مقبوضہ فلسطین کے دارالحکومت یروشلم کے مشرقی حصے میں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے- سینکڑوں برس قدیم یہ عمارت معروف معنوں میں بیت المقدس بھی کہلاتی ہے- وہ عظیم، بے مثال اور مقدس مقام ہے جہاں سے اللہ کے آخری رسول معراج شریف کے سفر پر روانہ ہوئے تھے، جہاں سینکڑوں پیغمبر، صحابہ کرام اور اولیاء اللہ خالق کائنات کے حضور سجدہ ریز ہو چکے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جس کی طرف منہ کرکے اولین مسلمانوں نبی کریم کی امامت میں تیرہ ماہ کچھ دن نماز ادا کرتے رہے- اسرائیلی یہودی گزشتہ سات عشروں کے دوران متعدد بار مسلمانوں کے قبلہ اول کے خلاف گھناؤنے اقدامات اور مکروہ سازشیں کرچکے ہیں- کبھی اسے خفیہ طور پر نذر آتش کرنے کی مذموم جسارت کی گئی اور کبھی یہودی ربائیوں نے اس مقدس مقام کو خفیہ سرنگوں کے ذریعے ڈائنامائیٹ کرنے کی گندی حرکتیں کیں- دنیا بھر کے مسلمان، عرب لیگ اور آئی سی ہر بار ان یہودی ہتھکنڈوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ چند برسوں کے بعد دوبارہ ان سازشوں میں لگ جاتے ہیں ان ہتھکنڈوں کو اپنا ‘‘ مذہبی فریضہ‘‘ قرار دیتے ہیں- اب ایک بار پھر قبلہ اول کے خلاف صہیونی یہودیوں نے ایک غلیظ اور دل آزار اقدام کیا ہے-
قومی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی صہیونی حکومت نے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کے احاطے میں کینسا (یہودی عبادت گاہ) کی تعمیر شروع کردی ہے اوریوکرائن کے تعاون سے یہودی معبد کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے انتہاء پسند یہودی ذرائع کے مطابق مسجد اقصی کے احاطے میں یہودی معبد کی تعمیر دراصل ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا آغاز ہے- مسجد اقصی مسلمانوں کا تیسرا متبرک ترین مقام ہے- صہیونی درندے اس پر عرصہ دراز سے نہ صرف قابض ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً اس کی بے حرمتی بھی کرتے رہتے ہیں- صہیونیوں کے مذموم عزائم میں مسجد اقصی کے مقام پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر شامل ہے- مسجد اقصی کے احاطے میں معبد کی تعمیر اس سلسلہ سازش کی ایک کڑی ہو سکتی ہے- مسجد اقصی کی بے حرمتی کے نتیجے میں ہی اسلامی کانفرنس تنظیم وجود میں آئی تھی لیکن یہ تنظیم عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے توجہی اور بے حسی کے سبب کار تنظیم ثابت ہوگئی ہے- اس نے مسلمانوں کے قبلہ اول کی بازیابی تو درکنار اس کے تحفظ کے لیے بھی آج تک کچھ نہیں کیا- یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکمرانوں اور صہیونیوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ اپنے عقیدے کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے مختلف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور بتدریج اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ 57 مسلم آزاد ریاستوں کے حکمرانوں کی حمیت نہیں جاگ رہی- ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دبائو میں انہوں نے اسلامی کانفرنس تنظیم تو بنا لی تھی لیکن آج تک ان حکمرانوں نے نہ تو عالم اسلام کو درپیش مسائل ہی اس تنظیم کے ذریعے حل کیے ہیں، نہ ان میں آپس کا کوئی ایسا اتحاد و یکجہتی دیکھنے میں آئی ہے-
جیسا اتحاد مغربی ملکوں نے بنا رکھا ہے اور نہ ہی ان 57 مسلم ملکوں کے حکمرانوں نے مسجد اقصی کے تحفظ کے لیے کوئی اقدام کیا ہے جبکہ تنظیم کا وجود ہی مسجد اقصی کے مسئلے کے حل کا سبب بنا تھا- اس کے برعکس اسرائیل کی پوری تاریخ فلسطین و قبلہ اول کے خلاف سازشوں کی تاریخ رہی ہے اور اسرائیل کے بین الاقوامی سرپرست اسے مزید گھنائونی اور سنگین سازشوں کے مواقع فراہم کر رہے ہیں-
موجودہ حالات میں جبکہ اسرائیل فلسطینیوں کو تقسیم کرچکا ہے، غزہ پر بڑے حملے کی تیاریاں کر رہا ہے، شام کے اندر گھس کر کارروائی کرچکا ہے، اندیشہ بے جا نہیں ہوگا کہ وہ مسجد اقصی کے حوالے سے کوئی بڑا بحران پیدا نہ کرے-
اسرائیل کا سرپرست امریکہ پہلے ہی عراق کے حصے بخرے کرنے کا اعلان کر چکا ہے، فلسطین، لبنان، شام اور ایران سمیت پورے خطے میں استعماری طاقتوں نے آگ لگانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ مسلم ممالک آج بھی منتشر ہیں بلکہ بڑی حد تک استعمار کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں- یہ صورتحال اسرائیل کو قبلہ اول کے خلاف کسی بھی مذموم منصوبے پر عملدرآمد کے لیے اکسا سکتی ہے، جس کا ادراک مسلم عوام کو تو ہے لیکن حکمرانوں پر بے حسی کا عالم ہے- قبلہ اول کی اس پکار پر مسلم حکمرانوں کی حمیت شاید ہی جاگے البتہ مسلم عوام اس صورت حال کو برداشت نہیں کریں گے اور صہیونی قوت کو وہی بھرپور جواب دے سکتے ہیں دوسری جانب القدس کے علاقے کو یہودی آبادی کا اکثریتی علاقہ بنانے کے لیے دنیا بھر کی یہودی تنظیمیں یہودی خاندانوں کو اس علاقے میں اراضی کی خریداری کے لیے فنڈز فراہم کررہی ہیں اور صہیونی حکومت بھی یہودی خاندانوں کو مراعات فراہم کررہی ہے، فلسطینی راہنمائوں کو چاہیے کہ وہ علاقے میں آباد فلسطینی باشندوں کو روکیں کہ وہ یہودیوں کو اراضی فروخت نہ کریں مجبور اور گھرے ہوئے فلسطینیوں کی مدد کی جانی چاہیے اور اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں جاری اس عمل کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج بھی کیا جانا چاہیے- اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس سے مسلمان فلسطینیوں کے انخلاء کے اس عمل کو روکنے کے اقدامات کریں-
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=38699