شرائط امامت
اے اللہ ! میں پھلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کیا اور تیرے حکم کو سن کر لبیک کھی ، رسول اکرم(ص) کے علاوہ کسی نے بھی نماز پڑھنے میں مجھ پر سبقت نھیں کی ،اے لوگو! تمھیں یہ معلوم ھے کہ ناموس ، خون ، مال غنیمت ، نفاذِ احکام اور مسلمانوں کی پیشوائی کے لئے کسی طرح مناسب نھیں کہ کوئی بخیل حا کم ہو، کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو اس کے دانت مسلمانوں کے مال پر لگے ر ھیں گے اور نہ کوئی جاھل ھو کہ وہ انھیں اپنی جھالت کی وجہ سے گمراہ کردے گا، نہ کوئی کج خلق ھو کہ وہ اپنی تند مزاجی سے چر کے لگاتا رھے گا اور اپنے اور لوگوں کے درمیان فاصلہ کردے گا، نہ کوئی مال ودولت میں بے راہ روی کرنے والا ( ظالم)کہ وہ کچھ لوگوں کو دے گا اور کچھ کو محروم کردے گا، نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا کہ وہ دوسروں کے حقوق کو رائگاں کردے گااور انھیں انجام تک نہ پهنچائے گا اور نہ کوئی سنت کو بیکار کردینے والا کہ وہ امت کو تباہ و برباداور ضائع کردے گا۔
اس خطبہ میں مولا علی علیہ السلام نے اس شخص کے لئیجو مسلمانوں کی امامت و سرپرستی اور ان کے درمیان قوانین اسلام نافذ کر نا چاھتا ھے ،جنگ وصلح کے احکام صادر کرنا چاھتا ھے اور مسلمانوں کے درمیان احکام خدا کی تبیین وتوضیح کرنا چاھتا ھے چھ بنیادی شرائط بتلائے ھیں : ۱۔ اَللّٰھم اِنّی اول من اناب، وسمع و اجاب، لم یسبقنی الارسول(ص) اللّٰہ بالصلٰوة، وقد علمتم انَّہ لاینبغی ان یکون الوالی علی الفروج،والدماء، والمغانم والاحکام،وامامة المسلمین اَلْبخیلُ، فتکون فی اموالھم نَہْمَتُہ، ولاالجاھل فیَُضِلَّہُمْ بجھلہ، ولاالجافی فیََقْطعُھم بجفائہ، ولاالحا ئِفُ للدول،فیتخِذَ قوماً دون قوم، ولا المُرتشِی فی الحکم فیذھب بالحقوق،ویَقِفَ بھادون المَقاطِعَ ولاالمُعَطِّلُ للسنة فیُهلکُ الاُمَّةَ “[1]
۱۔ امام اور حا کم ،بخیل نہ ھو کہ و ہ لوگوں کے مال و ثروت میں ھمیشہ لالچ کی نظر جمائے رکھے گا،(اورامت اسلام پر مال و دولت خرچ کرنے کے بجائے خود ھی دولت جمع کرنے کی فکر میں مبتلا رھے گا)۔
۲۔ اما م اور حا کم ،اسلام کے تمام جزئیا ت اور قوانین کا بحد کافی علم رکھتا ہو۔
۳۔ حا کم، اخلاق حسنہ رکھتا ھو اور غصہ و خشونت سے دور ہو۔
۴۔ حا کم ،ظالم و ستمگر نہ ھو کہ دوسرے کے حق کو پائمال کردے۔
۵۔ حا کم اور امام رشوت خورنہ ہو۔
۶۔ امام ،قوانین اسلام اور قرآن کے نافذ کرنے سے گریز نہ کرے، بلکہ وہ ھمیشہ قوانین الہٰی کو نافذ اور ان کی حفاظت کرے ۔
یہ ھیں اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھانے والے حا کم کے چند شرائط، لیکن مسلمانوں کی صحیح، معتبر اورمھم ترین کتابیں یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کھتی ھیں کہ خلفائے ثلاثہ مذکورہ شرائط( حسن اخلاق، علم وآگاھی…)سے عاری اور خالی ھی نھیں بلکہ وہ ان شرائط کے مقابل متضاد صفات کے حا مل تھے !! [2]چنانچہ اس بات کے ثبوت کے لئے ھم چند نمونے کتب صحیحین سے پیش کرتے ھیں ،جنھیں علمائے اھل سنت اپنے دین کا مدرک و ماخذ سمجھتے ھیں ، (اور ان میں نوشتہ احادیث کو قرآن کی آیت کے مساوی مانتے ھیں ) کیونکہ ھم نے اپنی بحث کا مدرک انھیں دو کتابوں کو بنایا ھے، وگرنہ اس بارے میں کتب تواریخ و حدیث میں بھت زیادہ مطالب موجود ھیں ، جن کا نقل کرنا ھمارے موضوع سے متعلق نھیں ھے ۔
۱۔ حا کم کا صاحبِ حسن اخلاق ہوناضروری ھے
”ولا الجافی فیقطعھم بجفائہ“( قول حضرت علی علیہ السلام)
اور امام کو کج خلق اور تند مزاج نھیں ہونا چاھیئے کہ وہ اپنی کج خلقی اور تند مزاجی سے لوگوں کو ھمیشہ اپنے پاس سے بھگاتا رھے( کیونکہ اس طرح اسلامی احکام صحیح طریقے سے نافذ نہ ہوسکیں گے ) “
محترم قارئین ! جیساکہ ھم نے گزشتہ فصلوں میں نقل کیا کہ ایک رھبر اور ھادیٴ امت کیلئے ضروری ھے کہ وہ نرم دل اور حسن اخلاق رکھتا ہو، تند خو اور غصہ ور شخص کیلئے منصب امامت سازگار نھیں ،لیکن صحیحین کی بعض احادیث اورسنیوں کی دیگر معتبر کتابوں کے مطابق خلفائے ثلاثہ ان صفات سے بے بھرہ تھے چنانچہ اس کے دو نمونے ذیل میں نقل کرتے ھیں :
۱۔ …عن ابی ملیکة؛ قال کاد الخیران ان تھلکا ابو بکر وعمر ،لما قدم علی النبی وفد بنی تمیم، اشار احدھما با لاقرع بن حا بس الحنظلی اخی بنی مجاشع، واشارالآخر بغیرہ ،فقال ابوبکر لعمر: انما اردت خلافی؟فقال عمر:ما اردت خلافک، فارتفعت اصواتھما عند النبی(ص)، فنزلت الآیہ:<یٰا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ… > [3]
اما م بخاری نے ابن ابی ملیکہ سے نقل کیا ھے :
نزدیک تھا کہ ایک واقعہ میں وہ دو نیک مرد (ابوبکر و عمر) ھلاک ہوجاتے، جب بنی تمیم کا ایک وفد رسول(ص) کی خدمت بابرکت میں مشرف ہوا تو ان دونوں (ابوبکر و عمر) میں سے ایک نے اقرع بن حا بس حنظلی برادر بنی مجاشع کو اس قبیلہ کاسرپرست ظاھر کر دیا اور دوسرے نے کسی اور شخص کی سفارش کی ، اس پرابوبکر نے عمر سے کھا : تونے اس کام میں میری مخالفت کی ھے ؟
عمر نے کھا : میں اس امر میں تیری مخالفت کرنے کا قصد نھیں رکھتا تھا، بالآخر جب دونوں کے درمیان تو تو ، میں میں ، ہوئی اور ایک شور و هنگامہ ہونے لگا(اوررسول(ص) کی موجودگی کا کسی کو خیال نہ رھا، لہٰذاجب خداوند عالم نے اس بدتمیزی اور بدتہذیبی کو دیکھا ) تو یہ آیت نازل فرمائی:
<یٰا اَیُّہَاْ لَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاتَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْہَرُوْا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ ِلبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعماَلکُمُْ وَ اَنْتُمْ لاَتَشْعُرُوْنَ>[4]
اے ایماندارو !بولنے میں تم اپنی آوازیں رسول(ص) کی آواز پر بلند مت کیا کرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زور زور بولا کرتے ھو ان (رسول(ص)) کے روبرو زور سے نہ بولا کرو، ایسا نہ ھو کہ تمھارے سارے اعمال حبط (ختم) ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔
ابن حجرنے فتح ا لباری( شرحا لبخاری) میں قلمبند کیا ھے : قبیلہ ٴ بنی تمیم کے وفد کا آنا اور یہ واقعہ پیش آناہجرت کے نویں سال میں تھا ۔[5]
عرض موٴلف
مذکورہ حدیث مسند احمد ابن حنبل میں بھی دیکھی جاسکتی ھے۔ [6]
مذکورہ حدیث کے مضمون اور بنی تمیم کے وفد کے مدینہ آمد کی تاریخ میں غور کرنے سے ایک سوال جو ابھر تا ھے وہ یہ ھے کہ جو افراد آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بیس سال سے زندگی گزار رھے تھے، وہ نبی کے ساتھ رہ کر تہذیب یا فتہ کیوںنہ ہوئے ؟!آخر ان کو احترام رسالت کا خیال کیوں نہ تھا؟!یہ لوگ کیوں نبی(ص)کے سامنے اس قدر ھلڑ هنگامہ کرتے تھے کہ خدا کو ان کی تھدید اور تنبیہ کے لئے آیت نازل کرنا پڑی؟![7] بتایئے ایسے افراد کیا جانشین نبی ، عظیم الشان قائد، اسلامی رھبر اور مقام خلافت کے حقدار ھو سکتے ھیں ؟!ھرگز نھیں ۔
۲۔ …سعد بن ابی وقاص؛ قال: استاٴذن عمرعلی رسول(ص)الله ،وعندہ نسآء من قریش،یُکَلِّمْنَہُ و یَسْتَکْثِرْنَہُ عالیة اصواتھن، فلما استاٴذن عمر، قمن یبتدرن الحجاب، فاٴذ ن لہ رسول(ص)الله ،ورسول(ص)الله یضحک، فقال عمر: اضحک الله سنک یا رسول(ص)الله !قال: عجبت من ھٰولاء الّاتی کن عندی، فلم ا سمعن صوتک، ابتدرن الحجاب، قال عمر: فانت یا رسول(ص)الله !کنت احق ان یھبن، ثم قال: ای عد وات انفسھن! اتھبنی ولا تھبن رسول(ص)الله ؟قلن انت افظ واغلظ من رسول(ص)الله ۔[8]
سعد بن ابی وقاص سے بخاری نے نقل کیا ھے:
ایک مرتبہ عمر نے رسول کی خدمت میں شرفیاب ہونے کی درخواست کی اس وقت بعض زنان قریش رسول(ص) کی خدمت میں باتیں کررھی تھیں اور زیادہ تیز آواز میں رسول(ص) سے سوال و جواب کر رھی تھیں ، لیکن جب عمر نے چاھا کہ خدمت رسول(ص) میں حا ضر ہوں توقریش کی یہ سب عورتیں گھر کے ایک گوشے میں پوشیدہ ہوگئیں ۔
رسول(ص) اس ماجرا کو دیکھ کر مسکرانے لگے اور تبسم کی حا لت میں عمر کو گھر میں وارد ہونے کا اذن دیا، عمر نے کھا: یارسول اللہ! اللہ آپ کو ھمیشہ خوشحال رکھے یہ مسکرانے کا کیا مطلب ھے؟!
رسول(ص) نے فرمایا: مجھے اس امر نے تعجب میں ڈال دیا ھے کہ جب ان قریش کی عورتوں نے تیری آواز سنی تو سب متفرق ہوگئیں اور گوشہ میں پوشیدہ ہوگئیں !
عمر نے کھا :یا رسول اللہ!ان کو آپ سے ڈرنا چاھیئے نہ کہ مجھ سے، اس وقت ان عورتوں سے مخاطب ہوکر بولے :اے اپنے وجود کی دشمنو !تم مجھ سے ڈرتی ھو اور رسول(ص) سے نھیں ؟
عورتوں نے اس کیجواب میں کھا: ھاں ھم لوگ آپ سے ڈرتے ھیں لیکن رسول(ص) سے نھیں ، کیونکہ آپ رسول (ص)کی بنسبت بڑے بدمزاج ،غصہ ور اور تند خو آدمی ھیں ۔”قلن انت افظ واغلظ من رسول الله “
عرض موٴلف
خلیفہٴدوم کی سخت مزاجی اور بداخلاقی کے بارے میں کتب احادیث میں بھت سارے واقعات قلمبند کئے گئے ھیں بعض کتابوں میں آیا ھے :جب حضرت عمر غصہ ہوتے تھے تو بعض اوقات ان کا غصہ اس وقت تک ختم نہ ھو تا جب تک کہ اپنے ھی دانتوں سے اپنا ھاتھ چبا کر زخمی نہ کرلیا کرتے تھے!( یہ حالت میرے خیال سے اس وقت ہوتی ہوگی جب انھیں غصہ اتارنے کے لئے کوئی ملتا نہ ہوگا…) زبیر بن بکار اس مطلب کو نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں:ھاتھ کو دانتوں سے چبا نے والا واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ کے کسی فرزند کی شکایت کوئی کنیز آپ کے پاس لائی ،اس وقت بھی خلیفہ صاحب نے اپنا ھاتھ چبا لیا تھا!!
اس کے بعد ابن بکار کھتے ھیں:خلیفہ کی اسی تند مزاجی کی وجہ سے ابن عباس” مسئلہٴ عول “کی مخالفت میں حق بات کے اظھار سے خاموش رھے اور جب خلیفہٴدوم کی موت واقع ہوگئی تب آپ نے اس حقیقت کا اظھار کیا، لوگوں نے ابن عباس سے کھا: آپ نے اس حقیقت کو خلیفہ ٴ دوم کے سامنے کیوں نہ ظاھر کیا ؟ آپ نے فرمایا : میں اس سے ڈرتا تھا ،کیونکہ وہ ایک خوف ناک اورغصہ ور حا کم تھا۔ [9]
۲۔ حا کم کو احکام الہٰیّہ سے آگاہ ہوناچاھیئے
,,وَلَا اْلجَاهل فَیُضِلُّہُمْ بِجَهلہ“((فرمان امام علی علیہ السلام))
حا کم اور امام کو جاھل نھیں ہونا چاھیئے ،کیونکہ اگر جاھل ہوگا تو وہ اپنیجھل کی بنا پر لوگوں کو گمراہ کردے گا۔
حا کم اوراما م کے لئیجھاں اوردیگر شرائط ضروری ھیں ، ان میں سے ایک شرط یہ بھی لازم ھے کہ وہ احکام اور قوانین الٰھیہ سے آگاہ اور آشنا ہو،چنانچہ اگر حا کم اسلامی قوانین اور احکام کے تمام جزئیات و جوانب سے واقف نہ ھو اور ضرورت کے وقت ا یرے غیرے سے دریافت کرنے کا محتاج ھو اور اسلامی احکام کو فلاں ڈھکاں سے معلو م کرے گا، توایسا شخص منصب ِ خلافت کے لائق نھیں ھو سکتاکیونکہ وہ غلط اورخلاف واقع احکام کو صادر کرکے لوگوں کو گمراھی و ضلالت میں مبتلا کردے گا یا پھر لوگوں کو شک وتردید میں ڈال دے گا ۔
لیکن کتب تواریخ و احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ھے : خلفائے ثلاثہ جو اسلامی حا کم تھے، یہ لوگ اسلامی احکام کی کچھ اطلاع نھیں رکھتے تھے! اور اسلامی احکام اور دینی مسائل دریافت کرنے کی غرض سے دوسروں کے دروازوں پر دستک دیتے تھے،اسی وجہ سے بسااوقات یہ حضرات متضاد اور عجیب و غریب،خلاف ِ واقع فتاویٰ صادر کردیتے تھے۔
(یھاں تک کہ مدینہ کی عورتیں تک ان پر اعتراض کردیتی تھیں !)چنانچہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نیجب یہ دیکھاتو ایک خطبہ ارشادفرمایا ،جس میں آپ نے ان حکام کی تصویر کشی کی جو بغیر علم کے حکومت کرتے ھیں ۔
,,ترد علی احدھم القضیةُ فی حکم من الاحکام فیحکم فیھا برایہ، ثم ترد تلک القضیةبعینھا علی غیرہ فیحکم فیھا بخلاف قولہ، ثم یجتمع القضاة بذالک عند الامام الذی استقضاھم، فیصُوّب آرائھم جمیعاً، و اِلٰہُہُمْ واحدٌ !و نبیھم واحد !وکتابھم واحد ٌ!افامر ھم اللّٰہ تعالی بالاختلاف فاطاعوہ! ام نھاھم عنہ فعَصَوْہ! ام انزل اللّٰہ تعالی دیناً ناقصاً فاستعان بھم علی اتمامہ !ام کانوا شرکاء لہ ،فلھم ان یقولوا ،و علیہ ان یرضیٰ؟ ام انزل اللّٰہ تعالی دیناً تاماً فقصَّر الرسول(ص) عن تبلیغہ وادائہ!؟ واللّٰہ سبح ا نہ یقول:< مَا فَرَّطْنَا فی الْکِتَابِ مِنْ شَیءٍ…> [10] وفیہ تبیان کل شیء“[11]
جب ان میں کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہوتا ھے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ھے، پھر وھی مسئلہ بعینہ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ھے تو وہ اس پھلے حکم کے خلاف حکم دیتا ھے، پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ(حا کم) کے پاس جمع ہوتے ھیں جس نے انھیں قاضی بنا رکھا ھے، تو وہ سب کی رائے کو صحیح قرار دید یتا ھے! حا لانکہ ان کا اللہ ایک، نبی ایک اور کتاب ایک ھے ،انھیں غور تو کرنا چاھیئے!کیا اللہ نے انھیں اختلاف کا حکم دیا تھااور یہ اختلاف کر کے اس کا حکم بجا لاتے ھیں ؟یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ھے اور وہ اختلاف کر کے عمداً اس کی نافرمانی کرنا چاھتے ھیں ؟یا یہ کہ الله نے دین کو ادھورا چھوڑا تھا اور ان سے تکمیل کے لئے ھاتھ بٹانے کا خواھش مند ہوا ؟یا یہ اللہ کے شریک تھے کہ انھیں اس کے احکام میں دخل دینے کا حق ھو اور اس پر لازم ھو کہ وہ اس پر رضامند رھے؟ یا یہ کہ اللہ نے تو دین کو مکمل اتارا تھا،مگر اس کے رسول (ص)نے اس کے پهنچانے اور ادا کرنے میں کوتاھی کی تھی،حا لا نکہ اللہ نے قرآن میں یہ فرمایا ھے:<ھم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان کرنے میں کوتاھی نھیں کی> اور اس میں ھر چیز کا واضح بیان ھے۔[12]
حوالہ جات
[۱] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ،جلد ۸ ،صفحہ ۲۶۳، خطبہ نمبر ۱۳۱۔
[۲] اے فرزندانِ توحید ! اے سواد اعظم !کیا یہ ا فسوس کا مقام نھیں کہ مذکورہ تما م اوصاف وشرائط خلفائے ثلاثہ میں نہ ہونے کے باوجود آپ حضرا ت آج تلک انھیں ان کی کار کردگی پر داد تحسین دے رھے ھیں ؟! مترجم۔
[۳] صحیح بخاری: جلد۹،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب(۴) ” م ا یکرہ من التعمق والتنازع والغلو فی الدین والبدع“حدیث ۶۸۷۲۔ جلد۵، کتاب ا لمغازی، باب وفد بنی تمیم حدیث ۴۱۰۹۔ جلد ۴، کتاب التفسیر سورہٴ حجرات ،باب” تفسیر آیہ ٴ ” لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی… “(آیت ۶) حدیث ۴۵۶۵ ، ۴۵۶۶۔
[۴] حجرات، آیت۲ ، پ ۲۶۔
[۵] فتح ا لباری ج۱۰، کتاب الطب ، باب ان البیان سحرا، ص ۲۱۲۔
[۶] مسند ج ۴ ،حدیث عبد الله ابن زبیر ، ص۶۔
[۷] نوٹ:یہ تمام باتیں اس بات کا اشارہ کرتی ھیں کہ حقیقتاً یہ ان افراد میں سے تھے جن کے لئے قرآن نے سورہٴ منافقون میں ارشادفرمایا:<قَاْلَتِ الْاِعْرَابُ آمَنَّاقُوْلُوْالَمْ تُوْٴمِنُوْا وَلَاکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَاْ وَلَمَّاْ یَدْ خُلِ الْاِیْمَاْنُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ…> (سورہ حجرات آیت ۱۴)یعنی ظاھری طور پر ان کے چھروں پر اسلامی نقاب تھی ورنہ اسلام تو ان کے دلوں میں داخل بھی نہ ہوا تھا۔مترجم۔
[۸] صحیح بخاری: جلد۴، کتاب بدء الخلق، باب(۱۱)”صفة ابلیس وجنودہ“ حدیث۳۱۲۰۔ جلد ۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب عمربن الخطاب“ حدیث۳۴۳۸۔ جلد۸،کتاب الادب،باب” التبسم والضحک“حدیث۵۷۳۵۔
[۹] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۶،خطبة ۸۳ کے ذیل میں صفحہ ۲۸۰۔
[۱۰] انعام،آیت ۳۸، پ ۷ ۔
[۱۱] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱،ص۲۸۸،خطبہ ۱۸۔
[۱۲] یہ جملہ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتا ھے:و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شی ٴ۔سورہٴ نحل، آیت۸۹، پ ۱۴۔مترجم۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=874&link_articles=holy_prophet_and_ahlulbayit_library/lmam_ali/hakim_ali_ki_nazar_main1