اول وقت
مستحب ہے کہ ہرمسلمان اپنی نمازوں کواول وقت اداکرے ، دین اسلام میں نمازکواول وقت اداکرنے اوراوقات نمازکی محافظت کرنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے اورآیات وروایات میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے
اکثرعلمائے کرام نے محافظت نمازسے نمازکااول وقت مرادلیاہے اورمعصومین بھی یہی اشارہ دیاہے وہ آیات کریمہ اوراحاد یث کہ جنھیں ہم نے ابھی “نمازکواس کے وقت میں اداکرنا ”کے عنوان میں ذکرکی ہیں ان میں محافظت نمازسے نمازکااول وقت مرادہے کتب احادیث میں اول وقت کی اہمیت وفضلیت کے بارے میں معصومین سے کثیرتعدادمیں روایتیں نقل ہوئی ہیں:
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مولائے کائنات سے وصیت کرتے ہیں: ) لاتو خٔرہا فانّ فی تاخیرہامن غیرعلة غضب الله عزوجل .( ١ اے علی! نمازکوتاخیرمیں نہ ڈالنا،جوشخص نمازکوبغیرکسی مجبوری کے تاخیرمیں ڈالتاہے اس سے خداوندمتعال ناراض ہوجاتاہے ۔
) قال علی علیہ السلام :اوصیکم بالصلاة وحفظہافانہاخیرالعمل وہی عمود دینکم ۔( ٢ مولائے کائنات حضرت علیفرماتے ہیں:میں تمھیں وصیت کرتاہوں کہ اوقات نمازکی حفاظت کرتے رہنااورہرنمازکواول وقت اداکرتے رہنا،کیونکہ نمازسب سے بہترین عمل ہے اوروہی تمھارے دین کاستون ہے۔
--------.٧٩/ ٢)بحارالانوار/ج ٢٠٩ ) . ١ (خصال (شیخ صدوق) /ص ۵۴٣ (
عن محمدبن مسلم قال:سمعت اباعبدالله علیہ السلام یقول:اذادخل وقت صلاة فتحت ابواب السماء لصعودالاعمال،فمااحب ان یصعدعمل اول من عملی، ولایکتب فی الصحیفة احداوّل ) منی .( ١
امام صادق فرماتے ہیں:جیسے نمازکاوقت شروع ہوتاہے تواوپرتک اعمال کے پہونچنے کے لئے آسمان تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں،میری تمنایہ ہوتی ہے میراعمل سب سے پہلے صعودکرے لورمجھ سے پہلے صحیفہ میں کسی کانام نہ لکھاجائے ۔ عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:ایمامومن حافظ علی الصلاة الفریضة فصلاہالوقتہافلیس ) ہومن الغافلین۔( ٢
حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں : ہر وہ مومن جو واجب نمازوں کا پابند رہتا ہے اور انھیں اوّل وقت بجالا تا ہے اس کو گروہ غافلین میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
--------. ٢)وسائل الشیعہ/ج ٢/ص ۶۵۶ ) . ١(تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ۴١ (
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:انّ فضل الوقت الاول علی الاخیرکفضل الآخرة علی ) الدنیا.( ١
امام صادق فرماتے ہیں: نماز کا اوّل وقت آخروقت پر اسی طرح فضیلت رکھتا ہے جس طرح آخرت دنیا پر فضیلت رکھتی ہے ۔
) قال ابوعبدالله علیہ السلام :امتحنواشیعت ناعندمواقیت الصلاة کیف محافظتہم علیہا۔( ٢ امام صادق فرماتے ہیں :ہمارے شیعوں کواوقات نماز کے ذریعہ پہچانو!اوردیکھوکہ وہ اوقات نمازکی کس طرح حفاظت کرتے ہیں۔
--------. ٢)سفینة البحار/ج ٢/ص ۴۴ ) . ١(کافی/ج ٣/ص ٢٧۴ (
عبدالله ابن سنان سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے: لکلّ صلاة وقتان واول الوقت افضلہ ولیس لاحدٍا نٔ یجعل آخرالوقتین وقتا الّافی عذرمن ) غیرعلة .( ١
ہرنمازکے دووقت ہوتے ہیں (اول وقت اورآخروقت)اوراول وقت (آخروقت)سے افضل ہوتاہے اورکسی کے لئے جائزنہیں ہے کہ بغیرکسی عذرومجبوری کے آخری وقت کواپنی نمازکاوقت قراردے اورآخری وقت میں نمازاداکرے ۔
حکیم لقمان نے اپنے فرزند کو وصیت کرتے ہوئے کہا : اے بیٹا ! مرغ کو اپنے آپ سے زیادہ ہو شیارنہ ہونے دینا ، کیونکہ مرغ نماز کا وقت شروع ہو تے ہی اپنی آواز بلند کردیتاہے اور ) نماز کا وقت پہنچنے کا اعلان کرتا ہے ، پساے بیٹا ! مرغ کے بولنے سے پہلے بیدار ہو اکرو ۔( ٢
--------. ٢)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩٧٨ /ص ٣٠١ ) . ١(کافی/ج ٣/ص ٢٧۴ )
قال علیہ السلام :ان العبداذاصلی الصلاة فی وقتہاوحافظ علیہاارتفعت بیضاء نقیة ،تقول حفظت نی حفظک الله واذالم یصلہالوقتہاولم یحافظ علیہاارتفعت سوداء مظلمة تقول ضیعت نی ) ضیعک الله.( ١
امام صادق فرماتے ہیں :جب کوئی بندہ نمازکواس کے اول وقت میں اداکرتاہے اوراوقات نمازکی حفاظت کرتاہے تو وہ نمازپاک وسفیدہوکرآسمان کی طرف جاتی ہے اورصاحب کے لئے کہتی ہے :جس طرح تونے میری حفاظت کی ہے خداوندعالم تیری بھی اسی حفاظت کرے لیکن جوبندہ نمازکواس کے وقت میں ادانہیں کرتاہے اوراوقات نمازکی حفاظت نہیں کرتاہے تووہ نمازسیاہ چہرہ کے ساتھ آسمان کی طرف روانہ ہوتی ہے اورصاحب نمازکے کہتی ہے:جس طرح تونے مجھے ضائع وبربادکیاہے خداتجھے بھی اسی طرح ضائع وبربادکرے۔. ١(من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠٩ (
عن ابی عبدا لله علیہ السلام قال:من صلی الصلوات المفروضات فی اول وقتہاواقام حدودہارفعہاالی السماء بیضاء نقیة وہی تہتف بہ تقول حفظک الله کماحفظت نی واستودعک الله ملکاکریما،ومن صلہابعدوقتہامن غیرعلة ولم یقم حدودہارفعہاالملک سوداء مظلمة وہی تہتف بہ ضیعت نی ضیعک الله کماضیعت نی.
امام صادق فرماتے ہیں :جب کوئی بندہ نمازکواس کے اول وقت میں اداکرتاہے اورحدود نمازکی حفاظت کرتاہے توایک فرشتہ اس نمازکوپاک وسفیدشکل کے ساتھ آسمان کی طرف لے جاتا ہے اوروہ نمازاس نمازی سے یہ صاحب کے لئے کہتی ہے :جس طرح تونے میری حفاظت کی ہے خداوندعالم تیری بھی اسی طرح حفاظت کرے،تونے مجھے ایک عظیم وکریم ملک کے سپردکیاہے لیکن جوبندہ نمازکوبغیرکسی مجبوری کے نمازکوتاخیرمیںڈالتاہے اوراس کے حدودکی حفاظت نہیں کرتاہے توایک ملک اس نمازکوسیاہ وتاریک بناکر آسمان کی طرف روانہ ہوتا ہے اوروہ اس صاحب نمازسے بلندآوازمیں کہتی ہے:تونے مجھے ضائع کیاخداتجھے اسی طرح ضائع وبربادکرے جس طرح تونے مجھے ضائع وبربادکےاہے۔. امالی (شیخ صدوق) ۴/ص ٣٢٨
قال رسول الله صلی علیہ وآلہ :مامن صلاة یحضروقتہاالّانادیٰ ملک بین یدی ) الناس:ایہاالناس !قومواالیٰ نیرانکم الّتی ا ؤقدتموہاعلیٰ ظہورکم فاطفو ۂابصلاتکم۔( ١ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فر ما تے ہیں :ہر نما ز کا وقت شروع ہو تے ہی ایک فر شتہ ندائے عمو می بلند کر تا ہے: اے لو گو ! اٹھو اور وہ آگ جوخود __________تم نے گنا ہوں کو انجا م دے کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پیچھے لگا ئی ہے اسے نما ز کے ذریعہ خا موش کر دو۔ اسی روایت کو بعض راویوں نے اس طرح نقل کیاہے:
ان ملک الموت علیہ السلام یحضرفی کلّ یوم خمس مرات فی بیوت الناس فی اوقات الصلوات الخمس وینادی علیٰ احدمن الاحادوینادی بہذہ ایہاالناس! قومواالیٰ نیرانکم التی ) اوقدتموہا۔( ٢
بیشک ملک الموت روزانہ پانچ مرتبہ پنجگانہ نماز کے وقتوں میں لوگوں کے گھروں میں حاضرہوتاہے اورہرایک شخص کوآوازدیتاہے اور اس طرح دیتاآوازہے :اے لوگو! اٹھو اور وہ آگ جوخود تم نے گنا ہوں کو انجا م دے کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پیچھے لگا ئی ہے اسے نما ز کے ذریعہ خا موش کر دو۔--------. ٢)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠٨ ) . ١(من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠٨ (
اول اوقات نمازکی محافظت وفضیلت کے بارے میں چندمندرجہ ذیل واقعات ذکرہیں: امام علی ابن ابی طالبکی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ آپ جنگ صفین میں دشمنان اسلام سے جنگ کررہے تھے کہ آپ اچانک سورج کی طرف دیکھنے لگے ،ابن عباس نے کہا:یاامیرالمومنین ! یہ آپ کیاکررہے ہیں ؟حضرت علینے جواب دیا: اَنْظُرُاِلَی الزَّوَالِ حتّی نُصَلِّی.
میں دیکھ رہاہوں کہ ابھی زوال کاوقت ہواہے یانہیں تاکہ(اول وقت)نمازاداکروں،ابن عباس نے تعجب سے کہا:کیایہ نمازکاوقت ہے؟اس وقت ہم دین اسلام کے دشموں سے جنگ کرنے میں مشغول ہیں لہٰذااس وقت جنگ کونمازپرترجیح دیناچاہئے،اگرہم نے ایسے خطرناک موقع جنگ سے ہاتھوں کوروک لیاتودشمن ہم پرغالب آجائیں گے ،مولائے کائنات نے جواب دیا: علیٰ مانقاتلہم ؟انّمانقاتلہم علی الصلاة .
ہماری ان سے کس بنیادپرجنگ ہورہی ہے ؟بے شک اسی نمازہی کی وجہ سے ان ) دشمنوں سے جنگ ہورہی ہے ۔( ٢. ٢(وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ١٧٩ (
روایت میں ملتاہے کہ مولائے کائنات نے کبھی نمازکوتاخیرمیں نہیں ڈالافقط دو موقع ایسے پیشآئے ہیں کہ امام علی کو نمازپڑھنے میں ات نی دیرہوگئی کہ آپ کے نماز قضاہوگئی اورسورج کوپلٹایاگیااورامام(علیه السلام) نے نمازکواس کے وقت میں ادا کیا اوروہ دوموقع یہ ہیں: ١۔محمدابن عمیرحنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں عرض کیا:جب اما م علی پرنمازظہروعصرجمع __________کرنالازم تھاتوپھرکس علت وسبب کی بناپرمولائے کائنات نے نمازعصرکوتاخیرمیں ڈالااوراسے ترک کیا؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا:
جب امیرالمومنیننمازظہرسے فارغ ہوئے توایک مردے کی کھوپڑی نظرآئی ، امام (علیه السلام) نے اس سے معلوم کیا:توکون ہے ؟اس نے جواب دیا:میں فلان سر زمین کے فلان بادشاہ کافرزندہوں،امیرالمومنین نے فرمایا:تومجھے اپنی داستان زندگی کوبیان کر اوراپنے زمانے میں اچھے اوربرے رونماہوئے واقعات کوبیان کر،اس جمجمہ نے اپنے داستان زندگی بیان کرناشروع کیاوراپنے زمانے میں گذرہوئے واقعات کوبیان کرنے لگااورامام(علیه السلام) اس کی داستان زندگی سننے میں سرگرم ہوگئے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا،اس کے بعدجب امام (علیه السلام) اس جمجمہ سے باتیں سن چکے توسورج کوپلٹنے کاحکم دیا،سورج نے کہا:اب میںغروب ہوچکاہوں لہٰذااس وقت کیسے پلٹ سکتاہوں،امیرالمومنیننے خدائے عزوجل سے سورج کوپلٹادینے درخواست کی پس خداوندعلام نے سترہزارفرشتوں کوسترہزارزنجیروں کے ساتھ سورج کی طرف روانہ کیا،ان فرشتوں نے زنجیروں کوسورج کی گردن میںڈالااورکھینچناشروع کیایہاں تک کہ سورج اوپرآگیااوردوبارہ اس کی روشنی سب جگہ پھیل گئی اورسورج صاف طرح نظرآنے لگااورامیرالمومنیننے اپنی نمازکوعصرکواس کے وقت میں ادادکیااورپھرسورج دوبارہ اپنی جگہ پرپہنچ گیا،اس کے بعدامام صادق نے فرمایا:یہ تھی امیرالمومنینکی تاخیرسے نمازکی پڑھنے وجہ۔. علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۵١
٢۔محمدابن جعفرکی دوبیٹیاں“ام جعفر”یا“ام محمد”نے اپنی جدّہ محترمہ “اسمابنت عمیس سے روایت کی ہے ،ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کابیان ہے کہ :میں اپنی جدّہ محترمہ اسمابنت عمیس اوراپنے چچاعبدالله ابن جعفرکے ہمراہ گھرسے باہرگئی ہوئی تھی ،جب “صہبا”کے قریب پہنچے تواسمابنت عمیسنے مجھ سے فرمایا: اے میرے بیٹی !ایک دن ہم رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ہمراہ اسی جگہ پرموجودتھے کہ آنحضرت نے نمازظہرپڑھی اوراس کے بعد علی (علیه السلام) کو اپنی خدمت میں طلب کیااورامام (علیه السلام) سے اپنی ضرورتوں میں مددچاہی یہاں تک کہ عصرکاوقت پہنچ گیااورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نمازپڑھی ،اس کے بعدعلی (علیه __________السلام)آنحضرت کی خدمت میں پہنچے اورپیغمبرکے پہلومیں بیٹھ گئے، الله تبارک وتعالیٰ نے وحی نازل کی اورآنحضرت نے اپنے سرمبارک کوامیرالمومنین کے دامن اقدسرکھ کرآرام کرتے رہے یہاں تک سورج غروب ہوگیا،جب آنحضرت نے آنکھیں کھولیں توعلی (علیه السلام)سے معلوم کیا:
اے علی (علیه السلام)!کیاتم نمازپڑھ لی تھی،حضرت علی (علیه السلام)نے عرض کیا:نہیں یارسول الله (صلی الله علیه و آله)کیونکہ آپ کاسرمبارک میرے دامن پررکھااورآپ آرام کررہے تھے اورمیں نے آپ کوبیدارنہیں کرناچاہالہٰذاسی طرح بیٹھارہایہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے دعاکے ہاتھ بلندکئے اوربارگاہ خداوندی میں عرض کی:
اللّہمّ ان ہذاعلیّ عبداحتبسنفسہ علی نبیک فردّعلیہ الشرقہا. بارالٰہا!یہ علی (علیه السلام) تیرابندہ ہے کہ جس نے تیرے نبی کی خاطراپنے آپ نمازپڑھنے سے روکے رکھااوراپنے آپ کومحبوس رکھاپس تواس کے لئے سورج پلٹادے تاکہ وہ نمازکواداکرسکے ابھی نبی دعامیں مشغول تھے کہ سورج طلوع ہوا اور تمام زمین وپہاڑپراس کی روشنی پھیل گئی اورعلی (علیه السلام) نے بلند ہو کر وضو کیا اورنمازعصرپڑھی ،اس کے بعدسورج دوبارہ غروب ہوگیا۔. علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۵٢
روایت میں ایاہے کہ ایک روزمامون نے اپنے دربارمیں امام علی رضا کودعوت دی جب امام(علیه السلام) اس کے دربارمیں پہنچے اوروہاں پرعمران صابی(گروہ صائبین کے رہنما ) سے بحث ومناظرہ شروع ہوا،بحث و گفتگو یہاں اس حدتک پہنچی کہ عمران کے دل میں آہستہ آہستہ قبول اسلام کی حالت پیدا ہورہی تھی کہ اسی دوران اذان کی آواز بلندہوئی ،جیسے امام (علیه السلام) نے اذان کی آوازکوسناتوبحث ومناظرہ کواسی جگہ پرختم کردیااور عمران سے فرمایا:نمازکا وقت ہو گیا ہے ، عمران نے کہا :اے میرے آقا!اس وقت میرادل کچھ نرم ہوتاجارہاتھا اگر آپ اور کچھ دیرتک مناظرہ کو جاری رکھتے تو شاید میں مسلمان ہو جاتا، امام نے فرمایا : پہلے نماز پڑھیں اس کے منا ظرہ کو ادامہ دیں گے ، امام (علیه السلام) نے نماز سے فارغ ہو نے کے بعد دوبارہ بحث ومناظرہ شروع کیا اور عمران صابی نے مذہب اسلام قبول کرلیایہ واقعہ بہت طولانی ہے مگراصل چیزکوبیان مقصودہے اوروہ یہ ہے کہ امام (علیه السلام) نے __________اول وقت کوترجیح دی اورمناظرہ کوروکناپسندکیا،اس واقعہ کوشیخ صدوقنے اپنی کتاب توحیدمیں تفصیل کے ساتھ ذکرکیاہے۔
ابراہیم ابن موسی القزار سے روایت ہے کہ امام رضا بعض آل ابوطالب کے استقبال کے لئے شہرسے باہرگئے ہوئے تھے اورہم آنحضرت کے ہمراہ تھے ،جب نمازکاوقت پہنچاتوامام اپنے صحابیوں کے ساتھ اسی جگہ پرقریب میں گئے اورایک بڑے سے پتھرکے پاس کھڑے ہوکرمجھ سے فرمایا:اے ابراہیم !نمازکاوقت ہوچکاہے لہٰذاتم اذان کہو،میں نے عرض کیا:اے ہمارے آقا!ہم اس وقت اپنے آنے والے صحابیوں کے انتظارمیں کھڑے ہوئے ہیں،امام (علیه السلام)نے فرمایا:خداتمھارے گناہوں کومعاف کرے، بغیرکسی عذرکے نمازکوتاخیرمیں نہ ڈالو،پس تم آؤاورہمارے ساتھ اول وقت نماز پڑھو، راوی کہتاہے ہے کہ میں نے اذان کہی اورامام (علیه ) السلام)کے ساتھ نمازاداکی ۔( ١. ١(منتہی الاعمال/ج ٢/ص ٨٨١ (
حضرت امام حسن عسکری کی عادت یہ تھی کہ جیسے نمازکاوقت پہنچتا تھا تو فوراًاپنے ہاتھوں کوہراس کام جس میں مشغول ہوتے تھے پیچھے کھینچ لیاکرتے تھے اور کسی بھی کام کو نماز پر تر جیح نہیں دیتے تھے بلکہ نماز کوہرکام پر مقدم رکھتے تھے ابوہاشم جعفری سے مزوی ہے کہ : میں ایک روزجب حضرت امام حسن عسکریکی خدمت میں مشرف ہوا تودیکھاکہ امام (علیه السلام) اس وقت کسی چیز کے لکھنے میں مشغول ہیں مگرجیسے ہی نماز کا وقت پہنچا تو امام (علیه السلام) نے لکھنا بند کردیا اور فوراً نماز وعبادت میں مشغول ہوگئے
محمد شاکری سے مروی ہے کہ: امام حسن عسکری رات پھر نمازعبا دت میں مشغول رہتے تھے اوررکوع و سجود کرتے رہتے تھے اور میں سوجاتاتھا، جب نیند سے بیدار ہوتاتھاتو امام(علیه السلام) کو سجدے کی حالت میں پا تا تھا
امام حسن عسکری کی سونح حیات میں کہ:آپ زندان بھی میں دنوں میں روزہ رکھتے اور راتوں کو بیدار رہ کر عبادت کرتے تھے اور عبادت کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے تھے اور کسی سے کوئی گفتگو بھی نہیں کرتے تھے، امام (علیه السلام) کی عبادت اورزہد وتقویٰ کا اثریہ تھا کہ جن لو گو ں کو امام کو آزارواذیت پہنچا نے کے لئے زندان میں بھیجا جاتاتھا ، وہ آپ کو عبادت و مناجات کی حالت میں دیکھ کر بہت زیادہ متا ثٔر ہو تے تھے ، عباسیوں (کہ جن کے حکم سے امام حسن عسکری کو زندان کیا گیا تھا)نے صالح بن وصیف سے کہا : کہ وہ امام (علیه السلام) پر بہت زیادہ فشار ڈالے اورہر گز ان پر رحم نہ کرے ، صالح نے کہا : میں نے دو بد تر ین جلاّ د کو ان کے سر پہ چھوڑر کھا ہے ، لیکن ان دونوں کے دلوں پر امام کی عبادت و نماز ) روزے کا اثر یہ ہو اکہ وہ دونوں عبادت کے بلند مرتبہ پر فائز گئے ۔( ١ حضرت امام جعفر صادق اپنے ایک شاگرد“مفضل ابن عمر”کوتوحید باری تعالیٰ کے بارے میں ہفتہ میں چاردن ،صبح سے زوال تک ایک خصوصی درس دیاکرتے تھے اورروزانہ نمازظہر ) کاوقت شروع ہوتے ہی درس کوختم کردیاکرتے تھے.( -٢)بحارالانوار/ج ٣/ص ٨٩ ) . ١(امام حسن عسکری/ص ۴١ ۔ ۴٢
حضرت عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ایک عورت بہت ہی زیادہ نیک و عبادت گزار تھی، جب بھی نماز کا وقت ہوجاتاتھا اورجس کام میں بھی مشغول رہتی تھی فوراً اس کام کواسی حالت پر چھوڑ دیا کر تی تھی اور نمازو اطاعت خداوندی میں مشغول ہوجاتی تھی ،ایک دن جب یہ عورت ت نورمیں روٹیاں بنانے میں مشغول تھی تومو ذٔن کی صدائے اذان بلند ہوئی تو اس کام کو درمیان میں ہی چھوڑ کر نماز کے لئے کھڑی ہو گئی اور عبادت الہٰی میں مشغول ہو گئی ، وہ نمازپڑھ رہی تھی تو شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ پیدا کیا کہ جب تک تو نماز سے فراغت پائے گی توت نور میں لگی ہو ئی روٹیاں جل کر راکھ ہو جا ئیں گی ، مو منہ نے دل میں جواب دیا : اگرمیری تمام روٹیاں بھی جل جا ئیں تو یہ روز قیامت میرے بدن کے آتش جہنم میں جلنے سے بہتر ہے ، ابھی یہ عورت نمازمیں ہی مشغول تھی کہ اس کا بچہ ت نورمیں گر گیا ، شیطان نے کہا :
اے عورت ! تو نماز پڑ ھ رہی ہے اور تیرا بچہ ت نورمیں جل رہاہے ، اس عابدہ نے جواب دیا : اگر الله تبارک و تعالیٰ کی یہی مرضی ہے کہ میں نمازپڑھوں اور میرا بیٹاآگ میں جل جائے تو میں خدا کے اس حکم پر راضی ہوں اور مجھے مکمل یقین ہے کہ جب تک میں نماز میں مشغول ہو ں میراپروردگارمیرے فرزند کو آگ میں جلنے سے محفوظ رکھے گا ، ابھی یہ عورت نمازمیں مشغول تھی کہ اس کا شوہر گھر میں داخل ہو ا تواس نے دیکھا کہ زوجہ نماز میں مشغول ہے اور ت نور میں روٹیاں صحیح وسالم موجو د ہیں اور بچہ بھی سکون کے ساتھ ت نو ر میں بیٹھا ہو ا آگ سے کھیل رہا ہے اور اس کے بدن پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہے ، خدا ئے مہربان کی قدرت سے وہ آگ گلز ار بن گئی،جب وہ عورت نماز سے فارغ ہو گئی تو شوہرنے زوجہ کاہاتھ پکڑااوراسے ت نورکے پاس لایا ، عورت نے جیسے ہی ت نور میں نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ بچہ اور روٹیاں دونوں صحیح وسالم ہیں:آگ نے نہ بچہ کے بدن پرکوئی اثرکیاہے اورنہ روٹیاں جلی ہیں ، یہ ماجرادیکھ کر دونوں تعجب میں رہ گئے، مرد نے باری تعالیٰ کا شکر اداکیا اور عورت نے سجدہ شٔکراداکیا ،شوہر نے بچہ کو ت نور سے باہر نکالا اور حضرت عیسٰی کی خدمت میں لے کر آیا اورآپ سے پورا واقعہ بیان کیا ،حضرت عیسیٰ نے کہا : جاؤ اور اس بچہ کی ماں سے معلوم کرو اس نے خدا کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے اور اس کے پاس خدا کا کیا راز ہے ؟ اگریہ کرامت کسی مرد کے پاس ہوتی تو جبرئیل خدا کی طرف اس پر وحی لے کر نازل ہوتے وہ مردبچہ کولے کراپنے گھر واپس آیا اور زوجہ سے معلوم کیا : تم خدا سے کت نی زیادہ قریب ہو کہ یہ معجزہ رونما ہوا ہے ؟ بیوی نے جواب دیا : میں کارآخرت کو دنیا کے کاموں پر ترجیح دیتی ہوں ، نماز وعبادت کو ہر کام پر مقدم رکھتی ہوں اور جب سے ہوش سنبھا لاہے ان چند روز کے علاوہ جو ہر ماہ میں عورتوں سے مخصوص ہیں بغیر طہارت (وضو)کے نہیں رہتی ہوں اُن ایّام کے علاوہ بقیہ دوسرے دنوں میں خواہ میرے پلس ہز ار کام ہی کیوں نہ ہوں جیسے ہی اذان کی آوازسنتی ہوں فوراًکام سے ہاتھ پیچھے ہٹالیتی ہوں اور نماز وعبادت پرور دگار میں مشغول ہو جاتی ہوں ،اگر کوئی مجھ پر ظلم وجفا کرتا ہے یا مجھ کو گالیاں دیتی ہے ، ان تمام کینہ و عداوت کو دل سے نکال دیتی ہوں اور اس کے عوض میں کوئی جواب نہیں دیتی ہوں ،میں خدا وند متعال کی قضاء وقدر پر راضی ہوں ، فرمان خدا کی تعظیم کرتی ہوں ، اس کی مخلوق پر رحم کرتی ہو ں،اپنے گھرسے کسی بھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتی ہوں اورنماز شب وصبح ہر گز ترک نہیں کرتی ہوں ، جب حضرت عیسٰیاس عورت کی یہ تمام خصوصیا ) ت سنی توفرمایا:اگریہ عورت مرد ہوتی تو ضرور پیغمبر خدا ہو تی۔( ١. ١(ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۴٢٩ /ص ١٣۵ (
حضرت امام خمینی اپنے زمانے میں ایک نمونہ شخصیت تھے کہ جنھوں نے نماز پڑھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور لوگوں کو نماز کی حقیقت ومعارف سے آگاہ کیا ہے ، آپ نے کبھی بھی زندگی کے مشکل تریں حالات یا اوج کا میابی کے وقت ، صحیح وسالم ہوں یا بیمار ہوں ،سفر میں ہوں یا حضرمیں ،اپنے ملک میں ہوں یا جلاو طنی میں نمازاول وقت اداکرتے تھے اورکسی بھی کام کونمازپرترجیح نہیں دیتے تھے بلکہ نماز کو ہر کام پر مقدم رکھتے تھے، حضرت امام خمینی کی تاریخ زندگی میں لکھاہے:
جس وقت آپ فرانس میں جلاوطنی کی زند گی گذاررہے تھے ، وہ حضرا ت جو آپ کے ہمراہ تھے ان میں سے بعض کا بیان ہے کہ جس وقت آپ فرانس میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے معلوم کیاکہ قبلہ کسی طرف ہے ، آپ پیرس میں رات میں بھی تین بجے نیندسے بیدارہوتے اور خدا کی عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے.
حجت الاسلام جناب سیداحمدخمینی بیان کرتے ہیں : جس وقت ایران سے شاہ نے فراراختیار کی ، ہم اس وقت پیرس میں تھے ، فرانس کی پولیس نے تمام سڑ کیں اور شاہر اہ بندکردئے تھے ، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے صحافی اور خبرنگار وہا ں پر موجود تھے ، افریقہ ، ایشا، پورپ وامریکہ وغیرہ کے اخباری نمائندے بھی موجود تھے اور تقریباً ایکسوپچاس ملکوں کے ویڈیوکیمر ے فیلم بنارہے تھے اور امام خمینی کی تقریر کوبراہ راست پخش کررہے تھے ، آپ یقین کیجئے ات نی تعداد میں خبرنگار حاضر تھے ، کیونکہ اس سال کی یہ سب سے بڑا حادثہ اور خبرتھی، سب کی نظریں اس طرف جمی ہوئی تھی کہ ایران سے شاہ فرارکرگیا ہے ،پس اس کے بعداب امام خمینی کیا تصیم گیری کرتے ہیں ، امام سڑک کے کنارے کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ، تمام کیمروں کے رخ آپ ہی کی طرف تھے،امام نے چندمنٹ تقریر کی اور حالات و مسائل کو بیان کیا ، میں آپ کے برابر میں کھڑا ہوا تھا ، ایک دفعہ امام میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا : احمدبیٹا! کیا نمازظہر کا وقت ہوگیا ہے ؟ میں نے کہا : جی باباجان ! اب ظہر کا وقت ہے ،جیسے ہی امام خمینی کووقت نمازسے آگاہ ہوئے فوراً :“ السلام علیکم ورحمتہ ا لله وبرکا تہ”کہااوراسی موقع پر اپنی تقریر کو ختم کرکے نماز کے لئے آمادہ ہوگئے کیونکہ نماز ظہر کا اول وقت تھا ، آپ فکرکریں ایسی جگہ پر کہ جہاں پر آپ کو پوری دنیا میں اور بی بی سی لندن کے ٹیلیویزن سے دیکھ رہے ہیں .CNN لاکھو ں ، کروڑوں انسان خصو صاً اور امام اپنی تقریر کواول وقت نماز کی وجہ سے ختم کردیں اور نماز ظہرکواول وقت ادا کر نے کے لئے تقریرکوختم کردیں
اورجب آپ رات میں پیرس سے تہران کے لئے روانہ ہوئے توجہاز کے اندر سب حضرات ) سورہے تھے، صرف آپ ہی ت نہا بیدار تھے اور نماز شب پڑھ رہے تھے۔( ١. ١(ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢٩٠ /ص ٩۴ (
نمازکوضائع کرنے کاعذاب
بغیرکسی مجبوری کے نمازکوتاخیرمیں ڈالنے اوراول وقت اداکرنے میںغفلت اورسستی کرنے کو دوسری عبارت میں نمازکوضائع کرناکہاجاتاہے،جس طرح قرآن وروایات میں اول وقت نمازاداکرنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے اوراول وقت اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہیں اسی طرح ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے جواپنی نمازوں میں سہل انگاری کرتے ہیں،اوراول وقت نمازکے اداکرنے میں غفلت وسستی استعمال کرتے ہیں۔ خداوندعالم نے قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے لئے ایک عذاب معین کاوعدہ دیاکہ جس کانام ویل ہے :
) >فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَ الَّذِ یْنَ ھُمْ عَن صَلاَ تِھِمْ سٰاھُونَ >( ٢ ویل اورتباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں ۔ . سورہ ماعون/آیت ۴۔ ۵ امام صادق اس قول خداوندی کے بارے میںفرماتے ہیں: “ساہون ”سے مرادیہ ہے: تاخیرالصلاة عن اول وقتہالغیرغذر.
بغیرکسی مجبوری کے نمازکواس کے اول وقت سے تاخیرمیںڈالنے کوسہل انگاری کہاجاتاہے
اورخداوندعالم سورہ مٔریم ارشادفرماتاہے: >فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌاَضَاعُواالصَّلَاةَوَاتَّبَعُوالشَّہَوٰاتَ فَسَوْفَ یَلْقُوْنَ غَیا<. سورہ مریم /آیت ۵٨ ۔ ۵٩
پھران کے بعدان کی جگہ پروہ لوگ آئے جنھوں نے نمازکوبربادکردیااورخواہشات کااتباع کرلیاپسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔
”غی” جہنم میں ایک وادی ہے کہ جس کی آگ سب سے زیادہ تیزاورعذاب سب سے زیادہ سخت ہوگا۔
تفسیرمنہج الصادقین میں لکھاہے کہ:آیت میں نمازکے ضائع کرنے اورخواہشات نفس کی اتباع کرنے والوں سے امت محمدی کے یہودی اورفاسق وگنہگارلوگ مرادہیں۔. منہج الصادقین /ج ۵/ص ۴٣٨
قال النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم :لاتضیعواصلاتکم فانّ من ضیع صلاتہ حشرہ اللھمع قارون وفرعون وہامان (لعنہم اللھواخزلہم )وکان حقاًعلی الله ان یدخلہ النارمع المنافقین والویل ) لمن لم یحافظ صلاتہ۔( ٣
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :اپنی نمازوں کوضایع نہ کرو، جو شخص اپنی نمازوں کوضایع کرتاہے خداوندعالم اسے قارون،فرعون اورہامان (خداان پر لعنت کرے اوررسواکرے)کے ساتھ محشورکرے گااورخداوندمتعال کوحق ہے کہ نمازکے ضایع کرنے والوں کو منافقین کے ساتھ جہنم میں ڈال دے اورویل ہے ان لوگوں کے لئے جواوقات نمازکی محافظت نہیں کرتے ہیں۔
. ٣)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠٢ ) . ٢(سورہ __________مٔاعون/آیت ۴۔ ۵ (
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم :لایزال الشیطان دعراًمن المومن ماحافظ علی ) الصلوات الخمس فاذاضیعن تجارا عٔلیہ وا ؤقعہ فی العظائم۔( ١
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:بیشک شیطان ہراس مومن سے خوف کھاتاہے جواپنی پنجگانہ نمازوں کواول وقت پاپندی سے اداکرتا رہتا ہے لیکن جب وہ اپنی نمازوں کونمازوں ضایع کرتاہے توشیطان اس پرقابض ہوجاتاہے اوراسے گناہ کبیرہ میں ڈال دیتاہے۔ ) قال علی علیہ السلام:من ضیع صلاتہ ضیع عملہ غیرہ۔( ٢
امام علیفرماتے ہیں:جس نے اپنی نماز کو تبا ہ وبر با د کر دیا اس کے دوسر ے اعمال اس سے زیادہ تبا ہ وبر با د ہو جا ئیں گے ۔. ٢)مستدک الوسائل/ج ١/ص ١٧٢ ) . ١(بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠٢ (
عن امیرالمومنین علیہ السلام انّہ قال:علیکم بالمحافظة علی اوقات الصلاة فلیس منی ) من ضیع الصلاة.( ٣
امام المتقین حضرت علی فرماتے ہیں : اوقات نماز کی حفاظت کرنا تم پر واجب ہے جو شخص نماز کو ضایع کرتاہے وہ ہم سے نہیں ہے۔. ٣(مستدرک الوسائل /ج ١/ص ١٨۴ (
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ : من صلی الصلاة لغیروقتہارفعت لہ سوداء مظلمة ) تقول ضیعت نی ضیعک الله کماضیعت نی .( ١
پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص نمازکواس کے غیروقت میں پرھتاہے تواس وہ نمازسیاہ اورتاریک ہوکرروانہ ہوتی ہے اورصاحب نمازسے کہتی ہے:تونے مجھے ضائع کیاہے خداتجھے بھی اسی طرح ضائع وبربادکرے جس طرح تونے مجھے ضائع وبربادکیاہے۔. ثواب الاعمال/ص ٢٢٩
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ : لاینال شفاعتی غدا من اخرالصلاة المفروضة بعدوقتہا۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:کل روزقیامت اسے میری ہرگزشفاعت نصیب نہ ہوگی جواپنی واجب نمازوں کوان کے وقت سے تاخیرمیںڈالتے ہیں۔ . امالی (شیخ صدوق)/ص ۴٨٣
نمازجماعت کی اہمیت
وہ لوگ جومسجدکے پڑوسی ہیں یامسجدسے اذان کی آوازسنتے ہیں ان کے لئے مستحب ہے بلکہ سنت مو کٔدہ ہے کہ اپنی روزانہ کی پانچوں واجب نمازوں جماعت کےساتھ اداکریں،بالخصوص نمازصبح اورمغرب وعشاء کی نماز کوجماعت کے ساتھ اداکریں اورنمازجمعہ اورعیدین کے کوبھی جماعت سے پڑھاجائے ۔
نمازجماعت اہمیت کے لئے چنداحادیث ذکرہیں:
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے پنجگانہ نمازوں میں سے ایک __________بھی نمازکوجماعت کے بغیرادانہیں کیاہے اوراسلام کے آغازسے نمازجماعت قائم کرتے تھے اورحضرت علیاورجناب خدیجہ کے ساتھ نمازجماعت برگذارکرتے تھے یہاں تک کہ آپ نے رحلت کے وقت بھی نمازجماعت قائم کی۔
مرحوم شیخ عباس قمی “منتہی الاعمال” میں نقل کرتے ہیں:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کواس قدراہمیت دیاکرتے تھے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخر ی لمحات میں بھی نمازجماعت کادامن نہیں چھوڑااورشدیدبیمار ہونے کے باوجود اپنے دستہا ئے مبارک کوامام علی (علیه السلام)اور فضل ابن عباس کے شانوں پررکھا اور ا ن کا سہا رالے کرنہایت مشکل سے مسجد میں تشریف لائے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکیا۔. منتہی الاعمال/ج ١/ص ١٠٣
حضرت امام صادقفرماتے ہیں:ایک مرتبہ جب پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان لوگوں کے گھروں کوجلادینے کاحکم جاری کیا جو(منافقین)لوگ اپنے گھروں میں نمازپڑھتے تھے اورنمازجماعت میں حاضرنہیں ہوتے تھے ،ایک نابینا شخص آنحضرت کی خدمت میں ایا اورعرض کیا:اے الله کے پیارے نبی ! میں ایک نابیناشخص ہوں،جب اذان کی آوازبلند ہو تی ہے تومجھے کو ئی شخص ایسا نہیں ملتا ہے جو میری راہنمائی کرے تاکہ میں مسجدمیں پہنچ سکوں اور آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر جماعت سے پڑھوں ؟ رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے اس نابیناکی بات سن کرارشادفرمایا :شدّمن منزلک الی المسجدحبل واحضرالجماعة .
تم اپنے گھر سے لے کر مسجد تک ایک رسی کو وسیلہ قرار دو اور اس کی مددسے اپنے آپ کو نماز جماعت کے لئے مسجد تک پہنچایا کرو ۔. تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۶۶
امام صادق فرماتے ہیں:کوفہ میں امام المتقین حضرت علی کوخبردی گئی کہ مسجد کے ہمسایوں میں کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو نماز جماعت میں حاضرنہیں ہوتے ہیں توآپ نے فرمایا:
لیحضرون معناصلات ناجماعة ،اولَتحولن عنّاولایجاورناولانجاورہم۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ ہمارے ساتھ نمازجماعت میں شرکت کیاکریں یاپھروہ ایساکریں یہاں سے دورچلے جائیں تا کہ انھیں مسجد کا ہمسایہ نہ کہاجاسکے اور ہم بھی ان کے ہمسایہ نہ کہلا ئیں۔. امالی (شیخ صدوق)/ص ۶٩۶
دین اسلام میں نمازجماعت کو ات نی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اوراس کے بارے میں ات نی زیادہ تاکیدکی گئی ہے کہ اگرکوئی شخص اجتماع سے پرہیزکرنے کی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہویاجماعت سے بے اعت نائی کرے اوربغیرعذرکے جماعت میں شریک نہ ہوتواس کی نمازباطل ہے ۔
زرارہ اور فضیل سے روایت ہے کہ ہم دونوں نے (امام صادق )سے معلوم کیا:کیانمازکو جماعت سے پڑھناواجب واجب ہے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا: الصلوات فریضة ولیس الاجتماع بمفروض فی الصلوات کلہاولکنہاسنة من ترکہاسنة رغبة عنہاوعن جماعة المسلمین من غیرعلة فلاصلاة لہ.
نمازواجب ہے لیکن کسی بھی نمازکوجماعت سے پڑھناواجب نہیں ہے بلکہ سنت مو کٔدہ ہے اورجوشخص اس سنت سے دوری اورجماعت مسلمین سے دوری کرنے کی بناپربغیرکسی مجبوری کے نمازجماعت کوترک کرے تواس کی نمازہی نہیں ہوتی ہے ۔ . تہذیب الاحکام/ ٣/ص ٢۴
عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:من ترک الجماعة رغبة عنہاوعن جماعة المسلمین من غیرعلة فلاصلاة لہ۔
امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص نمازجماعت سے اورمسلمانوں کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوجانے سے دوری اختیارکرنے کی بناپربغیرکسی مجبوری کے نمازجماعت کوکرترک کرتاہے تو اس کی نمازہی نہیں ہوتی ہے ۔. امالی/ص ۵٧٣
قال امیرالمومنین علیہ السلام:من سمع النداء فلم یجبہ من غیرعلة فلاصلاةلہ۔ امیرالمو منین حضرت علی فرماتے ہیں :جو شخص اذان کی آواز سنے اور اسپر لبیک نہ کہے اور بغیر کسی مجبوری کے نماز جماعت میں شرکت نہ کرے (اورفرادیٰ نمازڑھے) گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی ہے۔. تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۴
عن ابی جعفرعلیہ السلام انّہ قال:لاصلاة لمن لایشہدالصلاة من جیران المسجد الّامریض ا ؤمشغول ۔
حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں : جو شخص مسجد کا ہمسایہ ہے اور نمازجماعت میں شرکت نہیں کرتاہے ، اس کی نمازہی نہیں ہے مگر یہ کہ وہ شخص مریض ہو یاکوئی عذررکھتاہو۔. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٧۶
عن الصادق علیہ السلام :شکت المساجدالی الذین لایشہدونہامن جیرانہا ، فاوحی الله عزوجل الیہا:وعزتی وجلالی لااقبلت لہم صلاة واحدة ولااظہرت لہم فی الناس عدالة ولانالتہم رحمتی ولاجاورنی فی الجنة ۔
حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجد وں نے بارگاہ خداوندی میں ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی عذر کے نماز کے لئے مسجد میں حاضرنہیں ہو تے ہیں شکایت کی توخداوندعالم نے مسجدوں پروحی نازل کی :میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں: میں ان لوگوں میں سے کسی ایک شخص کی بھی نماز قبول نہیں کر تا ہوں ،(میں دنیامیں ان لوگوں کو)ان کے معاشرے میں اچھے اور نیک آدمی کے نام سے نہیں شناخت نہیں کراتاہوں(اور تمام لوگ انھیں برابھلا کہتے ہیں اورآخرت میں ان انجام یہ ہوگاکہ) انھیں میری رحمت نصیب نہ ہو گی اور بہشت میں میرے قرب وجوار میں جگہ نہیں پائیں گے۔. سفینة البحار/ج ١/ص ۶۶٠
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:قال لقمان لابنہ :…صلّ فی الجماعة ولوعلی راسٔ زجّ۔ حضرت امام صادق فرماتے ہیں:حضرت لقماننے اپنے فرزندسے وصیّت کی : اے بیٹا! ہمیشہ نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرنا خواہ تم نیزے پرہی کیوں نہ ہو۔ . من لایحضرہ الفقیہ /ج ٢/ص ٢٩٧
جماعت کی فضیلت وفوائد
جب دین اسلام نمازجماعت کی ات نی زیادہ تاکیدکی گئی اوراس قدرکی اہمیت بیان کی گئی ہے یقیناًنمازجماعت کے لئے بہت زیادہ ثواب معین کیاگیاہوگااوربہت زیادہ فضائل بیان کئے ہوگے ۔
دین اسلام میں معصومین کی زبانی نمازجماعت فضائل کے جوفضائل وفوائد ذکرگئے ہیں ہم ان میں سے چنداحادیث کوذکرکررہے ہیں:
امیرالمومنین حضرت علی فرماتے ہیں : خدا وندعالم نے جت نے بھی فرشتے خلق کئے ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جوہمیشہ صف میں سیدھے کھڑے رہتے ہیں اورکسی بھی وقت حالت قیام سے باہرنہیں آتے ہیں اور بعض فرشتے ایسے جوہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اور کسی بھی وقت حالت رکوع سے باہرنہیں آتے ہیں اور بعض فرشتے ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پرسجد ے میں رہتے ہیں اور کسی بھی وقت سجدے سے سربلندنہیں کرتے ہیں ،پس جولوگ اپنی نمازوں کوجماعت کے ساتھ اداکرتے ہیں تووہ قیام،رکوع اورسجود کی حالت میں ان فرشتوں کے مشابہ ہیں اب اگر کوئی شخص ان تمام فرشتوں کے ثواب سے بہرہ مندہوناچاہتاہے ان سب کے برابرثواب حاصل کرناچاہتاہے تواسے چاہئے کہ نماز جماعت کو ترک نہ کرے۔. مناہج الشارعین /ص ٢١٢ ۔ ٢١٣
محمدبن عمارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا سے ایک خط کے ذزیعہ معلوم کیا:کسی شخص کانمازواجب کومسجدکوفہ میںفرادیٰ پڑھناافضل ہے یااسے جماعت پڑھنا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:الصلافی جماعة افضل. جماعت سے پڑھناافضل ہے۔تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:من حافظ علی الجماعة حیث ماکان مرّعلی الصراط کالبرق اللامع فی اول زمرة مع السابقین ووجہہ ا ضٔوءُ من القمرلیلة البدر،وکان لہ بکل یوم ولیلة یحافظ علیہاثواب شہید.
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہروہ شخص جونمازجماعت کا پابند رہتا ہے وہ روزقیامت سب سے پہلے پل صراط سے بجلی کے مانند تیزی سے گذرجائے گا اوراس کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بھی زیادہ چمکدارہوگا،پس وہ شخص جو شب وروزکی پنچگانہ نمازوں کے اوقات کی محافظت کرتاہے اورنمازکوجماعت سے اداکرتاہے تواسے ایک شہیدکادرجہ وثواب عطاکیاجاتاہے ۔. ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٢٩١
عن النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال: انّ الله وَعدَ اَن یدخل الجنّة ثلاثة نفربغیرحساب،ویشفع کل واحد منہم فی ثمانین الفا:المؤذّن،والامام،ورجل یتوضا ثٔمّ دخل المسجد،فیصلّی فی الجماعة.
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : خدا وندمتعال کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیرکسی حساب کے داخل بہشت کیا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص ٨٠ / ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا اور وہ تین شخص یہ ہیں : ١۔مو ذٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔وہ شخص جو اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے. مستدرک الوسائل /ج ۶/ص ۴۴٩
قال النبی صلی الله علیہ والہ:صفوف الجماعة کصفوف الملائکة والرکعة فی الجماعة،اربعةوعشرون رکعة،کلّ رکعة احب الی اللھمن عبادة اربعین سنة۔ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری امت کی نمازجماعت کی صفیں آسماں پر ملائکہ کی صفوں کے مانندہیں ،خداوند عالم نمازجماعت کی ہررکعت کو چالیس برس کی عبادتوں سے بھی زیادہ دوست رکھتاہے۔. الاختصاص (شیخ مفید) ٣٩
قال رسول الله صلی علیہ وآلہ:من مشیٰ الیٰ المسجد یطلب فیہ الجماعة کان لہ بکل خطوة سبعون الف حسنة ویرفع لہ من الدرجات مثل ذٰلک فان مات وہوعلیٰ ذٰلک وکّل الله بہ سبعین الف ملک یعودونہ فی قبرہ ویبشرونہ ویو نٔسونہ فی وحدتہ ویستغفرون لہ حتی یبعث۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص نمازجماعت میں شریک ہونے کی غرض سے مسجدکی جانب قدم بڑھائے تواس کے ہرقدم پرسترہزارنیکیاں لکھی جاتی ہیں اوراسی مقدارمیں اس کامقام بلندہوتاہے ،اگروہ اس حالت میں انتقال کرجائے توخداوندعالم سترہزارملائکہ کو اسے قبرمیں اتارنے کے لئے روانہ کرتاہے ،وہ فرشتے اسے خوشخبری دیتے ہیں اورقبرکی ت نہائی(اورتاریکی) اس کی مددکرتے ہیں اورجب تک وہ فرشتے اس کی قبرمیں رہتے ہیں اس کے لئے استغفارکرتے رہتے ہیں۔. من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ١٧
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:الصلاة فی جماعة تفضل علی کلّ صلاة الفردباربعة وعشرین درجة تکون خمسة وعشرین صلاة.
امام صادق فرماتے ہیں:نمازجماعت فرادیٰ نمازپرچوبیس درجہ فضیلت رکھتی ہے کہ ایک نمازپچیسنمازوں کاثواب رکھتی ہے ۔. تہذب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵
پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : ایک دن نمازظہرکے بعد جبرئیل امین سترہزارفرشتوں کے ہمراہ نازل ہوئے اور مجھ سے کہا : اے محمد ! تمہاراپروردگاتم پر درودو سلام بھیجتا ہے اوراس نے تمہارے لئے دوتحفے بھیجے ہیں جو تم سے پہلے کسی بھی نبی کوہدیہ نہیں کئے گئے ہیں،میں نے جبرئیل سے پوچھا: وہ دوہدیہ کیا ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کیا :تین رکعت نمازوتراورپانچ وقت نمازجماعت ،میں نے کہا :اے جبرئیل !الله تبارک تعالیٰ نے میری امت کے لئے نمازجماعت میں کیااجرو ثواب معین کیا ہے ؟ جبرئیل نے جواب دیا: اگر جماعت میں دوشخص(ایک امام اوردوسراماموم) ہوں تو خداوند عالم ہرشخص کے نامہ أعمال میں ہر رکعت کے عوض ایکسو پچاس نمازوں کا ثواب درج کرتاہے اور اگر تین شخص ہوں توہر ایک شخص کے لئے ہر رکعت کے عوض چھ سو نمازوں کا ثواب درج کرتاہے اور اگر چار آدمی ہوں توہرایک کے لئے ہر رکعت کے عوض بارہ سونمازوں کا ثواب لکھتاہے ،اگرپانچ آدمی ہیں توہرایک کے لئے دس ہزارچارسونمازوں کاثواب لکھتاہے،اگرچھ آدمی ہیں توہرایک کے لئے چارہزارآٹھ سونمازوں کاثواب لکھتاہے ،اگرسات آدمی ہیں توہرایک کے لئے نوہزارچھ سونمازیں لکھی جاتی ہیں،اگرآٹھ آدمی ہوں توہرایک کے لئے ١٩٢٠٠ /نمازیں لکھی جاتی ہیں اسی طرح اگر جماعت میں نو شخص موجود ہوں توتب بھی یہی ثواب لکھاجاتا ہے اورجب نمازجماعت میں حاضرہونے والوں کی تعداددس تک پہنچ جاتی ہے تواگرتمام آسمان کاغذ، تما م دریاوسمندرروشنائی،تمام درخت قلم اور تمام جن وملک اورانسان کا تب بن جائیں تب بھی ان دس لوگوں کی ایک رکعت کا ثواب نہیں لکھ سکتے ہیں.
اس کے بعدجبرئیل نے مجھ سے عرض کیا:اے محمد!کسی مومن کا امام جماعت کی ایک تکبیرکودرک کرلیناساٹھ ہزارحج وعمرہ سے بہترہے اوردنیاومال دنیاسے سترہزاردرجہ افضل ہے اورکسی مومن کا امام (علیه السلام)کے پیچھے ایک رکعت نمازپڑھنافقیروں اورحاجتمندوں پرایک لاکھ دینارخرچ کرنے سے افضل ہے اورکسی مومن کاامام (علیه السلام)کے ساتھ ایک سجدہ کرناراہ خدامیں سوغلام آزادکرنے سے افضل ہے ۔. بحارالانوار/ج ٨۵ /ص ١۴ ۔ ١۵
ایک روایت میں آیاہے کہ ایک دن عبدالله ابن مسعود ات نی تاخیر سے نمازجماعت میں پہنچے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پیغمبر افتتاحی تکبیر (یعنی تکبیرةالاحرام)کہہ چکے تھے اورابن مسعوداس تکبیرکوحاصل نہ کرسکے تواس کے عوض ایک بندہ آزاد کیا ،اس کے بعد پیغمبراسلام کی خدمت میں ائے اورعرض کیا:یانبی الله!کیاایک غلام کے آزادکردینے سے مجھے جماعت کی اس تکبیرکاثواب حاصل ہوگیاہے جسے میں درک نہیں کرپایاتھا؟رسول خدا (صلی الله علیه و آله)نے جواب دیا:ہرگزنہیں،یہ جواب سن کرعبدالله ابن مسعودنے عرض کیا:اگرمیں ایک اورغلام آزادکردوں؟ آنحضرت نے فرمایا:اے ابن مسعود!اگرتم جوکچھ زمین وآسمان میں ہے اس کو راہ خدا میں انفاق کردوپھربھی اس تکبیرکاثواب حاصل نہیں کرسکتے ہو۔. جامع الاخبار/ص ٩١ ۔ ٩٢
صف اول کی فضیلت
مستحب ہے کہ انسان نمازجماعت کی پہلی صف میں خصوصاامام جماعت کے پیچھے حاصل کرے لیکن یہ بھی مستحب ہے کہ بزرگ وافضل ومتقی لوگ امام کے پیچھے کھڑے ہوں،پہلی صف میں کھڑے ہوکرنمازپڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے ،اس بارے میں چندروایت ذکرہیں:
قال ابوالحسن موسی الجعفرعلیہماالسلام :ان الصلاة فی صف الاول کالجہادفی سبیل الله عزوجل ۔
حضرت امام موسیٰ بن جعفر فرماتے ہیں : صف ا ول میں کھڑ ے ہو کر جماعت کے ساتھ پڑھنا راہ خدا میں جہا د کرنے کے مانندہے ۔. من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٨۵
عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:افضل الصفوف اوّلہاوافضل اوّلہادنامن الامام۔ امام محمدباقر فرماتے ہیں:سب سے افضل وبرترپہلی صف ہے اورپہلی صف میں امام کے قریب والی جگہ سب سے افضل ہوتی ہے۔. وسائل الشیعہ/ج ۵/ص ٣٨٧
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:من حافظ علی الصف الاول والتکبیر الاولی لایوذی مسلما اعطاہ اللھمن الاجر مایعطی المو ذٔن فی الدنیاوالآخرة ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص پہلی صف میں نمازپڑھتاہے اورپہلی تکبیرکودرک کرلیتاہے کوئی بھی مسلمان اسے اذیت نہیں پہنچاسکتاہے اورخداوندعالم اسے وہی اجروثواب عطاکرتاہے جوایک مو ذٔن کودنیاوآخرت میں عطاکرتاہے ۔ . من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ١٨
نمازجماعت کانقطہ آغاز
اس میں کوئی شک نہیں ہے اورکتب تواریخ میں بھی یہی ملتاہے کہ جس وقت سے خداوندعالم نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)درجہ رسالت مبعوث کیا اورآپ کوپہلے آپ کواپنے اقرباء کے لئے تلیغ دین کاحکم ملااوراس کے بعدکھلی کوئی تبلیغ کرنے کے لئے حکم خداملاتوسب سے پہلے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ایمان لائے اس کے بعدحضرت خدیجہ ایمان دین اسلام سے مشرف ہوئیں اورجیسے ہی پروردگارنے آنحضرت کونماز پڑھنے کاحکم دیاتو آپ نے امام علی (علیه السلام)اورخدیجہ کے ساتھ نمازجماعت قائم کی اورزندگی میں کبھی بھی جماعت کے بغیرنمازادانہیں کی ۔
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)وہ ذات گرامی ہیں کہ جنھوں نے زندگی میں کبھی فرادیٰ نمازنہیں پڑھی ہے بلکہ ہمیشہ اپنی واجب نمازوں کوجماعت سے پڑھے تھے اورآغازاسلام کے بعدسے چھ مہینہ تک صرف تین شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)،حضرت علی اورجناب خدیجہ کے درمیان نمازجماعت قائک ہوتھی ۔
اسماعیل ابن ایاس ابن عفیف کندی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ: میں ایک تاجرآدمی تھا،جب میں تجارت کے لئے زمانہ جٔاہلیت میں شہرمکہ میں داخل ہو ا اورتجارت کاسامان خریدنے کے لئے عباس ابن عبدالمطلب کے پاس پہنچاکیونکہ وہ بھی ایک تاجرشخص تھے ، ہم دونوں (خانہ کعبہ کے نزدیک کھڑے ہوئے )ناگہاں میں نے کعبہ کے قریب ایک خیمہ سے ایک جوان نکلتے ہوئے دیکھا،وہ جوان کعبہ قریب آئے ،میری نگاہوں نے ات ناحسین چہرہ آج تک کبھی نہیں دیکھاتھا،وہ جوان کعبہ کے مقابل آکر کھڑے ہو ئے اورسورج کس طرف دیکھا(کہ نمازکے وقت ہوگیاہے یانہیں )اس کے بعدوہ جوان نمازکے لئے کھڑے ہوگئے ،اسی وقت ایک بچہ اورایک عورت خیمہ سے باہرنکلے وہ بچہ آکر دائیں جانب کھڑا ہوگیااوروہ عورت ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی ،ہماری نگاہوں نے دیکھا کہ وہ بچہ اور عورت اپنے آگے کھڑے ہونے کی شخص کی اتباع کررہے ہیں، اگر وہ رکوع میں جاتے ہیں تو یہ دونوں ان کے ساتھ رکوع میں کرتے ہیں اور اگر وہ سجد ہ کرتے ہیں تو یہ دونوں بھی ان کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں ، اس بے سابقہ منظرکودیکھ کرمیرے جسم پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی ،اور میرے اندر ہیجان پیدا ہوگیا لہٰذا میں نے نہایت تعجب کے ساتھ عباس ابن عبدالمطلب سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس نے جواب دیا:
وہ شخص جوآگے کھڑے ہوئے ہیں محمد ابن عبدالله (صلی الله علیه و آله)ہیں اور وہ بچہّ عبدالله کے بھائی عمران کے فرزند علی ابن ابی طالبہیں اور وہ عورت جو پیچھے کھڑی ہو ئی ہیں وہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی ہمسر خدیجہ ہیں، اس کے بعد عباس ابن مطلب نے کہا:میرے چچازاد بھائی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: ایک دن وہ بھی آئے گا کہ جب قیصروکسریٰ کا پورا خزانہ ہمارے اختیار میں ہو گا ، لیکن خدا کی قسم اس وقت پوری کائنات میں اس مذہب کی پیروی کرنے والے صرف یہی تین لوگ ہیں،اس کے بعد راوی کہتاہے :اے کاش !خداوندعالم مجھے ات نی توفیق دیتاکہ آنحضرت کے پیچھے اس وقت ) نمازپڑھنے والوں علی (علیه السلام) کے بعددوسراآدمی ہوتا۔( ٢ --------. ٢(مناقب امیر المومنین /ج ١/ص ٢۶١ ۔ینابیع المو دٔة /ج ٢/ص ١۴٧ (
امام علی ابن طالب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پیچھے نمازپڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں:اناعبدالله ، واخورسول الله ، واناالصدیق الاکبر، لایقولہابعدی الّاکاذب مفتری ولقدصلیت ) مع رسول الله (ص)قبل الناس بسبع سنین وانااوّل من صلی معہ .( ١ میں بندہ خداہوں اوررسول خدا (صلی الله علیه و آله)کابھائی ہوں اورمیں ہی صدیق اکبرہوں اورمیرے بعد صدیق اکبرہونے کادعویٰ کرنے والاشخص خالصتاًجھوٹ بولتاہے اورجن لوگوں نے سب سے پہلے رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کی ہے میں نے ان لوگوں سے سات سال پہلے آنحضرت کے پیچھے نمازیں پڑھناشروع کردی تھی اورمیں ہی پہلا وہ شخص ہوں جسنے آنحضرت کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔١(الغدیر/ج ٣/ص ٢٢١ ۔سنن کبروی /ج ۵/ص ١٠٧ (
مرحوم ثقة الاسلام شیخ ابوجعفرکلینی کتاب “کافی ”میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں: عن ابی جعفر علیہ السلام قال:لمااسریٰ برسول الله صلی الله علیہ وآلہ الی السماء فبلغ البیت المعموروحضرت الصلاة فاذن جبرئیل واقام فتقدم رسول صلی الله علیہ وآلہ وصف الملائکة والنبیون خلف محمدصلی الله علیہ وآلہ.
حضرت امام باقر فرماتے ہیں:جب شب معراج پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کو آسمان پرلے جایاگیاتو آنحضرتبیت المعمورمیں پہنچے ،جیسی ہی نمازکاوقت پہنچاتوالله کی طرف سے جبرئیل امین (علیه السلام)نازل ہوئے اوراذان واقامت کہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کے لئے آگے کھڑے ہوئے اورانبیا(علیه السلام)وملائکہ نے آنحضرتکے پیچھے صف میں کھڑے ہوکرجماعت سے نمازپڑھی ۔. کافی (باب بدء الاذان والاقامة)ج ٣/ص ٣٠٢
روایت میں آیاہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)شدید گرمی کے ایام میں بھی نمازظہر وعصرکے لئے جماعت قائم کرتے تھے لیکن منافقین کاایک گروہ جومومنین کی صفوں میں تفرقہ ایجادکرنے کے لئے گرم ہواکوبہانہ قراردیتے تھے اورنمازجماعت میں شرکت نہیں ہوتے تھے بلکہ دوسرے لوگوں کونمازجماعت میں شریک ہونے سے منع کرتے تھے ،ان کے اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے نمازجماعت میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی اوریہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی:
> حَاْفِظُواعَلَی الصّلَوٰت وَالصَّلٰوةِالْوُسْطیٰ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْن< تم اپنی نمازوں بالخصوص نمازوسطیٰ نمازظہرکی محافظت اورپابندی کرو اورالله کی بارگاہ میں خضوع وخشوع کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔
. سورہ بٔقرة /آیت ٢٣٨ . تفسیرنمونہ /ج ٢/ص ١۴۶
ان مذکورہ احادیث سے یہ واضح ہوتاہے کہ اجیسے ہی نمازکے وجوب کاحکم نازل ہواتواسی وقت پہلی ہی نمازمیں جماعت کی بنیادرکھ دی گئی تھی اورآغازسلام ہی سے نمازجماعت کاآغازہوچکاتھااورشب معراج ایک عظیم نمازجماعت برگذارہوئی کہ جبرئیل امین نے اذان واقامت کہی اوراس کے بعدانبیائے الٰہی اورتمام ملائکہ نے آنحضرت کے پیچھے نمازجماعت پڑھ کراپنے لئے فخرومباہات کیا۔
روئے زمین پرایک اورنمازبڑے عظمت وقارکے ساتھ برگذارہوگی کہ جب ہمارے آخری امام ظہورفرمائیں گے اور آسمان سے عیسیٰ (علیه السلام)بھی آکراس نمازمیں شرکت کریں گے ،خداوندعالم سے دعاہے کہ بہت جلدامام زمانہ کرے اورہمیں ان کے اصحاب وانصاراوران کے مامومین سے قراردے(آمین بارب العالمین)۔
رازجماعت
دین اسلام میں نمازجماعت کے قائم کرنے کی چندوجہ بیان کی گئی ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ نمازکے ذریعہ کے مسلمانوں کے درمیان اتحادقائم ہوتاہے ،مومنین کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے ،احوال پرسی ہوتی ہے ،سب ایک دوسرے کی خبررکھتے ہیں۔ امام علی بن موسی الرضا +فرماتے ہیں:دین اسلام میں نمازجماعت کواس لئے قراردیاگیاہے تاکہ اس کے ذریعہ اخلاص،توحید،اسلام اورعبادت خداندی ظاہری طورسے بھی اظہارہوجائے کیونکہ نمازجماعت کے اظہارکے ذریعہ عالم شرق وغرب کے لئے خداوندعالم کے بارے میں ایک دلیل قائم ہوجاتی ہے اورنمازجماعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ منافق لوگ جونمازہلکااورآسان کام شمارکرتے ہیں وہ اس چیزپرمجبورہوجائیں جس چیزکاظاہر ی طورسے اقرارکرتے ہیں اس کاسب لوگوں کے سامنے اقرارکرے اوراس چیزکے پابندجائیں جووہ اپنی زبان سے اسلام کے بارے میں اظہارکرتے ہیں اورنمازجماعت کے قراردئے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نمازجماعت میں حاضرہونے والے لوگ ایک دوسرے کے مسلمان اورمتقی وپرہیزگارہونے کی گواہی دے سکیں۔. علل الشرایع /ج ١/ص ٢۶٢
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال : انماجعلت الجماعة والاجتماع الی الصلاة لکی یعرف من یصلی ممن لایصلی ، ومن یحفظ مواقیت الصلاة ممن یضیع.
امام صادق فرماتے ہیں :دین اسلام میں نمازجماعت کواس لئے قراردیاگیاہے تاکہ اس کے ذریعہ نمازپڑھنے والوں کی نمازنہ پڑھنے والوں سے پہچان ہوسکے اوریہ معلوم ہوجائے کہ کون لوگ اوقات نمازکی پابندی کرتے ہیں اورکون نمازکوضایع کرتے ہیں ۔. وسائل الشیعہ/ج ۵/ص ٣٧٧
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نمازجماعت کے وجہ مومینن ومسلمین کے درمیان اتحادبرقرار ہوتاہے مومنین صبح ،دوپہراورشام میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں،احوال پرسی کرتے ہیں، دین اسلام میں نمازجماعت کواسی لئے مقررکیا گیاہے کہ تاکہ صبح سویرے مومن بھائی ایک دوسرے سے ملاقات کریں ایک دوسرے کی احوال پرسی کریں اورپھردوبارہ ظہرمیں ملاقات کریں اوررات میں بھی ملاقات کریں اورنمازجماعت کواس لئے مقررکیاگیاہے تاکہ بستی کے لوگ آپس میں متحدرہیں اورکوئی ان کے خلاف کسی طرح کاپروپیگنڈہ نہ پھیلائے لیکن اس طرح بھی دیکھنے میں آتاہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی وجہ سے امام جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلاتے ہیں اورپیش نمازپرمختلف طریقہ سے اعتراض کرتے ہیں یہاں کہ اسلام کالباس پہن کرمسجدمیں حاضرہوتے ہیں اوریہ نبی کے زمانے میں ہوتاتھااورمنافقین لوگ مسلمانوں درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے گرمی یاسردی کوبہانہ قرادیتے تھے اورکہتے تھے اس گرمی میں کس نماپڑھیں اورپیغمبرکی باتوں پراعتراض بھی کرتے تھے ۔
مسٹر ہمفر(جو حکومت برطا نیہ لئے مسلمانوں کی جاسوسی کرتاتھا) لکھتا ہے کہ :مسلمانوں کے درمیان اتحادوہماہنگی کوختم کرنے کاصرف ایک ہی راستہ ہے اوروہ یہ کہ ہے نماز جماعت کوختم کیاجائے اوراسے ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ امام جمعہ وجماعت کے خلاف غلط خبریں شایع کی جائیں ،ان پرطرح طرح کی تہمتیں لگائی جائیں ،ان کے خلاف پروپیگنڈ ہ پھیلا جائے اور لوگوں کو علما ء دین وآئمہ جماعات سے بدظن کیاجا ئے اور لوگوں کوان کا استقبا ل کم کرنا چاہئے بالخصوص ضروری ہے کہ امام جماعت کے فاسق وفاجر ہونے پر دلیلیں قائم کی جا ئیں تاکہ لوگ ان سے بدطن ہوجائیں اور اس سوء ظن کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ ان کے دشمن ہو جائیں اور پھر ان کے پیچھے کوئی نماز نہیں پڑھے گا اور علماء وامام جماعت کالوگوں سے رابط ختم ہوجائے۔. ہزارویک نکتہ دوربارہ نٔماز.ش ١۵۵ /ص ۴٩
”ہرس لیف” کہتاہے : میں نے زندگی میں بہت زیادہ کلیساومعبدکادیدارکیاہے کہ جن میں کسی طرح کی کوئی مساوات نہیں پائی جاتی ہے اورمسلمانوں کے بارے میں بھی میرایہی خیال تھاکہ ان کی عبادتگاہوں میں بھی کوئی اخوت ومساوات نہیں پائی جاتی ہوگی لہٰذاخیال یقین میں بدلنے کے لئے عیدالفطرکے دن ان کی مسجدوں کانظارہ کرنے کے لئے شہرمیں گھومنے نکلا ،جب لندن کی “وو کنج ” مسجد کانظارہ کیاتومیری نگاہوں میں ایک عجیب منظردیکھنے میں آیااور میرے دل نے مجھ سے کہا :عالیترین مساوات تومسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے ۔
وہ کہتاہے کہ: میں نے مسجدمیں دیکھاکہ مختلف قسم کے لوگ ، گورے ،کالے ،عالی ، دانی ، شہری دیہاتی امیروغریب سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور سب اخوت وبھائی چارہ کے ساتھ اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہیں اوراسی طرح کامنظرممباساشہرکی نوبیا مسجد کے دیکھنے پیش آیاوہاں بھی میری نگاہوں دیکھاکہ کسان،مزدور اور سیاستمدار لوگ نہایت خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگارہے ہیں ،ہاتھ میں ہاتھ دے رہے ہیں ،مصافحہ کررہے اورسب ایک دوسرے کوعیدکی مبارکبادپیش کررہے ہیں ، منصب دار لوگ نماز میں کسی دوسرے کے پاس کھڑے ہونے میں کوئی حماقت محسوس نہیں کر رہے ہیں ، وہاں پر کسی کو اپنی بزرگی کا خیال نہیں ہے بلکہ سب خدا کی بار گاہ میں برابرکا درجہ رکھتے ہیں ، کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر برتری نہیں رکھتا ہے، جسوقت میں نے امام جماعت سے ملاقات کی (جوزندگی میں کسی مذہبی رہنماسے پہلی ملاقات تھی )انھوں نے مجھ سے کہا : مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ تما م انبیاء برحق ہیں اور جوکتاب خدانے ان پر نازل کی ہیں وہ بھی برحق ہیں ، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ تمام باتیں جو میں نے مسلمانوں کے خلاف سنی تھیں وہ سب غلط ثابت ہورہی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین اسلام صلاحیت رکھتا ہے کہ پورے دنیا کے لوگ اسے قبول کریں۔. ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز.ش ۶۴۴ /ص ٢٠۶
شیخ الرئیس ابوعلی سینا نے ایک خط ابوسعید ابی الخیرکی خدمت میں ارسال کیا اور لکھا : جس جگہ الله کی عبادت کریں گھر میں یامسجد میں یاصحرا میں اور اس سے کوئی چیزطلب کریں وہ جواب ضروردیتا ہے اورتمناؤں کو پوری کرتا ہے پھرکیاضروری ہے انسان مسجد میں جائے اور نمازکوجماعت سے اداکرے جبکہ خداوند متعال رشہ رگ سے بھی زیادہ انسان سے قریب ہے چاہے ؟ ابوسعید نے ابوعلی سینا کے خط کا جواب دیا اور اس میں ایک بہت عمدہ مثال لکھی:
اگر کسی مکان میں متعدد چراغ روشن ہو ں اور ان میں سے ایک چراغ خاموش ہو جائے تو روشنی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہو گی کیونکہ ابھی دوسرے چراغ روشن ہیں اس لئے اندھیراہو نے کا امکان نہیں ہے لیکن اگر وہ تمام چراغ جداجداکمرے میں روشن ہوں تو جس کمرے کا بھی چراغ خاموش ہو جائے گا اس میں اندھیرا چھاجائے گا انسان بھی ان چراغوں کے مانند ہیں کیونکہ جولوگ گناہوں میں الودہ ہیں اگر وہ گھرمیں (یامسجدمیں)فرادیٰ نماز پڑھتے ہیں تو اس خاموش چراغ کے مانند ہیں جسمیں ہرگزنورنہیں پایاجاتاہے اورایسے لوگوں کی نماز ان کو بہت ہی کم فائدہ پہنچا تی ہے ،بلکہ ممکن ہے ایسے لوگ رحمت وبرکات الہٰی سے بھی محروم ہوجائیں .
مسجدمیں نیک وصالح لوگ بھی نمازمیں شریک ہوتے ہیں لہٰذااگرتمام لوگ مسجد میں آکر جماعت سے نمازیں پڑھیں توشاید خداوندعالم ان نیک وصالح لوگوں کے حاضرہو نے کی وجہ سے ان گناہگا رلوگوں کی بھی قسمت بیدار ہو جائے اور خدا کی رحمت وبرکات نازل ہو نے لگیں۔
. ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۵٧٣ .ص ١٨١
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3797&link_book=jurisprudenece_principles_library/jurisprudenece_science/various_books/nimaz