جواب: با نزول آیات ابتدائى سوره «علق» فصل تازه اى در زندگى بشر آغاز شد،
سوره “علق” کی ابتدائی آیات کے نازل هونے سے انسان کی زندگی می ایک نئے باب کا آغاز هوتاهے. ( اور وہ یہ ہے ) کہ باوجود اس بات کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امی تھے ، اور آپ نے کسی سے درس نہیں لیاتھا، اور حجاز کے ماحول کو سراسرجہالت و نادانی کے ماحول نے گھیر رکھاتھا، وحی کی پہلی آیات میں علم اور قلم کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی، جو ان آیات میں خلقت و آفرینش جیسی عظیم نعمت کے فوراً بعد بلا فاصلہ ذکر ہوا ہے۔
حقیقت میں یہ آیات پہلے انسانی جسم کی ایک بے قدر و قیمت لوتھڑے علقہ جیسے موجود تکامل و ارتقاء کی خبر دیتی ہیں، اور دوسری طرف سے روح کے تکامل کی ، تعلیم و تعلم کے ذریعے خصوصاً قلم کے ذریعہ بات کرتی ہیں ۔
جس دن یہ آیات نازل ہورہی تھیں اس دن نہ صرف حجاز کے ماحول میں، جو جہالت کا ماحول تھا، کوئی شخص قلم کی قدر و منزلت کا قائل نہ تھا بلکہ اس زمانہ کی متمدن دنیا میں بھی قلم کی کم ہی قدر کی جاتی تھی۔
لیکن آج کے زمانہ میں ہم جانتے ہیں کہ وہ تمام تمدن ، علوم و فنون اور ترقیاں جو میدان میں نوعِ بشر کو نصیب ہوئی ہیں، قلم کے محور کے گرد گردش کرتی ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ مدادِ علماء( علماء کے قلم کی سیاہی) دماء شہداء( شہداء کے خون) پرسبقت لے چکی ہے کیونکہ شہید کے خون کی بنیاد اور اس کی پشتیبان علماء کے قلموںکی سیاہی ہی ہے ، اور اصولی طور پر انسانی معاشروں کی سر نوشت پہلے درجہ میں قلم کی نوک سے ہی لکھی گئی ہے ۔
انسانی معاشروں کی اصلاحی باتیں موٴمن و متعمد قلموں سے لکھی جاتی ہےں، اور معاشروں کے فساد اور تباہیوں کی باتیں بھی مسموم اور فاسد قلموںسے ہی تحریر میں آتی ہیں ۔
یہ بات بلاوجہ نہیں ہے کہ قرآن مجید نے قلم کی اور جو کچھ قلم سے لکھتے ہیں ، ا س کی قسم کھائی ہے ۔ یعنی آلہ کی قسم بھی کھاتا ہے اورجو کچھ اس سے حاصل ہوتا ہے اس کی قسم ، جیسا کہ فرماتا ہے : نٓ و القم وما یسطرون قلم ۔
source : http://www.islaminurdu.co