ہوئی ہیں امام ہشتم نے امام زمانہ(عج) كے حوالے مختلف نكات پر گفتگو كی ہے ان كی شخصیت پر، ان كی صفات و خصوصیات پر، ان كی طول غیبت پر، ان كے انتظار اور ان كے ظہور كے علامات پر.....
امام زمانہ(عج) كے حوالے سے ان گرانبہا احادیث كو چند اھم نكات میں تقسیم كرتے ہوئے ترتیب سے بیان كرتے ہیں۔
1. زمین حجت خدا سے خالی نہیں
سب سے پہلا نكتہ ان احادیث مبارك سے یہ ملتا ہے كہ زمین پر امام اور حجت خدا كا وجود ضروری ہے خواہ وہ انسانوں كی نگاہوں سے دور ہی كیوں نہ ہو۔
سلیمان بن جعفر حمیری كہتے ہیں سئلت الرضا علیہ السلام فقلت تخلوا الارض من حجۃ فقال علیہ السلام لو خلت الارض طرفۃ عین من حجۃ لساخت باھلھا 1
راوی كہتا ہے كہ میں نے امام رضا علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا آیا زمین حجت خدا كے بغیر رہ سكتی ہے تو امام علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر زمین پلك جھپكنے كے عرصہ كے برابر حجت خدا سے خالی رہ جائے تو وہ اپنے اوپر سب رہنے والوں كو نگل لے گی۔
حدیث كے راوی سلیمان بن جعفر حمیری جناب عبد اللہ بن جعفر طیار كی نسل مبارك سے تعلق ركھتے ہیں اپنے زمانہ كے اعلی پائے كے مصنف، محدث اور ثقہ تھے، شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے انہیں حضرت امام موسی كاظم علیہ السلام اور حضرت امام رضا علیہ السلام كے اصحاب میں سے شمار كیا ہے، یہ حدیث اور بھی راویوں سے نقل ہوئی ہے اگرچہ الفاظ میں كچھ حد تك اختلاف ہے لیكن معنی اور مضمون كے اعتبار سے یہی معنی دے رہی ہے، البتہ یہ توجہ رہے كہ ہمیں اپنے عقائد اور تاریخ كے مسائل میں فورا فیصلہ نہیں كرنا چاہئے بلكہ تامل اور دقت كے ساتھ ان پر توجہ دینی چاہئے اب اسی مطلب كے حوالے سے ہمیں پہلے غور كرنا چاہئے كہ تخلیق اور مخلوقات كی بقا یا فنا كی كلید پروردگار كے ہاتھ میں ہے، كائنات كا نظام اس خالق حكیم كے ازلی و ابدی ارادے كے تحت چل رہا ہے جب تك اس قادر مطلق كی منشا مرضی ہے اس كرہ خاكی پر حیات ہے اور مخلوقات اور پروردگار كے درمیان حجت خدا كا پرفیض وجود بھی ہے اور اگر كسی لمحہ یہ وجود مبارك حجت زمین پر نہ رہے تو یہ سمجھ لیا جائے كہ اس خالق مطلق كی منشاء یہ ہے كہ اس كرہ خاكی پر اب حیات نہ رہے۔
2. امام قائم (عج) كا اھل بیت پیغمبر سے ہونا
احادیث رضوی میں دوسرا نكتہ یہ ہے كہ حضرت مہدی علیہ السلام جو كہ قائم آل محمد كے لقب سے معروف ہیں وہ اہل بیت پیغمبر(ص) سے امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام كی نسل سے اور امام حسین بن علی علیہ السلام كی اولاد سے ہیں ۔
حسین بن خالد حضرت امام رضا علیہ السلام سے نقل كرتے ہیں كہ آپ اپنے آباو اجداد كے پاكیزہ سلسلہ سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل كرتے ہیں كہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: میں كائنات كا سردار اور پروردگار كی مخلوقات كا سرور و آقا ہوں میں جبرائیل، میكائیل، اسرافیل، حاملان عرش اور تمام تر فرشتوں كی نسبت پروردگار كا مقرب ہوں تمام انبیاء مرسلین سے افضل ہوں، میں صاحب شفاعت اور صاحب حوض شریف ہوں، میں اور علی میری اس امت كے دو باپ ہیں جس نے ہماری معرفت پیدا كی اللہ تعالی كی معرفت پیدا كی اور جو ہمارا منكر بنا وہ اللہ تعالی كا منكر بنا، امت كے سبط اور جنت كے جوانوں كے سردار علی كے دونوں فرزند ہیں اور حسین كی نسل سے نو امام ہیں ان كی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان كی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور ان میں سے نواں قائم اور مہدی ہے 2 ایك اور حدیث میں امام رضا علیہ السلام اور ان كے آباؤ و اجداد كے پاكیزہ سلسلہ كے ذریعہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل كرتے ہیں كہ انہوں نے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا التاسع من ولدك یا حسین ھو القائم بالحق المظھر للدین والباسط للعدل...... 3
اے حسین تمہارا نواں فرزند وہی ہے كہ جو حق كے ساتھ قیام كرے گا دین كو ظاھر كرے گا اور عدل و انصاف كو وسعت دے گا۔ ۔ ۔ ۔
تیسری حدیث میں حسن بن عبد اللہ تمیمی امام رضا علیہ السلام سے نقل كرتے ہیں كہ آپ ا پنے آباؤ و ا جداد كے پاكیزہ سلسلہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل كرتے ہیں كہ رسول اللہ فرماتے ہیں لاتقدم الساعۃ حتی یقوم القائم للحق منا و ذلك حین باذن اللہ عزوجل و من تبعہ نجی و من تخلف عند ھلك 4
جب تك ہمارے خاندان سے حق كا قائم قیام نہیں كرے گا قیامت بپا نہ ہوگی اور یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالی اجازت مرحمت فرمائے گا اور جس نے بھی اس كی پیروی كی وہ نجات پاجائے گا اور جس نے اس كی نافرمانی كی وہ ھلاك ہوجائے گا ۔
چوتھی حدیث بھی اسی طرح امام رضا علیہ السلام اور ان كے آباؤ و اجداد كے پاكیزہ سلسلہ سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل ہوتی ہے كہ آپ نے فرمایا آئمہ حسین كی نسل سے ہیں جس نے ان كی اطاعت كی اس نے اللہ تعالی كی اطاعت كی جس نے ان كی نافرمانی كی اس نے اللہ تعالی كی معصیت كی، وہ عروۃ الوثقی اور اللہ تعالی كے ساتھ ملا ہوا رابطہ ہیں 5
پہلی دونوں حدیثوں كے راوی جناب حسین بن خالد اور باقی دونوں حدیثوں كے راوی جناب حسین بن عبداللہ تمیمی ہیں كہ دونوں امام رضا علیہ السلام كے اصحاب ہیں اور علم رجال كے ماہرین دونوں كی توثیق كرتے ہیں 6
3. صبر اور انتظار فرج
احادیث رضوی میں امام مہدی عج كے حوالے سے تیسرا نكتہ صبر اور ان كا انتظار ہے یہ بات اپنی جگہ درست ہے كہ صبر كرنا سخت اور كسی كا انتظار بہت ہی دشوار ہے۔ بالخصوص وقت كے امام كی غیبت میں صبر اور ان كی انتظار كے لئے بہت وسیع حوصلہ اور محكم ایمان چاہئے اسی پچھلی حدیث میں كہ جس كے راوی خالد ہیں اور امام مہدی علیہ السلام كو امام حسین علیہ السلام كے نواں فرزند كے حوالے سے تعارف كروایا گیا ہے اسی حدیث میں بعد میں امام حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے پوچھتے ہیں كہ والد محترم اے امیر المومنین آیا ایسا ہوگا؟ تو امیر المومنین فرماتے ہیں! كیوں نہیں قسم ہے اس ذات كی كہ جس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ كو مقام نبوت پر فائز كیا اور انہیں تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی یقینا ایسا ہی ہوگا لیكن ان كی غیبت كے بعد وہ مخلصین كہ جن كے سینوں میں روح یقین ہوگی ان كے علاوہ كوئی بھی اپنے دین پر ثابت قدم نہیں رہے گا یہ وہ مخلص لوگ ہوں گے كہ اللہ تعالی نے ان سے ہماری ولایت كا محكم پیمان كی طرح عہد لیا ہے اور ان كے دلوں پر ایمان تحریر كیا ہے۔....... 7 انتظار كی اہمیت قدر و قیمت كے لئے یہی كافی ہے كہ اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل كو ان كے انتظار كی بدولت صادق الوعد كا لقب دیا سلیمان جعفری نے امام رضا علیہ السلام سے حدیث نقل كی ہے كہ ایك مرتبہ آپ نے فرمایا كیا تم لوگ جانتے ہو كہ اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل كو كیوں صادق الوعد كا لقب دیا؟ كیونكہ انہوں نے ایك شخص كو وعدہ دیا تھا اور ایك سال تك اس كے انتظار میں بیٹھے رہے 8 احمد بن محمد بن ابی نصیر روایت كرتے ہیں كہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ما احسن الصبر وانتظار الفرج..... 9 صبر و انتظار كس قدر بہتر ہے آیا آپ نے یہ سنا كہ عبد صالح نے كہا فارتقبوا انی معكم رقیب 10 تم نگرانی كرو میں بھی تمہارے ساتھ نگرانی كرتا ہوں وانتظرو انی معكم من المنتظرین 11 تم انتظار كرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار كرتا ہوں پس تم پر ضروری ہے كہ صبر كرو كہ ناامیدی كے بعد رہائی ہے تم سے پہلے والے لوگوں كا صبر تم سے زیادہ تھا، یہی راوی امام رضا علیہ السلام سے ایك اور حدیث نقل كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا: اما واللہ لایكون الذی تمدون الیہ اعینكم حتی تمیزوا او تمحصوا حتی لم یبق منكم الا الاندرتم تلا ام حسبتم ان تتركوا و لما یعلم اللہ الذین جاھدوا منكم و یعلم الصابرین؟ 12 اللہ كی قسم جس چیز پر تم نے آنكھیں لگائی ہیں وہ یہیں رہے گی یہاں تك كہ تم یا مخلص ہوجاؤ گے یا اس طرح آپس میں جدا جدا ہوجاؤ گے كہ سوائے كچھ لوگوں كے تم میں سے كچھ باقی نہ رہے گا پھر آپ نے یہ تلاوت فرمائی یا تم سمجھتے ہو كہ چھوٹ جاؤگے اور اللہ تعالی تم میں سے مجاھدین اور صابرین كو نہ پہچانے گا؟
ایك اور حدیث میں حسن بن جھم فرج كی حقیقت كے بارے میں سوال كرتے ہیں تو امام رضاعلیہ السلام جواب فرماتے ہیں اولست تعلم ان انتظار الفرج من الفرج 13 آیا تم نہیں جانتے كہ فرج كا انتظاركرنا بذات خود فرج و گشایش ہے ۔
پانچویں حدیث میں امام رضا علیہ السلام اپنے اباو و اجداد كے سلسلہ الذھب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا افضل اعمال امتی انتظار فرج اللہ میری امت كا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل الہی فرج (وسعت) كا انتظار كرنا ہے۔ 14
یہ بہت گہری بات ہے ایسی چیز كے لئے روح بزرگ اور مقام كمال انسانی چاہئے، جس طرح كہ صبر و حوصلہ كی كمی انسان كے وجود میں نقص و ضعف كی علامت ہے اس كے برعكس صبر و تحمل كی قوت اور پھر حوصلہ مندی سے مزین ہونا ہی انسان میں ایسی حالت پیدا كرتا ہے گویا كہ اسے فرج اور وسعت حاصل ہوچكی ہے، كیونكہ ظہور كے وقت انسان مومن خدمت كے لئے تیار ہو اور ہر قسم كی مالی و جانی قربانی دینے پر مصمم ہو اور جس وقت انسان اپنے امام كے بارے میں صحیح معرفت پیدا كرلیتا ہے تو پھر وہ ہر لمحہ اس كی خدمت یا اس كے انتظار میں ہوگا، البتہ نہ وہ انتظار كہ جو عام سے مفہوم ركھتا ہے بلكہ روحی طور پر ایسی حالت میں ہونا كہ اگر صاحب الامر ظہور فرمائیں اور اللہ تعالی اس كے لئے فرج و گشایش لے آئے تو اس كی تیاری میں كوئی مانع نہ ہو بلكہ وہ تو شروع ہی سے گویا مكمل طور پر ہر حوالے سے آمادہ تھا۔
پس گویا دو نكتوں پر توجہ رہے:
1. فرج كا انتظار افضل ترین عمل ہے۔
2. حقیقی معنوں میں انتظار بذات خود فرج ہے دوسرے لفظوں میں اس كا فرج سے كوئی فاصلہ نہیں ہے۔
4. ظہور كی علامات
جیسا كہ پہلے عرض كرچكے ہیں كہ جہاں تك خود امام زمانہ(عج) كے وجود مبارك اور ان كے ظہور مقدس كا تعلق ہے جو احادیث اس حوالے سے محمد و آل محمد علیھم السلام سے نقل ہوئی ہیں ان میں كوئی اساسی اختلاف نہیں ہے سب معنی اور مضمون كے اعتبار سے ایك جیسی ہیں، لیكن جہاں تك ان كے ظہور كی علامات كا تعلق ہے وہ كافی حد تك مشتبہ ہیں دوسرے لفظوں میں ان كی سند اور ان كے مضمون میں كچھ حد تك ضعف ہے، كیونكہ بہت سے تاریخی واقعات شاھد ہیں كہ بڑے بڑے مقتدر خلفاء اور ظالم و جابر حكمران امام زمانہ(عج) كے قیام كے حوالے سے روایات سے بہت ھراساں تھے اور ان كے لئے یہ حساس ترین مسائل میں سے تھا، تو انہوں نے زر و دنیا كے ھوس زدہ اپنے درباری محدثین اور علماء نما لوگوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی احادیث كو تحریف سے آلودہ كیا، مگر اس كے باوجود وہ احادیث جو امام رضا علیہ السلام سے ہم تك پہنچی ہیں ان میں پھر بھی ہمارے لئے بہت خوبصورت اور قابل توجہ نكات موجود ہیں۔
ریان بن صلت كہتے ہیں: كہ امام رضا علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا كہ آیا آپ صاحب الامر ہیں؟ تو امام رضا علیہ السلام نے جواب میں فرمایا كیوں نہیں میں صاحب الامر ہوں لیكن وہ صاحب الامر كہ جو ظلم و ستم سے بھری ہوئی زمین كو عدل و انصاف سے پر كرےگا وہ میں نہیں ہوں میں كیسے وہ امام ہوسكتا ہوں حالانكہ تو دیكھ رہا كہ میں جسمانی طور پر ناتوان ہوں امام قائم وہ ہے كہ جب ظہور كرے گا وہ جوان ہوگا اگرچہ عمر كے اعتبار سے وہ جوان نہیں ہوگا اس كے اعضاء طاقتور ہوں گے كہ اگر كسی درخت پر اپنا ہاتھ ركھے تو اسے جڑ سے اكھاڑ دے گا اگر پہاڑوں كے درمیان آواز بلند كرے تو پتھر اپنی جگہ سے اكھڑ جائیں گے ہاتھ میں عصائے موسی انگلی میں سلیمان كی انگوٹھی ہوگی اور وہ میرا (نسل كے اعتبارسے) چوتھا فرزند ہوگا اللہ تعالی اسے پس پردہ جس قدر چاہے گا پوشیدہ ركھے گا پھر اسے ظاھر كرے گا وہ زمین جو كہ ظلم و ستم سے پر ہوچكی ہوگی وہ اسے عدل و انصاف سے پر كرے گا 15
ایك اور حدیث كہ جس كے راوی حسن بن محبوب ہیں امام رضا علیہ السلام سے نقل كرتے ہیں ینادون فی رجب ثلاثہ اصوات من السماء صوتا فیھا الا لعنۃ اللہ علی الظالمین والصوت الثانی ازفت الازفۃ یا معشر المومنین والصوت الثالث یرون بدنا بارزا نحو عین الشمس ھذا امیر المومنین قد كر فی ھلاك الظالمین 16
لوگ تین بلند آوازیں سنیں گے ان میں سے ایك یہ آواز ہوگی جان لو كہ ظالموں پر اللہ كی لعنت ہے دوسری آواز یہ ہوگی اے مومنین قیامت نزدیك آگئی ہے تیسری آواز میں ایسے بدن كو دیكھیں گے كہ جو سورج كے چشمہ كی طرح ظاھر ہوگا یہ امیر المومنین ہیں انہوں نے ظالموں كی ہلاكت كے قصد سے حملہ كا آغاز كردیا ہے۔
5. ظہور كا زمانہ
امام رضا علیہ السلام كی احادیث میں ظہور كے زمانہ اور امام زمانہ(عج) كی بعض خصوصیات ذكر ہوئی ہیں در حقیقت ان احادیث نے دنیا پرست اور جھوٹے دعوی مہدی كرنے والوں كے ناپاك عزائم ناكام كردے ہیں۔
حسین بن خالد روایت كرتے ہیں كہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا جس كے پاس تقوی اور پرہیزگاری نہ ہو اس كے پاس دین نہیں ہے اور جس كے پاس تقیہ نہ ہو اس كے پاس ایمان نہیں ہے تم میں سے اللہ تعالی كے نزدیك زیادہ احترام والا وہ ہے كہ جو سب سے زیادہ تقیہ پر عمل كرے۔
امام علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا گیا اے فرزند رسول تقیہ كب تك ہے تو آپ نے فرمایا: وقت معلوم كے دن تك اور وہ دن ہم اہل بیت كے قائم كا دن ہے پس جس نے ہمارے قائم كے خروج سے پہلے تقیہ چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا میرا چوتھا (نسل كے اعتبار سے) فرزند كنیزوں كی سردار كا فرزند ہوگاكہ اللہ تعالی اس كے ذریعہ زمین كو ظلم و جور كی آلودگی سے پاك فرمائے گااور وہ امام ہے كہ بعض اس كی ولادت میں شك ركھیں گے اور ظہور كرنے سے پہلے طویل عرصہ تك غائب رہے گا اور جب ظہور كرے گا تو زمین اس كے وجود كے نور سے روشن ہوجائے گی لوگوں كے درمیان عدل و انصاف كا ترازو ركھا جائے گا پس كوئی كسی پر ظلم نہ كرے گا، وہ ایسا امام ہوگا كہ زمین اس كے پاؤں كے نیچے روشن نظر آئے گی اور اس كا جسم سایہ كے بغیر ہوگا اور وہی ہوگا كہ آسمانی آواز جسے سب سنیں گے اس كی طرف بلائے گی اور كہے گی جان لو كہ حجت خدا بیت اللہ كے پاس ظاھر ہوگئی ہے اس كی طرف چل پڑو كہ حق اس كے ساتھ ہے اور اس كے وجود میں ہے اور یہ اللہ كی كلام ہے كہ اس نے فرمایا ان نشا تنزل علیھم السماء آیۃ فظلت اعناقھم لھا خاضعین كہ اگر ہم چاہیں ان پر آسمان سے آیت نازل كریں تو ان كی گردنیں اس آیت كی خاطر جھك جائیں گی 17
ایك اور حدیث میں آپ كے بعض شاگرد آپ سے امام مہدی علیہ السلام كے بارے میں سوال و جواب كرتے ہیں تو امام فرماتے ہیں: قائم كا مسئلہ پروردگار كی طرف سے یقینی ہے جس طرح كہ سفیانی بھی خروج كرے گا، تو ایك شخص نے پوچھا كیا اس سال ہوگا آپ نے فرمایا ماشاء اللہ جیسا اللہ چاہے پھر اس نے پوچھا آیندہ سال؟ آپ نے فرمایا یفعل اللہ ما شاء اللہ جو چاہے وہی كرتا ہے۔ جیسا كہ آپ نے ملاحظہ كیا ہے كہ امام علیہ السلام كے ظہور كو سفیانی كے خروج سمیت ایك یقینی بات فرماتے ہیں لیكن ظہور كے زمانہ كے بارے میں وضاحت نہیں فرماتے، اس چیز كو اللہ تعالی كی مشیت و مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں، حدیث دعبل میں كہ جب قائم آل محمد علیھم السلام كا ذكر آتا ہے تو ان كا نام، ان كی علامات اور ان كی بعض خصوصیات كے بارے میں دعبل كو بتاتے ہیں اور آخرمیں فرماتے ہیں كہ جہاں تك اس بات كا تعلق ہے كہ وہ كب اور كس زمانے میں ظہور كریں گے یہ گویا ان كے وقت ظہور كی خبر ہے، میرے والد محترم اپنے والد محترم سے وہ اپنے آباؤ واجداد سے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل كرتے ہیں كہ آپ اس سوال كے جواب میں كہ آیا قائم آپ كی ذریت اور نسل مبارك سے ہے اور كب ظہور كریں گے؟ فرماتے ہیں اس كی مثال قیامت كی مانند ہے كہ پروردگار فرماتاہے لایجلھا لوقتھا الا ھو ثقلت فی السموات والارض لایاتیكم الا بغتۃ وہ (اللہ) اسے اپنے وقت پر ظاھر كرے گا مگر یہ كہ وہ (گھڑی) آسمانوں اور زمین پر بھاری ہوئی اور تم پر اچانك آجائے گی (اعراف، آیت ۱۸۷) 18
6. طولانی غیبت
عبد السلام بن صالح ھروی ایك حدیث میں امام رضا علیہ السلام سے روایت كرتے ہیں كہ آپ اپنے اباؤ و اجداد كے پاكیزہ سلسلہ سے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا: قسم ہے اس پروردگار كی كہ جس نے مجھے حق كے ساتھ بشیر بنا كر بھیجا، قائم میری اولاد میں سے ہے میری طرف سے اس پر عھد ہونے والی غیبت كی وجہ سے وہ پس پردہ رہیں گے اور یہ غیبت اس قدر طولانی ہوجائے گی كہ اكثر لوگ كہیں گے كہ اللہ تعالی كو آل محمد كی ضرورت نہیں ہے اور ایك گروہ ان كی ولادت كے بارے میں شك كرے گا، پس جو بھی ان كے زمانہ كو درك كرے تو اپنے دین كو مضبوطی كے ساتھ پكڑ لے شك اور تردید كی وجہ سے شیطان كو اپنے اندر راستہ نہ دے كہ وہ اسے دین سے خارج كردے گا جس طرح كہ تمہارے ماں باپ (آدم وحوا) كو جنت سے نكالا تھا و ان اللہ عزوجل جعل الشیاطین اولیاء للذین لایومنون 19 یقینا اللہ تعالی عزوجل شیاطین كو ان لوگوں كا دوست اور سرپرست قرار دیتا ہے كہ جو ایمان نہیں ركھتے 20
اسی طرح یہی راوی عبد السلام بن صالح ھروی جو كہ محدث و مصنف ہونے كے ساتھ ساتھ امام رضا علیہ السلام كے خادم بھی تھے ایك اور مفصل حدیث امام سے نقل كرتے ہیں كہ آپ اپنے اباؤ و اجداد كے پاكیزہ سلسلہ كے وسیلہ سے نقل كرتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: فرایت اثنا عشر نورا فی كل نور سطر اخضر علیہ اسم وصی من اوصیای اولھم علی بن ابی طالب و آخرھم مہدی امتی فقلت یا رب ھولاء اوصیائی من بعدی؟ .....
میں نے بارہ نور دیكھے كہ ہر نور میں گہرے سبز رنگ كی سطر تھی كہ جن پر میرے اوصیا میں سے كسی وصی كا نام لكھا تھا كہ ان میں پہلا نور علی ابن ابی طالب ہیں اور سب سے آخر والے میری امت كے مہدی ہیں تو میں نے پوچھا اے میرے پروردگار یہ میرے بعد میرے اوصیاء ہیں؟ آواز آئی اے محمد یہ میرے اولیاء اور لوگوں پر تمہارے بعد میری حجت ہیں یہ تمہارے جانشین اور اوصیا ہیں اور تمہارے بعد میری افضل ترین مخلوق ہیں، مجھے میری عزت و جلال كی قسم دین كو ان كے وسیلے سے فتح دوں گا اور اپنے كلمہ كو ان كے وسیلے سے بلند كروں گا اور ان میں سے آخری (مہدی علیہ السلام) كے ذریعہ زمین كو اپنے دشمنوں كی آلودگی سے پاك كردوں اور اور انہیں زمین كے مشارق و مغارب میں طاقت بخش دوں گا، ہوائیں اس كے لئے مسخر كردوں گا اور سخت ترین بادلوں كو اس كے لئے رام كردوں گا اور اپنے فرشتوں كے ذریعہ اس كی نصرت كروں گا تاكہ میری دعوت ظاھر كرے اور لوگوں كو میری وحدانیت پر اكھٹا كرے، میں اس كی سلطنت و ملك كو دوام عطا كردوں گا۔ ۔ ۔ 21
7. ظالموں كی حكومت ابھی تك باقی ہے
امام رضا علیہ السلام كی امام مہدی عج كے بارے میں احادیث كے درمیان قابل توجہ نكات میں سے ایك نكتہ دنیا پر ظلم و ستم كے نظام كا غلبہ ہے اور یہی وجہ امام مہدی عج كی غیبت كی باعث ہے جب تك حالات مناسب نہیں ہوں گےاللہ تعالی اپنی حجت كو ظاھر نہیں فرمائے گا بعض یہ سمجھتے تھے كہ عباسیوں كی ظالمانہ حكومت ختم ہونے والی ہے ان كی شان و شوكت ختم ہوچكی ہے تو اب سفیانی كیوں نہیں خروج كررہا اور قائم آل محمد كے ظہور كا وقت كونسا ہے؟
حالانكہ یہ ظاھر میں دیكھ رہے ہیں كہ اگر ہم ان حكومتوں كی گہرائی میں دیكھیں تو معلوم ہوگا كہ اگرچہ خاندان تبدیل ہوجاتے ہیں لیكن حاكموں كو سوچ اور روش كبھی بھی وہ نہیں ہے كہ جس كا وحی اور كتاب الھی نے تقاضا كیا ہے۔
حسن بن جھم كہتے ہیں كہ امام رضا علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا اللہ تعالی ہمارے كاموں كو پورا كرے، لوگ كہتے ہیں بنی عباس كی حكومت ختم ہوتے ہی سفیانی خروج كرے گا؟ امام نے فرمایا: كذبوا انہ لیقوم و ان سلطانھم لقائم 22
وہ جھوٹ بولتے ہیں كہ سفیانی خروج كرے گا جبكہ بنی عباس كی حكومت برپا ہوگی اس حدیث میں بہت اھم نكتہ ہے كہ اگرچہ صدیاں گزر گئیں بنی عباس كی حكومت ختم ہوگئی ہے لیكن ان كی جگہ جو حكومتیں آئیں وہ بھی انہی كی مانند ظلم و ستم كی بنیاد پر قائم ہیں اور خدا اور رسول كے فرامین كے خلاف چل رہی ہیں گویا كہ بنی عباس ہی كی حكومت باقی ہے۔
8. میں امام قائم نہیں ہوں
ان احادیث رضوی میں ایك خوبصورت نكتہ یہ ہے كہ ایك حدیث كے مطابق آپ كے بعض اصحاب نے چاہا كہ آپ كو قائم كے عنوان سے یاد كیا كریں لیكن امام معصوم نے ان كے اس خیال كی صراحت سے نفی كی ۔
ایوب بن نوح كہتے ہیں كہ میں نے امام رضا علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا مجھے امید ہے كہ آپ صاحب امر ہوں اللہ تعالی امامت و حكومت بغیر تلوار چلائے آپ كی طرف پلٹا دے كیونكہ (مامون كی طرف سے) آپ كی بیعت لی جاچكی ہے اور سكہ آپ كے نام سے چل رہا ہے تو امام نے جواب میں اس كی بات كی نفی فرمائی اور فرمایا: حتی یبعث اللہ عزوجل لندا الامر رجلا خفی المولد والمشاء غیر خفی فی نسبہ حتی كہ اللہ تعالی ایسے شخص كو اس كام كے لئے اٹھائے گا كہ جس كی ولادت اور پرورش مخفی ہوگی لیكن اس كا نسب جانا پہچانا ہوگا 23
9. امام حسین(ع) كے قاتلوں سے انتقام
عبد السلام بن صالح ھروی روایت كرتے ہیں كہ میں نے امام رضا علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا كہ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے كہ جب قائم عج قیام كریں گے اور ظہور فرمائیں گے تو امام حسین علیہ السلام كے قاتلوں كی اولاد كو ان كے آباؤ و اجداد كے ظالمانہ كاموں كے بدلے میں قتل كریں گے؟
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالی كی تمام باتیں صحیح اور سچی ہیں لیكن نكتہ یہ ہے كہ امام حسین علیہ السلام كے قاتلوں كی اولاد اپنے اباؤ و اجداد كے اس فعل پر راضی ہے اور اس پر فخر كرتی ہے اور جو بھی كسی عمل پر راضی ہو گویا اس طرح ہے كہ اسے انجام دیا ہے اگرچہ كوئی شخص مشرق میں قتل ہو اور مغرب میں كوئی شخص اس كے اس فعل پر راضی اور خوش ہو تو اللہ كے نزدیك ایسا شخص قاتل كا شریك شمار ہوگا اور امام مہدی(عج) اسے لئے امام حسین علیہ السلام كے قاتلوں كی نسل كو قتل كریں گے كیونكہ وہ اپنے آباؤ واجداد كے كاموں پر راضی اور خوش ہوں گے۔ 24
1. عیون اخبار الرضا، ج۱، ص ۲۷۲
2. كمال الدین، ج۱، ص ۲۶۱
3. كمال الدین، ج۱، ص ۳۰۴ - مسند امام الرضا، ج۱، ص ۲۲۱
4. عیون اخبار الرضا، ج۲، ص ۵۹
5. عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۵۸
6. الجامع الرواۃ و اصحاب الامام الرضا، ج۱، ص ۲۴۴
7. كمال الدین، ج۱، ص ۳۰۴
8. عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۷۹
9. مسند الرضا، ج۱، ص ۲۱۷
10. سورہ ھود، آیہ ۹۳
11. سورہ اعراف، آیہ ۱۷
12. كتاب الغیبۃ، س ۲۰۴
13. مسند الامام الرضا، ج۲، ص ۲۲۷
14. عیون اخبار الرضا، ج۲، ص ۳۶
15. كمال الدین، ص ۳۷۶
16. كتاب غیبت، ص ۲۶۸
17. كمال الدین، ص ۳۷۱
18. كمال الدین، ص ۳۷۳
19. اعراف، آیہ ۲۷
20. كمال الدین، ص ۵۱
21. علل الشرائع، ص۶
22. غیبت نعمانی، محمد بن ابراھیم نعمانی، ص ۳۰۳
23. كمال الدین، ص ۳۷۰
24. عیون اخبار الرضا، ج۱، ص ۲۷۳
source : http://www.sadeqin.com/View/Articles/ArticleView.aspx?ArticleID=293&LanguageID=6