اءمہ اطہار (ع)وھی ھیں جو ھرگندگی سے پاک ھیں اور ان کی مودة و محبت کو خداوندعالم نے ھر مسلمان پر واجب قرار دیا ھے اور یھی پاک ھستیاں ھی تعظیم اور دعا کے ساتھ مخصوص ھیں اسی وجہ سے نماز میں اللہ تعالی نے ان کے ذکر اور ان پر درود بھیجنے کو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر اوردرود و سلام کے ساتھ بیان کیا ھے۔
ھم یہاں پر مناسب سمجھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم(ص)(جو کہ اپنی امت پربھت زیادہ شفیق و مھربان تھے)، کے ان اقوال کو بیان کریں جن میں آپ نے اپنی امت کو اپنے بعد انحراف سے ڈرایا ھے اور قرآن مجید کے ھم پلہ یعنی عترت کے بارے میں سفارش کی ھے ،لہٰذا ھم ان احادیث کو ذیل میں بیان کرتے ھیں:
حدیث ثقلین
زید ابن ارقم اور حبیب ابن ابی ثابت کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :”انّي تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلّوا بعدياٴحدھما اٴعظم من الآخر کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض وعترتي اٴھل بیتي ولن یتفرقا حتیٰ یردا عليّٰ الحوض فانظروا کےف تخلفوني فےھما۔“[1]
میں تم میں دو (گرنقدر)چیزیں چھوڑ کر جارھاھوں اگر تم نے اسکومضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ھرگز گمراہ نھیں ھو گے ان میں ھر ایک دوسری سے بڑھ کر (قیمتی) ھے (ایک)اللہ کی کتاب جو زمین و آسمان کے درمیان دراز رسی ھے اور ( د و سر ی ) میری عترت اور اھلبیت ھے یہ دونوںھرگز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں دیکھوتم میرے بعد کس طرح ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرو۔
حذیفہ بن اسد الغفاری کھتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:اٴیھا الناس انی فرطکم و انکم واردو ن عليُّ الحوض فاني سا ئلکم حین تردون عليُّ عن الثقلین فاٴنظر وا کیف تَخلّفو ني فیھما الثقل الاٴ کبر کتاب اللہ سبب طرفہ بید اللہ و طرفہ بایدیکم فاٴستمسکوا بہ لا تضلوا ولا تبدلوا و عترتي اٴھل بیتي فانہ قد نبّاٴني اللطیف الخبیر اٴنھما لن یفترقا حتیٰ یردا عليَّ الحوض۔ [2]
اے لوگو، میں تم سے پھلے جانے والاھوں اورتم میرے پاس حوض کوثر پرآوٴ گے تو میں تم سے ثقلین کے متعلق سوال کروں گا۔
دیکھو !کس طرح ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرو ۔ثقل اکبر، اللہ کی ایسی کتاب ھے جس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھ میں ھے۔ اس کومضبوطی سے تھامے رکھوتو گمراھی اور ضلالت سے بچ جاؤ گے اور دوسری میری عترت اور اھل بیت (علےھم السلام) ھے مجھے خداوند لطیف و خبیر نے بتایا ھے کہ یہ دونوں جدا نھیں ھوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔[3]
اسی طرح حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں تم سے پھلے جانے والاھوںتم میرے پاس حوض کوثر پرآنے والے ھو۔جسکی چوڑائی صنعاء سے بصرہ تک کی دوری کے برابر ھے جس میں سونے اور چاندی کے جام ھونگے پس دیکھو کس طرح دو بھاری اور گراں قدر چیزوں کے متعلق تم میری وصیت پر عمل کرتے ھو، پوچھا گیا یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ گراں قدر چیزیں کون سی ھیں ؟
فرمایا:ان میںثقل اکبر اللہ کی کتاب ھے اور وہ رسی ھے جس کا ایک کنارہ اللہ اور دوسرا کنارہ آپ کے پاس ھے اگر اس سے متمسک رھے تو ذلیل اور گمراہ نہ ھوں گے۔ اور ثقل اصغر میری عترت ھے یہ دونوں حوض کو ثر پر میرے پاس پھنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے اور ان دونوں کے متعلق سوال کیا جائے گا اور ان دونوں سے آگے نہ نکلنا ورنہ ھلاک ھو جاؤ گے اور انھیں سیکھانے کی کوشش بھی نہ کرنا کیونکہ یہ دونوں تم سے زیادہ جاننے والے ھیں ۔[4]
زید بن ارقم کھتے ھیں کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجتہ الوداع سے وآپس آرھے تھے اور جب غدیر خم پر پھنچے تو کاروان کو وہاںجمع ھونے کا حکم دیا اور فرمایا۔ میں نے آپ لوگوں کو دعوت دی اور تم نے قبول کیا بے شک میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رھاھوں ھرایک چیز دوسری سے بڑھ کر ھے اللہ کی کتاب اور میری عترت۔ پس دیکھو کس طرح تم ان دونوںکے متعلق میری وصیت پر عمل کرتے ھو یہ دونوں ایک دوسرے سے ھرگز جدا نھیں ھونگی یہاں تک حوض کوثر پر میرے پاس پھنچ جائیں گی۔
پھر فرمایا: بے شک اللہ میرا مولا ھے اور میں ھر مومن کا مولا ھوںپھر حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:من کنتُ مولاہُ فھذاولیہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ۔
جس جس کا میں مولا ھوں اسکا علی مولا ھے اے اللہ اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی سے عداوت رکھے۔[5]
صاحب مستدرک کھتے ھیں کہ شیخین کی شرط سے یہ حدیث صحیح ھے اور اسی حدیث کونسائی نے خصائص میںص ۲۱ پر بیان کیا ھے وہ آخر میں کھتے ھیں ابوطفیل کھتا ھے کہ میں نے زید سے کھاکہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کویہ فرماتے ھوئے خود دیکھا اورسنا پس آپ(ص) نے فرمایا:
کجاووں میں کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے ( اس منظر کو) اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ھو اور کانوں سے نہ سنا ھو ۔
ابن حجرکھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرض الموت میں فرمایا: اے لوگو!میں عنقریب ھی اس دنیا سے رخصت ھونے والاھوںمیں تم سے ایک بات کھتاھوںکہ میں تم میںکتاب خدا اور اپنی عترت (اھلبیت) چھوڑرہاھوں پھر حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا ۔
ھذا علیِ مع القرآن و القرآن مع علي لا ےفترقان حتٰی ےردا علیَِّ الحوض فا ساٴلوھما ماخلّفت منھما۔
یہ علی (ع) قرآن کے ساتھ ھے اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ھے یہ دونوں جدا نھیں ھونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پھنچ جائیں ان کو میں نے خلیفہ بنایاھے پس میں ان دونوں کے بارے میںسوال کروں گا۔[6]
قارئین کرام! ھو سکتا یہاں پر کوئی شخص یہ سوال کر ے کہ حدیث ثقلین مختلف الفاظ میں بیان کی گئی ھے ایسا کیوں ھے ؟
تو اس کا جواب یہ ھے کہ حدیث ثقلین کے الفاظ کا مختلف ھونا اشکال کا موجب نھیں ھے کیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس حدیث شریف کو مختلف مواقع پر ذکر کیا جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ھیں ۔
مثلا ًروز عرفہ حجة الوداع کے موقع پر اس حدیث کو بیان فرمایا اور پھر مدینہ میں اپنے مرض کے دوران بھی یھی حدیث شریف ذکر فرمائی۔ اسوقت آپ کا حجرہ مبارک اصحاب کرام سے بھرا ھوا تھا ایک مرتبہ اسے غدیر خم میں بیان فرمایا اور چوتھی مرتبہ طائف سے وآپسی کے بعد جب آپ خطبہ دے رھے تھے تو اس وقت ذکر فرمایا۔ بھرحال مختلف مواقع اورمتعدد مقامات پر کتاب عزیز اور عترت اطہار کی قدر ومنزلت اور شان وشوکت کو بیان کرنے کے لیئے حضرت نے اھتمام کے ساتھ اس کا تذکرہ فرمایا ھے۔[7]
حدیث سفینہ
حنش کنانی کھتا ھے کہ میں نے جناب ابوذر سے خانہ کعبہ کا دروازہ پکڑ کر یہ کھتے ھوئے سنا کہ اے لوگو!جو مجھے جانتا ھے پس میں وھی ھوں جس کو تم جانتے ھو اور جو مجھے نھیں جانتا وہ (جان لے کہ میں )ابوذر ھوں میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا:
مثل اٴھل بیتيِ فیکم مثل سفینة نوح من رکبھا نجا ومن تخلف عنھا غرق۔
تم میں میرے اھلبیت کی مثال کشتی نوح کی سی ھے جو اس پر سوار ھو گیا وہ نجات پا گیا اور اس سے رہ گیا وہ غرق ھو گیا۔[8]
حاکم کھتاھے کہ یہ حدیث درست ھے ۔کیونکہ یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ھے اوراس نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب کی تیسری جلد میں ایک اورسند کے ساتھ بیان کیاھے عباد بن عبداللہ اسدی کھتے ھیں کہ میںحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ ایک مقام پر تھا اس وقت ایک شخص آیا اور اس نے اس آیت کے متعلق سوال کیا ۔
افمن کان علی بینة من ربہ ویتلوہ شاھدمنہ۔
کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک کھلی دلیل پر قائم ھے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ھے جو اس کے نفس سے ھے۔
اس وقت حضرت نے ارشاد فرمایا قریش میں سے کسی شخص کو یہ فضیلت حاصل نھیں ھے کہ قرآن کا ایک حصہ اس کی شان میں نازل ھوا ھو صرف اھلبیت علیھم السلام کی شان میں ایسا ھے۔
خدا کی قسم وہ لوگ جانتے ھیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر ھم اھلبیت سے پھلے کسی کاتذکرہ نھیں تھا اگر یہ وسیع میدان سونے اور چاندی سے میرے لئے بھر دیا جائے تو میں اس عظمت کو زیادہ محبوب رکھتا ھوں ۔
خدا کی قسم اس امت میں ھماری مثال نوح کی قوم میں کشتی نوح بنی اسرائیل کے باب حطہ جیسی ھے ۔[9]
ابی سعید خدری کھتے ھیںکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ کھتے ھوئے سنا :
مثل اٴھل بیتيِ فیکم کمثل سفینة نوح من رکبھا نجا ومن تخلف عنھا غرق۔
تم میں میرے اھلبیت کی مثال کشتی نوح جیسی ھے اس پر جو سوار ھوا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے رہ گیاوہ غرق ھوا۔[10]
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
میرے اھلبیت کی مثال نوح کی کشتی کی جیسی ھے جو اس پر سوار ھوا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس سے تمسک کیا وہ کامیاب ھو گیا اورجو اس سے رہ جائیگااسے جھنم میں ڈالاجائے گا ۔[11]
ابن حجر کھتے ھیں :حضرت اھلبیت علیھم السلام کی کشتی نوح علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ ھے کہ جس نے ان سے محبت اور ان کی تعظیم کی اوراس نعمت کا شکریہ اداکیااور انھیں ھدایت کی نشانیاں سمجھا وہ مخالفتوں کی تاریکی سے نجات پا گیا اورجو ان سے پیچھے رہ گیا وہ کفر کے سمندر میں اپنی سرکشی کی وجہ سے غرق اور ھلاک ھوگیا۔[12]
حدیث باب حطہ۔
متقی ھندی کنز العمال میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حوالے سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :علی بن اٴبیِ طالب باب حطة من دخل منہاکان مؤمنا و من خرج منھاکان کافرا ۔[13]
علی ابن ابی طالب باب حطہ ھیں جو اس میں داخل ھو گیا وہ مومن ھے اور جو اس سے خارج ھوگیا وہ کافر ھے ۔
کنز العمال کے حوالے سے بیان شدہ حدیث باب حطہ کی تشریح کرتے ھوئے ”مناوی “فیض قدیر میں کھتا ھے ۔
جس طرح خداوندمتعال نے بنی اسرائیل کے لیئے باب حطہ میں تواضع، انکساری اور خضوع و خشوع کے ساتھ داخل ھونے کو عام بخشش کا ذریعہ قرار دیا تھا۔اسی طرح اس امت (محمدی)کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی محبت اور ھدایت کو عام بخشش ،جنت میں داخل ھونے اور جھنم کی آگ سے نجات پانے کا سبب قرار دیا ھے۔ اور اس باب سے خارج ھونے کا مطلب حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت کرنا ھے۔[14]
چنا نچہ علامہ فیروز آبادی کھتے ھیں کہ مناوی کی مذکورہ وضاحت سے یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلے میںخروج کرنے والے کافر ھیں ۔[15]
ابی سعید خدری کھتے ھیں کہ میں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا :إنما مثل اٴھل بیتیِ فیکم مثل باب حطہ فیِ بنی إسرائیل من دخلہ غفرلہ۔ تم لوگوں میں اھلبیت علیھم السلام بنی اسرائیل کے باب حطہ کی مثل ھیں جو شخص اس میں داخل ھو گیا وہ بخشا جائے گا۔[16]
میری امت کی امان میرے اھلبیت ھیں
حاکم نے روایت بیان کی ھے کہ ابن عباس کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
النجوم اٴمان لاٴھل الارض من الغرق واٴھل بیتي امان لامتیِ من إلاختلاف،فا ذا خالفتھا قبےلة من العرب إختلفوا فصاروا حزب إبلیس۔
غرق سے بچنے کے لئے، ستارے اھل زمین کے لئے امان ھیں اور اختلاف سے بچنے کے لیئے میرے اھلبیت میری امت کے لئے امان ھیں عرب کا جوقبیلہ ان کی مخالفت کرے گا وہ حزب شیطان قرار پائے گا ۔ [17]
ایک دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شام کے وقت مسجد کی طرف روانہ ھوئے اور نماز عشاء ادا کرنے میں اتنی تا خیر فرمائی۔
یہاں تک کہ سرخی زائل ھو گئی اورکچھ وقت گزر گیا اور لوگ مسجدمیں آپ کے منتظر تھے اس وقت حضرت نے فرمایا :
آپ کس چیز کا انتظار کر رھے ھیں۔
انھوں نے جواب دیا ھم نماز کا انتظار کر رھے ھیں۔
اس وقت آنحضرت نے فرمایا :یقینا تم لوگ ھمیشہ نمازی رھو گے کیونکہ تم نماز کا اس قدر انتظار کرتے ھو پھر فرمایا کیا جانتے ھو تم سے پھلے والی امتوں نے نماز کو یوں نھیں پڑھا پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا:
ستارے اھل آسمان کے لیئے باعث امن ھیں اور جب ستارے غائب ھو جائیں گے تو آسمان ایسا ھو جائے گا جیسا اس کے بارے میں وعدہ کیا گیا ھے اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا :
میرے اھلبیت میری امت کے لیئے امان ھیں جب میرے اھلبیت اس دنیا سے چلے جائیں گے تو میری امت کے لیئے وہ دن آجائے گا جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ھے (یعنی قیامت)[18]
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:ستارے اھل آسمان کے لیئے امان ھیں جب ستارے غائب ھو جائیں گے تو اھل آسمان بھی ختم ھو جائیں گے اور میرے اھلبیت علےھم السلام اھل زمین کے لیئے امان ھیں جب اھلبیت اس دنیا سے چلے جائیں گے تو اس وقت اھل ارض بھی مٹ جائیں گے۔[19]
ام سلمہ کھتی ھیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھمارے پاس موجود تھے، حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھاتشریف لائیں اور آپ کو چادر اڑھا دی ۔ ان کے ساتھ حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین علیھم السلام بھی تھے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب زھرا (ع)سے پوچھا۔
آپ(ع) کے شوھر نامدار کہاں ھیں ؟
جائ انھیں بلا لائیں۔
آپ(ع) گئیں اور انھیں بلا لائیں۔
حضرت نے کچھ تناول فرمایا اور کساء کو سب پر ڈال دیا اوراس کا ایک کنارہ بائیں ہاتھ میں پکڑا اور دائیں انگلی آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا:
”اللھم ھؤلاء اٴھل بیتيِ وحامتّیِ و خاصّتیِ اللھم اٴذھب عنھم الرجس وطھرّھم تطھیرا اٴنا حرب لمن حاربھم سلمُ لمن سالمھم عدو لمن عاداھم“۔
اے پروردگار!یہ میرے اھلبیت ھیں اورمیرے رشتہ داراوخواص ھیں ان سے رجس کو دور رکھ اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھ جیسا پاک پاکیزہ رکھنے کا حق ھے جو ان سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا جو ان سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا اور جو ان سے دشمنی رکھے گا میں بھی اس سے دشمنی رکھوں گا ۔[20]
حضرت ابو بکر کھتے ھیں کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک خیمہ میں ٹیک لگائے دیکھا اور خیمے کے اندر حضرت علی (ع) حضرت فاطمہ(ع) حضرت امام حسن(ع) اور حضرت امام حسین( علیھم السلام) تھے تو اس وقت آپ(ص) نے فرمایا:
اے مسلمانو! میں اس شخص کے ساتھ صلح کروں گا جو اھل خیمہ کے ساتھ صلح کرے گا اور اس کے ساتھ جنگ کروں گا جو ان کے ساتھ جنگ کرے گا میں اس کا دوست ھوں جو ان کا دوست ھے، ان سے محبت وھی کرے گا جو حلال زادہ اور جس کا نسب صحیح ھو گا اور ان سے بغض و عداوت وھی رکھے گا جو حلال زادہ اورجو صحیح النسب نہ ھوگا ۔[21]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:نحن اٴھل بیت لا یقاس بنا اٴحد[22]
ھم اھلبیت ھیں ھمارے ساتھ کسی کا موازنہ نھیں ھوسکتا۔
جناب سلمان کھتے ھیں کہ آل محمدکی وھی منزل ھے جو بدن کی نسبت سر اور سر کی نسبت آنکھوں کی ھوتی ھے کیونکہ جسم سر کے بغیرکسی کام کا نھیں اور سر آنکھوں کے بغیر بے کار ھے ۔[23]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کو جب کوئی مشکل پیش آئے تو انھیں چاھیے کہ وہ میرے اھلبیت کی طرف رجوع کریں کیونکہ ان کی وجہ سے وہ گمراھوں کی تحریف ،باطل پرستوں کے مکر و فریب اور جاھلوں کی تاویل سے بچ جائیں گے ۔[24]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:الشفعاء خمسةالقرآن والرحم والامانہ ونبےکم واٴھل بیتہ۔
پانچ چیزیں شفاعت کرنے والی ھیںقرآن صلہ رحمی‘امانت داری ،تمہارا نبی(ص) اور آپ کے ا ھلبیت ۔[25]
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
حوض کوثر پر میرے اھلبیت میرے پاس آئےں گے اور میری امت کے وہ لوگ جو ان سے محبت رکھتے ھوں گے، انھیں محبت اھلےبیت کی وجہ سے حوض کوثر پر لایا جائے گا ۔[26]
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
شفاعتی لامتی من احب اھل بیتی وھم شےعتی۔
میری امت میں میری شفاعت فقط اس شخص کو نصیب ھو گی جو میرے اھلبیت کے ساتھ محبت رکھے گا اور پیروکار ھیں ۔[27]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:من مات علٰی حب آل محمد مات شھےداً،اٴلا ومن مات علٰی حب آل محمد مات مغفوراً لہ،اٴلا ومن مات علیٰ حب آل محمد مات تائباً، الا مِن مات علیٰ حب آل محمد مات مؤمناً مستکمل الإیمان،اٴلا من مات علی حب آل محمد بشرہ ملک الموت بالجنة ثم منکر ونکیر۔الاومن مات علیٰ حب آل محمد یُزَفُّ الی الجنة کما تزف العروس الی بیت زوجھا،الاومن مات علی حب آل محمد فُتح لہ فیِ قبرہ بابان إلیٰ الجنہ اٴلا ومن مات علیٰ حب آل محمد جعل اللّہ قبرہ مزار لملائکة الرحمن۔
جو شخص محبت اھلبیت پر مر جائے وہ شھیدھوتاھے خبردار جو شخص محبت اھلبیت پراس دنیا سے گیا ھو وہ گناھوں سے پاک ھوکر گیا،خبردار جو شخص محبت اھلبیت میں کوچ کر گیا ھو وہ گناھوں سے تائب مرا،خبردار جو شخص محبت اھلبیت میںدنیا چھوڑ گیا ھووہ کامل ایمان اور مومن مرا۔
خبردارجس نے محبت آل محمد(ص) میں جان دی پھلے اسے ملک الموت اور پھر منکر نکیر جنت کی بشارت دیں گے، خبردار جوشخص محبت اھلبیت پر اس دنیا سے اٹھ جائے اسے اس طرح سجا کر جنت کی طرف لے جایا جاتا ھے جیسے دلھن کو اس کے شوھر کے گھر لایا جاتا ھے۔
خبردار جو شخص حب آل محمد (ص)پر مرا اس کے لیئے قبر میں جنت کی طرف دو دروازے کھول دئیے جائیں گے خبردار جو شخص حب آل محمد(ص) پر مرا اللہ تعالی اس کی قبر کو ملائکہ کی زیارت گاہ بنا دیتا ھے ۔
حضرت مزید ارشاد فرماتے ھیں:الا و من مات علی بغض آل محمد جاء یوم القیامة مکتوباً بین عےنیہ آےس من رحمة اللہ ،الا و من مات علی بغض آل محمد مات کافراً،الا و من مات علی بغض آل محمد لم ےشم رائحة الجنة۔
یہ بھی جان لو جوشخص بغض آل محمد(ص) پر مرااس کو قیامت کے دن اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی آنکھیں پیچھے ھوں گی اوروہ رحمت خدا سے مایوس ھو گا خبردار جو آل محمد(ص) کے بغض و عداوت پر مرتا ھے وہ کافر کی موت مرتا ھے خبردار جوشخص آل محمد کے بغض پر مرجائے وہ جنت کی خوشبو تک نھیں سونگھ سکتا ۔[28]
حضرت رسول اکرم نے فرمایا: تم میں سے فقط اس شخص کو صراط پر لایا جائے گا جو میرے اھلبیت کے ساتھ زیادہ محبت رکھتا ھو گا ۔[29]
صادق و امین کی زبان سے وحی الٰھی کے نمونے
مقدمہ:
حضرت علی علیہ السلام کے فضائل ایک ایسے سمندرکے مانند ھیں جس کی کوئی انتھااور ساحل نھیں ھے انسان جب اس سمندر میں تیرتا ھے تو سمندر سے موتی اور ھیرے حاصل کرتا ھے۔
ھم اس شخصیت کے فضائل کے متعلق کیا عرض کر سکتے ھیں جس کے فضائل کو اس کے دشمنوں نے حسد اور عداوت کی وجہ سے اور دوستوں نے خوف اور تقیہ کی وجہ سے چھپایا ۔
لیکن اس کے باوجود اس کے فضائل سے دنیا بھری ھے آپ کے فضائل اس مشک کی طرح ھیں کہ جسے جتنا چھپایا جائے وہ اتنا ھی خوشبو پھیلائی گی آپ کے فضائل پر جتنا پردہ ڈالا گیا وہ اتنا ھی ضوء فشاں ھوئے خلاصہ یہ کہ ھر فضیلت آپ کی ذات پر ختم ھوتی ھے ۔
آپ ھر فضیلت کے سردار اور سرچشمہ ھیں فضیلتوں کے میدان میں آپ(ع) اول اور سابق ھیں فضائل حاصل کرنے والے آپ(ع) ھی سے فضائل حاصل کرتے ھیں ۔
احمد بن حنبل کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام اصحاب کے متعلق اس قدر فضائل بیان نھیں ھوئے جتنے تنھاحضرت علی ابن ابی طالب کے متعلق بیان ھوئے ھیں ۔[30]
دوسرے مقام پر احمد بن حنبل کھتے ھیں کہ حسان کی اسناد کے مطابق اصحاب میں سے کسی کے متعلق اس قدر فضائل بیان نھیں ھوئے جتنے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان ھوئے ھیں۔[31]
عمر ابن خطاب کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی شخص نے بھی حضرت علی کی مانند فضل وکمال حاصل نھیں کیا[32]
ابن قتےبہ کھتے ھیں کہ ھمدان میں برد نامی ایک شخص رھتا تھا وہ معاویہ کے پاس آیا اور اس نے وہاں عمرو کو حضرت علی علیہ السلام کے متعلق زبان درازی کرتے سنا، تو اس نے عمرو سے کھاکہ ھمارے بزرگوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے:
من کنت مولاہ فعلیِ مولاہ۔
جس کا میں مولاھوں اس کا علی مولا ھے۔
اب تو بتا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان سچ ھے یا جھوٹ؟۔
عمر وکھنے لگا: یہ حق ھے۔ اور میں تمھیں مزید بتاتا ھوں کہ اصحاب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جس قدر فضائل و مناقب حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ھیں۔ اتنے کسی اور کے نھیں ھیں (یہ سن کر ) وہ نوجوان چلا گیا[33]
ابن عباس کھتے ھیں: قرآن کریم میں جس قدر آیات حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھیںاتنی کسی اور کے متعلق نازل نھیں ھوئیں۔[34]
بھر حال ھم یہاں چند فضائل کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ھیں ۔اگرچہ آپ کے فضائل سورج کی طرح روشن ھیں اور کسی سے مخفی نھیں ھیں:
ابن عسا کر،ام سلمہ سے روایات کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے:
علیِ مع الحق والحق مع علیِ ولن ےفتر قا حتیٰ ےردا علیِ الحوض۔
علی حق کے ساتھ ھے اور حق علی کے ساتھ ھے اور یہ دونوں حوض پر میرے پاس پھنچیںگے اورایک دوسرے سے جدا نھیں ھونگے ۔[35]
شیخ مفید اعلی اللہ مقامہ کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا(ص) غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشےن بنا کر جانے لگے توحضرت علی علیہ السلام نے عرض کی ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منافقےن گمان کرےں گے کہ آپ(ص) نے مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ دیا ھے، اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
میرے بھائی آپ(ع) واپس جائیے کیونکہ میرے اور آپ کے بغیر مدینہ کی کوئی اھمےت نھیں ھے، آپ (ع)میری موجودگی اور عدم موجودگی میں میری امت کے خلیفہ ھیں کیا آ پ (ع) اس پر راضی نھیں ھیں کہ آپ (ع) کی مجھ سے وھی نسبت ھوجو ہارون(ع) کوموسیٰ(ع) سے تھی بس اتنا فرق ھے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نھیں ھو گا۔[36]
حدیث حدار
جب یہ آیت نازل ھوئی” وانذر عشیر تک الاقربین“ یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار کرو (ڈراؤ) تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
اے بنی عبد المطلب اللہ تعالی نے مجھے پوری مخلوق کے لئے نبی بنا کر مبعوث کیا ھے میں تمھیں دوکلموں کی طرف دعوت دیتا ھوں جنھیں زبان پر لانا آسان ھے جب کہ وہ میزان میں بھت بھاری ھیں ان کی وجہ سے تم عرب وعجم کے مالک بن جاؤ گے اور امتےںتمہاری مطیع ھو جائیں گی اور ان کی وجہ سے تم جنت میں داخل کےے جاؤ گے اور تمھیں جھنم کی آگ سے چھٹکارا ملے گا اور وہ دو کلمے یہ ھیں ۔
ھادة الا الہ الا اللہ واٴنی رسول اللہ،فمن یجیبني إلیٰ ھذا الامر و یؤازرني علیہ و علیٰ القیام بہ یکن اٴخي ووصیي ووزیري ووارثي وخلیفتي من بعدي۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نھیں اور میں اللہ کا رسول ھوں۔ اور جو شخص اس کام میں میری دعوت قبول کریگا اوراس کی تبلیغ میں مدد کرے گا وہ میرابھائی، وصی،وزےر ،وارث اور میرے بعد میرا خلیفہ ھو گا۔
ان میں سے کسی نے جواب نہ دیا حضرت علی (علیہ السلام )فرماتے ھیں کہ میں ان لوگوں کے سامنے کھڑا ھواگرچہ میں اس وقت سن میں سب سے چھو ٹا تھا،اورمیں نے کہا:
اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں آپ کا ساتھ دونگا۔ لیکن حضور (اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مجھے بٹھا دیا اور اپنی بات کو تےن مرتبہ دھرایا ھر مرتبہ میں کھڑا ھوا اور کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ کا ساتھ دونگا تےسری مرتبہ بھی اسی طرح ھوا تو حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم )نے فرمایا :
فانت اٴخي ووصیي ووزےر ي ووارثي وخلیفتي من بعدي۔ [37]
یا علی (ع) آپ میرے بھائی، میرے بعد میرے وصی ،وزےر اوروارث ھیں اور میرے خلیفہ ھیں۔
جنگ خندق میں جب حضرت علی علیہ السلام نے عمر ابن عبد ود کو فی النار کیا تو اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔جنگ خندق میں حضرت علی علیہ السلام کا عمر وبن عبدود سے جنگ کرنا [38] میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے افضل و بھترھے۔ [39]
حدیث الرایہ
خیبر میں جب یھودیوںکے ساتھ جنگ کرتے ھوئے بھاگنے والے بھاگے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
لاٴُعطینَّ الرایہ غداً رجلاً یحبہ اللّہُ و رسولہ ویحبُ اللہ و رسولہ‘ کرار غیر فرار لاےرجع حتٰی ےفتح اللہ علیٰ ےدیہِ۔
کل میں علم اس شخص کودو ںگا جس سے اللہ تبارک و تعالی اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) محبت کرتا ھے اور وہ اللہ تبارک و تعالی اور رسول کے ساتھ محبت کرتا ھے اور وہ کرار ھوگا، غیر فرارھو گا ،اوروہ اس وقت تک واپس نھیں آئے گا جب تک اللہ تبارک و تعالی اس کے ہاتھوں فتح نصےب نہ فرمائے ۔ [40]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:اے انس اس دروازے سے سب سے پھلے داخل ھونے والا شخص مومنین کا امیر، مسلمانوں کا سردار ،قائد الغر المحجلین اور خاتم الاوصیا ھے۔ انس کھتے ھیں:
میں نے دعا مانگی اے اللہ اس شخص کو انصار سے قرار دینا لیکن اسی وقت حضرت علی علیہ السلام تشریف لے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اے انس یہ وھی شخصیت ھیں ۔میں نے کھاکہ آپ کی مراد حضرت علی (علیہ السلام) ھیں۔
حضرت نے فرمایا:ہاں ۔
پھر میں خوشی خوشی کھڑا ھوا اور آپ کے چھرے پر موجود پسےنے کے قطرات کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا اوراپنے ہاتھوں کو اپنے چھرے پر پھیرا۔[41]
حدیث غدیر
حضرت علی علیہ السلام نے غدیر خم میں موجود لوگوں سے حدیث غدیر کے بارے میںاقرار لینا چاھاتو فرمایا کون ھے جو حدیث غدیر کی گواھی (خدا اس کی کمک کرے) توتیرہ افراد نے کھڑے ھو کر گواھی دی ۔بے شک ھم نے بھی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ حدیث سنی تھی جس میں آنحضرت نے فرما یا تھا:
الست اولیٰ بالمومنین من اٴنفسھم قا لوا بلیٰ یا رسول اللّہ۔
کیا میں مومنین کے نفسوں(جان) پر ان سے زیا دہ تصرف کا حق نھیں رکھتا ؟ سب نے کہا: کہ ےقےنا آپ زیادہ حق رکھتے ھیں۔
آپ نے حضرت علی علیہ السلام کابازوبلند کر کے فرمایا:”من کنتُ مولاہ فھذا مولاہُ اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ واٴحب من اٴحبہ واٴبغض من اٴبغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ۔ “
جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (ع)مولا ھیں،اے اللہ جو اس سے محبت رکھے توبھی اس سے محبت رکھ جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ اور جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد فرما جو اسے رسوا کرے توبھی اسے ذلیل کر۔[42]
حدیث مواخاة :
انس اور عمر کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے لوگوں کے درمیا ن مواخاة کے دن حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا:
اٴنت اٴخي في الدنیا والآخرة ۔
آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھیں[43]
حدیث طائر :
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشھور رحدیث ھے کہ آپ(ص) نے فرمایا: پروردگار! تیری مخلوق میں جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ھے اسے میرے پاس بھےج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کوتناول کرے چنانچہ اس وقت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام تشریف لائے۔[44]
حدیث سد الابواب :
زید بن ارقم کھتے ھیں۔ کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کے نام سے مسجد میں چند دروازے کھلتے تھے ایک دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
باب علی علیہ السلام کے علاوہ تمام دروازے بند کر دےے جائیں راوی کھتا ھے کہ اس سلسلے میں لوگوںنے چہ مےگوےئاں شروع کر دیں،انھیں سن کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ھوکر خطبہ دینے لگے اور خدا کی حمد کے بعد فرمایا:
امابعد فاٴني اٴمرت بسد ھذہ الابواب الا باب علي وقال فیہ قا ئلکم وانيواللہ ما سددت شےئا ولا فتحتہ ولکنی امرت بشيء فاتبعتہ۔
میں نے باب علی (ع) کے علاوہ تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا ھے اورچہ مےگوئیاں کرنے والوں سے فرمایا :
خدا کی قسم میں نے اپنی مرضی سے کسی چیز (دروازے) کے بند کرنے یا کھولنے کاحکم نھیں دیا ھے بلکہ مجھے جس چیز کا حکم دیاگیا ھے میں نے اس کی پیروی کی ھے[45]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:لا یحل لاٴحد اٴن یجنب في ھذا المسجد إلا اٴنا وعلي۔
میرے اور علی (ع)کے علاوہ کسی مجنب کے لئے جائز نھیں کہ وہ مسجد میں داخل ھو[46]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اٴنا و ھذا یعني علیا حجة علیٰ اٴمتي یوم القیامہ۔
میں اور حضرت علی علیہ السلام قیامت تک اپنی امت کے لئے حجت ھیں [47]
علامہ شرف الدین اپنی کتاب مراجعات میں فرماتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح حجت خدا ھیں کیونکہ آپ ھی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عھد میں ان کے ولی اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین ھیں۔[48]
حدیث ا لایات (سورہ براة کے متعلق )
حضرت رسول اکرم( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سورہ برائت کی چند آیات حضرت ابوبکر کے سپرد کر کے انھیں مشرکین کی طرف تبلیغ کے لئے روانہ کیا اس وقت حضرت جبر ئےل امین نازل ھوئے اور کھاکہ اللہ تبارک تعالی نے آپ کو سلام کھلوا بھیجا ھے۔
اور ارشاد فرمایا ھے:اس کام کو آپ خود انجام دیں یا وہ انجام دے جو آپ سے ھے ۔
اسی وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بلوایا اور ان سے کھاتےز ترےن ناقہ پر سوار ھوکر ابوبکر تک پھنچو اور اس کے ہاتھ سے سورہ برائت کی آیات کو واپس لے لو اور ان کو لے کر جاؤ اور مشرکین کے عھد کو ان کی طرف پھنچا دو اور ابو بکر کو اختیا ر دے دو کہ وہ تمہارے ھمراہ رھے یا میرے پاس واپس آجائے۔
حضرت ابو بکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس یہ کھتے ھوئے واپس لو ٹ آئے یا رسول اللہ آپ نے مجھے ایک اھم کام سونپا ، جب اس کی طرف متوجہ ھوا تو آپ نے مجھ سے وہ کام واپس لے لیا کیا قرآن میں اس کے متعلق کچھ نازل ھوا ھے حضرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جی نھیں! لیکن حضرت جبرائےل امین اللہ تعالی کی طرف سے میرے پاس یہ پیغام لائے ھیں کہ اس کام کو یا تو آپ خود انجام دیں یا وہ شخص اس کام کو انجام دے جو آپ سے ھو اور علی مجھ سے ھے اور میرے کام کی ذمہ داری حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی نھیں نبھا سکتا۔[49]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص چاھتا ھے کہ وہ میرے ساتھ زندہ رھے اور میرے ساتھ اس کی روح پرواز کرے اور میرے ساتھ ھمیشہ کے لئے اس جنت میں رھے( جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ فرمایا ھے) تو اس کے لئے ضروری ھے کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف رجوع کرے۔ کیونکہ وہ کبھی بھی تمھیں ھدایت سے دور نھیں ھونے دیں گے اور کبھی بھی تمھیں گمراھی کی طرف نھیں لے جائیں گے۔[50]
متقی ھندی نے اسی حدیث کو ابن عباس کی زبانی بیان کیا ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:جو میرے ساتھ جےنا اور مرنا چاھتا ھے۔ اور جنت عدن میں میرے ساتھ رھنا چاھتا ھے۔،وہ میرے بعد حضرت علی( علیہ السلام ) سے محبت رکھے ۔اور اس کے محب سے محبت رکھنے والے میرے بعد میرے اھلبیت( علیھم السلام ) کی اقتداء کرے کیو نکہ وہ میری عترت ھیں جنھیں میری مٹی سے پیدا کیا گیا اور انھیں میرا علم و فھم عطا کیا گیاھے۔ میری امت میں ان کی فضیلت کونہ ماننے والوں اور ان سے قطع رحم کرنے والوں کے لئے ھلاکت ھے اور اللہ تعالی انھیں میری شفاعت نصےب نھیں کرے گا۔[51]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کا بازو پکڑ کر فرمایا:ھذا إمام البررہ ،قاتل الفجرہ ‘،منصور مَن نصرہ ، مخذول مَن خذَلہ ، ثم مدَّ بھا صوتہ۔[52]
یہ نیک لوگوں کے امام ھیں ،فاسق و فاجر لوگوں کے قاتل ھیں ان کی مدد کرنے والا کامیاب اور انھیں رسواکرنے والا خود رسوا ھے ،یہ بات آپ نے بھت بلند آواز میں ارشاد فرمائی۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:إن اللہ عھد إليّٰ في علي اٴنہ رایة الھدیٰ وإمام اٴولیائي، و نور من اٴطاعني وھو الکلمہَ التي اٴلزمتھا المتقےن
خدا وندعالم نے مجھ سے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق عھد لیا ھے کہ(حضرت ) علی ھدایت کا علم ،میرے اولیاء کاامام اور میرے اطاعت گزاروں کا نور ھے اور یہ متقےن کے لئے ایک لازمی کلمہ ھے[53]
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:اٴنا مدینة العلم وعلي بابھا ، فمن اٴراد العلم فلیاٴت الباب۔
میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ ھے جس نے علم حاصل کرنے کا ارادہ کیااسے چاھیے کہ وہ اس دروازے پر آئے ۔[54]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : کہ ھر وہ آیت جہاں اللہ تعالی نے ”یا اٴیھاالذین آمنو ا“ فرمایا ھے۔ وہاں حضرت علی کے علاوہ کوئی مراد نھیں ھے حضرت علی علیہ السلام ھی مومنوں کے سردار اور امیر ھیں۔[55]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:تاویل کرنے والوں سے اس طرح جنگ کرے جس طرح تنزےل کے مخالفوں سے لڑے تھے پھر حضرت علی (ع) کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
میں اس سے صلح کروں گا جس سے تم صلح کروگے اور میں اس سے جنگ کروں گا جس سے تم جنگ کرو گے۔تم ھی عروة الوثقی ھو اور میرے بعدھر مومن اور مومنہ کے ولی اور امام ھو۔
(اس کے بعد )مزید فرمایا :اللہ تعالی نے مجھے آپ کے فضائل بیان کرنے کو کھاھے لہٰذا میں لوگوں کے سامنے کھڑے ھو کر ان تک وہ پھنچا رھاھوں جس کا خدا نے حکم دیا ھے پھر ان سے فرمایا:
ان خیانت کاروں سے بچو جو تمہارے لیئے اپنے سینے میں بغض و کینہ رکھتے ھیں اور میری موت کے بعد وہ اس کو ظاھر کریں گے، یہ وہ لوگ ھیں جن پر اللہ اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ھیں اس کے بعد حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گریہ کرنے لگے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کیوں گریہ فرما رھے ھیں :
تب آپ نے فرمایا:مجھے جبرئیل( علیہ السلام) نے خبر دی ھے کہ وہ لوگ ان کے ساتھ ظلم کریں گے اور ان کے حق کو غصب کریں گے وہ ان سے جنگ کرےں گے اور ان کے فرزندوں کو قتل کریں گے اور میرے بعد ان پر ظلم کریں گے ۔[56]
عبداللہ ابن مسعود کھتے ھیں کہ ھم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ اھل مدینہ میں سب سے افضل علی ابن ابی طالب ھیں اسی طرح یہ روایت بھی انھیں سے ھے وہ کھتے ھیں کہ حضرت علی نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوستر سورتیں سنائیںاور دوسرے لوگوں میں سب سے بھتر انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے پوراقرآن سنایا۔[57]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تین شخص صدیق ھیں:
۱۔مومن آل یٰسین حبیب النجار نے کہا۔
یا قوم إتّبعوا المرسلین ۔
اے قوم، مرسلین کا اتباع کرو ۔
۲۔مومن آل فرعون جناب حزقیل نے یہ کہا:
اٴتقتلون رجلا اٴن یقول ربي اللہ
کیا تم اس شخص کو قتل کرتے ھو جو کھتا ھے کہ میرا رب فقط اللہ ھے۔
۳۔لیکن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام جوان سب سے افضل ھیں[58]
حضرت سلمان اور حضرت ابوذر کھتے ھیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
اٴلا إنّ ھذا اٴول مَن آمن بي،و ھذا اٴول من ےصافحني یوم القیامة، و ھذا الصدےق الاٴکبر۔وھذا فاروق ھذہ الامة یفرّق بین الحق و الباطل وھذا ےعسوب المؤمنین والمال ےعسوب الظالمین۔
جان لو یہ سب سے پھلا شخص ھے جو مجھ پر ایمان لایا یہ پھلا شخص ھے جو قیامت کے دن مجھ سے مصافحہ کرے گا یہ صدیق اکبر اور اس امت کا فاروق ھے اور یھی حق وباطل کے درمیان فرق کرے گایہ مومنین کا رھبر وسردارھے اور مال ظالموں کا رھبر ھے ۔[59]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
یا علي طوبیٰ لمن اٴحبّک و صدق فیک و وےل لمن اٴبغضک وکذّب فیک۔
یا علی بشارت ھے اسی شخص کے لئے جو تم سے محبت کرے اور تیرے بارے میں (نازل ھونے والی وحی)کی تصدیق اور اس شخص کےلئے ھلاکت و تباھی ھے جو تم سے بغض و عداوت رکھے اور تم پر نازل ھونے والی وحی کو جھٹلائے۔[60]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
من اٴراد اٴن ینظر الیٰ نوح في عزمہِ،والیٰ آدم في علمہ، والیٰ ابراھیم فيحلمہِ، والیٰ موسیٰ في فطنتہِ، والی عیسیٰ في زھدہ فلینظر الیٰ علي بن اٴبي طالب۔
جو شخص نوح کا عزم‘ آدم کاعلم‘ ابراھیم کا حلم ‘موسی کی ذہانت و فطانت اورعیسیٰ کا زھد دیکھنا چاھتا ھے اسے چاھیے کہ وہ علی ابن ابی طالب کو دیکھ لے۔[61]
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دعوت حق کی طرف تین اشخاص سابق ھیں حضرت موسی کے زمانہ میں حضرت یوشع بن نون نے سبقت کی حضرت عیسی کے زمانہ میں صاحب یسٰین نے سبقت کی اورحضرت محمد(ص)کے زمانہ میں علی (ع)ابن ابی طالب نے سبقت کی ھے ۔[62]
عبد اللہ ابن مسعود کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
النظر الی علی عبادة“
علی کی طرف دیکھنا عبادت ھے ۔[63]
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں ۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بتایا کہ میرے بعد امت تجھ پر ظلم کرے گی۔[64]
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں ۔ ھم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ھم دونوں مدینہ سے باھر کی سمت نکل پڑے، راستے میں ایک باغ آیا۔
میں نے کھا:یا رسول اللہ کتنا اچھا باغ ھے:
آپ (ص)نے فرمایا:جنت میں اس سے بھی بھترباغ آپ(ص) کی ملکیت ھے ۔
پھر ھمارا گزر ایک اور باغ سے ھوا۔
میں نے کھا: یا رسول اللہ یہ بھی کتنا اچھا باغ ھے۔
حضرت نے فرمایا جنت میں آپ (ع)کا اس سے بھی خوبصورت باغ ھے۔
یہاں تک کہ ھم سات باغوں سے گزرے اور ھر باغ کے بارے میں میں نے یھی کھاکہ یہ کتنا اچھا اور خوبصورت باغ ھے حضرت نے ھر مرتبہ فرمایا جنت میں آپ کا اس سے بھی اچھا باغ ھے جب میرا راستہ ان سے جدا ھونے لگا تو مجھے قریب بلایا اور پھر گریہ کرنے لگے ۔
میں نے عرض کی یا رسول (ص)اللہ آپ گریہ کیوں فرما رھے ھیں
حضرت نے فرمایا لوگوں کے دلوں میں آپ(ع) کے متعلق ایسا بغض موجود ھے جو میری وفات کے بعد آپ (ع)پر ظاھر ھو گا ۔میں نے عرض کی یا رسول اللہ میرا دین تو سالم رھے گا فرمایا آپ (ع)یقینا میرے دین پر سالم رھیں گے۔[65]
حارث ھمدانی کھتے ھیں کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالی کا یہ فیصلہ صادر ھوا ھے:
اٴنہ لا یحبنی الاّ مؤمن ولا ےُبغضني الاّ منافق وقد خاب من افتریٰ ۔
فقط مجھ علی سے محبت کرنے والا مومن ھے اور مجھ سے بغض رکھنے والا منافق ھے اور جھوٹ و افتراء باندھنے والا نقصان اٹھائے گا۔[66]
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں :حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ حضرت ام سلمہ سے حضرت علی ابن ابی طالب کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ھے:
انّ علیا وشےعتہ ھم الفائزون
یقینا(حضرت) علی (ع) اور اس کے شیعہ ھی کامیاب ھیں۔[67]
ابن عبا س کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
حب علی بن ابی طالب یاٴکل السیئات کما تاٴکل النار الحطب۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت گناھوں کو اس طرح کھا جاتی ھے جس طرح آگ لکڑی کو راکھ بنا دیتی ھے ۔[68]
ابن عباس کھتے ھیں کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کیا جھنم سے بچنے کا کوئی طریقہ ھے؟ فرمایا جی ہاں میں نے کھاوہ کیا ھے؟ تو حضرت نے فرمایا:
حب علي بن اٴبي طالب۔
وہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام )کی محبت ھے ۔[69]
ام سلمہ کھتی ھیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تشریف لائے تو حضرت (ص)نے فرمایا جھوٹا ھے وہ شخص جو یہ دعوی کرے کہ وہ مجھ سے محبت رکھتا ھے جب کہ وہ علی (ع) سے بغض رکھتا ھو۔[70]
ابن عباس کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کلمات کے متعلق سوال کیا گیا جنھیں حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی سے سیکھا اوران کے ذریعہ توبہ کی تو ان کی توبہ قبول ھوئی تو حضرت (ص)نے فرمایا:
اساٴلک بحق محمد وعلي وفاطمہ والحسن والحسین الا تبت عليّ فتاب علیہ۔
وہ کلمات محمد(ص) ۔علی (ع)۔فاطمہ(ع)۔حسن (ع)۔حسین (علیھم السلام )ھیں جن کا واسطہ دے کر حضرت آدم (ع)نے سوال کیا اور توبہ کی تو ان کی تو بہ قبول ھوئی ۔[71]
عبد الرحمن بن عوف کھتے ھیں کہ باطل احادیث کے ساتھ خالص احادیث کے مخلوط اور مشتبہ ھو جانے سے پھلے مجھ سے یہ حدیث سن لو۔ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا:”انا الشجرة و فاطمہ فرعھا وعلي لقاحھاو الحسن والحسین ثمرتھاو شےعتنا ورقھا واٴصل الشجرةفي جنةعدن۔“
میںدرخت ھوں ۔فاطمہ(ع) اس کی شاخیں ھیں۔ علی (ع) اس کا تنا ھیں۔ حسن(ع) اورحسین (ع)اس کے پھل ھیں اور ھمارے شیعہ اس درخت کے پتے ھیں اور اس مبارک درخت کی جڑیں جنت الفردوس میں ھیں ۔[72]
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھاسے فرمایا:
کیا آپ جانتی ھیں کہ اللہ تعالی نے زمین والوںکی طرف جب رخ کیا تو سب سے پھلے آپ کے باپ کو منتخب کیا اور پھر آپ کے شوھر کو منتخب فرمایا اس نے میری طرف وحی بھیجی ھے کہ میںعلی (ع) کو اپنا جانشین اور وصی مقرر کروں۔[73]
جناب عمار بن یاسر کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :اوصي مَن آمن بي وصدّقني بولایة علي بن اٴبي طالب، فمن تولاّہ فقد تولاّني ومَن تولاّني فقد تولیٰ اللّہ عزوجل۔
جو بھی مجھ پر ایمان لایا میں اسے وصیت کرتا ھوں کہ وہ میری رسالت کی تصدیق علی ابن ابی طالب (ع)کی ولایت کے ساتھ کرے جو شخص ان کی ولاےت کا اقرار کرتا ھے وہ مجھ سے محبت رکھتا ھے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ھے تو وہ یقینا اللہ سے محبت رکھتا ھے ۔[74]
حدیث طائر :
انس ابن مالک کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک پرندہ تحفہ کے طور پر دیا گیا جب آپ نے تناول فرمانا چاھاتو فرمایا:
پروردگارا!جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ھے اسے میرے پاس بھیج تا کہ وہ میرے ساتھ اسے تناول کرے چنانچہ اسی وقت میں حضرت علی (ع)ابن ابی طالب(ع) تشریف لائے اور پوچھا کیا میں حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آسکتا ھوں۔
وہ کھتاھے۔میں نے کھااجازت نھیں ھے کیونکہ میں چاھتاتھا کہ حضرت کے ساتھ انصار سے کوئی شریک ھو‘ آپ چلے گئے۔ پھر دوبارہ وآپس آئے اور پھر اجازت طلب فرمائی۔ تو حضرت رسول خدا (ص)نے آپ(ع) کی آواز کو سن لی اور فرمایا: یاعلی اندر تشریف لائیے اور پھر فرمایا۔ پروردگارا یھی تیرا محبوب ھے ، یھی تیرا محبوب ھے۔[75]
مخنف بن سلیم کھتے ھیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری گھوڑے پر سوار ھو کر ھمارے پاس آئے میں نے ان سے کھا،اے ابو ایوب انصاری آپ نے تو حضرت رسول خدا صلیاللہ علیہ و آلہ و سلم کی ھمراھی میں مشرکین سے قتال کیا تھا لیکن اب مسلمانوںسے قتال کرنے میں لگے ھوئے ھو، حضرت ابوایوب انصاری نے جواب دیا:
مجھے رسول خدا نے تین قسم کے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا تھا:
۱)ناکثین۔
2)قاسطین۔
۳)مارقین ۔
اب تک میں نے فقط قاسطین اورناکثےن سے جنگ کی ھے کیا ھے اب انشاء اللہ مارقےن سے جنگ کرنے ولا ھوں ۔میدانوں‘ میں راھوں اورنھروان میں میرے لیئے کوئی فرق نھیں کہ یہ قاسطین اور ناکثین اور مارقین کوئی بھی ھوں[76]
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:اٴنا و علي من شجرة واحدہ والناس من اٴشجار شتی۔ٰ
میں اور علی (ع) شجرہ واحدہ سے ھیں جبکہ لوگ مختلف اشجار سے ھیں۔[77]
جناب شیخ صدوق اپنی کتاب اکمال میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے حدیث نقل کرتے ھیں امام نے فرمایا مجھ سے میرے والد محترم نے اور ان سے ان کے آباء اجدادنے اور ان سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا:
واٴنا وعلی اٴبوا ھذہ الاٴمُّة من عرفنا فقد عرف اللّہ ومن اٴنکرنافقد اٴنکر اللہ عزوجل و من علی سبطا اٴمتُي وسیدا شباب اٴھل الجنة،الحسن والحسین‘ من ولد الحسین تسعہ ۔ طاعتھم طاعتي و معصیتھم معصیي ، تاسعھم قائمھم و مھدیھم۔
میں اور علی (ع) اس امت کے باپ ھیں جس نے ھمیں پہچان لیا اس نے خدا کو پہچانا اور جس نے ھمارا انکار کیا اس نے اللہ تعالی کا انکار کیا اور علی (ع) سے میرے دو نواسے ھیں اور جوانان جنت کے سردار ھیں وہ حسن (ع) وحسین (ع) ھیں اور حسین (علیہ السلام)کی اولاد سے ۹بیٹے ھوں گے، ان کی اطاعت میری اطاعت ھے اور ان کی نافرمانی میری نا فرمانی ھے اور ان میں (نویں ) حضرت قائم اور مھدی (عج) ھیں ۔[78]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:اے ابن سمرہ جب خواھشات پر اگندہ ھوں اورآراء متفرق ھوں تو آپ پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا لازم ھے، کیونکہ وہ میری امت کے امام اور میرے بعد میرے خلیفہ ھیں ۔[79]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:الائمة بعدي اثنا عشر اٴوّلھم علي وآخرھم القائِم ھم خُلفائي و اٴوصیائي۔
میرے بعد بارہ امام ھیں ان میں پھلے حضرت علی علیہ السلام اور آخری حضرت قائم (عج) ھیں یہ سب کے سب میرے خلفاء اور اوصیاء ھیں ۔[80]
[1] صحیح تر مذی ج۲ ص۳۰۸،اسد الغابہ ج۲ ص۱۲،سیوطی در منثور ذیل آیت وغیرہ
[2] صحیح ترمذی،ج2، ص 308. اسد الغابه، ج2ص12. سیوطی در منثور ذیل آیت.
[3] ابو لغیم کی کتاب حلیة الاولیاء ج۱ص ۳۵۵۔اسی روایت کو خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد ج۸ص۴۴۲ پراورصاحب کنزالعمال نے ج۷ ص ۵ ۲ ۲ پر بیان کیاھے۔
[4] کنز العمال ج ۱ ص ۴۷۔
[5] مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۱۰۹ ۔
[6] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۵۔
[7] بحوث فی الملل والنحل ج۱ص۳۲۔شیخ سبحانی۔
[8] مستدرک الصحیحین ج ۲ ص ۳۴۳۔
[9] کنز العمال :جلداص۲۵۰۔
[10] مجمع الزوائد الھیثمی ج ۹ ص ۱۶۸۔
[11] ذخائر عقبی محب طبری ص ۲۰ ۔
[12] صواعق محرقہ ابن حجر ص۱۵۳ ۔
[13] کنزالعمال ج۶،ص۱۵۳۔
[14] فیض القدیر ج ۴ص ۳۵۶۔
[15] فضائل خمسہ من صحاح ستہ فیروز آبادی ج۲ ص۶۶۔
[16] مجمع الزوائد ج۹ص۱۶۸۔اور صواعق محرقہ ابن حجر ص۲۳۶۔
[17] مستدرک الصحیحین ج۳ص۱۴۹،صواعق محرقہ ابن حجر ص۲۳۶۔
[18] مستدرک الصحیحین ج۳،ص۴۵۸۔
[19] ذخائر العقبی، المحب الطبری ص۱۷ ۔صواعق محرقہ ابن حجر ص۲۳۶۔
[20] ذخائر عقبی ص ۲۳۔
[21] ریاض النضرة ج۲ ص ۱۹۹۔
[22] کنز العمال ج۶ ص۲۱۸۔
[23] مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۷۲۔
[24] ذخائر عقبی محب طبری ص ۱۷۔
[25] کنز العمال ج ۷ ص ۲۱۴۔
[26] ذخائر عقبی محب طبری ص ۱۸۔
[27] تاریخ بغدادخطیب بغدادی ج۲ص۱۴۶۔
[28] اس مطلب کو زمخشری نے کشاف میں آیت مودة کے ذیل میں بےان کےا ھے ۔
[29] کنوز الحقائق مناوی ص ۵۔
[30] مستدرک الصحیحین ج ۳ص ۱۰۷۔
[31] الاسےتعاب ابن عبد البر ج۲ ص ۴۶۶ ۔
[32] ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۱۴۔
[33] الاامامہ والسےاسہ ص۹۷۔
[34] نور الابصارشبلنجی ص۷۳ ۔
[35] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۸ ص۴۵ ۔
[36] ارشاد ‘ج۱‘ص۱۵۶‘اس طرح مناقب خوارزمی ص۱۳۳‘ابن اثیر کی تاریخ کامل ج۲ص۲۷۸’مجمع الزوائد الھیثمی ‘ج ۹ ص ۹ ۰ ۱ ۔
[37] الارشاد شیخ مفید ۺ ج ۱ ص ۴۹ تا ۵۰۔
[38] بعض روایات میں ”علی علیہ السلام کی ایک ضربت “آیا ھے (مترجم)
[39] مستدرک الصحیحین ج۲،ص۳۲۔
[40] ارشاد شیخ مفید ج۱ ص۶۴ ، اسی طرح صحیح بخاری کتاب جہاد والسےر فی باب افضل من اسلم علی ےدہ رجل۔
[41] حلیة الاولےا ج۱ ص۶۳ ارشاد مفید ج۱ص۴۶ اور مجمع الزوائدجلد :۹ص۱۲۱ ۔
[42] مجمع الزوائد ج۹ ص۱۰۵ ،انھی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میںابن عساکر نے اسے مختصرتاریخ دمشق ج ۱۷ ص۳۳۴ پر ذکر کیا ھے اور شیخ مفید نے ارشاد ج۱ ص ۱۷۶ ،پر ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ ج۷ص۳۲۸ ،اور اس کے علاو ہ دوسری اھم تاریخی کتب نے مختلف الفاظ میں اس واقعہ کو بےان کےا ھے ۔
[43] البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج۷ ص۳۱۸ اور ابن عبدالبر نے بھی استعاب میں بےان کیا ھے۔
[44] ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص۳۸۔
[45] مجمع الزوائد ج ۹ س۱۱۴۔
[46] صواعق محرقہ ابن حجر ص۱۲۲ اور مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱۰۔
[47] کنز العمال ج۶ س۱۵۷۔
[48] مراجعات علامہ شرف الدین موسوی ص۱۷۸۔
[49] الارشاد و،شیخ مفید ج۱ ص۶۵،۶۶ ،تاریخ یعقوبی ج ۲ ص۷۶ سیرت ابن ھشام ج ۴ س۱۹۰۔
[50] المراجعات امام شرف الدین موسوی ص۱۷۶۔
[51] مستدرک الصحیحین ج۳ص۱۲۹ ،پھر صاحب کتاب کھتے ھیں کہ یہ صحیح الاسناد حدیث ھے، اسی طرح اس حدیث کو کنز العمال نے ج ۶ ص۱۵۳ حدیث ۲۵۲۷ میں بےان کیا ھے ۔
[52] کنزالعمال ج۶ ص۲۱۷ ،حدیث ۳۸۱۹، انھی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میں ابو نعیم نے بھی اپنی کتاب حلیة ج ۱ ص۸۶ پر اس حدیث کو نقل کےا ھے۔
[53] حلیة ا لا ولیا ء ابی نعیم ج۱ ص۶۷۔
[54] مستدرک الصحےےن ج۳ص۲۲۶ ،جامع الصغیر سیوطی ص۱۰۷۔
[55] حلیة الاولیا ء ج۱س۶۴۔
[56] المناقب الخوارزمی ص ۶۱ ۔۶۲۔
[57] مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۱۶۔
[58] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج۱۷ص۳۰۷۔
[59] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۷ ص ۳۰۶۔
[60] مستدرک صحیحین ج ۳ ص۱۳۵ ۔
[61] آیت مباھلہ کے معنی میں تفسیر کبیر رازی ج۲ ص۲۸۸۔
[62] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۱۲۵۔
[63] مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۱۹۔
[64] مستدرک الصحیحن ج۳ ص ۱۴۰،چنا نچہ صاحب مستدرک کھتے ھیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے درست ھے اس روایت کو خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ کی ج ۱۱ ص ۲۱۶ پر بھی بیان کیا ھے۔
[65] مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱۸ تاریخ بغداد ج۱۲ ص۳۹۸۔
[66] ارشاد مفید ج۱ ص۴۰۔ بحار الانوار ج ۳۹ ص ۲۵۵۔
[67] علامہ مجلسی کی البحار ج ۶۸ص ۳۱ ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص۴۱۔
[68] کفایة الطالب حافظ محمد یوسف کنجی ص ۳۲۵۔
[69] کفایت الطالب ص ۳۲۵ ۔
[70] کفایة الطالب حافظ الکنجی ص ۳۲۰ ۔کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۹۔
[71] درمنثور سیوطی تفسیر ذیل آیت سورہ بقرہ فتلقی آدم من ربہ کلمات۔
[72] مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۱۶۰۔
[73] مجمع الزوائد ج ۸ ص۲۵۳ کنز العمال ج۶ ص ۱۵۳۔
[74] کفایةالطالب حافظ کنجی شافعی،ص ۷۴ ۔
[75] ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص ۳۸، کفایة الطالب ۔حافظ الکنجی شافعی ص ۱۴۵، کنز العمال ج۶ ص ۴۰۶۔
[76] کفایة الطالب ص۱۶۹ ،اسد الغابہ ج۴ص۳۳۔
[77] کنز العمال ج۶ص ۱۵۴۔
[78] مراجعات سید شرف الدین المراجہ ۶۲ص۲۰۲ بحوالہ صدوق مرحوم کی کتاب اکمال دین و اتمام النعمة۔
[79] مراجعات امام شریف الدین مراجعہ ۶۲ص ۲۱۰ بحوالہ کتاب صدوق اکمال الدین۔
[80] مراجعات امام شرف الدین کے مراجعہ ۶۲ ص۲۰۱ پررجوع کریں وہاں انھوں نے جناب صدوق کی کتاب اکمال الدین و اتمام النعمةکے حوالے سے اس حدیث نقل کیا ھے ۔
source : http://www.al-shia.org/