و یقول الّذین کفرو الست مرسلاً قل کفی بالله شھیداً بینی و بینکم ومن عندہ علم الکتاب>
سورہ رعد/۴۳
” اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں تو کہدےجئے کہ ہمارے اور تمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔“
یہ آیہ شرےفہ ان آیتوں میں سے ہے جن میں امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اےک بڑی فضیلت بلکہ احتجاج۱ کی روآیت کے مطابق سب سے بڑی فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے اس کے معنی میں مزید غور وخوض کیا جائے۔
اس آیت میں پہلے کفار کی طرف سے پےغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے دو گواہ ذکر کئے گئے ہیں ایک خدا وند عالم کی ذات اور دوسرے وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔
آیت کی دلالت کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بحث کو درج ذیل دو محوروں پر جاری رکھا جا ئے
۱۔ خداوندمتعال کی گواہی کس طرح سے ہے؟
۲۔من عندہ علم الکتابسے مراد کون ہے؟
خدا وند عالم کی گواھی:
اس آیہء شرےفہ میں پےغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:
۱۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :< والقران الحکیم انّک لمن المرسلین> 2 ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“
۲۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پےغمبر اکرم (ص) کے ذرےعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرت (ص) کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے اےک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرت (ص) کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پےغمبر خدا (ص) کی رسالت پر گواہ ہیں۔
من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟
دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:
پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:
اس صورت میں اس آیہ شرےفہ کے معنی ےوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پےغمبر! ہمارے
اورتمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پےغمبر)صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔
یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کےونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لےکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔
دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالےکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ اےک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور اےک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پےغمبر اسلام (ص) کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔
یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کےونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہء شرےفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔
شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال ےعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پےش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔3
تیسرا احتمال: ” من عندہ علم الکتاب“ سے مقصود خداوندمتعال اور
”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ہ علم الکتاب“ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی ےوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ )جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔
اول یہ کہ : جملہء میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔
دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہء شرےفہ : < تنزیل الکتاب من اللهالعزےز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب…> 4 میں ”غافرالذّ نب“)گناہ کو بخشنے والا) اور ”قابل التوب“ )توبہ کو قبول کرنے والا) دوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے اےک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لےکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔
چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔
اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔
لوح محفوظ اور حقائق ھستی
قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق اےک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“ 5 یا ” امام مبین“ 6 یا ” لوح محفوظ“ 7 کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے: < وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین> 8 ےعنی: اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چےزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین ) لوح محفوظ ) میں نہ ہو۔
اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟
مطھّرون اور لوح محفوظ سے آگاہی
اس سلسلہ میں ہم سورہ واقعہ کی چند آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں:
) سورہ واقعہ/ ۷۵۔--۷۹)
ان آیات میں، پہلے ستاروں کے محل و مدارکی قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس قسم کی عظمت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی نشاندھی کی گئی ہے۔ اس نکتہ پرتو جہ کرنا ضروری ہے کہ قسم کا معیار اور اس کی حیثیت اس حقیقت کے مطابق ہونا چا ہئیے کہ جس کے متعلق یا جس کےاثبات کے لئے قسم کھائی جارہی ہے ۔ اگر قسم با عظمت اور بااہمیت ہے تو یہ اس حقیقت کی اہمیت کی دلیل ہے کہ جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے۔
جس حقیقت کے لئے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے: -< إنّہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون لایمسّہ الّا المطھرون> ےعنی بیشک یہ بہت ہی با عظمت قرآن ہے جسے اےک پو شیدہ کتاب میں رکھاگیا ہے اسے پاک و پاکےزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔ ) اس کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا ہے۔)آیہ شرےفہ کا یہ جملہ < لا یمسّہ الّاالمطھرون> بہت زیادہ قابل غور ہے۔
ابتدائی نظر میں کہاجاتا ہے کہ بے طہارت لوگوں کا قرآن مجید سے مس کرنا اور اس کے خط پر ہاتھ لگانا حرام ہے، لےکن اس آیہ شرےفہ پر عمیق غور وفکر کرنے سے یہ اہم نکتہ و اضح ہو جاتا ہے کہ مس سے مراد مس ظا ہری نہیں ہے اور ” مطھرون“ سے مراد باطہارت )مثلاً باوضو) افراد نہیں ہیں ۔ بلکہ مس سے مراد مس معنوی )رابطہ) اور”مطھرون “ سے مرادوہ افراد ہیں جنہیں خدا وندمتعال نے خاص پاکےزہ گی عنآیت کی ہے، اور ”لایمسہ“ کی ضمیر کتاب مکنون )لوح محفوظ) کی طرف پلٹتی ہے ۔
آیہ کریمہ سے یہ معنی )مس معنوی) استفادہ کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ جملہء ”لا یمسہ “ کا ظہور اخبار ہے نہ انشاء ، کےونکہ بظا ہر یہ جملہ دوسرے اوصاف کے مانند کہ جو اس سے قبل ذکر ہوئے ہیں، صفت ہے اور انشاء صفت نہیں بن سکتا ہے، جبکہ آیت میں غیر مطہرون کے مس سے حکم تحریم )حرمت) کا استفادہ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ جملہ ”لا یمسہ “ انشاء ہو ، نہ اخبار۔
۲۔ ” لایمسہ“ کی ضمیر بلا فاصلہ ” کتاب مکنوں“ کی طرف پلٹتی ہے ، کہ جو اس جملہ سے پہلے واقع ہے نہ قرآن کی طرف کہ جواس سے پہلے مذکور ہے اور چند کلمات نے ان کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔
۳۔ قرآن مجید کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اےک پوشیدہ اور محفوظ کتاب میں واقع ہے کہ جس تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہے اور یہ مطلب اس کے ساتھ مس کرنے سے کوئی تناسب نہیں رکھتا ہے۔
۴۔ طہارت شرعی ، ےعنی وضو )جہاں پر وضو واجب ہو) یا غسل یا تیمم )جہاں پر ان کا انجام دینا ضروری وفرض)رکھنے والے کو ” متطھرّ“ کہتے ہیں نہ ”مطھّر“۔
اس تشرےح سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو کچھ جملہ ء ” لا یمسہ الّا المطھرون “ سے استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ ” مطھر“ ) پاک قرار دئے گئے)افراد کے علاوہ کوئی بھی ”کتاب مکنون“ )لوح محفوظ) کو مس نہیں کرسکتا ہے، یعنی اس کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا ہے۔
اب ہم دےکھتے ہیں کہ اس خصوصی طہارت کے حامل افراد کون لوگ ہیں اور ”مطھرون“ سے مرادکون لوگ ہیں کہ جو ” لوح محفوظ“ سے اطلاع حاصل کرتے ہیں؟
” مطھرون “سے مرادکون ہیں؟
کیا ” مطھرون“کی اصطلاح فر شتوں سے مخصوص ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے اشارہ کیا ہے ۔ 9 یایہ کہ اس میں عمومیت ہے یعنی وہ افراد جو خدا کی جانب سے خصوصی طہارت کے حامل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ اےک ایسا سوال ہے جس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے:
حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ، اور خدا کی جانب سے انھیں جانشین مقرر کیا جا نا نیز
”اسماء“الہی کا علم رکھنا یعنی اےک ایسی حقیقت سے آگاہی کہ جس کے بارے میں ملا ئکہ نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ملائکہ کو سجدے کا حکم دیناو غیرہ ان واقعات اور قرآنی آیات ۱ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ خاص علوم سے آگاہی اور تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت انسان کامل میں ملائکہ سے کہیں زیادہ ہے۔
مذکورہ ان صفات کے پےش نظر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جملہ کو فرشتوں سے مخصوص کیا جائے جبکہ قرآن مجید کے مطابق خدا کے ایسے منتخب بندے موجود ہیں جو خاص طہارت و پاکےزگی کے مالک ہیں۔
آیہ تطہیر اور پیغمبر کا محترم خاندان ) سورہ احزاب/۳۳)
” بس الله کا ارادہ ہے اے اہل بیت : کہ تم سے ہرطرح کی برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکےزہ رکھے جو پاک و پاکےزہ رکھنے کا حق ہے“
یہ آیہ شرےفہ دلالت کرتی ہے کہ پےغمبر اکرم (ص) کا خاندان خدا وندمتعال کی طرف سے اےک خاص اور اعلی قسم کی پاکےزگی کا مالک ہے۔ آیہ کریمہ میں ” تطھیرا“10 کا لفظ مفعول مطلق نوعی ہے جو اےک خاص قسم کی طہارت و پاکےزگی کو بیان کرتا ہے۔
ہم یہاں پر اس آیہ شرےفہ سے متعلق مفصل بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لئے کہ آیت تطہیر سے مربوط باب میں اس پر مکمل بحث گزر چکی ہے، اور اس کا نتےجہ یہ ہے کہ پےغمبر اکرم (ص)کے اہل بیت کہ جن میں سب سے نمایاں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، اس آیہ شریفہ کے مطابق خداکی طرف سے خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں اور ”مطھرون“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ لوح محفوظ کے حقائق سے آگاہی رکھ سکتے ہیں۔
”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم
ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اےک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ اےک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے اےک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے 11 ” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے اےک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا ۔
جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور شےعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگےز طاقت وصلاحیت کتاب )لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔
واضح رہے کہ طہارت و پاکےزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔
جب ہمیں آیہ کریمہ سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حقایق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جو
۲۔کچھ اردو قوال بھی ہیں کہ تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے
پیغمبر اکرم (ص) کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) علیہم السلام) لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنت ۱کے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجال۲ کے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“۳ میں اور حاکم حسکانی۴ تفسیر شواہد التنزیل۵میں، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔
بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر (ص)نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو )من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیں)سعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔
اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہ )عبداللهبن سلام کا بیٹا) اس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد )عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ) امیر
۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظ․․․ و ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ۵۔” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰
المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔
اس کے علاوہ ابن شہر آشوب12نے اپنی ”کتاب مناقب13“ میں کہا ہے:
” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقر(علیہ السلام) سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادق(علیہ السلام) سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضا(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفر(علیہ السلام)، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول: کے بارے میں کہا ہے کہ:”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالب (علیہ السلام) ہیں۔“
شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرماہئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافی 14 میں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انھوں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ میں”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومین(ع) کا قصد کیا گیا ہے اور علی ) علیہ السلام) پیغمبراکرم (ص) کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔
احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہے)علی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہے)آصف برخیا) کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:
عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عندہ علم الکتاب“ ہو امیرالمؤمنین - علیہ السلام - و سئل عن الذي عندہ علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عندہ علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عندہ علم من الکتاب عند الذي عندہ علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحہا من مائ البحر․15
یعنی: امام صادق) علیہ السلام) نے فرمایا:
”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب(علیہ السلام) تھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا)یعنی حضرت علی علیہ السلام)امام نے فرمایا:جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے۔“
یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔
اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”لایمسہ الّا المطہرون“کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین16کے ذریعہ ثابت ہے۔
اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم )صلی الله علیہ و آلہ وسلم )کے اہل بیت )علیہم السلام)ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔
آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:
” لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴہل التوراة بتوراتہم، و بین اٴہل الإنجیل بإنجیلہم، و بین اٴہل الزبور بزبورہم“17
”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔“
_________________________
۱-مصباح الھدایة،ص ۴۳
2-۔ سورہ لمین/۱۔۲
3۔ معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵-۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶، دار ابن کثیر بیروت
4۔ سورہ غافر/۲
5-۔ سورہ یونس/۶۱، سورہ سبا/۱۳، سورہ نمل/۷۵
6۔ سورہ یسین/۱۲
7۔ سورہ بروج/ ۲۲
8۔ سورہ نمل/۷۵
9۔جیسے ” روح المعانی“ ج ۲۷،۱۵۴،دار احیاء التراث العربی، بیروت
10۔ سورہ بقرہ/۳۴۔۳۰
11۔سورہ نمل/۴۰
12۔ ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس )شہر آشوب) کی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے۔
13۔ مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹، موسسہ انتشارات علامہ قم،
14۔ اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹
15۔ نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷
16۔ سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴
17۔فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴
منابع کی فہرست
(الف)
۱۔القرآن الکریم
۲۔ الاتقان،سیوطی،۹۱۱ئھ-،دار ابن کثیر، بیروت، لبنان․
۳۔ احقاق الحق، قاضی سید نورالله تستری، شہادت۱۰۱۹ئہ-
۴۔ احکام القرآن، جصاص،ت۷۳۰ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت․
۵۔ احکام القرآن، ابوبکر ابن العربی المعافري، ت۵۴۶ئہ-
۶۔ اربعین، محمد بن ابی الفوارس، مخطوط کتابخانہ آستان قدس، رقم۸۴۴۳
۷۔ ارجح المطالب، عبدالله الحنفي، ت۱۳۸۱ئہ-، طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق)
۸۔ ارشاد العقل السلیم، ابو السعود، ت۹۵۱ء، داراحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان․
۹۔ اسباب النزول،و احدی النیسابوری، ت۴۶۸ئہ-، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان․
۱۰۔ اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ابن اثیر،ت۶۳۰ئہ- داراحیائ التراث العر بی،بیروت،لبنان
۱۱۔ الإصابة فی تمییز الصحابة، احمد بن علی، ابن حجر عسقلانی،ت۸۵۲ئہ-، دارالفکر․
۱۲۔ اضوائ البیان،شنقیطی،ت۳۹۳ئہ-، عالم الکتب، بیروت․
۱۳۔اعیان الشیعة، سیدمحسن الامین، ت حدود۱۳۷۲ئہ-،دارالتعارف للمطبوعات، بیروت․
۱۴۔ الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ت۲۷۶ء ہ-، منشورات الشریف الرضی،قم․
۱۵۔انساب الاشراف،احمد بن یحیی بلاذری،ت۲۷۹ئہ-،دارالفکر․
۱۶۔ایضاح المکنون، اسماعیل باشا،ت۴۶۳ئہ-، دارالفکر․
(ب)
۱۷۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ت۱۱۱۱ئہ- مؤسسة الوفاء، بیروت․
۱۸۔ بحر العلوم، نصر بن محمد سمرقندی، ت۳۷۵ئہ-، دارالکتب العلمیة،بیروت․
۱۹۔ البحر المحیط، ابوحیان اندلسی، ت۷۵۴ء،المکتبة التجاریة
احمد الباز، مکة المکرمة․
۲۰۔ البدایة و النہایة، ابن کثیر الدمشقی،ت۷۷۴ئہ-،دارالکتب العلمیة، بیروت․
۲۱۔ البرہان، سید ہاشم بحرانی، ت۱۱۰۷ئہ-، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان․
۲۲۔ البہجة المرضیة، سیوطی، ت۹۱۱ئہ-، مکتب المفید)ت)
۲۳۔ التاج الجامع للاصول، منصور علی ناصف، ت۱۳۷۱ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت․
۲۴۔ تاج الفردوس، محمد مرتضی حسینی زبیدی، ت۱۲۵۰ء ہ-، دار الہدایة للطباعة والنشر و التوزیع، دارمکتبة الحیاة، بیروت
۲۵۔ تاریخ الاسلام، شمس الدین ذہبی، ت۷۴۸ئہ-، دارالکتاب العربی․
۲۶۔ تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی، ت۴۶۳ء ہ-، دارالفکر․
۲۷۔ تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،ت۳۱۰ئہ-، مؤسسة عزالدین للطباعة والنشر، بیروت، لبنان․
۲۸۔ تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ت۵۷۱ئہ-، دارالفکر، بیروت․
۲۹۔ تاریخ نیسابور، عبدالغافر نیشابوری،ت۵۲۹ہ-․
۳۰۔ تذکرة الحفّاظ، ذہبی، ت۷۴۸ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان․
۳۱۔ تذکرة الخواص، سبط بن جوزی ت۶۵۴ئہ-، چاپ نجف․
۳۲۔التسہیل لعلوم التنزیل، ابن حزی الکلبی، ت۲۹۲ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت․
۳۳۔ تفسیر ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد بن ادریسی الرازی، ت۳۲۷ہ-، المکتبة المصریة، بیروت․
۳۴۔ تفسیر البیضاوی، قاضی بیضاوی،ت۷۹۱ئہ-․
۳۵۔ تفسیر الخازن )لباب التاٴویل)، علاء الدین بغدادی، ت۷۲۵ئہ-، دارالفکر․
۳۶۔ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، متوفی اواخر قرن سوم ہ-، مطبعہ نجف․
۳۷۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ت۷۷۴ئہ-، دارالمعرفة، بیروت․
۳۸۔ التفسیر الکبیر، فخر رازی، ت۶۰۶ئہ-، دار احیائ التراث العربی بیروت، لبنان․
۳۹۔ تفسیر الماوردی، محمد بن حبیب ماوردی بصری، متوفی۴۵۰ہ-، دارالمعرفة، بیروت․
۴۰۔ تفسیر النسفی )مدارک التنزیل وحقائق التاٴویل) حاشیہ تفسیر خازن، عبدالله النسفی،ت۷۱۰ئہ-، دارالفکر․
۴۱۔ تفسیر المنار، رشید رضا،ت۱۳۵۴ئہ-، دارالمعرفة، بیروت․
۴۲۔ تلخیص المستدرک، ذہبی، ت۷۴۸ئہ-،دارالمعرفة، بیروت․
۴۳۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ت۸۵۲ئہ-، دارالفکر․
۴۴۔تہذیب الکمال، مزّی، ت۷۴۲ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت․
)ج)
۴۵۔جامع الاحادیث، سیوطی،ت۹۱۱ئہ-، دارالفکر․
۴۶۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری، ت۳۱۰ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان․
۴۷۔جامع احکام القرآن، قرطبی، ت۶۷۱ئہ-،دارالفکر․
۴۸۔ الجامع الصحیح الترمذی، محمد بن عیسی ت۲۷۹ئہ-، دارالفکر․
۴۹۔جمع الجوامع، سیوطی، ت۹۱۱ئہ-․
۵۰۔جمہرةاللغة،ابن درید،ت۳۲۱ئہ-
۵۱۔الجواہر الحسان ابوزید الثعالبی ت۸۷۶ء ہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت․
۵۲۔ جواہر العقدین، سمہودی، ت۹۱۱ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت․
)ح)
۵۳۔الحاوی للفتاوی سیوطی، ت۹۱۱ئہ-، مکتبة القدس قاہرة)بہ نقل احقاق الحق)
۵۴۔حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی احمد خفاجی مصری حنفی، ت۱۰۶۹ئہ-،دار احیائ التراث العربی، بیروت․
۵۵۔حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، شیخ احمد الصاوی المالکی، ت۱۲۴۱ئہ-، دارالفکر․
۵۶۔حلیة الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ت۴۳۰ئہ-، دارالفکر․
)خ)
۵۷۔ خصائص اٴمیرالمؤمنین علیہ السلام، احمد بن شعیب نسائی ت۳۰۳ئہ-، دارالکتاب العربی․
۵۸۔خصال، محمد بن علی بن بابویہ قمی)صدوق)، ت۳۸۱ئہ-، دفتر انتشارات اسلامی․
(س)
۵۹۔سفینة البحار، شیخ عباس قمی ت۱۳۵۹ئہ-، انتشارات کتابخانہ محمودی․
۶۰۔السنن الکبری، ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، ت۴۵۸ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان․
۶۱۔السنن الکبری، نسائی، ت۳۰۳ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت․
۶۲۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی، ت۷۴۸ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان․
۶۳۔ السیرة النبویة و الآثار المحمدیة )حاشیة السیرة الحلویة)، سیدزینی دحلان، ت۱۳۰۴ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت، لبنان․
۶۴۔ السیرة النبویة، ابن ہشام،ت۲۱۸ئہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان․
)ش)
۶۵۔شرح التجرید، قوشجی، ت۸۷۹ئہ-․
۶۶۔شرح السنة، بغوی، ت۵۱۰ئہ-، المکتب الاسلامی، بیروت․
۶۷۔ شرح المقاصد، تفتازانی، ت۷۹۳ئہ-،منشورات الشریت الرضی․
۶۸۔شرح المواقف،جرجانی،ت۸۱۲ئئئہ-، منشورات الشریف الرضی․
۶۹۔ شرح التنزیل، حاکم حسکانی، ت اواخر القرن الخامس، مؤسسة الطبع و النشر․
)ص)
۷۱۔صحاح اللغة، جوہری، ت۳۹۳ئہ-․
۷۲۔صحیح ابن حبان، محمد بن حبان بستی، ت۳۵۴ئہ-، مؤسسة الرسالة․
۷۳۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ت۲۵۶ئہ-، دارالقلم، بیروت، لبنان-دارالمعرفة، بیروت،لبنان․
۷۴۔ صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابوری، ت۲۶۱ئہ-، مؤسسة عز الدین للطباعة و النشر، بیروت، لبنان․
۷۵۔ الصلاة و البشر،فیروز آبادی ،ت۸۱۷ئھجری دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔
۷۶۔الصواعق المحرقة، ابن حجر ہیتمی،ت۹۵۴ئہ-،مکتبة القاہرة․
)ط)
۷۷۔ الطبقات الکبری، ابن سعد، ت۲۳۰ئہ-،داربیروت للطباعة والنشر․
۷۸۔ الطرائف، علی بن موسی بن طاووس،ت۶۶۲ئہ-، مطبعة الخیام،قم․
(ع)
۷۹۔العمدة، ابن بطریق، ت۵۳۳ئہ-، مؤسسة النشرالاسلامی․
۸۰۔عوالم العلوم، سید ہاشم بحرانی، ت۱۱۰۷ئہ-، مؤسسة الامام المہدی علیہ السلام․
۸۱۔عیون خبارالرضا، صدوق، ت۳۸۱ئہ-․
)غ)
۸۲۔غایة المرام، سید ہاشم بحرانی،ت۱۱۰۷ئہ-․
۸۳۔غرائب القرآن،نیشابوری ت۸۵۰ئہ-، دارالکتب العلمیة بیروت․
۸۴۔فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، ت۸۵۲ئہ-․
۸۵۔ فتح القدیر، شوکانی، ت۱۲۵۰ئہ-، داراکتاب العلمیة بیروت لبنان․
۸۶۔فرائد السمطین، ابراہیم بن محمد بن جوینی،ت۷۲۲ئہ-، مؤسسة المحمودی للطباعة والنشر، بیروت․
۸۷۔الفصول المہمة، ابن صباغ مالکی،ت۸۵۵ئہ-․
۸۸۔فضائل الصحابة، سمعانی، ت۵۶۲ئہ-․
)ق)
۸۹۔القاموس المحیط، فیروزآبادی،ت۸۱۷ئہ-، دارالمعرفة، بیروت․
۹۰۔قواعد فی علوم الحدیث، ظفر احمد تہانوی شافعی، تحقیق ابوالفتاح ابوغدة․
)ک)
۹۱۔ الکافی، کلینی، ت۳۲۹ئہ-، دارالکتب الاسلامیة․
۹۲۔کتاب الثقات، ابن حبان، ت۳۵۴ء ہ-، مؤسسة الکتب الثقافیة، بیروت․
۹۳۔کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی، ت۱۷۵ئہ-، مؤسسة دارالہجرة․
۹۴۔الکشاف، زمخشری، ت۵۸۳ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت․
۹۵۔الکشف و البیان، ثعلبی نیسابوری، ت۴۲۷ئیا۴۳۷ئہ-، داراحیائ التراث العربی،بیروت، لبنان․
۹۶۔ کفایة الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ت۶۵۸ئہ-، داراحیائ تراث اٴہل البیت․
۹۷۔کمال الدین، محمد بن علی بن بابویہ، ت۳۸۱ئہ-․
۹۸۔کنز العمال، متقی ہندی، ت ۹۷۵ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت․
)ل)
۹۹۔اللباب فی علوم الکتاب، عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی، متوفی بعد ۸۸۰ئہ-، دار الکتب العلمیة، بیروت․
۱۰۰۔لسان العرب، ابن منظور، ت۷۱۱ئہ-، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان․
)م)
۱۰۱۔ما نزل من القرآن فی علی،ابوبکر الشیرازی، ت۴۰۷ئہ-․
۱۰۲۔ ما نزل من القرآن فی علی، ابو نعیم اصفہانی، ت۴۳۰ئہ- )بہ نقل احقاق)
۱۰۳۔المتفق و المتفرق خطیب بغدادی، ت۴۶۳ئہ-)بہ واسطہ کنزالعمال)
۱۰۴۔ مجمع البحرین، طریحی، ت۱۰۸۵ئہ-، دفتر نشر فرہنگ اسلامی․
۱۰۵۔مجمع البیان،طبرسی، ت۵۶۰ئہ-، دارالمعرفة،بیروت․
۱۰۶۔ مجمع الزوائد،ہیثمی، ت۸۰۷ئہ-،دارالکتاب العربی-دارالفکر، بیروت․
۱۰۷۔المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشابوری، ت۴۰۵ئہ-، دارالمعرفة، بیروت․
۱۰۸۔مسند ابی داوود طیالسی،ت۲۰۴ئہ-،دارالکتاب اللبنانی․
۱۰۹۔مسند ابی یعلی موصلی،ت۳۰۷ئہ-․
۱۱۰۔مسند احمد،احمد بن حنبل،ت۲۴۱ئہ-، دارصادر،بیروت-دارالفکر․
۱۱۱۔مسند اسحاق بن راہویہ، ت۲۳۸ئہ-،مکتبة الایمان، مدینة المنورة․
۱۱۲۔مسند عبد بن حمید،ت۲۴۹ئہ-، عالم الکتب․
۱۱۳۔مشکل الآثار، طحاوی، ت۳۲۱ئہ-،ط مجلس دائرة المعارف النظامیة بالہند․
۱۱۴۔ المصباح المنیر احمد فیومی، ت ۷۰ء۷ ہ- طبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ بمصر․
۱۱۵۔مصباح الہدایة، بہبہانی، ط سلمان فارسی،قم․
۱۱۶۔المصنف،ابن ابی شیبة،ت۲۳۵ئہ-․
۱۱۷۔مطالب السؤول ابن طلحة نصیبی شافعی، ت۶۵۲ئہ-․
۱۱۸۔معالم التنزیل، بغوی،ت ۲۱۰ئہ-․
۱۱۹۔المعجم الاوسط، طبرانی،ت۳۶۰ئہ-،مکتبة المعارف الریاض․
۱۲۰۔المعجم الصفیر، طبرنی، ت۳۶۰ئہ-․
۱۲۱۔المعجم الکبیر، طبرانی،ت۳۶۰ئہ-․
۱۲۲۔ المعجم المختص بالمحدثین، ذہبی، ت۷۴۸ئہ-، مکتبة الصدیق سعودی․
۱۲۳۔معجم مقاییس اللغة، ابن فارسی بن زکریا القزوینی الرازی،ت ۳۹۰ہ-․
۱۲۴۔معرفة علوم الحدیث، حاکم نیشابوری، ت۴۰۵ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت․
۱۲۵۔المعرفة والتاریخ، یعقوب بن سفیان بن بسوی،ت۲۷۷ئہ-․
۱۲۶۔مغنی اللبیب، ابن ہشام،ت۷۶۱ئ ہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت․
۱۲۷۔المفردات،راغب اصفہانی،ت۵۰۲ئہ-․
۱۲۸۔مقتل الحسین، خوارزمی، ت۵۶۸ئہ-، مکتبة المفید․
۱۲۹۔المناقب،موفق بن احمد خوارزمی،ت۵۶۸ئہ-․
۱۳۰۔مناقب ابن مغازلی شافعی،ت۴۸۳ئہ-،المکتبة الاسلمة․
۱۳۱۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب،ت۵۸۸ئہ-،ذوالقربی․
۱۳۲۔منتہی الارب عبدالرحیم بن عبدالکریم الہندی ت۱۲۵۷ئہ-․
۱۳۳۔المیزان، محمد حسین طباطبائی، ت۱۴۰۲ئہ-، دارالکتب الاسلامیة․
۱۳۴۔میزان الاعتدال، ذہبی، ت۷۴۸ئہ-، دارالفکر․
۱۳۵۔نہج البلاغہ․
۱۳۶۔نظم درر السمطین، محمد بن یوسف زرندی حنفی، ت ۷۵۰ئ ہ-، مطبعة القذاء)بہ نقل احقاق)
۱۳۷۔النہایة، ابن اثیر جزری، ت۶۰۶ئہ-، المکتبة العلمیة، بیروت، لبنان․
۱۳۸۔نور الابصار،شبلنجی،ت۱۳۰۸ئہ-،دارالفکر․
۱۳۹۔نورالثقلین، الہویزی،ت ۱۱۱۲ئہ-، المطبعة العلمیة، قم․
)ی)
۱۴۰۔یناییع المودة، شیخ سلیمان حنفی قندوزی․
source : http://www.makarem.ir/persian/library/book.php?bcc=30927&itg=56&bi=366&s=ct