فکر ونظر
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثہ کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس تصور کو تقویت پہنچائی گئی کہ اسلام، جنگ و تشدد کا دین ہے ۔ پیش خدمت مقالہ پہلے تو قرآن و حدیث اور مسلمان فقہا دانشوروں کے اقوال و آراء کی روشنی میں دین اسلام کا صحیح تعارف پیش کرتا ہے
خلاصہ
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثہ کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس تصور کو تقویت پہنچائی گئی کہ اسلام، جنگ و تشدد کا دین ہے ۔ پیش خدمت مقالہ پہلے تو قرآن و حدیث اور مسلمان فقہا دانشوروں کے اقوال و آراء کی روشنی میں دین اسلام کا صحیح تعارف پیش کرتا ہے کہ یہ دین صلح و رحمت کے اصولوں پر استوار ہے اور پھر اسلام و مسلمین کی غلط تصویر پیش کرنے میں مخالفین کے مقاصد اوراسباب و علل کو بیان کرتا ہے ۔
تمہید
بعض مستشرقین اور اہل مغرب کا اسلام اور پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پرانے زمانے سے اب تک یہ الزام رہا ہے کہ اسلام تلوار اور جنگ و جدال کا دین ہے اور اپنے پیروکاروں کو غیروں کے مقابلہ میں شدت پسندی سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے یہ تہمت اور الزام گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثہ کے بعد خاص طور سے مغربی ذرائع ابلاغ ، رسائل و مجلات اور افواہ پھیلانے والے مراکز اور سیاسی بیانات کی رونق بڑھانے والے ٹھکانوں پر شدت پاگیا اور اب تک یہ سلسلہ مغربی دنیا میں جاری و ساری ہے اس سلسلہ میں بہت سے اجتماعات ، کانفرنسیں مغرب اور یورپ میں نیز علمی نشستیں اور یونیور سٹی لیول پر جلسے منعقد ہوئے کہ اسلام ، دین صلح ہے یا آئین جنگ ؟ اس بحث کا سلسلہ اسکولوں میں کلاسوں تک پہنچ گیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کی حمایت و طرفداری کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر ثقافتی یلغار میں تبدیل ہو گیا۔ (نمونہ کے طور پر دیکھئے : عبد اللطیف : بہ نقل از (www.islamonline.net) [1]
اس موضوع پر تبصرہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آج کل انواع و اقسام کے ذرائع ابلاغ ( ریڈیو، ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ ) اور بین الاقوامی نشریات و مجلات بڑے وسیع پیمانے پر منتشر ہوتے ہیں اور روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور ان ذرائع ابلاغ کے عالمی افکار پر یہاں تک کہ مسلمانوں کے اوپر تاثر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا چنانچہ اگر ہم ان ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلام و مسلمین کی مثبت یا منفی تصویر پیش کرنے اور اسلام و مسلمین اور سنت پیغمبر کے درست یا غلط مفاہیم کی تعریف میں دخیل اثرات پر نظر ڈالیں تو ہمیں جو کچھ وہ اسلام کے سلسلہ میں کہتے ہیں ان کی تحقیقات کی سطح نیز اسلام و مسلمین کے اوپر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کے جوابات کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔
دشمنان اسلام کی ثقافتی یلغار ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور اب بھی جاری ہے لیکن تمام اسلامی فرقوں کے بیدار و ہوشیار علمائے اسلام بھی ان حملوں و تہمتوں کا دفاع اور اسلام کے حیات بخش آئین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی درخشاں سیرت و سنت کی پاسداری و تحفظ میں مشغول ہیں اور انھوں نے عقل و منطق اور اسلام کی عظیم منزلت سے مناسبت رکھنے والے جوابات دیئے ہیں ۔ جدید مسائل کی تطبیق اور اسلام کے نظریات پیش کرنے میں شریعت کی اساس اور موضوع سے بھر پور آگاہی رکھنے والے مسلمان علماء کے نمایاں کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علماء اور مسلم دانشوروں کی جانب سے اسلام و مسلمین پر جنگ طلبی اور تشدد و دہشت گردی کی تہمت کا بنیادی جواب دینے کے لئے انھوں نے اس موضوع پر منطقی و علمی زاویہ سے نظر ڈالی اور مبانی کے اعتبار سے وہ اس نظریہ پر تاکید کرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں اور بیگانوں کے درمیان تعلقات کی اصل و بنیاد مسا لمت آمیز اور صلح پسندانہ ہے ۔
اس نظریہ کی تقویت اور اس کے سیاسی ،حقوقی و معاشرتی زاویوں کو اسلام کی سیاسی فقہ کے اصول سے استفادہ کرتے ہوئے موجودہ بین الاقوامی زندگی کے واقعیات اور اسلامی معاشروں کی ضرورت سے ہم آہنگ کرکے دیکھا جا سکتا ہے اسی لئے اس مقالہ کے پہلے حصہ میں ہم اسلامی تعلیمات ، سنت پیغمبر اور بعض اسلامی دانشوروں کے نظریات کی روشنی میں اسلام کی صلح جوئی اور مسالمت آمیز تعلقات کی نشانیاں پیش کریں گے اور پھر مقالہ کے دوسرے حصہ میں اسلام پر لگائی جانے والی نا روا تہمت کہ اسلام ، دین جنگ و جدال اور آئین شمشیرہے ، کے بارے میں مخالفین کے دعوں اور اسباب و علل کو بیان کریں گے ۔
الف : اسلام میں صلح و رحمت کی نشانیاں
۱)۔ قرآن اور سنت نبوی
صلح و مصالحت اور رحم و مہربانی دین اسلام کے بنیادی اغراض و مقاصد میں شامل ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں اغراض و مقاصد کی ترویج کے لئے مبعوث کئے گئے تھے بےشک جس دین کی بنیاد رحم و مہربانی پر قائم ہے اس دین کا پیغامبر بھی پیامبر رحمت ہوگا ( سورہ ٴانبیاء/۱۰۷) ”ہم نے آپ کو عالمین کے لئے بس رحمت بنا کر بھیجا ہے“ آنحضرت خود اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ” و انا نبی الرحمة “ ( ترمذی ، ۱۴۱۲: ۳۰۶) ”میں نبی رحمت ہوں “اور ” انما انا رحمة مھداة “ ( ابن کثیر ۱۴۱۲: ۳/۲۱۱) ”میں تو بس ہدیہ رحمت الٰہی ہوں “
”رحمت“ کا مطلب عربی زبان میں : عطوفت ، مہربانی اور شفقت و مروت ہوتا ہے (اصفہانی مادہ ” رحم“ اور الشامی ۱۴۱۴: ۷/۴۱) اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صفت یوں بیان کرتے ہیں : ” و ھو نبی : لیّن الخلقة ، کریم الطبیعة ، جمیل المعاشرة طلیق الوجہ ، بسّام من غیر ضحک ، محزون من غیر عبوس شدید من غیر عنف“۔ (الشامی ۱۴۱۴) ” آپ نبی تھے بڑے نرم مزاج کریم الطبع ،خوش رو و بشاش ، متبسم مگر قہقہہ کے بغیر ، غمگین مگر چہرہ پر ترشی لائے بغیر ،سخت مگر شدت پسندی کے بغیر “” نبی الرحمة و امام الھدی“ (الثعالبی ۱۴۱۸: ۱/۳ ۶) [2] ۱ آپ نبی رحمت و امام رشد و ہدایت تھے ۔ فتح مکہ کے دن جب مسلمین وارد شہر مکہ ہوئے تو فتح کا ایک پرچم سعد بن عبادة انصاری کے ہاتھ میں تھا اور وہ آواز دے رہے تھے : ”الیوم یوم الملحمة۔۔۔ “ آج انتقام کا دن ہے ۔ جونہی پیغمبر اسلام کو پتہ چلا آپ نے سعد کی معزولی کا حکم صادر فرمادیا اور علم دوسرے شخص کے سپرد کر دیا تاکہ وہ سعد کے نعرہ کے بجائے نعرہ لگائے کہ ” الیوم یوم المرحمة ۔۔۔“ ( الھندی : ۱۰/۵۱۳)آج شفقت و مہربانی کا دن ہے ۔ جب مشرکین مکہ کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب پر ظلم و ستم اور آزار و اذیت حد سے بڑھ گئے اور لوگوں میں صبر کا یارانہ رہا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی گئی کہ اس قوم پر نفرین کریں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول نہیں فرمایا اور جواب دیا کہ ” انّی لم ابعث لعانا و انما بعثت رحمة “ ( ابن کثیر ۱۴۱۲: ۳/۲۱۱) مجھے نفرین و لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے میں تو بس رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ آنحضرت کی سیرت ، عفو و بخشش تھی ۔ کعب بن زہیر جو اپنے اشعار کے ذریعہ اسلام اور مسلمین پر طعنہ زنی کرتا تھا جس وقت اسے پتہ چلا کہ رسول رحمت و محبت کا پیکر ہیں تو آنحضرت کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور اپنے اس شعر کے ساتھ معذرت خواہی کرنے لگا :
نبئت ان رسول اللہ اوعدنی
والعفو عند رسول اللّٰہ مامول [3]
” مجھے خبر دی گئی ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے ( قتل کردینے کی ) دھمکی دے دی ہے جب کہ عفو و بخشش ہی رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم)کا معمول رہی ہے “۔
آنحضرت نے اپنے پیارے چچا کے قاتل ” وحشی “ کے بارے میں کہ جس نے امیر حمزہ کو جنگ احد میں مار ڈالا تھا صرف اتنا فرمایا تھا کہ ” میری نگاہوں سے دور چلے جاؤ کہ میں تمھیں نہ دیکھوں “ ( العسقلانی : ۷/۲۸۴ ) یہ چند نمونے بطور مثال ذکر ہوئے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ شریعت اسلام اور سنت نبوی ، صلح و مصالحت اور رحم و مہر بانی کی بنیاد پر قائم ہے اس کے علاوہ اسلام کی حیاتی تعلیمات ، شرعی دلائل اور اسلام کے پاکیزہ نصوص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کا قانونی و دستوری نظام
صلح پر استوار ہے نہ کہ شدت پسندی پر ۔قرآن و احادیث کے بہت سے نصوص مسالمت آمیز رفتارو کردار پر دلالت کرتے ہیںچند نمونے ملا حظہ ہوں :
۱۔ قرآن مجیدعرب کے بدووٴں کو جو تند مزاج ،جنگ جو ،خونریز اور جھگڑالو طبیعت کے مالک تھے صلح کی دعوت دیتا ہے اور جنگ و جدال سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے (سورہٴ انفال /۶۱) ” اور اگر صلح و آشتی کا دامن پھیلا دیں تو آپ بھی آشتی کا دامن پھیلا دیں اور اللہ پر بھروسہ کریں “۔اسلام، میدان جنگ میں بھی صلح و آشتی کا خواہاں ہے( سورہ نساء / ۹۴) ”اور جو تمھارے سامنے صلح و آشتی کی خاطر ہتھیار ڈال دے تو اس سے یہ نہ کہنا کہ تم مومن نہیں ہو“ ۔ فقہاء اسی آیت کریمہ کو مستند قرار دے کر فرماتے ہیں جب بھی کوئی مسلمان سے عین جنگ کے دوران صلح و آشتی کا اقدام کرے تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کو مثبت جواب دیں اور اس سے جنگ کرنے سے باز رہیں ( دیکھئے ، قرطبی ۱۴۰۵: ۵/۳۳۶اور الشوکانی :۱/۵۰۱۱۴)
۲۔ اس وقت جب کہ قابیل نے اپنے بھائی کو مار ڈالنے کی دھمکی دی ، ہابیل نے صلح طلب جواب دیا کہ جو ایک صلح طلب اور نیک انسان کی حکایت کرتا ہے (سورہ مائدہ /۲۸) اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے میری جانب اپنا دست دراز کرو تو بھی میں تمھاری طرف اپنا ہاتھ تمھیں قتل کرنے لئے نہیں بڑھاؤں گا میں پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں ۔
۳۔ ”سلام “ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ( سورہ حشر /۲۳) ” وہ اللہ کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ بادشاہ بڑا پاکیزہ اور سلام ہے “۔
۴۔ قرآن مجیدعالمی امن و آشتی کی بشارت دیتے ہوئے فرماتا ہے( سورہ بقرہ / ۲۸ ) ”اے ایمان والو سب کے سب صلح و آشتی (کے دائرہ) میں داخل ہو جاؤ اور دیکھو شیطان کے قدموں (وسوسوں اور فریب کاریوں ) کی پیروی نہ کرو“۔ اسی طرح مسلمانوں کو صلح و امن اور سلامتی کا پابند بنانے کے لئے ارشاد فرماتا ہے: ( سورہ نساء /۹۰) اور جب وہ ہاتھ کھینچ لیں اورتم سے جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھا دیں تو خدا نے ان کے اوپر تمھارے لئے کوئی راستہ نہیں قرار دیا ہے ( یعنی اب تمھیں جنگ نہیں کرنا ہے ) اس بنیاد پر صلح و آشتی پر دلالت کرنے والی آیتیں منسوخ نہیں ہوئی ہیں اور جنگ و جدال بس اسی وقت جائز ہے کہ جب صلح جوئی موجود نہ ہو ( الزحیلی ، ۱۹۹۷: ۹۴۔۹۶)
دلچسپ بات یہ ہے کہ لفظ ” سلام “ اور اس کے دیگر مشتقات سو( ۱۰۰)سے زیادہ آیتوں میں استعمال ہوئے ہیں جب کہ لفظ” حرب یعنی جنگ “ اور اس کے دیگر مشتقات صرف چھ ( ۶)آیتوں میں دکھائی پڑتے ہیں ۔ [4]
جس طرح قرآن مجید صلح و آشتی کے لئے بڑی اہمیت کا قائل ہے یوں ہی سنت رسول اور آپ کے بعد کردار مسلمین میں بھی امن صلح کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسلام کی پہلی شخصیت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہی صلح طلب ڈپلومیسی کی طرف پیش قدمی کی ہے اور اپنے زمانہ کی حکومتوں اور سلطنتوں سے مسالمت آمیز تعلقات قائم کرنے کی خاطر اپنے نمائندے بھیجے ہیں مصر ، روم ، حبشہ ، اور فارس کے بادشاہوں کے پاس آنحضرت نے اپنے نمائندوں کے ساتھ خط بھیجا تاکہ وہ اسلام سے آشنا ہوں اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے جن افراد کا انتخاب ہوا وہ بڑے شائستہ ، نیک کردار معتبر اور ہوشیار و بااخلاق تھے اور جدید دین اور خصوصیات حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تعارف کرانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے واقعہ نگاروں نے ان خطوط اور مکالمات کو تفصیل سے بیان کیا ہے ( دیکھئے : ابو الوفاء، ۱۹۹۲: ۱۷۲۔۱۷۸) بعض مستشرقین کے دعوؤں کے برخلاف ان مکاتبات و مکالمات میں کسی ایک سے بھی یہ مطلب نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلاہے ۔
” اسلام “”سلم “ سلام اور سلامہ سے مشتق ہے، السلام علیکم اور علیکم السلام مسلمانوں کا روز مرہ کا درودو سلام ہے اور یہ شعار ان کے درمیان ہر جگہ چاہے وہ مسجد ہو یا یونیور سٹی کارخانہ ہو یا کمپنی ہر جگہ رائج ہے ۔ یہ درود و سلام بہترین اور خوبصورت درود و سلام ہے کیوں کہ اس کے اندر صلح و آشتی کا مفہوم مضمر ہے جب کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا دیگر انبیاء کا نام لیا جا تا ہے تو ان کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا اضافہ کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ جملہ بہترین اور خوبصورت ترین دعا ہے (محمصانی ۱۹۸۲: ۵۰۔۵۴) مسلمین اپنی نمازوں کو” السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ “ کی عبارت پر ختم کرتے ہیں اور اس جملہ کی روز انہ کئی مرتبہ تکرار کرتے ہیں ۔ اسلام میں اس طرح کی تعلیمات کے ہوتے ہوئے بھلا کس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد جنگ و جدال اور شدت پسندی پر ہے ؟!
بعض لوگوں کے خیالات کے برخلاف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جنگیں خود بہترین اور اہم ترین دلیل ہیں کہ صدر اسلام کی جنگوں میں صلح جوئی اور آشتی پسندی کے جذبات کار فرما تھے واقعہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ میں قیام کے دوران ہر گز فوجی دستہ تیار نہیں کیا اور جب مدینہ ہجرت فرمائی اور مسلمانوں کے اوپر جہاد واجب ہوا تو مشرکوں کے ساتھ جنگ کی ان سب کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جنگیں دفاعی تھیں نہ کہ تہاجمی ۔ آداب حرب و جنگ کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بعد کے خلفاء کی سفارشات بخوبی گواہ ہیں کہ اسلام کا مقصد اختلافات کو زور بازو اور شدت پسندی سے حل کرنا نہیں ہے تاریخ میں منقول ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کوئی فوجی دستہ تیار کرتے تھے تو پہلے انھیں اپنے سامنے بیٹھا کر فرماتے تھے (۔۔۔ ولا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا صغیرا ولا ام-راٴة ولا ت-غلوا و اص-لحوا و اح-سنوا ان اللہ یحب ال-محسنین) ( الحلی: ۹/۶۳اور الشامی: ۱۳۱۴: ۶/۷) ”کسی پیر فرتوت ، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل نہ کرنا ، خیانت نہ کرنا ، صلح و مصالحت اور نیکی کرنا کہ اللہ نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے “ ۔جس وقت پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کی جانب روانہ کیا تو فرمایا: یا علی !لئن یہدی اللہ علی یدیک رجلا خیر لک مما طلعت علیہ الشمس ( الحاکم النیسا پوری ، ۱۴۰۶: ۷/۵۹۸) ” اے علی ﷼ !اگر خدا وند متعال تمھارے ہاتھوں کسی ایک شخص کی ہدایت کر دے تو یہ تمھارے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہو تا ہے ( اور اس کی کرنیں پڑتی ہیں)“۔
۲)۔ مسلمان فقہاء و علماء کے نظریات
بہت سے دانشوروں کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے یہاں دوسروں سے تعلقات کا قانون و صلح و آشتی پر استوار ہے اور جنگ ایک عارضی و غیر عادی حالت ہے جو اسلامی دعوت کی حمایت اور ظلم و تجاوز کی برطرفی کے لئے کبھی کبھی ضرورت بن جاتی ہے جس میں دوسروں پر تسلط یا غلبہ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
ابن الصلاح ( صلاح الدین ) کہتے ہیں:” اصل و قانون تو یہ ہے کہ کافرین بھی با حیات رہیں خدا وند متعال انسانوں کی نابودی کا خواہاں نہیں ہے اور انھیں قتل ہونے کے لئے نہیں پیدا کیا ہے اور اس کا قتل کرنا سوائے ایک عارضی ضرورت کے علاوہ کہ جب ان کا وجود مضر اور خطر ناک بن جائے ، جائز نہیں ہے ، ابن تیمیہ سے نقل ہوا ہے کہ جنگ بس ان لوگوں سے جائز ہے جو دین پر عمل کرنے کے معاملہ میں ہم سے جنگ کرتے ہیں ۔ ( القاسمی ۱۹۸۲۔۱۷۶)“
اسلام ان لوگوں سے کہ جو صلح کے خواہاں ہیں صلح و آشتی کرتا ہے ، اسلام جنگ نہیں چاہتا مگر بس ان لوگوں کے ساتھ جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہوتے ہیں یا دعوت مسلمین کی مخالفت کرتے ہیں زبان و بیان کے ذریعہ جہاد کرنا قدرت و طاقت کے ذریعہ جہاد پر مقدم ہے (القاسمی ۱۸۳ ۔ ۱۸۴ ) ۔
مصطفےٰ السباعی کہتے ہیں :” ہمارے یہاں دیگر قوموں اور ملتوں سے تعلقات کی بنیاد صلح و آشتی، ترک جنگ و جدال اور دوسری قوموں کے اموال، عقائد ، آزادی اور اخلاقی اقدار کے احترام پر قائم ہے“۔
محمد عبدہ کہتے ہیں:” اللہ نے ہمارے لئے جنگ کو دوسروں کی جان ، مال لینے اور اپنی آمدنی بڑھانے ، خونریزی کرنے لئے واجب نہیں کیا ہے بلکہ جنگ کو حق اور اہل حق کا دفاع اور واجب دعوت کی حمایت و نصرت کے لئے واجب کیا ہے ۔( القاسمی ۱۸۷،و ۳۰۹) “
مصری اہل قلم عباس عقاد اپنی کتاب ” حقائق الاسلام و اباطیل خصومہ “ کہ جسے آپ نے اسلام پر کئے جا رہے اعتراضات اور تہمتوں کا جواب دینے کے لئے لکھا ہے آپ اسلام کی جنگ اور تلوار سے نسبت کے بارے میں لکھتے ہیں :اسلامی دعوت کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمین مشرکین کی اذیتوں اور قتل و غارت گری کو ختم کرنے کی قدرت حاصل کرنے سے پہلے خود ہی ان کی بے شمار تکلیفوں اور شکنجوں کا شکار تھے اپنے شہر و وطن سے بھگا دیئے گئے حبشہ کی طرف گئے اور وہاں پناہ لی ، مسلمانوں نے کبھی بھی طاقت کا سہارا نہیں لیا مگر صرف انھیں لوگوں کے مقابلہ میں جو منطق و عقل کا فیصلہ نہیں قبول کرتے تھے اگر مسلمانوں کو نہ چھیڑا جائے تو برائی کے بجائے ان سے اچھائی ہی دیکھنے کو ملے گی جیسا کہ حکومت حبشہ کے مقابلہ میں انھوں نے ایسا ہی کیا جزیرة العرب میں مسلمانوں کی عرب قبیلوں سے جنگ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کی نوعیت دفاعی تھی یا پھر پیشگیری اور تحفظ مقصد تھا ، تلوار اٹھانے کا حق ، زندگی کے حق کے مقابلہ میں ہے یعنی اسلام نے جہاں بھی تلوار اٹھانے کو لازمی قرار دیا ہے وہ از باب ضرورت اور حق حیات کے تحفظ کی خاطر قرار دیا ہے اور اسلام میں حق زندگی کا مطلب ہے دعوت اور عقیدہ میں آزادی کا حق ․․․ اگر ہم کائنات کے موجودہ نقشہ پر ن-ظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ تلوار صرف چند مقامات کے علاوہ کہیں اسلام کے نفوذ کا باعث نہیں بنی ہے وہ سر زمین جہاں جنگ کم ہوئی ہے وہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جیسے ہندوستان اور انڈونیشیا اور چین اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام بنیادی حقوق کے مطابق دوسری قوموں سے تعلقات صلح پسندی اور مسالمت پر استوار ہے اور اسلام میں جنگ کا سہارا لینا در حقیقت دوسروں کے ذریعہ بھڑکائی گئی جنگ سے دفاع کی خاطر ہے اسلام دو لفظ ہے دین اور صلح ۔( العقاد ۱۹۶۶:۳۰۰۔ ۳۰۹)
ڈاکٹر زحیلی اس سلسلہ میں لکھتے ہیں : غیر مسلم قوموں سے جو مسلمانوں سے بر سر پیکار نہیں اور مسلمانوں کو اپنے دین کے مطابق عمل کرنے میں آزاد رکھتی ہیں جنگ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان سے مسالمت آمیز تعلقات ختم کرنا چاہئے کیوں کہ ( اسلام میں ) اصل صلح و آشتی ہے ۔ ( الزحیلی ۱۹۹۷: ۱۰۲)
بنا بر ایں یہ کہنا کہ اسلامی شریعت غالب مواقع پر جنگ اور تلوار پر مبنی ہے ایک بے بنیاد نتیجہ گیری ہے اور اسلام کی حیات بخش تعلیمات اور دینی نصوص سے تضاد رکھتی ہے ۔
۳)۔ جنگ کی دعوت دینے والی آیات پر ایک نظر
جیسا کہ بیان ہوا غیر مسلمانوں سے تعلقات کی اصل صلح و آشتی پر استوار ہے اس کے باوجود یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس اصل و قانون کے درمیان اور ان آیات قرآنیہ کے درمیان جو جنگ و جدال کے مضمون کی حامل ہیں نیز عصر پیغمبر کی جنگوں کے درمیان کس طرح ہم آہنگی کو قائم کیا جاسکتا ہے ؟اس سوال کے تمام فروعات پر تبصرہ مستقل بحث کا طالب ہے لیکن جس حد تک ہمارے مقالہ کے عنوان سے تعلق رکھتا ہے ہم کچھ چیزیں گزارش کر رہے ہیں ۔
جنگ پر دلالت کرنے والی مشہور ترین آیت یہ ہے : ( توبہ /۳۶ ) ”اور مشرکین سے سب مل کر جنگ کرو جس طرح وہ سب مل کر جنگ کرتے ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ متقیوں کے ہمراہ ہے “ اس آیت کی وضاحت کے لئے چند نکتوں پر توجہ دینا ضروری ہے ایک یہ کہ آیت میں انسانی حق حیات کا تحفظ مد نظر ہے اس بنیاد پر کہ اگر تمام دشمنان اسلام مسلمانوں کی حیات سلب کرنے کا قصد کر لیں تو واضح ہے کہ مسلمین بھی اپنے حق کا دفاع کرنے کے لئے ان کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں گے ۔ اور ایسا دفاع تو انسانی فطرت سے بھی ہم آہنگ ہے دوسرے آیت صراحت کر رہی ہے کہ چوں کہ وہ سب کے سب جنگ کا قصد رکھتے ہیں تو تم سب بھی ان سے جنگ کرو اس بنیاد پر در اصل یہ غیر مسلمین ہیں جو مسلمانوں سے تعرض کر رہے ہیں اورمسلمین بھی جواب میں دشمن کے تجاوز کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ۔ آیت کے ذیل میں اللہ کے متقیوں کے ہمراہ ہونے کی یاد دہانی اصل میں جنگ و قتال میں بھی انسانی اصول کی پاسبانی کی قدر و منزلت کو واضح کرتی ہے ۔ ( الطباطبائی : ۲/۶۵اور ۹/۲۷)
پیغمبر کی جنگوں کے بارے میں بہت سے دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ ان کی جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں اور صلح و آشتی کی اصل سے سازگار تھیں اس نظریہ کے مطابق اسلام کی جنگیں لوگوں کو نئے دین قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لئے نہیں ہو تی تھیں کیوں کہ دین اسلام اپنی ذات و حقیقت میں مجبوری کو قبول نہیں کرتا ۔اس بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور کی جنگوں کو ایسی جنگیں سمجھنا چاہئے جو اسلامی معاشرہ کا دفاع کرنے کے لئے خاص حالات میں اور خاص وجہوں سے ہوئی ہیں چنانچہ اگر مشرکین مکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب و انصار کو ان کی سر زمینوں سے جلا وطن نہ کرتے اور مدینہ میں بھی انھیں نہ چھیڑتے تو کوئی جنگ ہی نہ ہوتی ۔ حقیقت میں یہ عرب مشرکین تھے جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور پورے شہر مدینہ اور اسلامی حکومت کے نونہال کو جنگ بدر واحد کی شکل میں نابود کرنے کی ٹھان لی تھی ۔ اس کے علاوہ جو جنگیں پیش آئی ہیں اگر چہ انھیں جنگ کا نام دے دیا گیا ہے لیکن در حقیقت وہ اجتماعی دفاع سے زیادہ شباہت رکھتی ہیں نہ کہ جنگ واقعی سے اسی لئے اسلامی حکومت اور حبشہ کی حکومت کے درمیان تعلقات و روابط کو دوستانہ تعلقات اور مسالمت آمیز روابط کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے مسلمانوں نے صرف اسی صورت میں طاقت کا سہارا لیا جب کہ دوسرے ان کی دینی آزادی اور عمل و استقلال کی راہ میں روڑے اٹکانے لگے تھے ۔ ( العقاد ۱۹۹۶: ۳۰۰ اور ۳۰۵)
ایک دوسرا سوال جس کے بیان کرنے کا موقع آگیا ہے وہ یہ کہ اگر تعلقات کی بنیاد صلح و آشتی پر قائم ہے تو دین اسلام میں جہاد کو شرعی حیثیت کیوں ملی؟
بطور خلاصہ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں جہاد کا مقصد، امت اسلامی کا تحفظ اس کی حاکمیت و استقلال کی سلامتی کی ضمانت ہے جہاد ، آسمانی ادیان کی حمایت و صلح و آشتی کی پائیداری کے لئے معین و مقرر ہوا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس پر قرآن مجید نے بھی مہر تائید ثبت کر دی ہے ارشاد ہوتا ہے: (سورہ حج /۴۰)” اگر اللہ بعض لوگوں کو دوسرے بعض کے ذریعہ نہ روکتا تو کنیسے (گرجے) بیع (یہودیوں کے عبادت خانے)صلوات ( مجوسیوں کی عبادت گاہیں ) اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کو یاد کیا جاتا ہے سب منہدم کر دی جاتیں اور یقینا اللہ ان لوگوں کی ضرورمدد کرے گا جو اس کی مدد کرتے ہیں بیشک اللہ قوی و عزیز ہے “۔
جہاد کا مقصد دین اسلام کی قلمرو ، امت اسلام اور اسلامی حکومت کی حمایت و تحفظ کے لئے آمادگی اور ضرورت بھر دفاع کی طاقت رکھنا ہے اس بنیاد پر بہت سے لوگوں کے غلط تصورات کے برخلاف جہاد دوسروں کو اسلام قبول کرانے کے لئے دینی جنگ کا نام نہیں ہے اس لئے کہ ایسا مفہوم اخذ کرنا دین اسلام کی ماہیت و حقیقت سے دور اور روح شریعت کے خلاف ہے جس میں سہولت و سازگاری ہے اور جس کے اندر عقیدہ کی آزادی (لا اکراہ فی الدین ) کے قالب میں بیان کی گئی ہے ۔( القاسمی ، ۱۹۸۲: ۱۸۸) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پوری حیات طیبہ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی ایک بھی مسیحی کو اسلام قبول کرنے کی خاطر قتل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بر عکس نجران کے عیسائیوں کو بحث و مناظرہ اور مباہلہ کی دعوت دی گئی اور انھیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ مسلمانوں کی مسجد میں عبادت کریں ، مورخین ، اسلام کا سنہرا دور اسی دو سالہ صلح و آشتی کے زمانہ کو جانتے ہیں جو مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان صلح حدیبیہ واقع ہونے کے بعد گزرا اس دو سالہ دور میں مسلمان ہونے والوں کی تعداد اس صلح و پیمان صلح کے انعقاد سے پہلے پورے بیس سال میں مسلمان ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے ( فضل اللہ : ۱۹۸۱: ۲۱۱) اسلامی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ دوسری قوموں کے اقتصادیات پر قابض ہونے اور استثمار و استعمار کے ارادہ سے یہاں تک کہ طاقت و توانائی کے وسائل و امکانات رکھتے ہوئے طاقت کا سہارا لیں اس لئے کہ اسلامی حکومت میں ثروت و دولت کے منابع پر قبضہ کرنے ، بازار کی ضرورتوں کو پورا کرنے ، یا دنیا کے دیگر علاقوں پر اپنی سلطنت کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے جو آج کل کی مغربی دنیا میں قائم حکومتوں کا مقصد ہے ۔ جہاد کرنے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ جہاد کو اس صورت میںوسیلہ بنایا جا سکتا ہے جب کہ دشمن صلح کا ارادہ نہ رکھتا ہو یا ایسے حالات پیدا کر دے جس کے باعث اسلامی قلمرو اور امت اسلامی کو خطرہ لاحق ہو جائے اور ان کا مقصد اسلام و مسلمین کی تباہی ہو شہید باقر الصدر آیت کریمہ ( سورہ بقرہ آیت ۲۰۸) میں لفظ سلم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : صلح وہ روداد ہے جس کا حکم شرعی ہر قضیہ میں اس کے خاص حالات و کیفیات کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کبھی ایسے حالات ہوتے ہیں جن میں صلح کرنا واجب ہوجاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید اس آیت میں اشارہ کرتا ہے : ( سورہ نساء /۹۰)” اگر وہ لوگ تم سے ہاتھ روک لیں اور جنگ نہ کریں اور صلح کا پیغام دیں تو تمھارے لئے خدا نے ان کے اوپر کوئی راہ قرار نہیں دی ہے “ اور کبھی حالات ہی صلح کو حرام بنا دیتے ہیں جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے : (سورہ محمد/۳۵ ) ” پھر تو تم ہمت نہ ہارو اور صلح کی دعوت نہ دو جب کہ تم ہی سر بلند ہو“۔
اس بنیاد پر اسلام کا نظریہ صلح و آشتی کے بارے میں دوسرے حالات کی طرح خاص حالات و کیفیات کا تابع ہے اور تمام جوانب پر توجہ دیئے بغیر قطعی طور پر صلح کا حکم صادر نہیں کیا جا سکتا ہے (الصدر ۲۰۰۴: ۹۰۔ ۹۱) واضح سی بات ہے کہ دشمن کا موقف اور دشمنوں کی وجہ سے مسلمانوں کو در پیش حالات کی بنیاد پر صلح یا جنگ کا موقف مقرر ہوتا ہے اور یہ بات مکتب اسلام کی تعلیمات میں اصل و قانون صلح سے بھی مناسبت رکھتی ہے ۔
ایک بار پھر ہم اس نکتہ پر تاکید کریں گے کہ اسلامی دنیا میں غیر مسلموں سے تعلقات کی بنیاد قانون صلح پر استوار ہے اور طاقت کا استعمال اور جنگ و خونریزی ایک استثنائی حالت ہے جو اسلامی سر زمینوں پر فوجی تجاوز ات و جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے حق دفاع کے عنوان سے شرعی و قانونی حیثیت پیدا کر لیتی ہے ۔ ( دیکھئے : الزحیلی ۱۹۹۷: ۱۱۶)
قانون دفاع بھی وہ حق ہے جو موجودہ بین الاقوامی حقوق کے آئین میں قبول کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ کے عالمی منشور کا ،۵۱ویں بند میں اس کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے اگرچہ بین الاقوامی حقوق میں حق دفاع کی تاریخ طولانی نہیں ہے [5] اگر چہ آج کل بین الاقوامی حقوق کے آئین میں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد صلح و آشتی پر قائم ہے اور جنگ ایک ثانوی ضرورت ہے لیکن اس قانون کی تاریخ بین الاقوامی سماج میں ایک صدی سے کم کی ہے کیوں کہ ۱۹۲۸ءء میں ” بریان ۔ کلوگ “ معاہدہ میں جنگ ، حقوق سے تضاد رکھنے والی شے کے عنوان سے متعارف ہوئی جب کہ اس سے قبل نہ صرف جنگ حقوق سے تضاد رکھنے والی شے نہیں مانی جاتی تھی بلکہ ایک حق سمجھی جاتی تھی۔ ( شارل ۱۳۶۹:۲۶)
البتہ ” صلح جوئی “ مغربی ممالک کے حکمرانوں کا ایک خوشنما دعویٰ ہے جسے وہ بڑی آب و تاب کے ساتھ زبان پر جاری کرتے ہیں لیکن یہ قانون کافی کوششوں اور پہلی و دوسری عالمی جنگ میں لا تعداد بے گناہوں کے خون بہہ جانے کے بعد بین الاقوامی حقوق کے آئین میں وارد ہوا ” غنیمی “ کا کلام اس بارے میں سننے کے لائق ہے وہ کہتا ہے: ” نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں حقوق صلح نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اسے موجودہ بین الاقوامی حقوق کی دین کہا جا سکتا ہے بلکہ ان دونوں حقوق کے ما بین بہت سی شباہتیں پائی جاتی ہیں اور دونوں کا مقصد بھی ایک ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں جگہ حقوق کا منبع جدا جدا مگر فلسفہ صلح کا سر چشمہ دونوں میں ایک عقلی منطق ہے اور وہ عقلی منطق ، بین الاقوامی سماج کی رفاہ و آسائش کی حصول یابی ہے جسے دوستانہ تعلقات اور مسالمت آمیز روابط کے ثبات سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ میرے اوپر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ میں بین الاقوامی حقوق کو اسلامی حقوق پر ترجیح دے رہا ہوں ناقص حقوق کی کامل حقوق پر ترجیح قطعا جائز نہیں ہے میرا خیال ہے کہ انسانی فکر ہمیشہ صلح جورہی ہے لیکن ہر دور میں نئی روش کی متلاشی رہی ہے ( غنیمی بغیرتاریخ : ۱۹۳۴) اس کے باوجود اس نکتہ کا اضافہ ضروری ہے کہ جس چیز کو اسلام نے صدیوں پہلے کھوج نکالا ہے اور اس کا اعلان کر دیا تھا اسی چیز کو بین الاقوامی حقوق نے تیرہ صدیوں کے بعد حاصل کیا ہے ۔
ب: اسلام سے جنگ و شدت پسندی منسوب کرنے کی وجہیں
پہلی عالمی جنگ کے بعد مغرب میں اسلام کو جنگ و شمشیر کے دین سے تعارف کرایا جاتا رہا اور اس وقت سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اسلام کو دہشت گردی اور شدت پسنددین کہا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو شدت پسند بتلا یا جارہا ہے جیسا کہ کہا گیا یہ کوئی نیا الزام نہیں ہے بلکہ لفظیں بدل گئی ہیں اور نئے سیاسی ادبیات کے ہمراہ ہم آواز ہو گئی ہیں ۔ بعض اہل مغرب اور بعض مستشرقین کی طرف سے اس قسم کے الزمات کی درج ذیل وجہیں ہو سکتی ہیں:
۱۔دینی نصوص اور اسلامی فقہ کے حقائق سے غلط مفہوم لینا
بعض لوگوں نے آیات قرآن مجید کے ظاہری معانی اور احادیث کے سطحی معنی سے استناد کرتے ہوئے جنگ کو مسلمانوں کی زندگی میں ایک اصل و قانون فرض کر لیا ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کے سلسلہ میں اسی اصل و قانون کو تقویت دی ہے ۔ یہ نظریہ اس بات کا باعث بنا کہ بعض مغربی اور مشرقی محققین ، اسلام کو جنگ و شمشیر کا دین و مذہب سمجھ بیٹھیں لیکن جدید تحقیقات نے اس قسم کے رجحانات رکھنے والے فقہاء جو جنگ کو اصل سمجھتے تھے کے نظریات سے پردہ ہٹا دیا ہے ڈاکٹر وہبہ زحیلی اپنی کتاب آثار الحرب جو مصر کی ایک یونیورسٹی میں ان کی ڈاکٹریٹ کی تھیسس کا عنوان تھا مفصل تحقیق کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں :
دوسری صدی ہجری میں جو فقہی اجتہاد کا دور تھا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان روابط پر چھائی ہوئی حالت سے متاثر ہو کر اکثر فقہاء کا یہ نظریہ رہا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی بنیاد جنگ پر قائم ہے نہ کہ صلح پر مگر یہ کہ صلح کے اسباب جیسے ایمان آوری یا امان نامہ وجود پا جائیں اس نظریہ کے اپنانے کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی فتوحات کا سلسلہ کامیابی کے ساتھ جاری و ساری رہے اور عزت مسلمین اور اسلامی دعوت کی ذمہ داری کائنات میں اس طرح رواں دواں رہے ۔(الزحیلی ۱۹۹۷: ۹۳) ایسے نظریات کی تقویت و پشت پناہی جو اموی و عباسی دور سیاست میں اس زمانے پر مسلط جنگی حالات کی بنا پر قائم ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ہر زمانے کے مسلط سیاسی و سماجی تقاضے کچھ مثبت آراء و نظریات کے حامل ہو جاتے ہیں جو صرف اسی خاص زمانے سے زیادہ سازگار اور مناسبت رکھتے ہیں ۔
وقت گزر نے کے ساتھ یہ تصور ہونے لگا کہ دوسری صدی ہجری کے فقہاء نے اس دور کے سیاسی و سماجی حالات سے متاثر ہو کر جو موقف اختیار کیا تھا وہی نظریہٴ اسلام تمام زمانوں کا نظریہ ہے اور اصل جنگ اسلامی شریعت کے آئین کا ایک حصہ ہے اس تصور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ گزشتہ فقہاء کے ذریعہ دنیا کو دو حصہ میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی دارالحرب اور دارالاسلام ، اسلامی فقہ و حقوق کا ایک حصہ ہے کہ مسلمانوں اور غیروں کے درمیان تعلقات پر ہمیشہ سایہ فگن رہا ہے اور مسلمین اسی اصل کی پیروی کرتے رہے ہیں جب کہ دنیا کی دو حصوں دار الحرب اور دار الاسلام میں تقسیم در حقیقت دوسری صدی ہجری میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات پر سایہ فگن سیاسی و فوجی تقسیم بندی کا مظہر ہے جسے ایک شرعی و قانونی حکم نہیں سمجھا جا سکتا یہ تقسیم صرف اس زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فقہاء اور حقوق دانوں نے استنباط کی ہے ۔( الزحیلی ۱۹۹۷ : ۱۰۲) اس دور میں اسلامی حکومت سرحدی خطروں سے دو چار تھی جو کبھی کبھی فوجی کارروائی پر ختم ہوتی تھی اور یہ ٹکراؤ ایک طرف سے اسلامی و سماجی معاشرہ پر بڑا برا سیاسی اثر ڈالتا تھا اور دوسری طرف وہ زمانہ اجتہاد کے پنپنے اور وسیع پیمانے پر فقہ کے نکھار کا دور تھا اس لئے جنگی حالات اور اس زمانے کی خاص صورت حال نے فقہی استنباط پر اثر ڈلا۔
مستشرقین میں مجید خدوری [6] دنیا کو دو حصوں دار الحرب اور دار الاسلام میں تقسیم کے نظریہ کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے : جہاد وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعہ دنیا دارالحرب سے دار الاسلام میں تبدیل ہو جاتی ہے اسی بنیاد پر مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان عادی روابط و تعلقات پر ایک قسم کی دشمنی و مخاصمت آمیز حالت طاری ہے اس کا خیال ہے کہ اسلام میں غیر مسلمین سے دائمی صلح و آشتی پر مبنی معاہدہ کا انعقاد کوئی حیثیت نہیں رکھتا سوائے اہل کتاب سے معاہدوں کے ۔( عبد الرزاق بحث نظریہ الحرب ہی الاصل )
اگر ہم اسلام کو ایک کامل شریعت و دین تسلیم کرتے ہیں تو یہ منطقی بات ہے کہ اس کے اخلاقی اصول و ضوابط کے پہلو میں صلح و جنگ اور دوسروں سے تعلقات پر مبنی قوانین و دستورات پر بحث کریں ۔ اس لئے کہ انسانی زندگی میں صلح و جنگ نا گزیر ہے لیکن کسی حقوقی نظام میں موجود اسی طرح کے اصول و قوانین کو اس نظام میں ایک حالت باقی رہنے کی دلیل نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ چوں کہ اسلام میں جہاد ، شرعی و قانونی حیثیت رکھتا ہے پس مسلمین ہمیشہ غیر مسلمین سے جنگ کی حالت میں رہتے ہیں موجودہ بین الاقوامی حقوق میں بھی کچھ ایسے قوانین پائے جاتے ہیں جن میں جنگی امور ، اسراء ، زخمیوں اور اسلحوں کے استعمال کے طریقہ وغیرہ پر گفتگو ہوئی ہے جس کی بہت سی شاخیں جیسے ” حقوق جنگ “ (Khadduri,p.54)یا ” مسلحانہ نزاع کے حقوق“ (Law of Armed Conflict)اور ” دوستانہ انسانی حقوق“ (Humanitarian Law) وجود میں آگئی ہیں اس بنیاد پر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی حقوق ، جنگ و شمشیر کے حقوق ہیں کیوں کہ اس میں جنگ و جدال سے متعلق امور پر گفتگو ہوئی ہے ؟ واضح ہے کہ قبول نہیں کیا جا سکتا اس طرح تاریخ اسلام میں ایک خاص موقع پر سایہ فگن جنگی حالت کو مستند قرار دے کر ہمیشہ کے لئے اس حالت کو ایک کلی قاعدہ کا عنوان نہیں دیا جا سکتا اور اس کی بنیاد پر اسلام کا جنگ طلب اور شدت پسند دین کے عنوان سے تعارف نہیں کرایا جا سکتا۔
اور پھر کیا سارے ادیان و مذاہب ہمیشہ صلح و آشتی کی حالت میں رہے ہیں اور ہرگز جنگ و جدال سے رو برو نہیں ہوئے ہیں ؟ کیا تاریخ عیسائیت میں دوسروں کو عیسائی بنانے کے لئے متعدد جنگیں نہیں ہوئی ہیں؟ کیا عیسائیوں نے جن جنگوں کے شعلے بھڑکائے ہیں انھیں حضرت عیسیٰ کے دین سے جو صلح و آشتی کا دین ہے نسبت دی جا سکتی ہے ؟ مغربی لوگ اسلام کو تلوار اور جنگ کا دین سمجھتے ہیں جب کہ مغرب میںکم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو شمالی یورپ والوں کو جبری طور پر عیسائی بنانے کے لئے اور اس علاقہ کے پورے ادیان و مذاہب کی بیخ کنی کے لئے کئے گئے سلوک کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں جب تک اہل مغرب ایمان دار عیسائی تھے عیسائیت وہ پرچم تھا جسے جنگوں میں ہراتے تھے اور جب ان کے درمیان دین کم رنگ ہو گیا تو قوم پرستی، فاشیزم کمیونسم، کیپسٹلیزم اوردوسرے مکاتب فکر نے سر اٹھایا۔
ہاں !اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسلام ، دین شمشیر ہے اگر اس کا مقصد دین شمشیر سے یہ ہے کہ اس نے جہاد کو ایک نظام جہاد کے طور پر واجب کیا ہے تو اس کی بات درست ہے لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ اسلام تلوار کی دھار سے پھیلا ہے تو وہ ایک آشکار غلطی میں مبتلا ہے کیوں کہ اسلام ، عقل و منطق اور اپنی ثقافتی روش کے ذریعہ کائنات پر چھا گیا ہے ۔
دوسری جانب بعض مسلمان بھی اہل مغرب کے اسلام کو غلط سمجھنے میں حصہ دار ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا برُا سمجھانا بھی دوسروں کے برے سمجھنے میں کافی حد تک موثر ہے بعض متعصب مسلمانوں کی تحریر اور سلوک و عمل اسلام سے اس قسم کے نتائج اخذ کرنے کا راستہ ہموار کر دیتا ہے (مثال کے طور پر دیکھئے http://www.mojahedin.com) کسی بھی حقوقی نظام میں غیر فوجیوں ، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا جائز نہیں چہ جائیکہ اس دین میں جس کا پیغام ہی رحمت و سلامتی اور مہر بانی ہے اور اس کے نبی عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ، یہ کہنا کہ ّ” اسلام میں دو قسم کی دعوت دی جاتی ہے زبان سے دعوت ، سنان و تلوار سے دعوت لوگوں کے عقائد کی اصلاح کرنے کے لئے یا یہ کہنا کہ ” خدا نے مسلمانوں پر واجب کر دیا ہے کہ کفار و مشرکین کے اس گروہ سے جنگ کا آغاز کر دیں جو اسلام قبول کرنے کی دعوت کے بعد اسلام قبول نہیں کرتے اور اسلامی امت پر واجب ہے کہ سوائے محترم مہینوں کے جن میں جنگ کا آغاز منع ہے بقیہ مہینوں میں ان پر حملہ کریں اور جنگ کا آغاز کریں اس لئے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب نے آنحضرت کی طرف سے بھیجے گئے فارس اور روم کے حکمرانوں کے نام خطوط پر توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے جنگ کا آغاز کیا جب کہ ان ملکوں نے کسی بھی مسلمان سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا ، کتاب و سنت میں روح شریعت اور اسلامی رحمت کے سلسلہ میں دقیق غور و فکر کی ضرورت ہے ایساتصور بہت سی دلیلوں کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ اسلام کے انسان ساز اور حیات بخش مکتب کے حقائق اور تعلیمات سے کوسوں دور ہے بلکہ موجودہ مسلم معاشروں سے بھی کوئی سازگاری و مناسبت نہیں رکھتا۔
۱۔ یہ جو دین اسلام کی دعوت کو دو دعوتوں (زبانی دعوت اور تلوار کے زور پر دعوت ) میں تقسیم کیا گیا ہے قرآن کی بیان کردہ منطقی روش کے ذریعہ مد مقابل کو قانع کرنے اور قطعی برہان و دلیل پر قائم دعوت کی روش سے موافقت نہیں رکھتا ۔ آیت کریمہ ( سورہ نحل /۱۲۵)” اپنے رب کی طرف حکمت اور حسین پند ونصیحت کے ذریعہ دعوت دو اور ان سے بہترین طریقہ سے بحث کرو “ ۔ جیسی آیت کے ہوتے ہوئے دوسروں کو قہر وجبر کے ذریعہ مسلمان کرنا شرعی و قانونی دعوت کی روش شمار نہیں کی جاسکتی ۔ اسلامی دعوت کبھی بھی صلح جوئی اور مسالمت آمیز روش اور قرآن کی تعبیر میں احسن روش سے دور وبے گانہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کے علاوہ دین کی بنیاد ایمان اور قلبی طور پر تسلیم کرنا ہے جو ارادہ و اختیار کے ساتھ ہی ممکن ہے نہ قہر و غلبہ اور جبر و تشدد کے ذریعہ ۔ ( سورہ بقرہ /۲۵۶) الزحیلی ۹۷) دعوت دین صرف زبان و سنان میں محدود نہیں ہے بلکہ دعوت دین میں عمل و کردار کے پہلو کا انکار نہیں کیا جا سکتا ( کونوا دعاة للناس بغیر السنتکم ) ” لوگوں کو بغیر زبان کے ( عمل کے ذریعہ ) دعوت دینے والے بنو “۔دنیا کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں کے دلوں میں جو اسلامی ایمان گھر کر گیا ہے یہ مسالمت آمیز دعوت ہی کی دین ہے نہ شمشیر و سنان کی دعوت ۔ ہم (مسلمین ) جہاں بھی تلوار کے ذریعہ وارد میدان ہوئے تلوار کے ذریعہ بھگا بھی دیئے گئے ۔ دین کی دعوت دلیل و برہان کے ذریعہ نتیجہ بخش ہے نہ کہ شمشیر و سنان کے ذریعہ ، ہاں ! اسلام تلوار والا ضرور ہے لیکن تلوار دفاع کے لئے ہے ، موانع کو برطرف کرنے کے لئے ہے نہ کہ حملہ آور ہونے کے لئے ۔
۲۔ مذکورہ نتیجہ ان فقہی و حدیثی نصوص سے بھی مناسبت نہیں رکھتا ہے کہ جن میں جنگ کی ابتداء سے منع کیا گیا ہے ۔ ( القاسمی ۱۹۸۲: ۱۷۵ بنقل از سفیان بن سعید بن مسروق ثوری دوسری صدی ہجری کی معروف شخصیت بھی آغاز جنگ کو قبول نہیں کرتی ) اسی طرح مذکورہ خیال ان آیات و روایات سے بھی کوئی تناسب نہیں رکھتا جو عفو و بخشش اور احسان و گزشت پر دلالت کرتی ہیں مثال کے طور پر ( سورہ بقرہ /۸۳) ” اور لوگوں سے اچھے انداز میں باتیں کرو “ ۔ ( سورہ بقرہ /۱۰۹) ” پھر عفو و درگزشت کرو“ ( سورہ نحل /۱۲۵) ” اپنے پروردگار کی طرف حکمت اور پسندیدہ موعظہ کے ذریعہ دعوت دو اور بحث و مباحثہ بہترین طریقہ سے کیا کرو“ ( سورہ مائدہ / ۸) ” اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر جری نہ بنا دے کہ تم عدل و انصاف سے کام نہ لو عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑو کہ عدل و انصاف ہی تقویٰ سے قریب تر ہے “۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر وہ آیات و روایات جو کہ دوستی و مہربانی ، حلم و برد باری، دوسروں کی برائیوں اور ان کے عیوب سے چشم پوشی ، غصہ کو پی جانا ، نرم مزاجی وغیرہ وغیرہ کے بارے میں موجود ہیں مذکورہ خیال و نظریہ کے ساتھ قابل جمع نہیں ہیں
۳۔ اس نظریہ کے قبول کرنے کا مطلب ہے ان تمام امکانات و وسائل سے ہاتھ کھینچ لینا جو دوسروں کے ساتھ مسلمانوں کے مسالمت آمیز معاملہ کے اظہار کے لئے انجام پاتے ہیں ۔
۴۔ بین الاقوامی سماج کی واقعیات نیز اسلامی حکومتوں سے تشکیل پائے سماج کی واقعیات جو کہ موجودہ زمانے میں (OIc)ادارہٴ اسلامی کانفرنس کے قالب میں ظہور پزیر ہو ا ہے وہ مسلمانوں کی دوسری قسم کی حالت کو آشکار کرتا ہے ۔ تمام اسلامی ممالک جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور بین الاقوامی معاہدوں اور معاملات میں دخیل ہیں انھوں نے دوسرے ملکوں اور قوموں سے مسالمت آمیز اصولوں پر تعلقات قائم کئے ہیں اور بین الاقوامی سماج کے مقابلہ میں ایک فریضہ و ذمہ داری کے عنوان سے طاقت کے استعمال سے منع کر دئیے گئے ہیں موجودہ بین الاقوامی سماج اور ان افکار کے ساتھ معاہدہ و معاملہ ہر گز ممکن نہیں ہے جو مسلمانوں کی زندگی کے ایک خاص دور سے متعلق اور جنگ پر مبنی تھے ۔ اس لئے کہ اسلامی ممالک کی بین الاقوامی اداروں اور خاص طور سے اقوام متحدہ میں رکنیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان ممالک نے اپنے بین الاقوامی تعلقات میں اصل صلح کو قبول کیا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ اختلافات کے حل و فصل کے لئے مسا لمت آمیز اسلوب اپنائیں گے ۔( دیکھئے اقوام متحدہ کا آئین مادہ ۱و ۲ بند ۳)
اسلامی ممالک نے بھی اسلامی کانفرنس کے آئین نامہ میں بین الاقوامی تعلقات کے لئے اسی قسم کا عہد قبول کیا ہے اس ادارہ نے بین الاقوامی صلح و امنیت کی حمایت کے لئے ضروری تدابیر کے اتخاذ کو اپنا ایک اہم مقصد اعلان کیا ہے اس ادارہ کے آئین کے مادہ دوم کے بند چہارم (الف ) بین الاقوامی صلح و امنیت سے متعلق ہے جس میں آیا ہے: ” اس ادارہ سے وابستہ ممالک ، بین الاقوامی صلح و امنیت کی حمایت میں ضروری تدابیر کے اتخاذ کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کرتا ہے ۔ادارہ اسلامی کانفرنس کے آئین نامہ کا یہ بند دین اسلام و عقیدہٴ اسلامی کے بنیاد پر استوار ہے اور اقوام متحدہ کے مادہ یک کے بند یک سے متاثر ہے کہ جس میں بین الاقوامی صلح و امنیت کو اقوام متحدہ کا ایک ہدف و مقصد جانا گیا ہے اور دونوں کے آئین نامہ کے مفاد میں اس طرح کی ہم آہنگی ان دونوں بین الاقوامی اداروں کے ما بین مشترک اغراض و مقاصد کا پتہ دیتی ہے اور چوں کہ دین اسلام میں اصل یہ ہے کہ دوسری اقوام و ملل کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی بسر کی جائے اس لئے اسلامی ممالک بھی اس مقصد کی حصول یابی کے لئے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔
۵۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالیں اسلام اور مسلمین کے اوپر دحشت گردی اور تشدد پسندی کا لیبل دشمنوں نے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ءء کے بعد لگانا شروع کیا ہے اور دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ سے مسلمانوں کی بے حد غلط تصویر منعکس کی گئی مسلمانوں کو ایسے خطر ناک افراد کے عنوان سے پہچنوایا گیا کہ جن سے دوسروں لوگوں کو بچنا چاہئے اور مسلمانوں کے اوپر ہر طرح کی سختیاں کی جای گئیں رہی ہیں بہت سے مادی و معنوی نقصانات مسلمانوں کو اٹھانے پڑے ۔مسلمانوں سے متعلق مدارس خیراتی و ثقافتی مراکز اور کمپنیاں تعاون یا احتمال تعاون کی تہمت کی وجہ سے بند کر دئے گئے ان کے اموال کو ضبط کر لیا گیا ملیونوں کی تعداد میں مسلمین جو کہ مختلف وجوہات کی بنا پر جیسے علاج ، تعلیم اور اپنے ہم مذہب لوگوں کے درمیان تبلیغ کے لئے مغربی ممالک اور غیر اسلامی ملکوں کا سفر کرتے ہیں تو ان کے ساتھ بغض و کینہ کا اظہار کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ خطرناک مسافروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے بہر حال میں ایک مسلمان کی یہ بات نہیں بھول سکتا جو کہہ رہا تھا اگر میں اسلام کے صلح پسند دین اور مسلمانوں کے صلح جو ترین افراد ہونے کا یقین نہ رکھتا ہوتا تو ہمیں یقین ہو جاتا کہ ہم مسلمین دحشت گرد اور تشدد پسند ہیں ۔
۲)۔ مغرب میں اسلام کی ترویج
اسلام کی مخالفت کا ایک اور داعی جو کہ مسلمانوں کو جنگ طلب اور دحشت گرد کا لیبل لگانے میں موثر رہا ہے وہ روز بروز مغربی دنیا میں اسلام و مسلمین کی بڑھی ہوئی طاقت و تعداد ہے کیوں کہ یہ حالت ان لوگوں کے بقول بحرانی کیفیت تک پہنچ گئی ہے اس سلسلہ میں ہم صرف امریکہ کے بھاری تعداد میں نشر ہونے والے تازہ ترین میگزین پر نظر کرتے ہیں جس نے یورپ میں شناختی بحران(Europe's identity crisis) کے عنوان سے مسلمانوں اور یورپ میں روز بروز بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی تعداد سے یورپیوں کی شناخت پر اثر کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اس میگزین کے ۲۸ویں شمارہ فروری۲۰۰۵ ءء کے پہلے صفحہ پر مونا لیزا کی مشہور پینٹنگ کو پڑھنے والا ملاحظہ کرتا ہے جو اسلامی حجاب سے روپوش ہے اورتصویر کے نیچے دیئے گئے عنوان مقالہ کے متن کو مطالعہ کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔
مقالہ نگار کے خیال میں یورپین شناختی بحران کا سر چشمہ بھاری تعداد میں مہاجر مسلمانوں کی وجہ سے ہے جس کے نتیجہ میں یورپ کا اشتراک ثقافت پر مبنی مثالی معاشرہ شکست کھا چکا ہے اس گزارش میں بلجیم ، جرمن ، ہالینڈ میں مہاجرت ، مہاجرین کے خلاف روز بروز تشکیل پانے والی احزاب کی بڑھتی تعداد سے اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ انھیں کس قدر مسلمان مہاجر ین کے تسلسل سے اپنی یورپین شناخت کے مضمحل ہونے کا خطرہ لاحق ہے وہ مہاجرین جو اپنی ثقافتوں اور آداب زندگی کو خیر باد کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور یورپیوں کے رنگ میں نہیں ڈھلتے اس گزارش کے آغاز بلجیم کی داہنے بازو کی شدت پسند حمایت ” ولامس بلانگ “ کے لیڈرکا تعارف پیش کیا گیا ہے کہ جس نے اس ملک کے شہر انتورپ نورث میں پہلی رسمی مسجد کی تاسیس و تعمیر کو روکنے کے لئے تحریک شروع کی تھی ،اخبار ٹائم کے بقول جب یہ شخص ( دو وینتر ) سڑک سے گزرتا تھا تو سڑک کے ایک جانب سے مہاجرین اسے ” قوم پرست“ کہتے تھے اور دوسری جانب اس کے طرفدار اس کی تعریف کرتے تھے در حقیقت ولامس بلانگ جماعت کا لیڈرت نوبس ایک نمونہ ہے ایسے نہ جانے کتنے تھے ۔اخبار ٹائم کے بقول مسلمان مہاجرین کو قانونی طور پر یورپین سکولر کے اقدار قبول کرنے کا پابند بنا نا چاہئے اچھاہے انھیں اسلامی آداب و سنن چھوڑ کر یورپیوں کے ساتھ ہم رنگ ہونا پڑے یورپین سیاستمداروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلامی دہشت گردوں اور بھیانک مہاجرت کے درمیان تعلقات کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ یہی مذکورہ روش ہے ۔
اس مقالہ کے دوسرے حصہ میں ” کارل دووس“ بلجیم کے شہر گنت یونیور سٹی میں سیاسیات کے استاد کا کہنا ہے ، سنتی طور پر یورپین یعنی وہ شخص جو یورپ کے کسی ایک ملک کا باشندہ ہے لیکن یورپی اقدار کے بارے میں مزید فلسفی بحث جاری ہے یہ واقعیت ہے کہ مسلمانوں کی دوسری نسل اب بھی مہاجر شمار ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک بہت بڑی مشکل سے دو چار ہیں “ ۔
بلجیم کی ” ولامس بلانگ“ جماعت کا لیڈر کہتا ہے :اشتراکی ثقافت ایک وہم ہے اکثر مہاجرین ہم رنگ نہیں ہو رہے ہیں وہ خاص خاص محلوں میں اپنی خاص طور طریقہ پر مشتمل زندگی بسر کر رہے ہیں انھیں چاہئے کہ ہماری طرح زندگی بسر کریں دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہئے یورپ میں خون کی ندیاں بہی ہیں تاکہ یہ جدائی حاصل ہو سکے “اس کا خیال ہے کہ مسلمین موجودہ زمانے میں یورپ کی سب سے بڑی مشکل ہیں اور اگر بہت جلد اس سلسلہ میں کوئی کام نہ ہوا تو بہت دیر ہوجائے گی۔(Time: February 28-2005 vol. 165 no 9)
۳۔ اسرائیلیوں کی حمایت
مسلمانوں کے اوپر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا ایک اور پشت پردہ مگر عیاں ہو جانے والا انگیزہ ، اسرائیلیوں کی حمایت ہے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہودیوں کی کارستانیاں اور ان کی گھناؤنی تاریخی ایسی رہی ہے کہ یہ قوم دنیا کے بہت سے بحرانوں کا سر چشمہ رہی ہے اور اب بھی یہی روش افراطی یہودیوں اور اسرائیلیوں کے ذریعہ جاری ہے بلا شبہ اسرائیلیوں کو بھی مسلمانوں کے اوپر لگائے گئے دہشت گردی کے لیبل کا سرچشمہ سمجھنا چاہئے دنیا میں جہاں کہیں بھی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور وحشیانہ حادثہ پیش آتا ہے اس کی جڑ اور سر چشمہ یہودیوں کے درمیان تلاش کرنا چاہئے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور رسائل و مجلات میں دو رخی بین الاقوامی صہیونیزم کی حمایت و طرفداری کی بہترین دلیل ہے نیز اس گروہ کے مخفی ہاتھ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کو شہرت دینے میں کارفرما ہیں ایک طرف تو مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے اور ان کو بھیانک ثابت کرنے میں آزاد رہے ہیں اور ان کی حمایت ہوتی رہی ہے تو دوسری جانب ٹھیک اس کے بر خلاف جو کلام یا تحریر یہودیوں کی تاریخ یا ان کے جرائم سے متعلق ہوتے انھیں سنسر کر دیا جاتا رہا ہے ۔ بعض مواقع پر اس قسم کے رائٹروں کو نکال دیا گیا یا پھر ان کی سر گرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے کیوں کہ انھوں نے یہودیوں اور اسرائیلیوں کے بارے میں حقائق بیان کر دئیے تھے اس سلسلہ کا آخری نمونہ جس میں بعض اسلامی چینل پر پابندی ہے جو اسرائیلیوں اور یورپیوں کے مزاج پر بار تھا اور انھیں اچھا نہیں لگتا تھا ۔ مغرب میں علمی مراکز اور یونیورسٹیوں میں آزادی بیان اور اخبارات وغیرہ پر پابندی اور محدویت کی بہترین دلیل ، یہودیوں اور اسرائیلیوں کے خلاف نشر ہونے والے مطالب ہیں ۔مغربی حکومتوں کی جانب سے اسرائیلیوں کی فوجی اقتصادی سیاسی اور تبلیغاتی حمایت گفتگو کی محتاج نہیں ہے کیوں کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور بہت سی یورپی حکومتوں نے رسمی طور پر اسرئیلیوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔
اسلامی سرزمینوں جیسے عراق و افغانستان پر ظالمانہ قبضہ اس علاقہ کے ممالک کو اسلامی آئین سے دست بردار ہو جانے کی ترغیب کی دھمکی ، مسلمانوں کو ایٹمی انرجی یہاں تک کہ صلح و امنیت طلب اغراض و مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ، بعض اسلامی ملکوں کا نام شرارت کی مرکز حکومتوں کی لسٹ میں درج کرنا اور آخر میں دہشت گردی (اسلام ) کے مقصد کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان وغیرہ یہ سب کے سب اسرائیلیوں کی منفعت میں اٹھائے گئے قدم ہیں ۔
دوسرے اغراض و مقاصد جیسے مسلمانوں کو علمی ترقی سے محروم کرنا تبلیغاتی جنگ کے خاتمہ پر اہل مغرب کے سامنے ایک فرضی دشمن کے وجود کی ضرورت ، تہذیبوں اور کلچر کی جنگ اور ٹکراؤ کا نظریہ پیش کرنا اور اسے جامہٴ عمل پہنانا ، ڈیموکریسی کے فروغ کے بہانے اسلامی حکومتوں کے داخلی امور میں مداخلت کرنا در حقیقت ملکوں کی ملی ثروتوں کو ہڑپنا وغیرہ یہ وہ دیگر اغراض و مقاصد ہیں جو مسلمانوں کے اوپر جنگ طلبی اور دہشت گردی کی تہمت کو پھیلانے میں پوشیدہ انگیزے ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ۔
منابع و مآخذ
۱۔ابن کثیر ،تفسیر قرآن العظیم ،بیروت ،دارالمعرفة ،۱۴۱۲․
۲۔ابوالوفا ،احمد محمد ،القانون الدبلوماسی الاسلامی ،دارالنہضة العربیہ،۱۹۹۲م․
۳۔ ابوزید الثعالبی المالکی ،تفسیر الثعالبی ،دار احیا ء التراث العربی ، ۱۴۱۸ق․
۴۔الاصفہانی ،المفردات فی غریب القرآن ،دفتر نشر الکتاب ،الطبعة الاولی․
۵۔الترمذی ،الشمائل المحمدیہ ،بیروت ،موٴسسة الکتاب الثقافیہ ، الطبعة الاولی ،۱۴۱۲ق․
۶۔الحاکم النیسابوری ،المستدرک ،بیروت ،دارالمعرفة ،۱۴۰۶․
۷۔الحلی ،تذکرة الفقہاء،قم ،موٴسسة آل البیت علیہم السلام لا حیا التراث․
۸۔الزحیلی ،وھبہ ،العلاقات الدولیہ فی الاسلام مقارنة بالقانون الدولی الحدیث،بیروت ،موٴسسة الرسالة ،۱۹۹۷․
۹۔الشامی ،الصالحی ، سبل الہدی والرشاد فی سیرة خیر العباد : بیروت،دارالکتاب العلمیة،الطبعة الاولی ،۱۴۱۴ق․
۱۰۔الشوکانی ،فتح القدیر،عالم الکتب․
۱۱۔الصدر،محمد باقر ،رسالتنا،دارالکتاب الاسلامی ،۲۰۰۴م․
۱۲۔الطباطبایی،محمد حسین ،المیزان فی تفسیرالقرآن ،بیروت ، موٴسسة الاعلمی للمطبوعات․
۱۳۔العسقلانی ،ابن حجر ،فتح الباری فی شرح صحیح البخاری ، بیروت، دار المعرفة للطباعة و النشر، الطبعة الثانیة ․
۱۴۔العقاد،عباس محمود،حقائق الاسلام واباطیل خصومة ،بیروت ، دارالکتاب العربی،۱۹۹۶م․
۱۵۔القرطبی ،الجامع لاحکام القرآن ،دار احیاء التراث العربی ، ۱۴۰۵ق․
۱۶۔المتقی الہندی ،کنزالعمال ،بیروت ،موٴسسة الرسالة ․
۱۷۔بابایی،حبیب اللہ ،((حمایت از مسلمانان در غرب ))،روزنامہٴ جام جم ،۲۱/۱/۸۴،شمارہ۱۴۰۱․
۱۸۔القاسمی ،ظافر ،الجہاد والحقوق الدولیة فی الاسلام ،بیروت ، دارالعلم للملاین ،الطبعة الاولی ،۱۹۸۲م․
۱۹۔شارل ،روسو،حقوق مخاصمات مسلحانہ ،ترجمہ سید علی ھنجنی ،ج ۱،دفتر خدمات حقوقی بین المللی ،چاپ اول ،۱۳۶۹․
۲۰۔عبد الرزاق،صلاح ،العالم الاسلامی والغرب ،رسالہ فوق لیسانس دانشگاہ لیدن ھلند ،بحث:نظریة الحرب ھی الاصل بہ نقل از :
Khadduri: "The Islamic law of nations", Available at: http://www.darislam.com
۲۱۔عبدالطیف ،اٴمیمة،الاسلام السیاسی فی الصحف البرطانیة ،در پایگاہ اینترنیتی قضایاسیاسیة․
http://www.IslamOnline.net
۲۲۔غنیمی ۔محمد طلعت ،قانون السلام فی الاسلام ،مصر،منشاة المعارف الاسکندریة ،بی تا ․
۲۳۔فضل اللہ ،محمد حسین ،الاسلام ومنطق القوة ،الدارالاسلامیة ، الطبعة الثانیة ،۱۹۸۱م․
۲۴۔محمصانی ،صبحی ،القانون والعلاقات الدولیة فی الاسلام ، بیروت، دارالعلم للملاین ،۱۹۸۲م․
25- Mulrine, Anna, Europes Identity Crisis, US News 10 Jan 2005.
26- Time: february 28, 2005, vol. 165 no.9
[1] . اس مقالے میں مقالہ نگار نے یوروپی معاشروں میں مسلمانوں کی اقلیت کے روز بروز بڑھنے کا خطرہ گوش زد کیا ہے اور خاص طور سے یورپ والوں کی شناخت کے بارے میں خطرات سے آگاہ کیا ہے۔
[2] . حجاج بن یوسف ثقفی نے سعید بن جبیر کو گرفتار کرکے آخر کار شہید کر ڈالا سعید کی شہادت سے پہلے حجاج نے کچھ سوال سعید سے کئے تھے جن میں ایک تھا کہ ” محمد “ کے بارے میں تم کیا نظریہ رکھتے ہو ؟ سعید نے اس طرح جواب دیا کہ ” نبی الرحمة و امام الھدی : آپ نبی رحمت و امام ہدایت تھے “
[3] . الحاکم النیسا پوری ، ۱۴۰۶: ۳/۵۸۱
[4] . دوسری آیات بھی موجود ہیں کہ جن میں لفظ ”جہاد “ اور ” قتال “ اور ان کے دیگر مشتقات آئے ہیں۔
[5] . منشور کا ۵۱واں بند کہتا ہے ” اقوام متحدہ کے کسی رکن پر مسلحانہ حملہ کی صورت میں جب تک سلامتی کونسل صلح اور عالمی امن و امان کی خاطر کوئی اقدام نہیں کرتی اس منشور کا کوئی قانون کسی کے ذاتی یا سماجی دفاع کرنے کے ذاتی حق پر کوئی صدمہ وارد نہیں کر سکتا“۔
[6] . عراقی الاصل عیسائی رائٹر کہ جس نے اپنے ڈاکٹریٹ کے رسالہ ” اسلام میں جنگ و صلح “ میں زیادہ تر آراء و نظریات ذکر کئے ہیں۔
source : http://rizvia.net/