اردو
Wednesday 3rd of July 2024
0
نفر 0

علی سے سچی وابستگی

ہمیں چاہئے کہ علی کی پیش کردہ اقدار اور اُن کو عزیز اصولوں کی پابندی کے سااتھ' اُن سے وابستگی اختیار کریں۔اِس بارے میں اُن کا ارشاد ہے کہ: انَّ اولی الناس بالا نبیاء اعلمھم بما جاء وا( انبیا سے سب سے زیادہ قریب لوگ وہ ہوتے ہیں جو اُن کی لائی ہوئی تعلیمات سے سب سے زیادہ باخبر ہوں۔ نہج البلاغہ ۔ کلمات قصار ١٩٦) یہ کہہ کر آپ نے اس آیۂ شریفہ کی تلاوت فرمائی کہ: اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا (یقینا ابراہیم سے قریب تر لوگ وہ ہیںجواُن کی پیروی کرتے ہیں اوریہ لوگ پیغمبر اور صاحبانِ ایمان ہیں ۔سورئہ آلِ عمران ٣۔ آیت ٦٨)

قربت اوردوستی کا تعلق خاندان اور رشتے داری سے نہیں ہوتا ۔بلکہ یہ مکتب اور علم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بنیاد پر کسی شخص کے دوست اور قریبی افراد 'اسکے بیوی بچے اور عزیز رشتے دار نہیں ہوتے 'بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسکی پیروی کرتے ہیں۔لہٰذا آپ نے اسی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ان ولی محمد (ص) من اطاع اﷲ وان بعدت لحمتہ' وان عدو محمد من عصی اﷲ وان قربت قرابتہ (بے شک پیغمبر کا دوست وہ ہے جو ان کا اطاعت گزار ہے 'چاہے وہ رشتے کے لحاظ سے اُن سے کتنا ہی دور ہو۔ اور آ پ کا دشمن وہ ہے جو آپ کا نافرمان ہو 'چاہے وہ قرابت داری کے اعتبار سے آپ سے کتناہی نزدیک ہو۔ نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ٩٦)

حضرت نوح علیہ السلام نے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کیا: وَ نَاداٰای نُوْح رَّبَّہ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ۔ قَالَ یَانُوْحُ اِنَّہ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَج اِنَّہ عَمَل غَیْرُ صَالِحٍ(بارِالٰہا ! میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے اور اہل کو بچانے کے بارے میں تیرا وعدہ برحق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ارشاد ہوا کہ اے نوح! یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے' یہ عملِ غیر صالح ہے۔ سورئہ ہود ١١۔آیت ٤٥' ٤٦)

شاعر کہتا ہے :

کانت مودہ سلمان لھم رحما

ولم یکن بین نوح وابنہ رحم

''اہلِ بیت سے سلمان کی محبت 'اِس بات کا سبب بنی کہ وہ اُن کے اہل شمار کئے گئے لیکن نوح کا بیٹا اُن کا اہل نہ ہوسکا۔''

اِس بنیاد پر پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کے معنی ہیں اُن کے مشن سے قرابت' اُن کی دکھائی ہوئی راہ سے تعلق اور اُن کے کردار سے رشتہ۔ اور اگر کوئی اپنے آپ کو رسول اﷲ ' حضرت علی اور اہلِ بیت کا پیروکار کہلوانا چاہتا ہے' تو اُسے چاہئے کہ تقویٰ 'اسلام کی راہ میںجہاد' پاکدامنی اور نیکوکاری میں اُن کی پیروی کرے۔

لہٰذا ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ کیا ہم نے خدا اور اسکے رسول کے دین سے وابستگی کے لئے سعی و کاوش کی ہے؟ کیا پاکدامنی' حرام کاموں سے دوری' افکار و نظریات پیش کرنے میں صداقت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کے قیام کے سلسلے میں کوشش کی ہے؟ خداوند عالم فرماتا ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّ لااَا تَفَرَّقُوْا (اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔ سورئہ آلِ عمران ٣۔ آیت ١٠٣)

بعض افراد دینی' سیاسی اور اجتماعی امورمیں موثر کردارکے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن اہلِ بیت سے دوری اور اُن کے ساتھ کمزور وابستگی کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد ' خودمکتب ِ اہل بیت کے پیرو کاروں کے درمیان اخوت' بلکہ پورے اسلام اور تشیع کو خود اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ایسے افراد تشیع' اسلام اور اہلِ بیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں لیکن اس بات کو نہیں جانتے کہ اہلِ بیت ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ اہلِ بیت ہم سے خدا ترسی اور اطاعت ِ الٰہی کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم صادق و امین بنیں' خدا کے راستے پر چلیں ۔جیسا کہ خدا وند عالم نے اِس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُج وَ لاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن (اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے' اِس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائو' کیونکہ اس طرح راہِ خدا سے الگ ہو جائو گے۔ اسی بات کی پروردگار نے تمہیں ہدایت کی ہے کہ شاید اس طرح تم متقی اور پرہیز گار بن جائو۔ سورئہ انعام ٦۔ آیت ١٥٣)

علی سے محبت اورعداوت

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے دوستی اور دشمنی کے حوالے سے' ابتدا سے آج تک ایک پیچیدگی موجود ہے۔ مرادیہ ہے کہ بعض لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں' آپ سے دوستی رکھتے ہیں ۔جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ سے بغض 'دشمنی اورکینہ رکھتے ہیں۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ خود حضرت علی کے نکتۂ نظر سے باہمی دوستی اور دشمنی کے طرزِ عمل کے مختلف طریقوں کا جائزہ لیں۔ تاکہ اِس کے ذریعے محبت کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکیں اور اِس مسئلے کی حقیقت تک پہنچ سکیں کہ آ پ اُن لوگوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جو لوگ اپنے دل میں آپ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں اور اُن کا یہ جذبہ اِس قدر شدید ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام خزانوں کے منھ اُن کے لئے کھول دیئے جائیں 'تب بھی وہ اِس دشمنی اور عداوت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

اس بارے میں حضرت علی فرماتے ہیں:لو ضربت خیشوم المؤمن بسیفی ھذا علی ان یبغضنی 'ما ابغضنی۔ ولو صببت الدنیا بجما تھا او بجمتھا علی المنافق علی ان یحبنی ما احبّنی وذلک انہ قضی علی لسان النبی الامی(ص)' انہ قال: یا علی لا یبغضک مؤمن ولا یحبک منافق (اگر میں اپنی تلوار سے مومن کی ناک بھی کاٹ دوں' کہ وہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے 'تو وہ ہرگزایسا نہیں کرے گا۔ اور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق پر انڈیل دوں' کہ وہ مجھ سے محبت کرنے لگے 'تو وہ ہرگزیہ نہیں کرے گا ۔اسلئے کہ اِس بات کا فیصلہ نبی ٔ صادق (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ہو چکا ہے کہ: اے علی! کوئی مومن تم سے دشمنی نہیں کر سکتا اور کوئی منافق تمہارامحب نہیں ہو سکتا۔نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ٤٥)

پیغمبر اسلامۖ نے کس بنیاد پریہ بات کہی ہے ؟جبکہ ہم جانتے ہیں کہ کسی سے محبت کرنا اور کسی سے بغض و عداوت رکھنا ایک قلبی امر ہے'دل کا معاملہ ہے' جس کے بارے میں عام طور پر کوئی متعین اور معروف اصول نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ بعض اوقات دل کسی ایسے شخص کی محبت میں بھی گرفتار ہوجاتا ہے جو اِس سے اختلافِ رائے رکھتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات اسکے برعکس بھی ہوتا ہے۔

اِس بنیاد پر دل کسی متعین اصول اور قاعدے کا پابندنہیں ہوتا' جس کی بنیاد پر وہ عمل کرتا ہو۔ لہٰذا کیا وجہ ہے کہ مومن علی سے کینہ و عداوت نہیں رکھتا اور منافق اِن سے دوستی اور محبت نہیں کرتا؟

علی میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں' جن کی بنیاد پر ممکن ہے منافق اِن سے محبت کرے۔ حضرت علی شجاع' عالم' عادل اور بہت سی اعلیٰ انسانی صفات کے حامل شخص ہیں اور لوگ انہی صفات و خصوصیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں' ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔

جب ہم دنیا میں محبت اور دشمنی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں'تو اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسئلہ آئیڈیالوجی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔کیونکہ علی سے محبت کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو سادہ قلبی احساسات سے تعلق رکھتا ہو۔ بلکہ اِس کا تعلق گہرے فکر و شعور سے ہے۔ کیونکہ علی کا پورا وجود ایمان سے معمور تھا۔ خداوند عالم فرماتا ہے : وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اﷲِ (اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں 'جو اپنے نفس کو خدا کی خوشنودی کی خاطر بیچ ڈالتے ہیں۔ سورئہ بقرہ ٢۔ آیت ٢٠٧)

علی نے خدا کے ساتھ اپنی جان کا سودا کیا۔ حضرت علی کے وجود میں اپنے لئے کوئی چیز نہ تھی' آپ کی فکر' قلب' جد و جہد' شجاعت' زہد' عدل اور علم سب کچھ راہِ خدا کے لئے تھا۔ اور ان میں سے ہر چیز ایمان کے مدار پر گھومتی تھی۔ لہٰذا ایک ایسا مومن جو گہرے ایمان کا مالک ہو اور جس کی زندگی اسی راہ پر گامزن ہوبے شک و ہ علی سے محبت کرے گا۔ کیونکہ جب وہ اُس خدا سے محبت کرتا ہے جس پر علی ایمان رکھتے ہیں' جس کی معرفت علی رکھتے ہیں اور جس کی راہ میں وہ جہاد کرتے ہیں' تو لا محالہ وہ علی سے بھی محبت کرے گا اور اگروہ اسلام سے محبت کرتا ہے' تو لازماً وہ علی سے بھی محبت کرے گا۔

علی اور حق کے درمیان کوئی دوئی اور فاصلہ نہیں۔ لہٰذا ایک ایسا شخص جو حق پر ایمان رکھتا ہے' اس کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ علی پر بھی ایمان رکھے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص حق پر ایمان رکھتا ہے 'تو اسے چاہئے کہ آزادی'غورو فکراور عشق و محبت کے ساتھ کسی ایسے شخص کی پیروی کرے جو کُلِ ایمان ہے اور علی ایمان کے تمام و کمال کا مظہر ہیں۔

منافق اُسے کہا جاتا ہے جس نے اپنے دل میں کفر کو چھپایا ہوا ہوتا ہے' جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان نہیں ہوتا' اور جو اپنے افکار اور عقائد پر پردہ ڈالنے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتا ہے' تاکہ عقائد 'اعمال اور زندگی کے تمام میدانوں سے ایمان کو جڑ سے ختم کر دے۔بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص علی کا محب ہو؟!!


source : http://www.islamshia-w.com/Portal/Cultcure/Urdu/CaseID/57205/71243.aspx
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مناظرات پیامبر اعظم (ص)
ہندہ کا عجیب خواب
امام جعفر صادق علیه السلام
علی جو آئے تو دیوارِ کعبہ بھی مسکرائی تھی یا علی ...
اخلاقیات کے بارے میں امام حسین کے اقوال
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
امام حسن عسکری(ع) کےاخلاق واوصاف
علی سے سچی وابستگی
حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 3
شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام

 
user comment