جہانی سازی ( Globalization )ایک عالمی تحریک ہے ، آج یا کل سب کو اس کا سامنا کرنا ہے۔ یہ سلسلہ سب کو اپنے موقف میں نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
عالم اسلام بھی اس دنیا کا ایک عظیم پیکر ہونے کی وجہ سے ، امریکہ کے بنائے ہوئے اس عالمی منصوبہ کے خطر ناک نتائج اور نقصانات کی زد میں ہے ۔
اس تحریر میں پہلے جہانی سازی کی تعریف پیش کی گئی ہے ، خاص کر وہ تعریف جو مغربی طاقتوں خصوصا امریکہ نے پیش کی ہے ، جس میں غربی سیویلائزیشن کے علاوہ ہر تہذیب و تمدن کو ختم کرنے اور ساری دنیا پر امریکی طرز کی تہذیب کو تھوپنے پر زور دیا گیا ہے ۔
اس وضاحت کے بعد ایسی جہانی سازی کے خطر ناک نتائج اور نقصانات کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے اور پھر اس جہانی سازی کی راہ کی رکاوٹوں کو بیان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو اپنے مستکبرانہ مقاصد کی تکمیل میں خاصی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس میں سے سب سے اہم عالم اسلام ہے ، اور اسلام کا عالمی حکومت کا تصور ، یہیں سے اس مسئلہ کو لے کر عالم اسلام کے مسائل شروع ہوتے ہیں ، مقالہ نگار کی خاص تاکید انھیں مسائل اور اس کے حل کی جانب ہے لہٰذا پہلے عالم اسلام کی موجودہ حالت کی وضاحت کرتے ہیں پھر مرحلہ وار ان مسائل کے حل کے لئے چند حکمت عملی بیان کرتے ہیں تاکہ عالمی پیمانہ پر تمام اسلامی مملک مل کر اس بھیانک یلغار کے خطر ناک نتائج اور اس کے نقصانات کی روک تھام کر سکیں۔۔۔
کلیدی الفاظ :جہانی سازی ، مغربی جہانی سازی ، اسلامی عالمی حکومت ، اسلامی امت ، عملی راہ حل۔
ساری دنیا من جملہ عالم اسلام ، مغربی طاقت کی طرف سے پیش کردہ ” نئے عالمی نظام “ کے سلسلہ میں جو کہ وسیع پیمانہ پر عالمی سطح کی ایک بہت بڑی تحریک ہے ، مغرب کے ساتھ روابط کے بارے میں ایک خاص حالت سے دو چار ہوئے ہیں ، اس مسئلہ نے سب کو اپنے موقف میں نظر ثانی پر مجبور کر دیا ہے ۔ کیوں کہ ان کی اقتصادی ، اجتماعی ثقافتی سیاسی حیات ، یہاں تک کہ اقوام عالم کے علاقائی آداب و رسوم بھی اس بھیانک سیلاب کی زد میں آکر خطرہ میں پڑ گئے ہیں ۔
ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ عالم اسلام ، دنیا کے کسی بھی خطہ سے زیادہ اس منصوبہ کے خطر ناک نتائج کی زد میں ہے ، کیوں کہ یہ وحشی جہانی سازی ( وحشی کا لقب خود مغربیوں نے دیا ہے ) خاص طور سے عالم اسلام کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے ، اور اس سیسٹم کے نفاذ کے لئے بنائی گئی پالیسیاں صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو نمایاں کر رہی ہیں ( مثال کے طور پر ۱۹۹۷ ء ء کی امریکن پالیسی ) بلکہ ہمیں تو یقین ہے کہ اس یلغار کا رخ سب سے پہلے ہماری جانب ہے ۔ ہمارے اوپر عسکری ، ثقافتی اور اقتصادی دباؤ اور نئے قسم کی استعماری سازشوں من جملہ عالم اسلام اور اس کے اطراف پر مشتمل عظیم مشرق وسطیٰ جیسے منصوبوں سے یہ بات واضح طور سے سمجھی جا سکتی ہے ۔
اور چوں کہ اسلامی تصور کائنات اور اسلامی تعلیمات مغربی تہذیب کے بہت سے اقدار اور معیارات کے بالکل بر عکس ہے ، لہٰذا مغرب ایک بہت بڑی رکاوٹ سے دو چار ہے ۔
اس کے علاوہ ، صدیوں کی کشیدگی ، جنگیں ، اور عسکری فتح کے رد و بدل سے ایک طرح کی تاریخی رنجشیں اکٹھا ہو گئیں ہیں ، اس طرح کہ کبھی عالم اسلام مغرب کے مرکز تک پھیل گیا اور کبھی عالم اسلام خود مغربی قبضہ اور اس کے استعمار کا شکار ہو گیا ، اور کوئی خطہ اس کی زد سے نہ چھوٹا ۔ ان سب کا جذباتی اثر یہ ہوا کہ ایک تاریخی کینہ پنپ گیا اور دونوں طرف کی آپسی پالیسیوں میں نیا رنگ دکھاتا گیا ۔ یہاں تک کہ خود تاریخی حقائق کے علمی تجزیہ و تحلیل میں اور تاریخ کا علمی نظریہ قائم کرنے میں بھی اپنا اثر دکھا گیا ، حالانکہ یہ ایک علمی معاملہ ہے ، اور ایک تاریخیضرورت ہے ۔
آج عالم اسلام میں مغربی جہانی سازی سے شدید غم و غصہ کی لہر پھیلی ہوئی ہے ، یہ غم و غصہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ جہانی سازی تمدن اور تہذیب کی ترقی یافتہ ایک عام حالت ہے جو کہ بشریت کو انتشار سے اتحاد اور یکجہتی کی طرف لے جا رہی ہے ، اگر ایسا ہوتا تو یہ بہت ہی نیک اور اچھی چیز ہوتی اور کسی کو اس کی واقعیت میں شک نہیں ہے ۔ لیکن غم و غصہ کا اظہار اس لئے ہے کہ مغربی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ اس سواری کی لگام کو اپنے ہاتھوں میں لے کر صرف اپنے قابوں میں رکھیں اور اسے اپنے مستکبرانہ مقاصد کی تکمیل کی جانب موڑ دیں ۔ اس طرح تمام امور پر قابو پاکر اپنا اقتصادی ، ثقافتی ، اور عسکری تسلط ، عالمی سطح پر جما دیں ۔ اور یہ بہت بڑا خطرہ ہے ۔ اگر ہم اپنی تہذیب و تمدن کی عظیم میراث کی حفاظت کرنا اور عالم تمدن کی تعمیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو اس خطرہ سے نپٹنے کے لئے ایک منظم حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ، اس کے لئے پہلے اجمالی طور سے جہانی سازی کے مفہوم کو سمجھنا ہوگا تاکہ اس کے خطروں سے مقابلہ کے لئے حکمت عملی اختیار کی جا سکے ۔
جہانی سازی کیا ہے ( Globalization ) ؟
جہانی سازی کی تعریف بہت پیچیدہ اور مبہم ہے اس سلسلہ میں مختلف اور طرح طرح کی تعریفیں بیان ہوئی ہیں ان تمام تعریفوں اور مختلف تفسیروں سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں جہانی سازی مغربی تہذیب کے علاوہ ہر تہذیب و تمدن کے نابود کرنے اور دنیا پر نظام سرمایہ داری تھوپنے اور تمام تہذیبوں کو امریکی سانچہ میں ڈھالنے اور ساری دنیا کو امریکہ کے قبضہ میں لانے کا دوسرا نام ہے ۔
اس سلسلہ میں یہاں صرف تین نمونے مثال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں :
۱ ) ۔ ۱۹۹۸ ء ئمیں بین الاقوامی کمیشن کی جانب سے جہانی سازی کی تعریف میں اسے ملکوں کی سرحدوں اور قومی پہچان کو ختم کرکے ان کے اقتصادی ، سیاسی ثقافتی یہاں تک کہ دنیا بھر کی اقوام کے علاقائی رسم و رواج میں مداخلت جانا گیا ہے ۔
۲ ) ۔ بعض عربی مفکرین کی طرف سے جہانی سازی کی تعریف میں مغربی طاقتوں کے تسلط سے دنیا بھر میں سرمایہ داری کے غیر عادلانہ نظام کی حاکمیت بتائی گئی ہے ۔
۳ ) ۔ امریکی مبصر جیمس روزناو ، جہانی سازی کی تعریف میں ان سوالوں کو پیش کرتا ہے : کیا جہانی سازی یکسانیت کے احساس کی بنیاد پر یک جہتی کی جانب ایک سفر ہے یا اونچ نیچ اور دیگر اختلافات کو مزید گہرا کرنے کا ایک ذریعہ ہے ؟ آیا جہانی سازی کا سر چشمہ ایک ہے یا متعدد ہیں آیا جہانی سازی میں ایک ہی تہذیب کا فرما ہے یا بہت سی تہذیبوں کا سنگم ہے ؟ آخر کار اس کا ماننا ہے کہ جہانی سازی میں یہ تین چیز ضروری ہے : سرحدوں کا ختم ہونا ، غالب نظام ہونے کے ناطے مغربی نظام کا نمایاں ہونا اور دوسروں کو اپنی راہ و روش کی پیروی پر مجبور کرنا ۔
اس بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہانی سازی حقیقت میں عالمی پیمانہ پر سیاسی روابط اور اجتماعی حقوق کا امریکی ہونا اور دوسروں پر مغربی تہذیب کو تھوپنا ہے ، اور یہ مسئلہ شیطان کے وسوسوں سے بھی زیادہ خطر ناک ہے ۔
مغربی دنیا نے اپنی علمی ٹیکنالوجی ، ثقافتی یلغار ، اور عسکری بر تری کے بل بوتے اس نظریہ کو پیش کیا ہے اور کچھ دانشوروں نے اس سلسلہ میں تھیوریاں اور پیش کر کے اس کے نفاذ اور اجرا کی زمین ہموار کی ہے ۔ اس سلسلہ میں ہنتنگٹن کا نظریہ بہت مشہور ہے ۔ وہ اپنے نظریہ میں مغربی تہذیب پر بہت زور دیتا ہے ، اور اسے ، آزادی ، بشر دوستی ، اور تنوع کے لحاظ سے دوسری تمام تہذیبوں پر فوقیت دیتا ہے ، اور مغربی تہذیب کے علاوہ دوسروں کو ، استبداد قدامت پرستی ، پرانے اقدار کی پیروی انسان کے مسائل جیسے غریبی ، بے روز گاری ، نچلی سطح کی زندگی ، جمعیت میں بے تہاشا اضافہ کے حل کے لئے ناکافی قرار دیتے ہوئے ان پر ڈکٹیٹر شپ کی تاکید کرتا ہے ۔
یہ نظریہ مغربی دنیا کو صلاح دیتا ہے کہ دوسری تہذیبوں سے رواداری نہ رکھیں ۔ اپنی ٹکنولوجی انھیں نہ دیں ۔ مغربی ممالک آپس کے اقتصادی سیاسی اور اداری نظام میں متحد ہو جائیں ۔ اس تھئوری کا ماننا ہے کہ مغربی تہذیب کی تعمیر ، یونانی اور عیسائی یورپ کی میراث سکورلیزم ، قانون کی حکومت ، اجتماعی تنوع ، سوشلائیزیشن اور انسانی حقوق کی بنیاد پر ہوئی ہے ۔ یہ چند نمونے ہیں جن کی بنا پر مغربی تہذیب دوسری تہذیبوں پر فوقیت رکھتی ہے ۔ ” فوکویاما “ بھی سرمایہ داری نظام کو تاریخ کا نہائی مقصد قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام اقوام عالم کو سرمایہ داری کی طرف قدم بڑھانا چاہئے اس سلسلہ میں سیاسی اور اجتماعی زمینیں فراہم کرنا ہوں گی ، ان سے اجتماعی ساخت کو بدلنا ہوگا ، تاکہ دنیا قوم پرستی ، تنگ نظری سے دور مساوات کی جانب آگے بڑھے ۔مذہب کی بھی اس انقلاب کے مطابق تفسیر کرنا ہوگی ، اس سلسلہ میں ہر معاشرے پر ضروری ہے کہ اپنے اندر اعتدال پسند افراد ، تنظیموں اور حکومتوں کو ایجاد کرے ۔ اسی طرح وہ صلاح دیتا ہے کہ قوموں کی برتری اور ان کے امتیازات جتانے میں غلو نہ کیا جائے کیوں کہ اس سے قوموں کا تمدن محدود اور گم ہو جاتا ہے ۔ وہ تمام شدت پسندانہ افکار اور اقدام کی شدید تنقید کرتے ہوئے مذہبی تعلیمات کی تفسیر میں روشن فکرانہ روش پر زور دیتا ہے اور دانشوروں سے درخواست کرتا ہے کہ ہر طرح سے آزادی اور ڈیموکریسی کی حمایت کریں ، اس طرح وہ سرمایہ دارانہ نظام کو اصل مقصد کے عنوان سے پیش کرتا ہے جس کی جانب دنیا کی تمام تہذیبوں کو جانا ہوگا ۔
انگریز دانشور ” بیڈہام برایام “ بھی ۱۹۹۴ ء ء میں اکونومسٹ میکزین میں چھپے سلسلے وار مضامین میں کچھ شباہتوں پر زور دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ پندرہویں صدی ہجری میں عالم اسلام کی صورت حال پندرہویں صدی عیسوی کے یورپ سے بہت ملتی جلتی ہے اس کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی آج کی مذہبی ساخت اور شدت پسندانہ کیفیت سے ، جس طرح سے پندرہویں صدی عیسوی میں کلیسا کے استعمارانہ برتاؤ سے لوگ تنگ آچکے تھے اور دین میں اصلاحات کے مشتاق تھے ، عالم اسلام میں بھی اسی طرح تنگ آکر اپنی مذہبی ساخت میں اصلاحات کے متمنی ہوں گے ، اور اس طرح اصلاحات انجام دینے کا موقع فراہم ہو جائے گا اس کا ماننا ہے کہ دونوں مشابہتوں کے ساتھ اس کے عوامل بھی ملتے جلتے ہیں ۔ جو اس کی کیفیت کی حمایت کر رہے ہیں اور اسے آگے بڑھا رہے ہیں کل یورپ میں انقلاب بپا کرنے اور وہاں کی نشاٴة ثانیہ میں مسلمانوں نے بیرونی دنیا کا کردار ادا کیا تھا ۔ تو آج مغرب عالم اسلام کو آگے بڑھانے اور وہاں ترقیاتی انقلاب لانے میں وہی کردار ادا کر رہا ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ یہ تحریک ان آزاد خیال اور روشن فکر مسلمانوں سے شروع ہوگی جو ڈیموکریسی پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ان افراد کی پوری طاقت کے ساتھ حمایت کرنی چاہئے وہ اپنے مضامین کے اختتام پر عالم اسلام کو تین مشورہ دیتا ہے ۔ تاکہ مغرب کے ساتھ قدم سے قدم ملانے اور آج کے انسانی تمدن کے کاروان کے ساتھ چلنے کے قابل بن سکیں ۔
۱۔ نئے اقتصادی نظام کے ساتھ ہماہنگ ہونا ۔
۲ ۔مرد اور عورت میں مساوات کا قائل ہونا ۔
۳ ۔ حکومتی سیسٹم میں ڈیموکریسی اصولوں کی پیروی کرنا ۔
اس طرح جہانی سازی کی تھیوری اور اقوام عالم کی طرز زندگی کو امریکی سانچہ میں ڈھالنے کا کام ، مختلف شعبوں میں پھیلا ہوا ہے جیسے : کمپیوٹر ، انٹر نٹ ، سٹ لائیٹ اور بین الاقوامی تنظیموں کو کنٹرول کرنا ، تاکہ ایسی تنظیمیں مقصد تک پہنچنے کے لئے مثبت کردار اد اکریں ۔ ورنہ یا تو بھلا دی جائیں یا ان کے آگے دیواریں کھڑی کر دی جائیں ۔ جیسا کہ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ بہت سی تنظیموں کے ساتھ ایسا سلوک ہوا ۔ اگر چہ وہ تنظیمیں امریکہ کے کچھ مقاصد کو پورا کر رہی تھیں لیکن چوں کہ امریکہ کا براہ راست اثر و رسوخ نہیں تھا لہٰذا امریکہ نے ان کے خلاف منفی رویہ اختیار کر لیا ۔
امریکہ ۱۱ / ستمبر کے حادثہ کو دستاویز بنا کر اسی کوشش میں لگ گیا کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بری طاقت منوالے اور دنیا کے تمام ممالک کے سیاسی نظام پر اپنا قبضہ جما لے اور اسے اپنے کنٹرول میں لے آئے ۔ دنیا کی قوموں کی تہذیبوں ، ان کے اقدار اور رسم و رواج کو اپنے کنٹرول میں لانے کے منصوبے اور دیگر ملکوں کے اجتماعی قوانین میں دخل اندازی کرنا ، اسی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہےں ۔ جیسا کہ ہم نے قاہرہ ، کوپنہیگن ، میکزیکوسٹی ، اور پیکنگ کی فیملی کانفرنسوں میں دیکھا کہ امریکہ نے حقوق بشر کی حمایت کا نعرہ لگاکر دوسرے ملکوں کے اجتماعی قوانین میں دخل اندازیاں کیں ، اور ان ملکوں میں ہم جنس رائج کرنے کے لئے جنسی حقوق اور بچوں کو گرانے کے جواز اور نسلوں کو برباد کرنے کے لئے پرگننسی ( Pregnancy) کے حقوق کی پرزور و کالت کی ہے ۔
جہانی سازی کے منفی اثرات
اس تھیوری کے خطرناک منفی اثرات دنیا بھر کی تمام اقوام پر واضح ہو چکے ہیں ، اسی لئے جہانی سازی کو جنون آمیز ، دھوکہ ، جال بچھانے ، یا وہ چیز جو نگل جائے یا جسے نگلا جائے جیسے اوصاف سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں تحقیقات بھی مذکورہ منفی اثرات کو مزید ثابت کرتی ہیں ۔
۱ ) ۔ عالمی نظام اقتصاد ، عالمی پیداوار کے ذخائر ۔ بین الاقوامی تجارت اور عالمی مالی مبادلات پر امریکہ اور مغربی طاقت کا تسلط اور قبضہ ، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں ۵۰۰ ، ایسی بڑی کمپنیاں ہیں جو بین الاقوامی تجارت کا ۷۰ فیصد حصہ اپنے قبضہ میں لئے ہوئے ہیں ۔
دنیا کی صرف ۲۰ فیصد آبادی امیر ہے اور باقی ۸۰ فیصد آبادی غربت میں بسر کر رہی ہے اور دوسرے ملکوں کی اعانت اور مدد کی محتاج ہے ، ادارہ علمی تجارت کی تاسیس سے ۲۰۰۵ ء ء تک امریکہ کی سالانہ آمدنی کی شرح ۲۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ رہی ہے ۔ جب کہ انھیں برسوں میں افریقی ممالک کے سالانہ نقصان کی شرح ۲۰۹ ارب ڈالر کے آس پاس رہی ہے ۔
۲ ) ۔ علمی میڈیا پر امریکہ کا تسلط ۔
۳ ) ۔ چھوٹے ملکوں کی حیثیت و اعتبار کا تمام ہونا اور ان کی ترقی کا رکنا۔
۴ ) ۔ دنیا کی قوموں کی داخلی قانون سازی میں مداخلت ،جیسا کہ ہم خاندان وغیرہ سے متعلق کا نفرنسوں میں اس کے شاہد رہے ہیں ۔
۵ ) ۔ دنیا کے تمام حصوں پر ثقافتی حملے اور ان علاقوں میں پائی جانے والی تہذیبوں کو نابود کرنے کی کوشش ، ماورائے جدیدیت کے زمانہ سے ان کی مطابقت نیز دین کے کردار کو کالعدم قرار دینا جیسا کہ ” جاک دریدا “ فلسفی نے دنیا کے تمام ملکوں سے دینی و تعلیمی اداروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔( عبد العزیز حمودة الثقافة ۔ اختیار الثقافة الاہرام ۲۰۰۲ ص/ ۱۳ )
ہم اس وقت مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مغرب اپنی بعض قدروں مثلا ڈیموکریسی ، شخصی آزادی اور جنسی آزادی کو مسلّم قدروں کی شکل میں دنیا بھر کے ملکوں میں بر آمد کر رہا ہے ۔ یہاں تک کہ ادھر اس نے لائیک مسلک (لا مذہبیت ) کو ایک انسانی اصل کے عنوان سے جسے چھوڑا نہیں جا سکتا ، ذکر کیا ہے ۔ اس طرح مغرب کے اقتصادی نمونوں کے بارہ میں ثقافتی نقطہ نظر سے گفتگو کی جا سکتی ہے ، نیز مختلف میدانوں میں وسیع و موثر ثقافتی حملوں نیز قومی ماہیت کو محوکرنے اور مجازی مصنوعی حیثیت پیدا کرنے کی اس کی کوشش کے بارہ میں بھی گفتگو کی جا سکتی ہے ۔
۶ ) ۔ بین الاقوامی اجتماعوں اور اداروں کی وقعت کم کرنا اور ان سے بڑی طاقتوں کے حق میں فائدہ اٹھانا مثلا : بین الاقوامی مالی فنڈ ، عالمی بینک اور بقیہ تمام بین الاقوامی اداروں کے ذریعہ ان بڑی طاقتوں کے منافع سے متعلق سیاستوں کو بروئے کار لایا جانا ، یہاں تک کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے مغربی ملکوں کے سر براہ نے اعلان کیا کہ ناٹو اور مغربی فوجوں نے بین الاقوامی اداروں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی نظم کے اوپر سب سے بڑی ضرب
لگائی ہے ۔ ۱ #
۷ ) ۔بڑی طاقتوں کے ذریعہ زندگی کے ماحول کو آلودہ یا انھیں اپنے منافع کی تکمیل کے لئے تباہ کرنا ۔
۸ ) ۔ دنیا کے بعض علاقوں کے سیاسی نقشوں میں تبدیلی لانے کی زبر دست کوشش کرنا ( جیسے خلیج فارس شمالی افریقہ ، روس ، تائیوان ) جو غالبا ایک جدید سیاست کے تحت انجام پا رہی ہے ۔
البتہ اس جہانی سازی کے منفی نتائج بھی ہیں کہ ہم ذیل میں ان کا ذکر کرتے ہیں :
امریکہ کی یک طرفہ جہانی سازی کی راہ میں رکاوٹیں
ہم مطمئن ہیں کہ امریکہ جو اس جہانی سازی کو عملی شکل دینا چاہتا ہے ، بہت سے امکانات رکھنے کے باوجود اپنے مقصد تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوگا ، کیوں کہ اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں کہ ان میں سے
بعض یہ ہیں :
۱ ) ۔ اس جہانی سازی کے مقابل بڑے ملکوں کی مقاومت اور عالمی سطح پر ملکوں کا اتحاد جو ان کے منافع سے ٹکراؤ کا باعث ہوگا ۔
۲ ) ۔ دنیا کی قوموں کا ان کی حیثیت اور شناخت کو مسخ کرنے والی اور ان کے ملکوں پر قبضہ کرنے ۔ کہ اس جہانی سازی کے باطن میں یہی منصوبہ نظر آتا ہے ۔ والی طاقت کے خلاف ڈٹ جانا۔
۳ ) ۔ عالمی سطح پر مختلف میدانوں میں بحران کا پیدا ہونا ، خاص طور سے اقتصادی میدانوں میں ، مثلا توانائی کا بحران جو ممکن ہے تمام عالمی سسٹموں کو متاثر کرکے رہے گا۔
۱ ۔ ان غلط استفادوں کے دلائل روز بروز زیادہ ہوتے جارہے ہیں ، اور اگر یہ بین الاقوامی ادارے ان کے لئے مفید نہیں ہوتے تو وہ انھیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ وہی چیز ہے جس کا ہم امریکہ کی طرف ( کیوٹو ) معاہد کے سلسلہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو ماحولیات کی آلودگی پر روک لگاتا ہے ۔ چوں کہ امریکہ اس بات کی طرف متوجہ تھا کہ اس معاہدہ پر عمل ان کے پتھر کے کوئلے ، تیل اور ایٹمی توانائی کی پیدا وار میں کمی کا باعث ہوگا ۔ جب کہ اس ملک نے ادھر بین الاقوامی عدالت کے ذریعہ اس معاہدہ پر دسخط کئے ہیں اور اس کی تشکیل میں شرکت کی ہے لیکن اپنے فوجیوں کے لئے اس عدالت سے معافی کا اقدام کیا ہے اسی طرح اس نے ایٹمی تجربات پر روک لگانے والے معاہدہ ( CTBT ) سے بھی نکلنے کی کوشش کی ہے اور کیمیاوی اسلحوں پر پابندی کے معاہدہ سے بھی خود کو دور رکھنے کی کوشش کی ہے ۔
۴ ) ۔ بین الاقوامی تعلقات کے سسٹم کو خراب کرنے کی کوشش جاری رکھنا اور عالمی اداروں کو نظر انداز کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ یہ بات پوری دنیا کو امریکہ کے خلاف بھڑکا دے گی ۔
۵ ) ۔ ان ( جہانی سازی کے منصوبوں ) سے دنیا کی آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے جو ان منصوبوں سے مقابلہ میں افزائش کا سبب ہوگا ۔ جہانی سازی کے لئے استفادہ کئے جانے والے وسائل دنیا کے لوگوں میں آگاہی کا سبب بنیں گے ۔
۶ ) ۔ دنیا کی قوموں میں مذہبی آگاہی و بیداری جو اس طرح کے منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
اسلامی حکومت کا عالمی تصور اور مغربی جہانی سازی
اس سے پہلے کہ امت اسلام اس سلسلہ میں کوئی اقدام کرے ہماری کو شش ہوگی کہ اسلامی حکومت کے عالمی تصور اور مغربی جہانی سازی کے درمیان فرق کو خلاصہ کے طور پر ذکر کریں ۔
اسلامی حکومت کا عالمی تصور مندرجہ ذیل خصوصیتوں کا حامل ہے :
l اسلام ایسے عالمی پہلو کا حامل ہے کہ وہ اپنی آیڈیا لوجی کو دنیا کی دوسری قوموں پر نہیں لادتا اور دوسری قوموں کی ثقافت اور طرز زندگی کو صلب کرنے کی فکر نہیں ہے بلکہ باہمی زندگی و مفاہمت کی کوشش کرتا ہے ۔ اس چیز کی اسلامی متون ( قرآن و احادیث اور ان متون سے ہماہنگ تاریخی رودادوں کے ذریعہ تاکید ہوتی ہے اور اس میں کسی طرح کے عقیدہ کے جبر یا دوسروں کی ثقافت کو مسخ کرنے یا قومی بڑائی کی گنجائش نہیں ہے۔
l اسلام ، دوسرے ملکوں کے حقوق سلب کرنے اور ان کے ذخائر کو لوٹنے کی کوشش نہیں کرتا ۔
l مادی منافع سے مربوط مفاہیم و خیالات کو شائع و عام کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنی روش میں انسانی پیدا وار اور عمومی ضرورتوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے ۔ خدا کی نعمتوں کا کفران ، اشیاء کی تقسیم ، پیدا وار میں اسراف اور استعمال کی جانے والی عام چیزوں کی تقسیم میں ظلم و ستم نہیں کرتا اور اس کا مقصد انسان کی کرامت و بزرگی اور خوشبختی ہے ۔
l اسلامی حکومت کا عالمی تصور دوسرے افراد ، گروہ یا معاشروں کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اس کی کوشش یہ رہی ہے کہ حق ، حقدار تک پہنچے ۔ وہ مختلف میدانوں میں امن و امان کو سب کے لئے فراہم کرتا ہے ۔
l اسلامی حکومت کا عالمی تصور اس بات کی کوشش نہیں کرتا کہ ایک قوم یا ایک طبقہ یا ایک فرد کو دوسروں پر تھوپے ۔ وہ ہر طرح کی ڈکٹیٹر شپ اور برتری کا مقابلہ کرتا ہے اور اسے طاغوت کے مظاہر کا ایک نمونہ سمجھتا ہے ۔ وہ طاغوت سے مقابلہ کو انبیائے کرام ﷼ کے دو مقصد یعنی زمین پر خدا کی بندگی و عبادت کے ساتھ دوسرا مقصد سمجھتا ہے ۔
l اسلامی حکومت کا تصور انسانی قدروں کو عام کرنے اور نیک اخلاق کے رواج کو ایک نا قابل اجتناب مقصد سمجھتا ہے ۔
l اس حکومت کا تصور انسانی جلوؤں کو شخصی ، اجتماعی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں کرنے کی واقعی و حقیقی کوشش کرنا ہے ۔
l فطری عناصر میں سے ایک عدالت ہے کہ دین اسے ہر میدان میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے ،اور جو چیز بھی اس سے منافات رکھتی ہے اسے حذف کر دیتا ہے ۔
l اسلامی حکومت کا عالمی تصور دوسروں کا احترام کرنے کی کوشش کرتا ہے اور باہمی گفتگو کی منطق کو وسعت دیتا ہے ۔ ( لیحیی من حیی علی بینة و یہلک من ہلک عن بینة ) جو لوگ زندگی چاہتے ہیں انھیں دلائل کی بنیاد پر زندگی کا موقع دیتا ہے اور جو لوگ دلائل و شواہد کی بنیاد پر ہلاکت کی راہ اپناتے ہوں انھیں ہلاک کر دیتا ہے ) اور یہ انسانی فطرت کے تقاضوں میں سے ہے ۔
l اجتمائی سطح پر تعاون ، اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتا ہے ۔
l انسان اور اس کی مرکزی حیثیت کو عہد و فریضہ کی پابندی اور کام کی بنیاد پر تولتا ہے ۔
l فردی آزادی اور اجتماعی منافع کے درمیان توازن بر قرار کرتا ہے اور تمام اجتماعی مسائل کو واقعی فلسفہ کی بنیاد پر استوار کرتا ہے ۔ اسی راہ پر چلتا ہے اور خود کو ان انسانی خصوصیات کے تقاضوں کا پابند جانتا ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔
لیکن مغربی جہانی سازی مذکورہ بالاباتوں کے ٹھیک مخالف ہے ۔ یہ جہانی سازی جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ، ثقافتی نفرت ، لوٹ مار یا ایک طرح سے وحشیانہ اور دیوانہ وار یا ترقی یافتہ اور ماڈرن خصوصیات کی حامل ہے ۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حیوانی مصرف کی منطق دنیا میں رائج کرے اور دوسرے معاشروں کے تمام امور میں حتی ان کے اجتماعی و شہری امور میں مداخلت کرے ۔ اس کا مقصد دوسروں پر تمام میدانوں میں اپنا تسلط کرنا ہے ۔ وہ اخلاقیات کو کوئی وقعت نہیں دیتی بلکہ اخلاق کو اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لئے بروئے کار لاتی ہے ۔
جیسا کہ پچھلے دنوں ہم نے امریکہ کے مفکرین کے بیانیہ میں دیکھا ، مغربی ثقافت میں معنوی و روحانی مسائل کی کوئی جگہ نہیں ہے ، بلکہ مغرب اپنے تمام وسائل کے ذریعہ من جملہ پروپیگنڈہ مشینریوں اور جنسی آزادی وغیرہ کے ذریعہ معنویت سے مقابلہ کرتا ہے ۔ عدالت بھی مغرب کی نظر میں ایک نسبی چیز ہے اور وہ اس طرح کہ اسے ان کے تنگ نظرانہ منافع سے سازگار ہونا چاہئے ۔ سرانجام مغربی ثقافت گفتگو کے بجائے وحشیانہ طور پر کشمکش کی منطق کو پیش کرتی ہے ۔
جہاں تک معیار عدالت کا سوال ہے تو ان کی طاقت اور تنگ نظر منافع کے علاوہ ان کے یہاں کوئی معیار عدالت نہیں ہے ۔ اسی بنا پر وہ دوسروں کے ساتھ دہری سیاست چلتے ہیں ، اس معنی میں کہ دوسروں کو انسانی طور سے برابر کا حق حاصل نہیں ہے ۔ ( ہابز ) کے نظریہ کے مطابق ماڈرنزم کی بنیاد پر معاشروں کی تقسیم بندی میں ، کہ آج زیادہ تر مغربی مفکرین خصوصا بر طانوی اور امریکی مفکرین اس کے پیرو نظر آتے ہیں اور جیسا کہ پہلے ذکر ہوا مغربی جہانی سازی اپنے لئے مناسب شرائط و حالات سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے وحشیانہ حملہ کی کوئی واقعی فلسفی توجیہ ہو۔
آج اسلامی امت کے حالات
آج اسلامی امت نے ایک طولانی مدت کی جنگ کے آثار کو جو دسیوں اور شاید سیکڑوں سال سے جاری تھی خود سے دور کر دیا ہے ۔ بعض اسلامی علاقوں مثلا انڈونیشیا میں مغربیوں کا قبضہ تین صدیوں سے زیادہ رہا ہے اور یہ قومیں اس مدت میں بہت سے رنج و الم شکستوں اور مختلف لوٹ مار جغرافیائی تاریخی اور زبانی تجزیہ کا شکار اور دینی ہدایت سے محروم رہیں اور برابر مغرب کی غیر مذہبی اور ٹکراؤ رکھنے والی تعلیمات سے رو برو رہیں ۔ بیسویں صدی میں بھی غفلت خیانت اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات سے دو چار رہیں ۔ اس کے باوجود اس وقت یہ قومیں ان سے بڑے خطروں میں گرفتار ہوئی ہیں جن میں ان کے ثقافتی و تہذیبی وجود کو نشانہ بنا یا گیا ہے ۔
ان حالات میں اسلامی امت کون سے اقدامات کر سکتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بڑی حد تک مسلمان جنگ احد کی شکست کے بعد سے ملتے جلتے حالات سے دو چار ہیں ۔ اس زمانہ میں مسلمان جنگ کے زخموں کے درد ، تفرقہ ، نفاق ، عقائد میں شبہ جیسے حالات میں مبتلا تھے ، لیکن مسلمانوں کے رہبر حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ احد میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو ایک بار پھر جنگ کے لئے آمادہ کرتے ہیں اس طرح قریش کے دل میں خوف و وحشت ڈال دیتے ہیں اور انھیں دوبارہ حملہ سے روک دیتے ہیں ۔
ہمیں ان حالات ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منصوبوں اور اس زمانہ کی تعلیمات قرآن کا جائزہ لینا چاہئے اور ان سے موجودہ حالات میں فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
خدا وند عالم نے احد کے دن سورہ آل عمران کی ساٹھ ( ۶۰ ) آیتیں نازل کیں ، اس طرح سے کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں لکھا :
” فیھا صفة ما کان فی یومھم ذلک و معاتبة من عاتب منھم “ ( سیرہ ابن ہشام ، ج / ۳ ص / ۱۱۲ )
درس عبرت اور جنگ احد کے واقعات کا جائزہ حسب ذیل انداز میں کیا جاسکتا ہے -:
دشمن کی طرف سے پھیلائی جانے والی افواہیں ، جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کو جنگ کے لئے آمادہ کر رہے تھے ، جو اس بات کا سبب ہوئیں کہ مسلمانوں کے دو گروہ اپنے عقائد اور خدا پر توکل کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اور شکست و نامامی سے دو چار ہو جاتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وعدہ انھیں صحیح راہ اور نجات کی طرف واپس لاتا ہے ۔
ایمان کی پابندی کا میابی کا راز ہے اور یہ مسئلہ تاریخی سنتوں کا حصہ ہے ۔ ( آیت / ۱۳۷ سورہ آل عمران )
معنویات کی تقویت کا مسئلہ اور یہ کہ مومن اس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ بدن پر زخم کھانے کے بعد بھی کامیاب ہے اور شکست و فتح خدا کے ہاتھ میں ہے جسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کے لئے آزمائش و آگاہی اور کافروں کے لئے زوال اور بکھراؤ کا باعث بنا ہے ۔ ( آیات ۱۴۰۔ ۱۳۹ )
رسالت پر ایمان اور اس پر ثابت قدم رہنا ، کیوں کہ یہ عمل رسالت کی نعمت پر شکر کا مقتضی ہے ۔ آیت / ۱۴۴ )
جوش و جذبہ اور بہادری نیز راہ ایمان پر امید و پائداری ، وعدہ٘ الٰہی کا انتظار اور دشمن کے وعدوں سے دور رہنا اور فریب نہ کھانا۔ ( آیات / ۱۵۱ ۔ ۱۴۶ )
اللہ کا وعدہ حقیقی وعدہ ہے کہ مسلمان جس وقت اس کی راہ پر گامزن تھے انھوں نے اس کے وعدہ کو پورا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ لیکن جب صبر و تقوا کو جو کامیابی کی شرط تھی ، کھو بیٹھے تو شکست کی آزمائش سے دو چار ہوئے ۔ ( آیت / ۱۵۲ )
بعض مسلمانوں کی جلد بازی ، تھوڑے سے منافع کی طرف بھاگنا ، رہبر کے منصوبہ کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنا ، موت کا خوف ، شیطان کے وسوسوں کی طرف توجہ کے نتیجہ میں شکست ۔ قرآن کریم ایک بار پھر ان کو اللہ کی قدرت ، کامیابی کے وعدوں ، موت کے معنی اور اجل کے آنے سے آگاہ کرتا ہے اور جاہلیت کے خیالات سے روکتا ہے ۔ ( آیات / ۱۵۸ ۔ ۱۵۵ )
موجودہ صورت حال کو منظم کرنے کی دعوت ، رہبر و امت کے درمیان طبیعی روابط کا نرمی ، رحمت ، باہمی مشورت اور مشترکہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی بنیاد پر ، نئے سرے سے بر قرار کرنا ، نیز رہبر کی قیادت میں آمادہ شدہ منصوبوں کی طرف خدا پر توکل کے ساتھ قدم بڑھانا ۔ ( آیت / ۱۵۹ )
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں ، خاص طور سے جنگ احد میں شریک افراد کو واقعہ ” حمراء الاسد “ میں دشمن سے مقابلہ کا حکم دیتے ہیں تاکہ قریش مسلمانوں کے رہبر کے عزم و حوصلہ سے آگاہ ہو جائے اور مسلمانوں پر حملہ کا ارادہ ترک کر دے ۔ ( آیات / ۱۷۴ ۔ ۱۷۲ )
ہمیں بھی جہانی سازی کے وحشیانہ حملہ سے مقابلے کے لئے ان تاریخی واقعات سے عبرت اور سبق حاصل کرنا چاہئے ۔
اسلامی امت کا موقف اور جہانی سازی کے مقابل اٹھائے جانے والے قدم
ان اقدامات کے ذکر سے پہلے اس نکتہ پر تاکید ضروری ہے کہ جہانی سازی اور اس کی مختلف شکلوں میں ان اقدامات کے ذکر سے پہلے اس نکتہ پر تاکید ضروری ہے کہ جہانی سازی اور اس کی مختلف شکلوں کے رو برو انفعالی مخالفت بے نتیجہ ہو گی ۔ کیوں کہ جہانی سازی کی بعض قسمیں ترقی پسند حالت کی حامل ہیں ۔ لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر اس عظیم عالمی حملہ کے منفی پہلوؤں کے خلاف طے شدہ عملی اقدامات کرنے چاہئیں ۔
ایک واضح و روشن عملی راہ حل کا اقدام جس میں سب شریک ہوں اور اس پر عمل کریں نیز ان نظریات کی وضاحت ، جنھوں نے اس تخریبی نقطہ نظر کو وجود میں لانے کے لئے زمین ہموار کی ہے ، بہت مفید اور راہ گ
شا ہوں گے ۔
الف ) ۔عالمی سطح پر
۱ ) ۔ امریکی تسلط کے نظریاتی پہلوؤں اور اس سلسلہ میں اس کے اصل مقاصد ( مثلا عالمی گاؤں ، بازار کی آزادی ، دوسروں کے معاملات میں مداخلت کی آزادی ، سرحدوں کا کھولا جانا و غیرہ کو واضح اور رسوا کیا جائے ۔
۲) ۔ بازار کے تسلط کو سیاسی پہلو پر اس کے تمام مظاہر کے ساتھ روکا جانا چاہئے اور اسے حذف کرنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کرنا چاہئے ۔
۳ ) ۔ انسان کی فطری قدر و منزلت میں اضافہ کے لئے اسلامی فطرت کے نظریہ کو پیش کرنا۔
۴ ) ۔ علاقائی ماہیت و شناخت اور دنیا کی قوموں کی ماہیت کو بر قرار رکھنے پر زور دینا اور انھیں آگاہ کرنا کہ اپنی اور اپنی تہذیب کی حفاظت کریں ۔
۵ ) ۔ قوموں کی علمی توانائی اور ترقی کو بلند کرنا
۶ ) ۔ قوموں کو ان کی آزادی اور ان کے اصلی حقوق دلانے کی کوشش کرنا ۔
۷ ) ۔ بین الاقوامی اداروں کو مضبوط کرنا اور ان کی عملی مستقل مزاجی میں اضافہ کرنا ۔
۸ ) ۔ مختلف و رنگا رنگ تہذیبی منابع و مآخذ میں گہرائی لانا ۔
ب ) ۔اسلامی ملکوں کی سطح پر
۱ ) ۔عالمی اسلامی اداروں کو مضبوط کرنا اور سیاسی ، اقتصادی و ثقافتی میدانوں میں انھیں فعال بنانا۔
۲ ) ۔ علاقائی و عالمی مطالعات کے سلسلہ میں تغیر لانا اور تاریخ پر توجہ دینا۔
۳ ) ۔ استقامت و پایداری ، تعاون و اتحاد کے تمام عوامل کو تقویت دینا مثلا عربی زبان کی تعلیم و تحصیل کو ضروری قرار دینا ، معنویات کو زندہ کرنا جو ہمیں ہمارے دشمن سے ممتاز اور جدا کرتی ہے ۔ خدا وند عالم سورہ نساء آیت / ۱۰۴ میں ارشاد فراماتا ہے :
< ولا تھنوا فی ابتغاء القوم ان تکونوا تالمون فانّھم یاٴلمون کما تاٴلمون و ترجون من اللّٰہ ما لا یرجون و کان اللّٰہ علیماً حکیماً >
” سستی نہ کرو ، اگر تم رنج و الم میں رہو گے تو وہ بھی تمھاری طرح رنج و الم میں رہیں گے تم خدا سے اس چیز کی امید رکھتے ہو مگر وہ اس چیز کی امید نہیں رکھتے اور خدا بہت دانا و حکمت والا ہے “
۴ ) ۔ اسلامی قیادت و رہبری کی کیفیت کو اپنی طبیعی و صحیح حالت پر لانا اور امت و رہبر کے معاملہ کو نرمی و محبت کی بنیاد پر استوار کرنا ۔
۵ ) ۔ زندگی و موت ، تہذیب و تمدن ، خدا سے رابطہ ، اس کی طاقت و قدرت پر ایمان ، اللہ پر بھروسہ اور ایک دوسرے سے ٹکراو نہ رکھنے جیسی قدروں کو فروغ دینا۔
۶ ) ۔ معاشرہ میں تمام اعتبار سے باہم مشورہ کرنے کی عادت کو عام و رائج کرنا ۔
۷ ) ۔ اسلام کے انسانی حقوق پر پوری توجہ و باریکی کے ساتھ عمل کرنا ۔
۸ ) ۔ دھمکیوں کو بہترین موقعوں میں تبدئل کرنے کے لئے اقدام کرنا ۔سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۷۳ میں آیا ہے :
< الّذین قال لھم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایماناً و قالوا حسبنا اللَّہ و نعم الوکیل >
” وہ مومنین کہ جب لوگوں ( منافقوں ) نے ان سے کہا کہ تمھارے لئے بہت بڑا لشکر تیار ہوا ہے ، لہٰذا ان سے ڈرو توان کے ایمان میں اضافہ ہو گیا اور انھوں نے کہا کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے “
۹ ) ۔ اس عظیم عالمی حملہ کے مقابلہ میں اپنی حقیقت و اصل پر توجہ ، نئی ایجادات اور مذہبی تحقیقات میں اجتماعی اجتہاد کی طرف توجہ دینا اور استقامت و پائداری اختیار کرنا ۔
۱۰ ) ۔ اسلامی بیداری کی حمایت کرنا ۔
آخر میں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ایک دوسری جہانی سازی بھی وسعت اختیار کر رہی ہے اور وہ ہے معنویات کی طرف لوگوں کا رجحان اور دنیا کی قوموں میں دینداری کی روح کا پیدا ہونا ۔ مذہبی رہنماؤں کے درمیان تفاہم کا پیدا ہونا ، خاص طور سے عالم اسلام میں ہمہ جہت افہام و تفہیم کی فضا قائم ہو رہی ہے ۔ ایسی فضا جو اس قوم کو اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچا کر رہے گی ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر معنویات کی طرف میلان روز بروز بڑھتا جائے گا ۔ چنانچہ حسب ذیل موارد اس ادعا کی تائید کرتے ہیں:
الف : عالم اسلام میں لوگ دینداری کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور علمائے دین سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ لوگوں کی عمومی زندگی میں دخیل ہوں اور ان کے مسائل کا حل پیش کریں ۔
ب :عیسائی دنیا میں سیاسی و اجتماعی میدانوں میں کلیسا کے کر دار کا محکم ہونا ، خاص طور سے ان ملکوں میں جو روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد وجود میں آئے نیز جنوبی ایشیا میں اجتماعی فیصلے کرنے کے سلسلہ میں بدھ مذہب کے رہنماؤں کو آزادی حاصل ہونا ۔
ج : لوگوں میں دینی کتابوں اور دینی نظریات کی طرف رجحان میں اضافہ ہونا۔
د : ادھر اقوام متحدہ کا مذہبی رہنماؤں کی طرف توجہ دینا جیسا کہ ہم نے نیویارک اور بینکاک کی کانفرنسوں میں مشاہدہ کیا ۔
ھ : مختلف ادیان و مذاہب میں باہم گفتگو کا وسعت پانا ۔
منابع و مآخذ
۱۔ قرآن
۲ ۔جیمس روز ناؤ، دینا میکیہ المعرفة
۳ ۔ڈاکٹر عبد العزیز حمودة ، الثقافة ۔ اختیار الثقافة القومیة الاہرام ۲۰۰۲
۴ ۔کانفرنس جمعیت و توسعہ قاہرہ و پیامدہای آن ، نوشتہ مولف
۵ ۔سیرة ابن ہشام ، ج / ۳ دار احیاء التراث
۶ ۔مجد الدین حمشی ، العربی ، شمارہ ۵۱۲
۷ ۔مجلہ المنہاج ، شمارہ ۲۲، سال ششم
۸ ۔مجلہ النہج ، شمارہ ۔ ۵۰ بہار سال ۱۹۸۸
۹ ۔مجلہ الواحة شمارہ ۔ ۱۶۔
source : http://www.taghrib.ir