الف : شب قدر کی فرصت کو غنیمت سمجھنا ۔
خداوند معتال نے قرآن کریم میں حضرت رسول اکرم ۖسے مخاطب ہو کر فرمایا :
'' انّاانزلناہ فی لیلة القدر، وما ادراک ما لیلة القدر'' ''ہم نے قرآن کو شب قدر نازل میں کیا ہے مگر آپ کیا جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے ؟ ''
شب قدر کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس شب میں انسان کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور جو انسان اس سے با خبر ہو وہ زیادہ ہو شیاری سے اس قیمتی وقت سے استفادہ کرے گا ۔لہٰذا شب قدر کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل یہی ہے کہ انسان اس فرصت کو غنیمت سمجھے یہ فرصت انسان کو ہر بار نہیں ملتی ہے ۔
(ب) توبہ :
اس شب کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل توبہ ہے جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں: خدا کی قسم ایک ورزش ایک دن کی ہے اس کا ایک گھنٹہ ایک گھنٹہ ہے اگر ایک رات کی تاخیر کریں تو اشتباہ کیا ایسا مت کہے کہ کل کی رات تئیسویں کی رات ہے شب قدر کی ایک رات ہے اور توبہ کے لئے بہتر ہے کہ نہیں ۔آج کی رات کل کی رات سے بہتر ہے آج کا ایک گھنٹہ آنے والے کل کے گھنٹہ سے بہتر ہے ہر ایک لمحہ آنے والے لمحہ سے بہتر ہے عبادت توبہ کے بغیرقبول نہیں ہوتی پہلے توبہ کرلینا چاہیے ،پہلے اپنے آپ کو دھونا چاہیے پھر اس پاک و پاکیزہ جگہ میں وارد ہونا چاہیے ہم تو بہ نہیں کرتے ہیں تو کیسی عبادت کرتے ہیں ؟ !ہم توبہ نہیں کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اورنماز پڑھتے ہیں ؟!توبہ نہیں کرتے ہیں اورحج پر چلے جاتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیںاور قرآن پڑھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیںاورذکر کہتے ہیں؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں ! خدا کی قسم اگر آپ پاک ہونے کے لئے ایک توبہ کریں تاکہ پھر توبہ اور پاکیزکی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں وہی ایک دن رات کی عبادت آپ کو دس سال آگے بڑھائے گی اور پروردگا کے مقام قرب کے قریب پہنچائے گی ہم نے دعا کے سوراخ کو گم کیا ہے اور اس کے راستے کو بھی نہیں جانتے ہیں ۔ امام علی توبہ کے چھ رکن بیان کرتے ہیں :
١۔ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا۔
٢۔ ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا۔
٣۔ حقوق الناس ادا کرنا۔
٤۔ حقوق الہیٰ ادا کرنا ۔
٥۔ جو گوشت رزق حرام سے بدن پر چڑھا ہے وہ پگھل کے رزق حلال سے نیا گوشت بدن پر چڑھے ۔
٦۔ جس طرح بدن نے گناہوں کا مزہ چکھا ہے اس طرح اطاعت کا مزہ چکھنا چاہیے پس اسی صورت میں خدا نہ صرف اس کو دوست رکھتا ہے بلکہ اپنے محبوب بندوں میں اسے قرار دیتا ہے۔ (۱)
(ج)دعا:
اب جبکہ بندہ گمراہی اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کے ہدایت اور نور کے راستے کی طرف چل پڑا ہے اور اپنے خدا کی جانب روا ںدو اںہے اب خدا کو پکارے اور اس کے ساتھ ارتباط بر قرار کرے دعا کرے دعا کے اصل معنی یہی ہیں کہ انسان اپنے دل کا حال بیان کرکے در واقع خدا سے ارتباط پیدا کرے ۔
(د) تفکر اور معرفت :
اس کے بعد کہ انسان نے فرصت کو غنیمت سمجھ کے اپنے افکار اور اعمال کے اشتباہات سے واقفیت حاصل کرکے یہ ارادہ کر لیا کہ اب کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا اپنی اصلاح کرے گا دل شناحت اور معرفت کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سب سے بڑی معرفت ہے اور اس سے دل نوارنی ہو جاتا ہے اور حقیقی معرفت انسان کو بندگی کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا کے خلافت الہی کا وارث بنا دیتی ہے البتہ خود شناسی اس معرفت حقیقی کے لئے پیش خیمہ ہے جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے: '' من عرف نفسہ فقد عرف ربہ '' یعنی خود شناسی خد
شناسی کا سبب بنتی ہے ۔(۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔نہج البلاغہ، حکمت ٤١٧
۲۔شب قدر ،پاسخھای دانشجوئی،ناشر معارف اسلامی
source : http://www.abna.ir