(ا)۔ عَنْ اُمِّ سلمہ قَالَتْ: نَزَلَتْ ھٰذِہِ الآیَةُ فِی بَیْتِیْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“، وَفِی الْبَیْتِ سَبْعَة، جبرئیل و میکائیل و علیٌ فاطمة والحسن والحسین وأَنَا عَلٰی بٰابِ الْبَیْتِ قُلْتُ: یٰارَسُوْلَ اللّٰہِ، أَ لَسْتُ مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ؟ قٰالَ اِنَّکِ عَلٰی خَیْرِ اِنَّکِ مِنْ اَزْوَاجِ النَّبِیَ۔
”اُمِ سلمہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہٴ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی اور آیت کے نزول کے وقت گھر میں سات افراد موجود تھے اور وہ جبرئیل، میکائیل، پیغمبر اسلام، حضرت علی علیہ السلام، جنابِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام تھے۔ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں اہلِ بیت میں سے نہیں ہوں؟“ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے سلمہ! بے شک تو خیر پر ہے لیکن تو ازواج میں شامل ہے“۔
(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں اُمِ سلمہ سے یوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم گھر میں موجود تھے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ریشمی چادر اپنے بابا کے پاس لائیں۔ پیغمبر خدا نے فرمایا:”بیٹی فاطمہ ! اپنے شوہر اور اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ“۔ بی بی فاطمہ نے اُن کو اطلاع دی اور وہ آگئے۔ غذا تناول کرنے کے بعد پیغمبر نے چادر اُن پر ڈال دی اور کہا:
’اَلّٰلھُمَّ ھٰوٴُلٰاءِ اَھْلُبَیْتِیْ وَعِتْرَتِیْ فَاَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیْرا‘
”خداوندا! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔
اس وقت یہ آیت ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“نازل ہوئی۔
میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں بھی آپ کے ساتھ اس میں شامل ہوں؟“ آپ نے فرمایا:”سلمہ! تو خیر اور نیکی پر ہے(لیکن تو اس میں شامل نہیں)“۔
(ج)۔ علمائے اہلِ سنت کی کثیر تعداد نے جن میں ترمذی ، حاکم اور بہیقی بھی شامل ہیں، اس روایت کو نقل کیا ہے:
عَنْ اُمِّ سَلْمَہ قٰالَت: فِیْ بَیْتِیْ نَزَلَتْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ وَفِیْ الْبَیْتِ فاطمةُ وَعَلیُ والحسنُ والحُسینُ فَجَلَّلَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ علیہِ وآلہ وسلَّم بِکِسٰاءِ کَانَ عَلَیْہِ، ثُمَّ قٰالَ: ھٰوٴُلٰاءِ اَھْلُ بَیْتِی فَاَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَ طَھِّرْھُمْ تَطْھِیْرا۔
”اُمِ سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہٴ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی۔ آیت کے نزول کے وقت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام گھر میں موجود تھے۔ اُس وقت رسول اللہ نے اپنی عبا جو اُن کے جسم پر تھی، اُن سب پر ڈال دی اور کہا:(اے میرے اللہ)! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ پس ہر قسم کے رجس کو ان سے دور رکھ اور ان کوایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ56اورصفحہ31۔
2۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، بابِ مناقب ِ اہلِ بیت ، ج9،ص169 وطبع دوم ،ج9،ص119۔
3۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث345،صفحہ301، طبع اوّل۔
4۔ خطیب ِ بغدادی، تاریخ بغداد ج9،ص126، باب شرح حال سعد بن محمد بن الحسن عوفی
5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62، صفحہ242اور باب 100،صفحہ371۔
6۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ133،146،172 اور جلد2،صفحہ416۔
7۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ج3،ص483،البدایہ والنہایہ ج7،ص339، بابِ فضائلِ علی
8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 33،صفحہ124اور صفحہ271۔
9۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں، جلد25،صفحہ209۔
10۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد1،صفحہ369۔
11۔ سیوطی ، تفسیر الدرالمنشور، جلد5،صفحہ215۔
12۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب، ج3،ص1100، روایت شمارہ1855، بابِ علی
13۔ ذہبی، تاریخ اسلام، واقعات61ہجری تا 80ہجری، تفصیل حالاتِ امام حسین ،ص96
14۔ حافظ بن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث98، جلد13،صفحہ67۔
15۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں جلد22،صفحہ6،7۔
دسویں آیت
موٴدتِ اہلِ بیت کا ایک انداز
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
”(اے میرے رسول) کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے اہلِ بیت سے محبت کرو“۔(سورئہ شوریٰ:آیت23 )
تشریح
”اس آیت کی شانِ نزول اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب پیغمبر اسلام مدینہ میں تشریف لائے اور اسلام کی بنیاد مضبوط ہوئی تو انصار کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:”یا رسول اللہ! ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر آپ کوکوئی مالی یا اقتصادی مشکل درپیش ہے تو ہم اپنے اموال و دولت آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔ جب انصار یہ باتیں کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی: ”قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“
”میں تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں سے
مودّت کرو“۔
پس رسولِ خدا نے اپنے قریبیوں سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے۔
(مجمع البیان، جلد9،ص29)
قربیٰ سے مراد کون کونسے رشتہ دار ہیں؟
قربیٰ کو پہچاننے کا سب سے بہترین اور احسن ترین ذریعہ قرآنی آیات اور روایات ہیں۔ قربیٰ سے محبت تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ اجرِ رسالت بھی ہے ، خدا اور اُس کے رسول کا حکم بھی۔ لہٰذا ان کو پہچاننے میں نہایت دقت اورسوچ سمجھ سے کام لینا ہوگا۔ ہم بغیر کسی مزید بحث کئے ہوئے برادرانِ اہلِ سنت کی کتب سے تین روایات نقل کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:
(ا)۔ احمد بن حنبل کتاب” فضائل الصحابہ“ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰیط‘
قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہ مَنْ قَرابَتُکَ؟مَنْ ھٰوٴلَاءِ الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّ تُھُم؟ قَالَ صلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلہ وَسَلَّم علیٌ فاطمةُ وَ اَبْنَاھُمَا وَقٰالَھٰا ثَلَا ثاً۔
جب یہ آیہٴ شریفہ ”قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“ نازل ہوئی۔ اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! آپ کے جن قرابت داروں کی محبت ہم پر واجب ہوئی، وہ کون افراد ہیں؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دونوں فرزند ہیں“۔ آپ نے اسے تین بار تکرار کیا۔
(ب)۔ سیوطی تفسیر”الدرالمنثور“ میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے ابن عباس سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:
اَنْ تَحْفَظُوْنِیْ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ وَتُوَدُّوْھُمْ بِیْ۔
”میرے اہلِ بیت کے بارے میں میرے حق کی حفاظت کریں اور اُن سے میری وجہ سے محبت کریں“۔
(ج)۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ایک بہترین اور خوبصورت روایت نقل کرتے ہیں۔ فخررازی ، قرطبی اور دوسروں نے بھی اپنی تفسیروں میں اس کے کچھ حصے نقل کئے ہیں۔ یہ حدیث واضح طور پر مراتب و مقام اور فضیلت ِآلِ محمدکوبیان کرتی ہے۔ ہم بھی اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(i)۔ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَھِیْداً۔
جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا، وہ شہید مرا۔
(ii)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْراً۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ مغفور (جس کے سارے گناہ بخش
دئیے جائیں) مرا۔
(iii)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ تائب(جس کی توبہ قبول ہوگئی
ہو)مرا۔
(iv)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُوٴمِناً مُسْتَکْمِلَ
الاِ یْمَانِ۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ مومن اور مکمل ایمان کے ساتھ مرا۔
(v)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَہ مَلَکُ الْمَوْتِ
بِالجَنَّةِ ثُمَّ مُنکَرٌوَنَکِیرٌ۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُس کو ملک الموت نے اور پھر منکر و نکیر
نے جنت کی بشارت دی۔
(vi)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ یَزَّفُ اِلی الجَنَّةِ کَمَا
تَزُفُّ العُرُوسُ اِلٰی بَیتِ زَوجِھَا۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُسے جنت میں ایسے لے جایا جائے گا
جیسے دلہن اپنے شوہر کے گھر لے جائی جاتی ہے۔
(vii)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَہ فِیْ قَبْرِہ بَابَانِ
اِلٰی الجَنَّةِ۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُس کی قبر میں دودروازے جنت کی
طرف کھول دئیے جاتے ہیں۔
(viii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللّٰہُ قَبْرَہ مَزَارَ
مَلا ئِکَةِ الرَّحْمَةِ۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اللہ نے اُس کی قبر کو فرشتوں کی زیارت
گاہ بنادیا۔
(ix)۔ اَ لَا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلَی السُنَّةِ
وَالْجَمَاعَةِ۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مراوہ اہلِ سنت والجماعت کے طریقہ
پرمرا۔
(x)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جاءَ یَوْمَ القِیٰامَةِ
مَکْتُوْبٌبَیْنَ عَیْنَیْہِ اَئِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ۔
آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے
گا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”خدا کی رحمت سے مایوس“ لکھا ہوا ہوگا۔
(xi)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَافِرًا۔
آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا، وہ کافر مرا۔
(xii)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُُمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ۔
آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا۔
آلِ محمد کے بارے میں فخرالدین رازی کے نظریات
بڑی دلچسپ بات ہے کہ فخرالدین رازی جو اہلِ سنت کے بڑے بزرگ عالمِ دین ہیں، نے حدیث ِ بالا جو تفسیر کشاف میں بڑی واضح طور پر اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے، کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ آلِ محمد سے مرادوہ افراد ہیں جن کا پیغمبر خدا سے بڑا گہرا اور مضبوط تعلق ہو اور اس میں شک تک نہیں کہ جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کا تعلق پیغمبر خدا سے سب سے زیادہ تھا اور یہ مسلمہ حقیقت ہے اور روایاتِ متواترہ سے ثابت شدہ ہے۔پس لازم ہے کہ انہی ہستیوں کو آلِ محمد قرار دیاجائے۔
فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں اس حدیث کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون سے افراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا،
حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں“۔
اس کے علاوہ اہلِ سنت کی کتابوں میں بہت سی دوسری احادیث اور روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں۔ اُن سب کو یہاں پر بیان کرنا ممکن نہیں اور صرف مزید اطلاع دینے کی غرض سے اشارہ کررہے ہیں کہ اوپر درج کی گئی حدیث جو محبت ِآلِ محمد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی اہم ہے، اہلِ سنت کی کم از کم پچاس معروف کتابوں میں درج کی گئی ہے۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ، جلد4،صفحہ219۔
2۔ بیضاوی اپنی تفسیر(تفسیر بیضاوی ) میں، جلد2،صفحہ362۔
3۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد 4،صفحہ112۔
4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب32،صفحہ123اور 444، اس کے
علاوہ اس حدیث کو مکمل طور پر مقدمہٴ کتاب میں بھی نقل کیا ہے۔
5۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام میں، حدیث352،صفحہ307۔
6۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ130، طبع اوّل، حدیث822۔
7۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل، کتاب الفضائل میں، حدیث263،صفحہ187،طبع اوّل،
بابِ فضائلِ امیرالمومنین علی ۔
8۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، جلد9،صفحہ168، بابِ فضائلِ اہلِ بیت ۔
9۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ7،8۔
10۔ فخر رازی اپنی تفسیر(تفسیر کبیر) میں، جلد27،صفحہ166۔
11۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب86۔
12۔ حموینی ، کتاب فرائد السمطین، باب26،جلد2،صفحہ120۔
13۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ حبیب ابن ابی ثابت کے تراجم میں، جلد5،صفحہ367۔
14۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد3،صفحہ172 اور بہت سے علمائے اہلِ سنت۔
گیارہویں آیت
علی نفس رسول ہیں(علی اور اہلِ بیت آیت ِمباہلہ میں)
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ۔
”پس آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو(بلائیں)اور تم اپنی عورتوں کو(بلاؤ) اور ہم اپنے نفسوں کو(بلائیں) اور تم اپنے نفسوں کو(بلاؤ) پھر ہم خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کی لعنت جھوٹوں پر قرار دیں“۔(سورئہ آلِ عمران:آیت61)۔
تشریح
تمام مفسرین اور محدثین اہلِ سنت اور شیعہ کے مطابق یہ آیت (جو آیت ِ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے)اہلِ بیت کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ”اَبْنَاءَ نَا“سے امام حسن اور امام حسین مراد ہیں،”نِسَاءَ نَا“سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور”اَنْفُسَنَا“سے علی ابن ابی طالب علیہما السلام مرادہیں۔
روایات لکھنے سے پہلے ہم مباہلہ کے واقعہ کو مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کودعوتِ اسلام دی۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے باہم مشورہ کیا اور اکٹھے ہوکر مدینہ میں آئے او رپیغمبر اسلام سے ملاقاتیں کیں اور بحث و مباحثہ شروع کردیا۔یہ سلسلہ مناظرہ تک جاپہنچا۔ رسول اللہ نے انہیں محکم دلائل دئیے جس کے جواب میں عیسائیوں نے اپنے عقائد کو درست قرار دینے کیلئے بحث میں ضد کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحکم خدا عیسائیوں کو مباہلہ(مخالف گروہوں کا مل کر جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجنا)کی دعوت دی تاکہ حق ظاہر ہوجائے۔ عیسائیوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور قرار پایا کہ مباہلہ کیلئے اگلے روز مدینہ سے باہر کھلے میدان میں جمع ہوں گے۔ مباہلہ کا وقت آن پہنچا۔ تمام عیسائی ، اُن کے علماء اور راہب مدینہ سے باہر مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔اُن کا خیال تھا کہ آپ یقینا مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے ہمراہ آئیں گے۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نصاریٰ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ پیغمبر خدا کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اصحاب و انصار کی کوئی تعداد۔آپ بڑی متانت کے ساتھ صرف چار افراد کے ہمراہ تشریف لارہے ہیں۔ اُن میں سے ایک بچہ(آپ کا نواسہ امام حسین علیہ السلام) ہے جو آپ کی گود میں ہے۔ دوسرے بچے(آپ کا نواسہ امام حسن علیہ السلام)کی انگلی پکڑی ہوئی ہے۔ آپ کے پیچھے ایک بی بی ہیں جن کو خاتونِ جنت کہا جاتا ہے یعنی سیدہ فاطمة الزہرا اور اُن کے پیچھے اُن کے شوہرنامدار حضرت علی ہیں۔ ان سب افراد کے چہروں سے نورانی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔یہ سب افراد کمالِ اطمینان اور ایمانِ راسخ کے ساتھ آہستہ آہستہ میدان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عیسائیوں کا رہبر” اسقف اعظم“ حیران ہوا اوراپنے لوگوں سے پکار کر کہنے لگا کہ دیکھو! محمد اپنے بہترین عزیزوں کو لے کر مباہلہ کیلئے تشریف لا رہے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر اُن کو مباہلہ میں کوئی فکروتشویش ہوتی تو ہرگز اپنے قریبی رشتہ داروں کو نہ لاتے۔ اے لوگو!ان افراد کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ اگر یہ افراد خدا سے دعا کریں تو پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرنا شروع کردیں۔لہٰذا ان سے مباہلہ کرنے سے گریز کریں وگرنہ ہم سب عذابِ خدا میں گرفتار ہوجائیں گے۔
اس موقع پر اسقف نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم آپ سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر خدا نے اُن کی تجویز کو قبول کرلیا اور معتبر روایات کے مطابق علی علیہ السلام کے دست ِ مبارک سے صلح نامہ لکھا گیا۔
اوپر بیان کئے گئے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند روایات جو تشریح اور تفسیر آیت ِ مباہلہ کے ضمن میں نقل کی گئی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
(ا)۔ ابو نعیم اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ عامر بن سعد اپنے باپ سے اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِ ہِ الاٰ یَةُ(”فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“)دَعٰا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ عَلِیاً وَفَاطِمةَ وَحَسَناًوَحُسَیْناً فَقَالَ:اَلَّلھُمَّ ھٰوٴُلاءِ اَھْلِیْ۔
جس وقت یہ آیت” فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآ ءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“نازل ہوئی، پیغمبر اسلام نے علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور خدا کے حضور عرض کی:”پروردگار! یہ میرے اہلِ بیت ہیں“۔
(ب)۔ اسی طرح کتاب حلیة الاولیاء میں اسناد کے ساتھ جابر روایت کرتے ہیں:
قَالَ جَابِرُ: فِیْھِمْ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الآ یَةُ قَالَ جَابِرْ:اَنْفُسَنَا رَسُوْلُ اللّٰہ وَعَلِیٌّ وَ ”اَبْنَاءَ نَا“ اَلحَسَنُ وَالحُسَیْنُ وَ ”نِسَاءَ نَا“ فَاطِمَةُ۔
جابر کہتے ہیں کہ یہ آیہٴ شریفہ” فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَ نِسَآ ءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْقفثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“ان ہستیوں(یعنی حضرت محمد، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام)کیلئے نازل ہوئی ہے۔
جابر کہتے ہیں کہ اَنْفُسَنَاسے رسولِ خدا اور علی علیہ السلام اوراَبْنَآءَ نَا سے حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اورَنِسَآءَ نَا سے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مراد ہیں۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد12،صفحہ80 اور اشاعت ِ دوم، جلد8،صفحہ85۔
2۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ371 ، البدایہ والنہایہ ،جلد7،ص340،بابِ فضائلِ علی علیہ السلام۔
3۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد2،صفحہ43اور کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ169۔
4۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب32،صفحہ142۔
5۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام، حدیث310،صفحہ263اور318۔
6۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد1،صفحہ125، اشاعت ِ اوّل۔
7۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودة، بابِ مناقب، ص275،حدیث10،ص291
8۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد1،صفحہ36، اشاعت ِ دوم، صفحہ193۔
9۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ150(اشاعت ِ حیدرآباد)۔
10۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد1،صفحہ163۔
11۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چوتھا باب، جلد2،صفحہ23، اشاعت ِ اوّل۔
12۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب”ما نزل من القرآن فی علی “ ، کتاب دلائل النبوة،ص 297
13۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، جلد1،صفحہ185،اشاعت ِ مصر۔
14۔ طبری اپنی تفسیر میں، جلد3،صفحہ192۔
15۔ واحدی نیشاپوری، کتاب اسباب النزول میں، صفحہ74(اشاعت ِ انڈیا)۔
16۔ آلوسی ، تفسیر ”روح المعانی“میں، جلد3،صفحہ167،اشاعت ِ مصر۔
17۔ علامہ قرطبی، ”الجامع الاحکام القرآن“، جلد3،صفحہ104، اشاعت ِمصر1936۔
18۔ حافظ احمد بن حجر عسقلانی،’کتاب الاصابہ‘ ،ج2،ص502، اشاعت :مصطفی محمد، مصر۔
بارہویں آیت
اللہ تعالیٰ نے علی کو ایمانِ کامل اورعملِ صالح کے سبب دلوں کا محبوب بنادیا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔
”بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے، عنقریب خدائے رحمٰن اُن کیلئے ایک محبت قرار دے گا“۔(سورئہ مریم:آیت96)
تشریح
اس آیت میں دو نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:
(ا)۔ یہ آیہٴ شر یفہ ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کا اثر پوری کائنات پر
چمکتا ہے اور نتیجتاً اُس کی محبوبیت کی شعاعیں تمام مخلوق کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہیں اور وہ ذاتِ اقدس ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو دوست رکھتی ہے اور اُن کو تمام مخلوقات کا بھی محبوب بنادیتی ہے۔
(ب)۔ اگرچہ ہر فرد ایمان لانے کے بعد عملِ صالح بجالانے پر اس منزل کو پاسکتا ہے لیکن
اہلِ سنت اور شیعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت سب سے پہلے امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ حقیقت میں تمام اصحابِ رسول میں سب سے پہلے جو ایمان اور عملِ صالح کے نتیجہ میں عنایاتِ خداوندی کا مستحق ٹھہرا اور جس کی محبت تمام توحید پرستوں کے دلوں میں ڈال دی گئی، وہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تھے۔
اس سلسلہ میں روایات ملاحظہ ہوں:
(ا)۔ عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَولہِ تعالٰی”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“ قَالَ: اَلْمُحَبَّةُ فِی صُدُوْرِ
المُوٴمِنِینَ نَزَلَتْ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْہِ السَّلَام۔
”ابن عباس ے روایت ہے کہ آپ نے اس آیت’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘کے بارے میں فرمایا کہ خدا محبت کو موٴمنوں کے دلوں میں جگا دیتا ہے اور یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے(اور یہ اس بات کو بیان کرتی ہے کہ خدا نے محبت ِعلی علیہ السلام موٴمنوں کے دلوں میں ڈال دی ہے)۔
(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں براء بن عاذب سے اس طرح نقل کرتے ہیں:
قَالَ رسول اللّٰہ لعلی ابن ابی طالب:یَا عَلِیُّ وَ قُل، اَلّٰلھُمَّ اجْعَلْ لِیْ عِنْدَکَ عَھْداً وَاجْعَلْ لِی فِی صُدُوْرِ الْمُوٴمِنِیْنَ مَوَدَّة، فَانْزَلَ اللّٰہُ ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“ قَالَ: نَزَلَتْ فِیْ عَلِی۔
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے فرمایا:’کہو ، اے میرے اللہ! میرے لئے اپنی دوستی(محبت) قرار دے اور میرے لئے موٴمنوں کے دلوں میں محبت ڈال دے‘۔ اُس وقت یہ آیت”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“نازل ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کیلئے نازل ہوئی ہے“۔
(ج)۔ حافظ حسکانی کتاب ”شواہد التنزیل“ میں اس آیت کے ضمن میں ابن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:”میں نے امیر الموٴمنین سے پوچھا کہ اس آیت”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا“سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟“
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کسی مردوزن موٴمن کو نہیں پاؤ گے جس کے دل میں علی اور اُن کی آل کی محبت نہ ہو(یعنی ایمان کی اہم ترین شرط علی اور اُن کی پاک آل سے محبت ہے)“۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد4،صفحہ287اور اشاعت ِ دوم،صفحہ315۔
2۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب اوّل من یحبُ علیاً او یبغضہ، جلد9،صفحہ125۔
3۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث 502،جلد1،صفحہ365۔
4۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، چودہواں باب، جلد1،صفحہ79۔
5۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد3،صفحہ47۔
6۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث374،صفحہ327،اشاعت ِ اوّل۔
7۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62،صفحہ249۔
8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ250اور363۔
9۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر، جلد3،صفحہ172(ترجمہ عبداللہ بن عباس)۔
10۔ ثعلبی اپنی تفسیر کشف البیان ، جلد2،صفحہ4۔
تیرہویں آیت
علی تنہا اس آیت کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں
یٰاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَ قَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم۔ ”اے ایمان لانے والو! جب تم رسول سے علیحدگی میں کچھ عرض کرنا چاہو تو اپنے اس تخلیہ سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو ، تمہارے لئے بہتر(بھی) ہے اور زیادہ پاک کرنے والا(بھی)پھر تم کو اگر یہ میسر نہ ہو تو ضرور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے“۔(سورئہ مجادلہ:آیت13)۔
تشریح
اس سے پہلے کہ اس آیہٴ شریفہ سے متعلق روایات نقل کی جائیں، مناسب ہوگا کہ مرحوم علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اپنی معروف کتب میں اس آیت کے شانِ نزول میں جو ذکر کیا ہے، اُس پر توجہ فرمائیں۔
عرب کے تقریباً سبھی اُمراء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے تھے اور آپ سے رازونیاز کی باتیں آپ کے کان میں کرتے تھے( اس عمل سے نہ صرف پیغمبر اسلام کا قیمتی وقت ضائع ہوتا تھا بلکہ غرباء کیلئے باعث ِتشویش بنتا جارہا تھا یعنی اُمراء اس کو اپنا حق تصور کرنے لگے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اور اس کے بعد والی آیت کو نازل فرمایا اور حکم دیا کہ پیغمبر اکرم کے کان میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دیا جائے اور اسے مستحقین تک پہنچا دیا جائے۔ جب اُمراء، اغنیاء اور سرداروں نے یہ حکم سنا تو سرگوشی کرنے سے پرہیز کرنے لگے تو اس آیت کے بعد والی آیت نازل ہوئی(جس میں بخل کرنے پر اُن کی مذمت کی گئی اور کچھ رعایت دی گئی) اور سرگوشی کرنے کی اجازت سب کو دے دی گئی۔
اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے جو روایات نقل کی ہیں، اُن کی بناء پر تو صرف اور صرف علی نے اس آیت پر بڑی شائستگی کے ساتھ عمل کیا اور وہی اس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس سلسلہ میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:
(ا)۔ قٰالَ عَلِیٌّ عَلَیْہِ السَّلَام: آ یَةٌ مِّن کِتَابِ اللّٰہِ لَمْ یَعْمَلْ بِھٰا اَحَدٌ قَبْلِی وَلَا یَعْمَلْ بِھَا اَحَدٌ بَعْدِیْ، کَانَ لِیْ دِیْنَارٌ فَصَرَفْتُہُ بِعَشْرَةِ دَرٰاھِمَ فَکُنْتُ اِذَاجِعْتُ اِلَی النَّبِیْ صلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ تَصَدَّقْتُ بِدِرْھَمٍ۔
”حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن میں یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے اور نہ ہی کسی نے بعد میں عمل کیا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جس کو میں نے دس درہموں میں تبدیل کیا اور جب بھی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی راز کی بات کرتا تو میں اس سے قبل ایک درہم صدقہ دے دیتا“۔
(ب)۔عَنْ اِبْن عَبَّاس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فی قَولِہِ تَعٰالٰی ”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰ کُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم“قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ کَلٰامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ و(اصحابُ رسولِ اللّٰہ)بَخِلُوْا اَنْ یَّتَصَدِّ قُوْا قَبْلَ کَلامِہ قَال:وَتَصَدَّقَ عَلَیٌّ وَلَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ اَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غَیْرُہ۔
”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت یعنی
”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ااِذَانَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَةًط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم)“
میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے ساتھ سرگوشی کو حرام قراردیاہے مگر یہ کہ جو چاہے وہ پہلے صدقہ دے ۔ اصحاب نے اس ضمن میں سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ دینے میں بخل سے کام لیا اور صرف علی علیہ السلام نے صدقہ دیا اور اس کام کو سوائے علی علیہ السلام کے کسی دوسرے مسلمان نے انجام نہ دیا۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں،جلد29،صفحہ271۔
2۔ سیوطی الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ185اور اشاعت ِ دوم صفحہ205اور حدیث25،
کتاب جمع الجوامع، جلد2،صفحہ28، اشاعت ِ اوّل۔
3۔ حافظ حسکانی، حدیث949، شواہد التنزیل جلد2،صفحہ231،343، اشاعت ِ اوّل۔
4۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں جلد4،صفحہ326۔
5۔ حاکم، کتاب المستدرک میں باب”کتاب التفسیر“جلد2،صفحہ482۔
6۔ ابن مغازلی، مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث372،372،صفحہ325،اشاعت اوّل۔
7۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب66،جلد1،صفحہ358،اشاعت ِ بیروت۔
8۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب62،صفحہ248،باب29،صفحہ135۔
9۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، باب27،صفحہ127۔
10۔ بیضاوی اپنی تفسیر میں، جلد2،صفحہ476۔
11۔ واحدی، کتاب اسباب النزول، صفحہ308، اشاعت ِ اوّل۔
12۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“۔
چودہویں آیت
علی اور اُن کے شیعہ بہترین مخلوق ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ۔
”یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، ساری مخلوق سے بہتروہی
لوگ ہیں“۔(سورئہ بیّنہ:آیت7)
تشریح
یہ آیت نہایت پُرمعنی اور عظمت والی ہے اورعلی علیہ السلام اور اُن کے حقیقی ماننے والوں کے مدارج و مراتب کو بیان کرتی ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کیلئے ہم مختلف روایات جو اہلِ سنت اور شیعہ مفسرین نے اس ضمن میں بیان کی ہیں، کی طرف رجوع کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:
(ا)۔ حافظ حسکانی کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں:
عَنْ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہ الآیةُ ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ“ قَالَ
رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ لِعَلِیٍّ علیہ السَّلام ھُمْ اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ تَاتِی اَنْتَ وَشِیْعَتُکَ یَومَ القِیٰامَةِ رٰاضِیِّیْنَ مَرْضِیِّیْنَ وَیَاتِی عَدُ وُّ کَ غِضْبَاناً مُقْمِحِیْنَ۔
”ابن عباس سے روایت ہے ،انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت
”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ“
نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمنے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ ”یا علی !اس آیت سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تم اور تمہارے شیعہ قیامت کے روز میدانِ محشر میں اس طرح داخل ہوں گے کہ خدا تم سے اور تم خدا سے راضی ہوگے اور تمہارے دشمن پریشان حالت میں میدانِ محشر میں داخل
ہوں گے“۔
(ب)۔ خوارزمی اس آیت کی فضیلتیں بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:
عَنْ جابر قال:کُنَّاعِنْدَالنَّبِیْ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم فَأَ قْبَلَ علی ابن ابی طالب علیہ السلام فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وَسلَّم قَدْأَ تٰاکُمْ اَخِی ثُمَّ اِلْتَفَتَ اِلَی الْکَعْبَةِ فَضَرَبَھٰابِیَدِہ ثُمَّ قَالَ:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ قٰالَ اِنَّہ اَوَّلُکُمْ اِیْمَاناً بِاللّٰہِ وَأَوْفٰاکُمْ بِعَھْدِاللّٰہِ تَعَالٰی وَاَقْوَمُکُمْ بِاَمْرِاللّٰہِ وَاَعْدَلُکُمْ فِی الرّعِیَةِ وَاَقْسَمُکُمْ بِالسَّوِیَّةِ وَاَعْضَمُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ مَزِیَّةً۔
قَالَ جابر: وَفِی ذٰلِکَ الْوَقْتِ نَزَلَتْ فِیْہِ”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ“ قَالَ وَکَانَ اصحٰابُ النَّبِی اِذَاَقْبَلَ عَلَیْھِمْ علیٌ قَالُوْ قَدْ جَاءَ خَیْرُ البَرِیَّةِ۔
”جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم پیغمبر اکرم کی خدمت میں بیٹھے تھے ۔ علی علیہ السلام ہماری طرف آرہے تھے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’میرا بھائی تمہاری طرف آرہا ہے‘۔ پھر کعبہ کی طرف رخِ مبارک کیا اور کعبہ کی دیوار پر ہاتھ لگا کر کہا:”مجھے اُس ہستی کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے روز کامیاب ہیں‘۔ بعد میں فرمایا:’خدا کی قسم! وہ تم سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے والا ہے۔ خدا کے ساتھ عہد میں اُس کی وفا سب سے زیادہ ہے۔ خدا کے احکام کیلئے اُس کا قیام سب سے زیادہ ہے۔اُس کا عدل اپنی رعیت کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور تقسیمِ بیت المال میں اُس کی مساوات سب سے بڑھی ہوئی ہے اور اُس کا مقام نزدِ خدا سب سے بلند تر ہے“۔
جابر نے کہا:اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت
’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ‘
رسولِ اکرم پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی علی علیہ السلام اصحابِ پیغمبر کی طرف جاتے تو وہ کہتے کہ بہترین مخلوقِ خدا آرہے ہیں“۔
(ج)۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدرالمنثور میں درج ذیل روایت کو نقل کیا ہے:
عَنْ ابنِ مَرْدَوِیة، عَنْ علی علیہ السلام قٰالَ:قٰالَ لِی رَسُوْل اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ أَ لَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ اللّٰہِ:”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحٰاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ“(ھم) أَنْتَ وَشِیْعَتُکَ وَمَوْعِدی وَمَوْعِدُکُمُ الحَوْضُ اِذٰاجِعْتَ الْاُمَمَ لِلْحِسَابِ تَدْعُوْنَ غُرّاً مُحَجَّلِیْنَ۔
”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :پیغمبر اسلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا تم نے خدا کا یہ کلام
”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصَّالِحاتِ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ“
سنا ہے؟ ‘ پھر فرمایاکہ’وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔ تمہارا اور میرا مقام حوضِ کوثر ہے۔ جب اُمتوں کو حساب کیلئے بلایاجائے گا تو تم اس حالت میں آؤ گے کہ تمہاری پیشانی سفید ہوگی اور جانی پہچانی ہوگی“۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ356،359،نمبر1125،1130،
اشاعت ِ اوّل۔
2۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد2،صفحہ344،442،باب امیر الموٴمنین
کے حالات، حدیث852،958، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔
3۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد6،صفحہ379،اشاعت ِ دوم، صفحہ424۔
4۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد1،صفحہ155، باب31۔
5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ245،باب62۔
6۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ361۔
7۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج2ص113حدیث50،اشاعت ِ اوّل بیروت
8۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ70،101۔
9۔ خوارزمی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ،حدیث11،صفحہ62۔
پندرہویں آیت
پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں
اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّہ وَیَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ وَمِنْ
قَبْلِہ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً۔
”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت17)
تشریح
اس آیت ِشریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجنابِ رسولِ خدا
source : http://www.alhassanain.com