اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

شیعیان مصر کی صورتحال

مصری سرکار کہتی ہے کہ اس ملک میں شیعیان اہل بیت (ع) کی آبادی ایک لاکھ سے تجاوز نہیں کرتی مگر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے نے اس سرکاری موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک میں اہل تشیع کی آباد سات لاکھ ہے اور یوں مصر کی ایک فیصد آبادی شیعیان اہل بیت (ع) پر مشتمل ہے.

تاہم مصر کی شیعہ راہنماؤں کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار گمراہ کن ہیں اور اس وقت مصر کے شیعیان اہل بیت (ع) کی آبادی 15 سے لے کر 20 لاکھ تک پہنچتی ہے.

امریکی شماریات کے محکمے نے بھی 2004 میں شیعہ راہنماؤں کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مصر میں اہل تشیع کی آبادی اٹھارہ سے لے کر 20 لاکھ تک ہے جن کی اکثریت مصر کے جنوبی علاقوں میں سکونت پذیر ہے.

البتہ امر مسلم یہ ہے کہ مصر کے شیعہ اس ملک کے غریب ترین اور محرومترین طبقات میں شمار ہوتے ہیں گوکہ مسلسل معاشی بحرانوں کی وجہ سے مصر کے عام لوگ بھی غربت و ناداری کا شکار ہیں اور مصر کی اکثریتی آبادی خطِ افلاس (Poverty line) کے نیچے ہیں. لیکن اس کے باوجود مصر کی حکومت کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے اہل تشیع دیگر اقوام کی نسبت کہیں زیادہ معاشرتی اور سماجی دباؤ کا سامنا کررہے ہیں.

سنہ 2004 میں Egyptian Initiative for Personal Rights نے اپنی ایک رپورٹ میں تاکید کی تھی کہ اہل تشیع کے خلاف مصری سرکار کے تشدد آمیز اقدامات میں خاص طور پر 1998 کے بعد بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور مصر کے شیعہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں.

شیعیان مصر کی صورتحال

مصری سرکار کہتی ہے کہ اس ملک میں شیعیان اہل بیت (ع) کی آبادی ایک لاکھ سے تجاوز نہیں کرتی مگر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے نے اس سرکاری موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک میں اہل تشیع کی آباد سات لاکھ ہے اور یوں مصر کی ایک فیصد آبادی شیعیان اہل بیت (ع) پر مشتمل ہے.

تاہم مصر کی شیعہ راہنماؤں کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار گمراہ کن ہیں اور اس وقت مصر کے شیعیان اہل بیت (ع) کی آبادی 15 سے لے کر 20 لاکھ تک پہنچتی ہے.

امریکی شماریات کے محکمے نے بھی 2004 میں شیعہ راہنماؤں کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مصر میں اہل تشیع کی آبادی اٹھارہ سے لے کر 20 لاکھ تک ہے جن کی اکثریت مصر کے جنوبی علاقوں میں سکونت پذیر ہے.

البتہ امر مسلم یہ ہے کہ مصر کے شیعہ اس ملک کے غریب ترین اور محرومترین طبقات میں شمار ہوتے ہیں گوکہ مسلسل معاشی بحرانوں کی وجہ سے مصر کے عام لوگ بھی غربت و ناداری کا شکار ہیں اور مصر کی اکثریتی آبادی خطِ افلاس (Poverty line) کے نیچے ہیں. لیکن اس کے باوجود مصر کی حکومت کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے اہل تشیع دیگر اقوام کی نسبت کہیں زیادہ معاشرتی اور سماجی دباؤ کا سامنا کررہے ہیں.

سنہ 2004 میں Egyptian Initiative for Personal Rights نے اپنی ایک رپورٹ میں تاکید کی تھی کہ اہل تشیع کے خلاف مصری سرکار کے تشدد آمیز اقدامات میں خاص طور پر 1998 کے بعد بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور مصر کے شیعہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں.

اس رپورٹ کے مطابق مصری حکومت نے چھ مرتبہ اہل تشیع پر حملے کئے ہیں اور ابھی تک اس نے 124 افراد کو بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کی بنا پر قید کرکے اذیتیں دی ہیں. شخصی آزادی کے دفاع کی اس مصری تنظیم کی یہ رپورٹ مصر پر عالمی تنظیموں کی شدید تنقید کا باعث ہوئی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق تنظیم نے بھی مصری سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا.

اسی برس مصر کے ایک قانوندان – جو انسانی حقوق کے حوالے سے بھی سرگرم عمل ہیں – نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق تنظیم کو ایک رپورٹ بھیجی جس میں انہوں نے اہل تشیع کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کرنے اور ان پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں مصری سرکار پر تنقید کی تھی. انہوں نے لکھا تھا کہ: گو کہ عالمی تنظیموں کی تحقیقات اور اعداد و شمار کے مطابق کم از کم اٹھارہ لاکھ افراد مصر میں شیعہ اثناعشری مکتب کے پیروکار ہیں مگر مصر کی حکومت انہیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتی اور ان کو کچلنے کے درپے ہے.

اسی سال – دیگر مذاہب کے لئے گھٹن کی فضا قائم کرنے کی بنا پر - مصری سرکار پر عالم دباؤ بڑھنے کے بعد جامعة الازہر کے مفتی اعظم «سیدالطنطاوی» نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے 1959 میں - اسلام کے رسمی مذہب کی حیثیت سے مذہب تشیع کی تبلیغ و ترویج کی آزادی پر مبنی - اسی جامعہ کے سابق مفتی اعظم «شیخ محمود شلتوت» کے تاریخی فتوے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مصر میں اہل تشیع کو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا پورا پورا حق حاصل ہے اور حکومت کو ان کی سرگرمیاں محدود کرنے کا کوئی حق نہیں ہے.

انہوں نے اس بیان میں کہا تھا: مجھے یہ نہیں معلوم کہ مصر میں شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے میں تو «صرف اسلام» لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے مگر مصری حکومت اپنے عوام کے نوعِ مذہب کے حوالے سے مسائل کیوں کھڑی کرتی ہے؟.

طنطاوی کے بیان کے بعد مصری حکومت نے مجبور ہو کر اہل تشیع کے لئے کسی حد تک آزادیوں کا لحاظ رکھنا شروع کیا.

یاد رہے کہ مصری عوام کی اکثریت کا تعلق مذہب تشیع سے تھا مگر فاطمی سلطنت کے زوال کے بعد صلاح الدین ایوبی نے ان کا وسیع قتل عام کیا اور اہل تشیع کی بڑی آبادی مصر چھوڑنے یا عقائد چھپانے پر مجبور ہوئی اور رفتہ رفتہ اس ملک میں شافعی مذہب کو ترویج ملی اور اس وقت مصر کی اکثریتی آبادی کا تعلق اہل سنت کے شافعی مذہب سے ہے. شافعی مذہب نرمی اور ملائمت کا مذہب ہے اور اہل تشیع کے ساتھ اس مذہب کے متعدد اشتراکات اور قربتیں ہیں. اور پھر اس ملک میں فاطمی سلطنت کے سماجی اور ثقافتی اثرات آج بھی باقی ہیں اور یہی امر باعث ہوا ہے کہ مصر کے عوام دیگر عرب اقوام کی نسبت تشیع کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں اور اہل تشیع پر مصری حکومت کے دباؤ کا سبب بھی یہی ہے کہ کہیں اس ملک میں تشیع کو فروغ حاصل نہ ہو.

تا ہم سرکاری دباؤ کے باوجود 2004 سے لے کر 2006 تک تقریباً ایک لاکھ مصری مذہب تشیع اختیار کرگئے ہیں. البتہ یہ نکتہ بھی خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ 2006 کی 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی عظیم فتح کے بعد متعدد عرب ممالک میں لاکھوں افراد شیعہ اثنا عشری مذہب قبول کرچکے ہیں اور مصر بھی ان ہی عرب ممالک میں ایک ہے.

البتہ مصری حکومت میں دین کو گوکہ کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے مگر پان عربک رجحانات بہر صورت اہل سنت و الجماعت کے ساتھ مخلوط ہوگئے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ پان عربک رجحانات کے بانی بھی مصری تھے جن میں سابق مصری صدر «جمال عبدالناصر» بھی شامل تھے. پان عربک تفکرات کے مذہب اہل سنت کے عقائد کے ساتھ مخلوط ہونے کی بنا پر مصر میں غیر سنی مسلمانوں کو نہایت دشواری کے ساتھ برداشت کیا جاتا ہے. دوسری طرف سے اردن کے بادشاہ کرنل عبداللہ دوئم (جو انگریزی فوج کے باقاعدہ کرنل بھی ہیں) کے پروپیگنڈے اور امریکی سامراج کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے «شیعہ ہلال» کے کے بے بنیاد اور فرضی تصور کی بنا پر بھی عرب ممالک کی بعض سادہ سادہ لوح مذہبی راہنماؤں کی جانب سے اہل تشیع کا مقابلہ کرنے کی ضرورت کی تبلیغ اور ان ممالک میں تشیع سے خوف کی لہریں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور یہ سارے بہانے مصری سرکار کو اہل تشیع کو کچلنے کا جواز فراہم کررہے ہیں.

البتہ کہا جاسکتا ہے کہ وسیع سرکوبی کے باوجود اہل تشیع نے 1970 کے عشرے کے وسط سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کررکھا ہے.

یہ وہ دور تھا جب ایران کے بادشاہ «محمدرضا پہلوی» اور مصر کے صدر «انورالسادات» کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے اور اسی وقت ہی مصر میں شیعہ جماعت «جمعیت آل البیت (ع)» کی بنیاد رکھی گئی اور اس جمعیت نے تشیع کے فروغ کے لئے اہم اقدامات کئے مگر 1979 میں ایران میں شاہنشاہی نظام کے زوال اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد انورسادات نے اس جمعیت کو اپنے عتاب کا نشانہ بنایا اور ایران اور مصر کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد یہ جمعیت بھی شدید دباؤ میں آگئی.

مصری حکومت نے 1980 میں جمعیت آل البیت (ع) سے وابستہ «مسجد آل البیت (ع)» کی بندش کا حکم دیا اور اس کے بعد مصری عدالت نے حکومت کے اشارے پر جمعیت آل البیت (ع) کی سرگرمیاں بند کرنے کا حکم دیا مگر یہ عدالتی حکم کبھی بھی نافذ نہیں ہوسکا اور جمعیت کے راہنماؤں نے مختلف قانونی اور عدالتی اقدامات کے ذریعے امتناعی احکامات حاصل کرکے جمعیت آل البیت (ع) کو کالعدم ہونے سے بچایا.

سنہ 2004 میں اس جمعیت کے ایک راہنما «محمود الدرينى» - جو مصر کی شیعہ مجلس اعلی کے بھی بانی ہیں،- نے باضابطہ طور پر مصری وزارت داخلہ سے «حزب الغدیر» کی تأسیس کی اجازت مانگی تاکہ اہل تشیع کے نمائندے کی حیثیت سے سیاسی عمل میں کردار ادا کرے. انہوں نے اسے حوالے سے وسیع سطح پر تبلیغ بھی کی اور اعلان کیا کہ اس جماعت کی تأسیس کے بعد مصری کے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں شرکت کریں گے.

الدرینی نے تاکید کی کہ اس جماعت کی تأسیس کے بعد حتی قبطی عیسائیوں کو بھی اس میں رکنیت کی اجازت ہوگی اور حزب الغدیر ضرورت پڑنے پر اخوان المسلمین سمیت دیگر مصری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے اور تعاون کرنے کے لئے تیار ہوگی.

دوسری طرف سے اخوان المسلمین نے بھی اعلان کیا کہ یہ جماعت شیعیان مصر کے نام پر سیاسی جماعت کی تشکیل اور سیاسی سرگرمیوں میں اہل تشیع کی شرکت کی حمایت کرتی ہے.

اخوان المسلمین کے سربراہ «مہدى عاکف» نے ایک بیان جاری کرکے اخوان المسلمین کے اصولی موقف پر تاکید کی اور کہا کہ: «اہل تشیع کو، ایک رسمی مذہب کی حیثیت سے – جبکہ مصر کی آبادی کا قابل توجہ حصہ اس کی پیروی کررہا ہے – یہ حق حاصل ہے کہ مصر کے آئین اور ریاست کے رسمی اصولوں کے دائرے میں جماعت تشکیل دیں اور سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوں».

انہوں نے کہا : «ہم اہل تشیع کے سیاسی اور سماجی حقوق کی حمایت و حفاظت کے لئے بھی اور حسب ضرورت شیعہ جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے لئے تیار ہیں».

حزب الغدیر کی تأسیس کے تمام مقدمات فراہم ہوئے تھے مگر حکومت مصر نے مذہبی بنیاد پر جماعت کی تشکیل کی ممانعت کے قانون کا سہارا لے کر اس جماعت کو سرگرمیوں کی اجازت نہ دی اور یوں یہ جماعت تحلیل ہوگئی.

اس کے بعد الدرینی نے جمعیت آل البیت (ع) کے دیگر راہنماؤں کے ہمراہ اسی جمعیت اور شیعہ مجلس اعلی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا. 


source : http://shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1

 
user comment