امریکہ میں بعض انتہاپسندوں کے ہاتھوں قرآن کریم کو نذرآتش کئے جانے کے گھناؤنے اقدام کے بعد صہیونی ریاست کی ایماء پر مقبوضہ فلسطین کے شہر بیت لحم میں مسجد الانبیاء کو نذرآتش کرکے وہاں موجود قرآن کریم کے نسخوں کو آگ لگادی گئی اوراب فرانس کےشہر اسٹریسبرگ میں ایک انتہاپسند فرانسیسی شہری نے ایک ویڈیو شائع کی ہے جس میں قرآن کریم کوپارہ پارہ اورپھر اسے نذرآتش کئے جانے کے گھناؤنے مناظردکھائے گئے ہیں۔ اس ایک گھنٹے کی ويڈیو فیلم میں ایک شخص چہرے پر شیطانی نقاب ڈالے ہوئے ہے جو پہلے قران کریم کے اوراق کو پھاڑتا ہے پھرانہیں نذرآتش کرتا ہے۔
فرانس میں مسلم تنظیموں سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس اہانت آمیزاقدام کی مذمت کی ہے۔ فرانسیسی مسلمانوں کی کونسل نے اس اقدام کے خلاف اپنے ردعمل میں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بیان میں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد لوگوں کو، نسل پرستی اورمذہبی تشدد کی دعوت دینا اور فرانسیسی شہریوں کے درمیان اختلاف وتفرقہ پھیلانا ہے تا ہم فرانس کے مسلمان اس موقع پر ہوشیاری کا دامن تھامے رکھیں اورصبر و تحمل سے کام لیں۔ مذکورہ کونسل نے کہا ہے کہ وہ اسٹریسبرگ کے اس انتہاپسند فرانسیسی شہری کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی درخواست کرے گی۔
پچھلے کئي مہینوں خاص طورپر حالیہ چند ہفتوں سے مغربی ملکوں میں اسلام مخالف سرگرمیوں میں شدت آئی ہے اورجب ہم مغرب میں اسلامی مقدسات کی شان میں ہونےوالی اہانتوں پرنظرڈالتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اوران کی اہانت کے لئے ایک منظم منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ اس طرح کے اہانت آمیز اقدامات پہلے تو مرتد سلمان رشدی جیسے سامراجی ایجنٹوں کے ذریعے کتابیں لکھوانے سے شروع ہوئے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اورکارٹون شائع کرنے کی صورت میں ظاہرہوئے اوراب آخری الہی اورآسمانی کتاب قرآن کریم کی بے حرمتی کی شکل میں انجام پارہے ہيں جس کے پیچھے ایک بہت بڑی اورخطرناک سازش کارفرماہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ مغرب جو اپنے آپ کو تہذیب کا علمبردارکہتا ہے وہاں اسلامی مقدسات کی اہانت کی کوئی حد ہی نہيں رہ گئی ہے؛ اسلامی شعائر کی توہین کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ آزادی بیان کے نام پر اپنے اس طرح کے انسانیت سوزاقدامات سے مغربی معاشروں میں مسلمان اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کردیں، اسلامی مقدسات کی اہانت کرنے کےساتھ ساتھ اسلام کو تشدد پسندی کے مترداف قراردیں۔
دریں اثناء مغرب کی بعض حکومتيں اسلام مخالف سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی پوری طرح سرپرستی کررہی ہيں اوردینی ومذہبی امور کی انجام دہی میں مسلمانوں کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے اورخواتین کے پردے پرپابندیاں لگانے جیسے اقدامات سے اسلامی شعائر و مقدسات کی اہانت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہيں اوراگرآج مغربی ملکوں میں اسلامی مقدسات کی توہین کی جارہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلے مغربی حکومتوں نے مسلمانوں پراپنے مذہبی احکامات کی بجا آوری پر پابندیاں لگائيں جن میں خواتین کے پردے پر پابندی سب سے نمایاں ہے اور مسلمانوں کے خلاف جاری سرگرمیوں میں فرانس سب سے آگے ہے جو خود کو تہذیبوں کا سب سے بڑا علمبردار کہتا ہے۔
اس میں دورائے نہيں کہ فرانس کے ایک شہری کی طرف سے ویب ٹی وی نامی سائٹ پر قرآن کریم کی بے حرمتی کے مناظر دکھائے جانے کے واقعے کے نتائج کی ذمہ داری بھی فرانسیسی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔
source : http://www.abna.ir