مرجع تقلید شیعیان و انقلاب اسلامی کے رہبر معظم حضرت آیة اللہ العظمی خامنہای نے امیر المؤمنین علی (ع) کے یوم ولادت کی مناسبت سے اپنے خطاب میں حضرت امیر (ع) کے بارے میں نہایت اہم نکات بیان کئے. رہبر معظم عرصہ دراز سے اتحاد بین المسلمین کے سنجیدہ تریان اور اصلی ترین علمبردار سمجھے جاتے ہیں اور مختلف مواقع پر اپنی زبان وقلم کے ذریعے اتحاد کے لئے کوشان رہے ہیں.
آپ نے اپنے مذکورہ خطاب میں ایک نہایت اہم اور امت اسلامی کے لئے بدیع تزویراتی موضوع پر بحث فرمائی ہے.
انقلاب اسلامی کے رہبر معظم نے اس خطاب میں «اسلامی فرقوں کے درمیان حضرت امیرالمؤمنین (ع) کی مقام و منزلت» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وحدت کے ایک عینی جلوے کو علامت وحدت میں تبدیل کردیا.
آپ نے فرمایا: «امیرالمؤمنین (ع) ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن کی عظمت، خصوصیات اور شان و منزلت کے سلسلے میں تمام اسلامی فرقے متفق الرائے ہیں؛ چنانچہ جرأت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ علی ابن ابی طالب (ع) اسلامی فرقوں کے درمیان مفاہمت، یکجہتی اور اشتراک نظر و عمل کا نقطہ قرار دیا جاسکتا ہے. تمام ادوار میں مٹھی بھر نواصب کے سوا – جو اسلامی فرقوں سے باہر ہیں – تمام اسلامی فرقے امیر المؤمنین علیہ الصلواة و السلام کی حیثیت کو اعلی و ارفع اور ممتاز سمجھتے رہے ہیں اور آپ فریقین – شیعہ و سنی مکتب – کی کتابوں میں اس حقیقت کا بخوبی ملاحظہ کرسکتے ہیں...».(1)
آپ کا یہ موقف علماء اور محققین کی جانب سے تحقیق و تمحیص کا موضوع بننا چاہئے اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں علی (ع) کی شخصیت سے دو قسم کا استفادہ کیا گیا ہے. ایک طرف اس عظیم شخصیت کو انتہائے وحدت و اتفاق کی علامت کے طور پر مورد استفادہ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف سے اسی شخصیت کو انتہائے افتراق و اختلاف کا سبب قرار دیا گیا ہے اور اسی سلسلے میں اس شخصیت سے استفادہ بھی کیا گیا ہے. یعنی یہ کہ یہ شخصیت ایک ہی وقت میں اتحاد و اتفاق کا معیار بھی رہی ہے اور اختلاف و افتراق کی میزان بھی.
نظر یوں آتا ہے کہ مسلم امہ نے رسول اکرم (ص) کے انتقال کے بعد – خاص طور پر تیسری صدی ہجری کے بعد – زیادہ تر مواقع پر علی (ع) کی بےمثل شخصیت کے بارے میں اپنے اختلاف انگیز تفاسیر و تشریحات پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور مسلم اتحاد و ہماہنگی کے حوالے سے اس شخصیت کی حقیقی پہلؤوں سے غافل رہی ہے.
اس لحاظ سے ایک مسلمان مذہبی – سیاسی شخصیت – جو کسی شخص یا گروہ کے ساتھ مباحثہ یا مکالمہ نہیں کررہے تھے – شاید پہلی بار علی (ع) کی شان و منزلت کو اتحاد کا محور قرار دیا ہے؛ اس کا سبب یہ ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان علی (ع) کی شخصیت کے حوالے سے بےمثل اجماع اور اتفاق رائے قائم ہوا ہے: «دنیا کے تمام مسلمان امیرالمؤمنین (ع) کے بارے میں اس حقیقت کے قائل ہیں ... کہ آپ (ع) نے ذرہ برابر بھی اور ایک لمحے کے لئے بھی رسول اللہ کی فرمانبرداری سے سرتابی نہ کی؛ کوتاہی نہ کی؛ بچپن سے نوجوانی تک اور دور شباب سے عمر کے آخری لمحوں تک اسلام کے لئے جہاد و مجاہدت سے ایک دقیقہ بھی فروگذاشت نہ کیا».(2)
اشاعرہ، معتزلہ، زیدیہ، اسماعیلیہ، امامیہ جیسے کلامی فرقوں یا حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی اور شیعہ جیسے فقہی فرقوں کی کتابوں سمیت حدیث کی کتابوں میں بھی امیر المؤمنین (ع) کی ذات با برکات کے سلسلے میں واضح نصوص نقل ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ علی (ع) کی شخصیت کتنی ممتاز اور بی مثل ہے. حتی کہ آج کے زمانے میں خوارج کے پسماندگان جو «اباضیہ» کہلاتے ہیں؛ اپنے اسلاف کے موقف کو معتدل کرکے علی (ع) کی تحسین و تمجید کرتے ہیں.
اہل سنت کے کلامی فرقوں کے درمیان معتزلی فرقہ، خاص طور پر بغداد کے معتزلی، - جن میں «ابن ابی الحدید معتزل» بھی شامل ہیں، محبت اہل بیت (ع) کے حوالے سے مشہور تھے. اہل سنت کے چار امام خود بھی اہل بیت کی محبین میں سے تھے؛ چنانچہ «ابوحنیفہ» اور «شافعی» پر تشیع کا الزام لگایا گیا ہے. ابوحنیفہ اور «مالک بن انس» نے «زیدبن علی بن الحسین (ع)» کے قیام اور «حسنیوں» کے قیام کے دوران ان کے حق میں فتوے جاری کئے.(3) «احمد بن حنبل» نے بھی «عثمانیہ» مذہب کو معتدل بنانے اور علی (ع) کے فضائل کی قبولیت کے حوالے سے نہایت مؤثر کردار ادا کیا ہے.(4)
شافعی نے علی (ع) اور آل علی (ع) کی مناقب و فضائل میں ایسے اشعار کہے جن کی بنا پر ان پر رافضیت کا الزام لگایا گیا لیکن انہوں نے پسپائی اختیار کرنے کی بجائے محبت اہل بیت (ع) کو اپنے لئے اعزاز و افتخار قرار دیا اور کہا:
قالوا ترفضت قلت کلا
ما الرفض دینی و لا اعتقادی
ان کان رفضا حب آل محمد
فلیشهد الثقلان انی رافضی
لکن تولیت دون شک
خیر امام و خیر هادی
ترجمہ:
لوگوں نے کہا تم رفض کے مرتکب ہوئے ہو
میں نے کہا ہرگز نہیں! رفض نہ میرا دین ہے نہ ہی میرا عقیدہ
لیکن اگر رفض سے مراد حب آل محمد ہو
تو دو جہان گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں
مگر [جان لیں کہ] میں بے شک
بہترین امام اور بہترین ہادی و راہبر کا محب ہوا
اسی بنیاد پر اہل سنت کے متعدد علماء اور دانشوروں نے اہل بیت (ع) اور علی (ع) کی محبت پر اصرار کیا ہے اور مٹھی بھر انتہاپسندوں کی طرف سے ان پر رفض اور تشیع کا الزام لگا ہے.(6)
«حاکم ابو عبداللہ نیشابوری»، «خثیمة بن سلیمان»، «عبد الرزاق بنیہمام»، «محمد بن طلحة بن عثمان»، «محیالدین اموی»، «محمد بن جریر طبری»(7) «نسائی» جیسے علماء اور حتی اہل سنت کے اکابرین میں «ابن عبد البر» جیسے دانشور محبین اہل بیت (ع) میں شمار ہوتے ہیں. اس کے علاوہ اہل سنت کی متعدد کتابوں میں امیر المؤمنین علی (ع) کے بارے میں خلفاء کا موقف بھی درج ہے؛ چنانچہ بعض مؤلفین نے علی (ع) کی مدح میں خلفاء سے 45 حدیثیں نقل کی ہیں اور یہ ساری حدیثیں اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں.(8)
ایک محقق نے علی (ع) کی شان میں نازل ہونے والی 60 آیات قرآنی کا ذکر کیا ہے.(9) «ابنحجر عسقلانی»، «سیوطی»، «قندوزی حنفی»، «ہیثمی»، «نبہانی»، «متقی ہندی»، «ابن اثیر»، «ابن کثیر»، «ابن جوزی»، «ترمذی»، «امام احمد بن حنبل»، «بخاری»، «سبکی»، «ابویعلی»، «طبرانی»، «ذہبی»، «شیبانی»، «صفدی»، «نقشبندی»، «ابن ابیالحدید»، «قاضي عبد الجبار»، «ابن عساکر»، «حموینی»، «خوارزمی»، «محب طبری»، «شافعی»، «محمد بن سعد کاتب واقدی»، «ابن طقطقی»، «دیلمی»، «نجمالدین شافعی» جیسے اکابرین فقہ و حدیث اہل سنت نے علی (ع) کے وصف و منقبت اور ضرورت محبت میں دسیوں حدیثیں نقل کی ہیں؛ یہاں تک کہ مأمون عباسی نے بعض سنی علماء کے ساتھ مناظرہ کرتے ہوئے اصحاب نبی (ص) پر علی (ع) کی افضلیت کے اثبات میں ان ہی احادیث کا سہارا لیا ہے.(10) دور معاصر میں اہل سنت کے اعلی مرتبت محققین (11) جیسے «حسن ابراہیم حسن»، «عمر ابو النصر»، «سعید ایوب»، «طہ حسین»، «عبد الفتاح عبدالمقصود»، «عباس محمود عقاد»(12) اور «محمد عمارہ» (13) نے علی (ع) کے فضائل کے حوالے سے قلم فرسائی کی ہے.
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سارے مسلمان علی (ع) کے ساتھ اپنے تعلق خاطر کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور وہابیت کے حامی – گوکہ مذہب تشیع کے ساتھ عداوت و عناد کے حوالے سے مشہور ہیں – علی (ع) کے مقام خاص کا انکار نہیں کرسکتے اور گاہے بگاہے ان کی زبان و قلم سے بھی فضائل علی (ع) مترشح ہوتے رہتے ہیں.
چنانچہ جیسا کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: علی (ع) کی بے بدیل، درخشان اور عظیم شخصیت تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک مورد اتفاق و اجماع ہے اور یہ شخصیت تمام اسلامی فرقوں اور فکری مکاتب کے درمیان وحدت و ہمدلی کا بنیاد و اساس قرار دی جاسکتی ہے. اس اساس و اصول کے مطابق پہلے مرحلے میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کو امیرالمؤمنین (ع) کی ذات با برکات کے گرد اکٹھا ہونا پڑے گا اور دو طرفہ احترام کی بنیاد پر امت اسلامی کے مصالح و مفادات کے حوالے سے سرگرم عمل ہونا پڑے گا.
یہ ایک ایسی اسٹریٹجی ہے جو درحقیقت علی (ع) کی عملی سیرت کے تسلسل میں واقع ہوئی ہے؛ چنانچہ آپ (ع) خلفاء کی نماز جمعہ و جماعت میں حاضر ہوجایا کرتے تھے (14) ؛ انہیں مفید مشورے دیا کرتے تھے؛ اپنے پیروکاروں کو مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہونے کی دعوت دیا کرتے تھے؛ اپنے حق کو نظرانداز کئے بغیر، مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کے لئے کوشان رہتے تھے؛ اپنے دوستوں کو اپنے مخالفین کی توہین سے منع کیا کرتے تھے؛ تفرقہ آمیز اور اشتعال انگیز سوالات کا جواب دینے سے گریز فرمایا کرتے تھے اور اس طرح کے سوالات پوچھنے والوں کو دشمن کی سازشوں کا حوالہ دے کر اتحاد کی دعوت دیا کرتے تھے.(15)
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان – خاص طور پر مسلم علماء و دانشور – اختلاف انگیزی سے پرہیز کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے افکار و عقائد کی توہین سے منع کریں؛ انہیں دشمنان اسلام کی واضح و آَشکار دشمنیوں کی طرف متوجہ کریں؛ اور وحدت و یکجہتی کے سلسلے میں مضبوط عملی اقدامات عمل میں لائیں جیسا کہ انقلاب اسلامی کے رہبر معظم نے بارہا و بارہا تاکید فرمائی ہے.
اس جدید حکمت عملی کے تحت تمام اسلامی فرقے علی (ع) کی شخصیت کے محور پر اپنی رائے و نظر کو مجتمع کرکے ایک دوسرے کی تکریم کا لحاظ رکھتے ہوئے دشمنان اسلام کے مقابلے کے حوالے سے ایک دوسرے کے موقف کو تقویت پہنچاتے ہیں اور امت اسلامی کی قوتوں کو طاقتور بنانے کے سلسلے میں فعال ہوجاتے ہیں.
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اتحاد کی ضرورت سے آگاہ شخصیات اور اداروں کو رہبر معظم انقلاب اسلامی کے اس موقف کو اپنی کوششوں کی بنیاد قرار دینی چاہئے اور دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرکے وحدت کے حوالے اعتماد باہمی پر زور دینا چاہئے اور دشمنان اسلام کے پروپیگنڈوں کو بے اثر کرتے ہوئے مسلمانوں کو بتانا چاہئے کہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی کی روشنی میں اتحاد بین المسلمین کے قیام کے لئے کوششوں میں ہر مسلمان کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہئے اور جاننا چاہئے کہ خدا و رسول (ص) کا کلام معاذاللہ تکلفات کے زمری میں نہیں آتا بلکہ جو احکامات صیغہ امر کے ساتھ ان کی جانب سے صادر ہوئے ہیں ان پر عمل کرنا فرض عین ہے اور اتحاد ہی مسلمانوں کے مفادات کا ضامن ہے جیسا کہ افتراق و اختلاف دشمن کے مفادات کی ضمانت فراہم کرتا ہے.
پينوشتہا :
1. مقام معظم رہبری کا خطاب مورخہ 13 رجب 1429.
2. مقام معظم رہبری کا خطاب مورخہ 13 رجب 1429.
3. مقاتل الطالبيین ، ابوالفرج اصفهانی ، تحقیق سید احمد صقر ، قم ، شریف رضی ، چاپ اول ، 1414. ص 314 .
4. تأملی در نهضت عاشورا ، رسول جعفریان ، قم ، انصاریان ، چ 2 ، 1381 ، ص 383 ــ 382 .
5. تذکرة الخواص ، سبط ابن جوزی ، قم ، شریف رضی ، 1471 ق ، ص 240 ، مناقب ابن شهر آشوب ، قم ، علامه بی تا ، ج 4 ، ص 124 .
6. علی (ع) فی القرآن و السنة ، محمد رضا ساعدی ، قم ، دار الهدی ، چاپ اول ، 1428 ق ، جلد اول .
7. فضایل علی بن ابیطالب و کتاب الولایة ، محمد بن جریر طبری ، بکوشش رسول جعفریان ، قم ، دلیل 1379 ش ، المسترشد فی امامة امیر المومنین علی بن ابیطالب (ع) ، محمد بن جریر طبری ، تحقیق ، شیخ احمد محمودی ، تهران ، موسسة الثقافة الاسلامیة ، 1415 ق .
8. مقام علی (ع) از دیدگاه خلفا و اهل سنت ، شیخ نجم الدین عسکری، ترجمه مصطفی نورانی ، 1394 ق ، فضایل علی (ع) از زبان خلفاء ، سید محمد ملیحی ، قم ، مهدی یار ، 1372 ش ، علی (ع) و الخلفاء ، نجم الدین عسکری ، نجف ، مطیعة الآداب ، 1380 ق .
9. علی (ع) فی القرآن و السنة ، ساعدي ، ج 2 و 3 .
10. نگین حقیقت ، مناظره مأمون با علمای اهل سنت درباره فضیلت علی (ع) ، عبدالرضا باقرزاده ، قم ، مرکز پژوهش های صدا و سیما ، 1381 ش .
11. امام علی (ع) از نگاه دانشوران ، ج3 ، دانشمندان اهل سنت و خاور شناسان ، باهتمام مهدی مهریزی و هادی ربانی ، تهران ، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی ، طبع اول ، 2001 .
12. شخصیت علی (ع) ، عباس محمد محمود عقاد ، ترجمه سید جعفر غضبان ، تهران ، ماه نو .
13. علی بن ابیطالب نظرة جدیدة ، محمد عماره و دیگر، مصر ، 1974 م.
14. وسائل الشیعه ، جلد 5 ، ص 383 ، به نقل از امام علی (ع) و هم گرایی در عصر خلافت ، ڈاکٹر علی اکبر احمد پور ، قم ، بوستان کتاب ، 1386 ش .
15. کشف المحجة لثمرة المهجة ، ص 235 .
source : http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=120546