ہندہ کا خواب میں حضور کو دیکھنا اور درِ زندان میں آکر پوچھنا کہ قیدیو! یہ بتاوٴ کہ تم میری شہزادی زینب کوجانتی ہو؟
امام حسین علیہ السلام کا سب سے بڑا دشمن تھا یزید مگر آخر میں مجبو رہوکر اسے بھی دربار میں کہنا پڑا: خدا لعنت کرے ابن زیاد پر، اُس نے حسین کو قتل کر دیا۔ میں نے تو کبھی نہیں کہا تھا۔ اور ایک دن وہ تھا کہ دربار میں فخر سے کہہ رہا تھا : کاش! میرے وہ بزرگ ہوتے جو بدر میں مارے گئے تو مجھے دعائیں دیتے کہ یزید! خدا تیرا بھلا کرے کہ تو نے ہمارا بدلہ لے لیا۔ شراب پیتا جاتا ہے، امام حسین کے سرِ اقدس سے بے ادبی بھی کر رہا ہے۔ ہاتھ میں ایک بید ہے جو دندانِ مبارک کو لگارہا ہے۔ ذرا طہارت کی بلندی ملاحظہ فرمائیں، اسی دربار میں قتلِ حسین کا الزام ابن زیاد کے سر تھونپنے پر مجبور ہوگیا۔
کون پوچھتا اُس سے کہ اگر تو نے قتل نہیں کروایا تو اِن سیدانیوں کو قید کس نے کروایا؟ بغیر چادروں کے ان کو بازاروں اور دربار میں کون لایا ہے؟ جو رسول زادیاں تھیں، ان سے جو دربار اور قید خانے میں واقعات ہوئے، وہ سب اسی کے حکم سے ہوئے۔ کچھ لوگ اُس کے صرف اِس کہنے پر کہہ دیتے ہیں، وہ تو بے قصور ہے، وہ تو کہہ رہا تھا کہ میں نے تو قتل نہیں کروایا! خیر بہرحال ایسا بھی ہوتا آیا ہے زمانے میں یہ کبھی رہا نہ کرتا اہلِ بیت کو مگر یہ مجبور ہوگیا، اسے یہ پتہ نہ تھا کہ جو اُسے پہلے خلیفہ رسول سمجھتے تھے، اب وہ بھی اس کو شیطان سمجھنے لگیں گے۔ حالت یہ ہوگئی کہ دمشق میں بیٹھی ہوئی عورتوں تک جب یہ خبریں پہنچیں کہ یہ جو قید ہوکر بیبیاں آئی ہیں، یہ تو فاطمہ کی بیٹیاں ہیں تو ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ اُن کے مرد جب گھروں میں آتے تھے تو وہ اُن سے کہتی تھیں کہ بے غیرتو! تم نے اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں کو گھروں میں بٹھا رکھا ہے اور تمہارے رسول کی نواسیاں بازاروں میں پھرائی جارہی ہیں؟
یزید کو یہ خبریں پہنچیں کہ اب تو ایک انقلابِ عظیم برپا ہونے والا ہے۔ تب اُس نے اِن اسیروں کی رہائی کا حکم دیا۔ اور اس وقت چونکہ وقت کی ضرورت پڑگئی تھی، وہ سمجھ رہا تھا کہ دنیا مظلوم کی طرفدار بن گئی ہے، فطری حیثیت سے بن جانا چاہئے، لہٰذا طرفدار بن گئی۔ اس لئے اس کو یہ کہنا پڑا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا، قتلِ حسین تو ابن زیاد نے کیا ہے۔
یہ بیبیاں جو قید ہوگئی تھیں، معلوم نہیں کونسا دل تھا اُن کے سینے میں کہ جو کچھ تکالیف پڑتی تھیں، شکر ادا کرتی رہیں، یہاں تک کہ جنابِ زینب کے متعلق تو یہ ہے کہ قید خانے میں بھی کوئی رات نماز قضا نہیں ہوئی۔ اللہ اکبر،ارے یہ بیکسی تھی جو شام تک چلی گئیں۔ آپ کو غالباً معلوم ہے یہ شام سے کربلا جو وواپس آئی ہیں، یہ تقریباً چودہ مہینے ہیں، محرم کی گیارہ تاریخ کو کربلا سے گئی ہیں اور بیس صفر کو واپس پہنچی ہیں، اور ایک سال ، وہ تقریباً چودہ مہینے میں یہ قید سے رہا ہوکر آئی ہیں۔ قید میں جو کچھ تکالیف اُٹھائی ہیں، وہ اس کے علاوہ تھیں، معلوم نہیں کونسا دل تھا، کسی بی بی کی زبان سے کبھی یہ نکلا ہو کہ ہم کب رہا ہوں گے؟
بس ایک واقعہ عرض کرتا ہوں کہ یزید نے کیاکیا مظالم کئے، وہ ہر وقت یہ سوچتا رہتا تھا کہ کن کن طریقوں سے ان بیبیوں کو روحانی صدمات پہنچاؤں تاکہ یہ گھل گھل کر یہیں مر جائیں۔ایک دن اُس کے دل میں خیال آیا اور اس خیال کے آنے کے بعد اپنے گھر گیا، شام کا وقت تھا۔ اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ دیکھو! صبح کو تم شاہانہ لباس پہننا اور کنیزوں کو بھی فاخرہ لباس پہنانا۔ بیوی نے پوچھا کہ کل کوئی عید ہے؟ اُس نے کہا: کچھ قیدیوں کو میں بھیجوں گا، تمہارے سامنے پیش ہوں گے تاکہ ان کو اپنی حالت دیکھ کر اور تمہاری حالت دیکھ کر رنج ہو اور اُن کے دل کُڑھیں اور وہ روحانی صدمہ اُٹھائیں۔ اُس کے دماغ میں یہ چیز نہیں آئی، اگرچہ جانتی تھی مگر وہ سمجھی کہ شاید کوئی دوسرے قیدی آگئے ہوں۔ ایک روز حکم ہوا یزید کا کہ اُس دروازے میں حسین کا سر لٹکا دیا جائے اور پھر قیدیوں کو لایا جائے۔
ایک سپاہی نے آکر کہا: زین العابدین ! تم یہاں رہو گے اور یہ جتنے قیدی ہیں، یہ سب حرم سرائے یزید میں پیش ہوں گے۔
آپ ذرا دلوں پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ بیبیوں پر کیا کچھ گزر گئی ہوگی؟ جنابِ زینب اُٹھیں اور جنابِ زین العابدین علیہ السلام سے لپٹ گئیں اور فرماتی ہیں:
بیٹا! میں کبھی نہ جاؤں گی، میں ہرگز نہ جاؤں گی۔ امام زین العابدین نے فرمایا: پھوپھی جان! ہم قیدی ہیں، دربار میں اُس نے ہمیں پیش کیا، اب اگر وہ حرم سرا میں بلا رہا ہے تو چلی جائیے۔ ہمیں بد دعا نہیں کرنا ہے۔ امام حسین آخری وصیت میں فرماگئے ہیں اور آپ کو یاد ہوگا۔ "بہن! جلال میں نہ آجانا، اور بد دعا نہ کرنا ورنہ میری محنتیں برباد ہوجائیں گی"۔
جنابِ زینب مجبور ہوکر زندان سے نکلیں۔ صبح کا وقت تھا۔ کچھ دن چڑھا ہوا تھا۔ بیبیاں ساتھ تھیں۔ جنابِ زینب کو سب نے اپنے ہالے میں لے رکھا ہے، یہ قیدی جارہے ہیں مگر کس عالم میں جارہے ہیں کہ قدم رکھتے ہیں کہیں اور پڑتا کہیں ہے !ادھر سے یہ قیدی چلے اور اُدھر سے قدرت نے دوسرا انتظام کیا۔ اس وقت یزید کی بیوی ہندہ سورہی تھی۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ایک کنیز دوڑتی ہوئی آرہی ہے کہ راستے سے ہٹ جاؤ۔ محمد مصطفےٰ کی بیٹی فاطمہ زہرا آرہی ہیں۔ جب اُس نے یہ آواز سنی تو وہ گھبرا کر ایک طرف ہوگئی۔ اب جودیکھتی ہے کہ چند بیبیاں ہیں جو اپنے منہ پر طمانچے مارتی ہوئی آرہی ہیں،"واحسیناہُ، وامظلوماہُ"کہتی ہوئی آرہی ہیں اور جس وقت اُس کے قریب آئیں، اُسے پہچان لیا۔ یہ کھڑی ہوگئی، سلام کیا اور پوچھا: میری شہزادی ! آپ یہاں کیسے آئیں؟ تو فرماتی ہیں: میں تیرے پاس نہیں آئی، میری زینب آرہی ہے، میں اُس کیلئے یہاں آئی ہوں۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
source : tebyan