اردو
Tuesday 26th of November 2024
0
نفر 0

علم, فرمودات باب العلم حضرت علی{ع}

(١)اپنے علم کو جہل اور یقین کو شک نہ قرار دو جب تمہیں  علم ہو جائے تو عمل کرو اور جب یقین آجائے تو آگے بڑھو ۔

(٢) علم بہانے بازوں  کے غدروں  کو برباد کر دیتا ہے ۔

(٣)کم ترین علم وہ ہے جو زبان پر رہیاور بالا ترین علم وہ ہے جو اعضا و جوارح سے ظاہر ہو ۔

(٤)علم کریم وارث ہے

(٥)علم جیسا کوئی شرف نہیں

(٦)جب خدا کسی بندے کو ذلیل کرتا ہے تو باب علم اس پر بند کر دیتا ہے

(٧)علم عمل سے ملا ہوا ہے لہذا جو جان لیتا ہے وہ عمل کرتا ہے اور علم عمل کو آواز لگاتا ہے پس اگر عمل نے جواب دیا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اس کے پاس سے چلا جاتا ہے۔

(٨) حکمت کی باتوں  سے خاموشی میں  کوئی بھلائی نہیں جس طرح جہالت کی باتیں  کرنے میں  کوئی نیکی نہیں ۔

(٩)علم دو طرح کا ہوتا ہے۔فطری اور سنا ہوا لہذا سنا ہوا علم فائدہ نہیں  پہنچا سکتا اگر فطری علم موجود نہ ہو۔

(١٠)جو سمجھ لیتا ہے وہ علم کی گہرائیوں  سے واقف ہو جاتا ہے اور جو علم کی گہرائیوں  سے واقف ہو جاتا ہے وہ احکام شریعت کے چشموں  سے ( سیراب ہوکر) نکل آتا ہے۔

(١١)غور کرنے سے بڑھ کر کوئی علم نہیں

(١٢)عالم وہ ہے جو اپنی قدر جان لے

(١٣)جب تم کوئی خبر سنو تو اسے رعایت و عقل سے سمجھوروایت کے طور سے کیونکہ علم کو نقل کرنے والے تو بہت ہیں  مگر اس کی مراعات کرنے والے بہت کم

(١٤)بہت سے ایسے عالم ہیں  جو ہلاک ہو گئے جبکہ ان کا علم ان کے ساتھ موجود تھا مگر کچھ فائدہ نہ پہنچا سکا ۔

(١٥)اے جابر چار چیزوں  پر دنیا  کا انحصار ہے۔ اپنے علم پر عمل پیرا عالم ، تعلیم سے گریز نہ کرنے والا جاہل ۔اپنے عطیات میں  بخل نہ کرنے والا سخی اور اپنی دنیا کے بدلے آخرت نہ بیچنے والا تہی دست ۔ لہذا جب عالم اپنا علم ضائع کر دیتا ہے تو جاہل تعلیم سے گریزان ہو جاتا ہے اور جب دولت مند اپنی نیکیوں  میں  بخل سے کام لینے لگتا ہے تو فقیر اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض بیچ دیتا ہے ۔

(١٦)تم جو نہیں  جانتے ہو اسے نہ کہوبلکہ جتنا جانتے ہو وہ سب بھی نہ کہہ ڈالو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے تمام اعضا و جوارح پر کچھ فرائض واجب کر دیئے ہیں اور ان سب کے ذریعہ روز قیامت تم پر حجت قائم کی جائے گی ۔

(١٧)اللہ تعالیٰ نے جاہلوں  سے پڑھنے کا عہد اس وقت تک نہیں  لیا جب تک علماء سے پڑھانے کا عہد نہ لے لیا ۔

(١٨)جو غور کرتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے اور جو سمجھ لیتا ہے وہ جان لیتا ہے ۔

(١٩)آپ کی وصیتوں  میں  سے'' تمہیں  کسی سوال کے وقت لا عملی کی صورت میں  '' میں  نہیں  جانتا''کہنے سے ہرگز شرمانا نہیں  چاہئے اور نہ ہی لا علمی کی صورت میں  سیکھنے سے شرمانا چاہئے ۔

(٢٠)ہر ظرف ، مظروف کی وجہ سے تنگ ہو جاتا ہیسوائے ظرف علم لے کہ یہ اور وسیع ہوتا جاتا ہے۔

(٢١) دو بھوکے کبھی سیر نہیں  ہوتے ، طالب علم اور طالب دنیا

(٢٢)آپ نے کمیل ابن زیاد سے فرمایا '' لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں  عالم ربانی ، راہ نجات میں  علم حاصل کرنے والا اور بے اہمیت و بے وقعت ، احمق عوام جو ہر آواز پر دوڑ پڑتے ہیں  ۔ہر ہوا کے ساتھ متحرک ہو جاتے ہیں  انہوں  نے نور علم سے روشنی حاصل نہیں  کی اور نہ کسی مستحکم پناہ گاہ میں  پناہ لی۔

اے کمیل علم مال سے بہتر ہے علم تمہاری حفاظت کرتا ہے ۔ جبکہ مال کی تم حفاظت کرتے ہو اور مال خرچ کرنے سے گھٹ جاتاہے جبکہ علم خرچ کرنے سے اور بڑھ جاتا ہے اور دولت کے ذریعہ بنائے گئے کام دولت کے ختم ہوتے ہی زوال پذیر ہو جاتے ہیں  ۔

اے کمیل معرفت علم ایک ایسا راستہ ہے جس پر چلا جاتا ہے۔ اسی کے توسط سے انسان اپنی زندگی میں  اطاعت اور موت کے بعد ذکر خیر کی صفت حاصل کر لیتا ہے اور علم تو حاکم ہے مال محکوم ہوتا ہے ۔

اے کمیل مال جمع کرنے والے زندہ ہوتے ہوئے بھی ہلاک ہونے والے ہیں  جبکہ علماء جب تک زمانہ باقی ہے باقی رہنے والے ہیں  ان کا جسم تو غائب رہتا ہے مگر ان کی صورتیں  دلوں  میں  موجود رہتی ہیں  ۔

اے کمیل یہاں ( آپ نے ہاتھوں  سے سینے کی طرف اشارہ کیا) علم کا ذخیرہ ہے کاش میں  اسے سیکھنے کے لائق افراد پاتا البتہ میں  بہت سے زور فہم لوگوں  کو پایا مگر( میرے اس علم کے) وہ امانت دار نہیں  ہو سکتے یہ لوگ دین کو دنیا کے لئے استعمال کرتے ہیں  اور اللہ کے بندوں  پر اس نعمت کے ذریعہ فخر اور دکھاوا کرتے ہیں  اور اس علم کی حجت و دلیل کو اس کے اولیاء کے خلاف استعمال کرتے ہیں یا پھر میں  اس علم کے لئے ایسے افراد کو پاتا ہوں  جو حق کے پیروکار تو ہیں  لیکن ان کے دل میں  بصیرت کی کوئی رمق نہیں  شبہ ہوتے ہی فورا ان کے دل میں  شک پیدا ہو جاتا ہے کیا  نہیں  ؟نہیں  وہ بھی نہیں  اور یہ بھی نہیں  اور یا تو میں  نے اس علم کے ایسے طالب پائے جو لذت کے بھوکے ، شہوتوں  کی کٹھ پتلی ہوتے ہیں  یا پھر ایسے افراد ہیں  جو ( مال و دولت) جمع اور ذخیرہ کرنے میں  دھیان دیتے ہیں  یہ دونوں  گروہ بھی کسی طرح سے دین کی  مراعات نہیں  کرتے یہ دونوں  گروہ مخلوقات خدا میں  ان جانوروں  سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں  جنہیں  چرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہوعلم اسی طرح اہل علم کے مرنے سے مرجاتا ہے ۔

(٢٣)بھلائی یہ نہیں  ہے کہ تمہاری دولت یا اولاد زیادہ ہو جائیں  بلکہ بھلائی یہ ہے کہ تمہا را علم بڑھ جائے اور حکم عظیم ہو جائے اور تم لوگوں  پراپنے پروردگار کی عبادت کے ذریعہ مباہات کر سکو۔

(٢٤ ) جو نہیں  جانتے وہ نہ کہو بھلے ہی تم جانتے ہو وہ کم ہی کیوں  نہ ہو ۔

(٢٥)علم کے ذریعہ موت سے ڈرا جا تا ہے۔

(٢٦)یقینا وہ عالم جو علم کو چھوڑ کر اعمال انجام دیتا ہے اس حیران جاہل کی طرح ہے جو اپنی جہالت سے کبھی نہیں  نکل پاتا بلکہ ایسے عالم پر تو اس جاہل سے بھی زیادہ عظیم حجت ہے اور اس کی حسرت ( روز قیامت) اس سے کئی گنا زیادہ ہوگی اور یہ اللہ کے نزدیک اس جاہل سے زیادہ ملامت ٹھہرے گا ۔

(٢٧)آپ سے پوچھا کیا '' عالم کون ہے؟توآپ نے فرمایا'' جو حرام اشیاء سے اجتناب کرے ''۔

(٢٨)جو اچھی طرح سے پوچھتا ہے وہ جان لیتا ہے اور جو جان لیتا ہے وہ عمل کرتا ہے۔وہ ( عذاب سے) سلامت رہتا ہے۔

(٢٩)علم میں  سر فہرست نرمی ہے اور اس کی آفت حماقت اور سخت روی ہے ۔

(٣٠)عالم کھجور کے درخت کی شاخ کی طرح ہوتا ہے جس کے پاس تم انتظار کرتے ہو کہ کب کچھ کھجور تمہارے اوپر گرے ۔

(٣١)عالم اللہ کی راہ میں  لڑنے والے روزہ دار نمازی سے افضل ہے ۔

(٣٢)جو اپنے علم سے بے نیاز ہو جاتا ہے وہ ٹھوکر کھاتا ہے ۔

(٣٣)جب عالم مر جاتا ہے تو اسلام میں  ایک ایسا خلاء پیدا ہو جاتا ہے جو قیامت تک پر نہیں  ہو سکتا ۔

(٣٤)علم کے شرف کے لئے یہی کافی ہے کہ اسے نہ رکھنے والا بھی اس کا دعویٰ کرتا ہے اور اگر اس کی طرف کسی کو منسوب کر دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔

(٣٥)علم حاصل کرواس کے ذریعہ پہچانے جائوگے اور اس پر عمل پیرا ہو جائو کہ اس کے اہل میں  سے ہو جائوگے یقینا تمہارے بعد لوگوں  پر ایسا دور گزرنے والا ہے جب لوگوں  میں  ہر دس میں  سے نو آدمی حق کا انکار کریں  گے اس وقت صرف خاموشی اختیار کر لینے والا ہی نجات پائے گا اور یہی لوگ ہدایت کے امام اور علم کے چراغ ہوں  گے یہ لوگ نہ جلد باز ہوں  گے اور نہ ہی نام و نمود شہرت والے ہوں  گے ۔

(٣٦)جو علماء کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ با وقار  ہو جاتا ہے ۔

(٣٧)بچپن کا علم پتھر پر نقش کی طرح ہوتا ہے

(٣٨)ایسے بندے کی تحقیر نہ کرو جسے اللہ نے علم عطا کیا ہو کیونکہ اللہ نے اسے علم دیتے وقت حقیر نہیں  سمجھا ۔

(٣٩) انکساری وفروتنی علم کی زینت ہے۔

(٤٠)علم تمام حسب و نسب سے زیادہ شریف ہے

(٤١)شریف وہ ہے جسے اس کے علم نے شریف کیا ہو ۔

(٤٢)جو علم چھپاتا ہے وہ جاہل کی طرح ہوتا ہے ۔

(٤٣)عالم کی لغزش کشتی کے ٹوٹ جانے کی طرح ہوتی ہے جو خود تو ڈوبتی ہی ہے مگر اپنے ساتھ لوگوں  کو بھی لے ڈوبتی ہے۔

(٤٤)علم بہترین و زیبا ترین خزانہ ہیاس کا تحمل آسان مقصد عظیم ہوتا ہے مجمع کے درمیان یہ جمال ہے اور تنہائی میں  مونس۔

(٤٥) علم ایسی سلطنت ہیکہ جو اسے پا جاتا ہے وہ اسی کے ذریعہ یلغار کرتا ہے اور جو اس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے وہ اسی کے ذریعہ یلغار کا نشانہ بنتا ہے۔

(٤٦)بغیر علم و زہد کے عبادت کرنا جسم کو تھکانا ہے ۔

(٤٧)جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے جز تین اعمال کے : صدقہ جاریہ ۔وہ علم جس کی وہ لوگوں  کو تعلیم دیا کرتا تھا اور لوگوں  نے اس سے استفادہ کیا اور وہ صالح بیٹا جو اس کے لئے دعا کرتا ہو ۔

(٤٨)سب سے اشرف شئے علم ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ عالم ہے اس لئے علماء کو پسند کرتا ہے۔

(٤٩)اے کاش میں  جان پاتا کہ علم سے ہاتھ دھونے والے نے کیا پایا؟ جس  نے عمل حاصل کر لیا اس نے کیا کھویا ؟

(٥٠) اگر علم سے کوئی سیر ہو سکتا تو نبی خدا موسیٰ  ضرور مطمئن ہو جاتے مگر تم نے ان کو ( جناب خضر سے) یہ کہتے سنا ہی ہے '' کیا میں  آپ کی پیروی کر سکتا ہوں  تاکہ آپ مجھے اس ہدایت کی تعلیم دیں  جس کی تعلیم آپ کو دی جا چکی ہے؟

(٥١)بادشاہ لوگوں  پر حاکم ہوتے ہیں  اور علماء بادشاہ پر

(٥٢)علم مجلسوں  میں  زینت ۔ سفر میں  تحفہ اور غربت میں  انس ہوتا ہے۔

(٥٣)آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں  میں  سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا'' جو لوگوں  کے علم کو اپنے علم میں  اکٹھا کرے ''

(٥٤)عالم زندہ ہوتا ہے بھلے ہی وہ مر گیا ہو اور جاہل مردہ ہوتا ہے بھلے ہی وہ زندہ ہو ۔

(٥٥)جب تم کسی عالم کے پاس بیٹھو تو سننے کے لئے کہنے سے زیادہ مشتاق رہو ۔

(٥٦) علم بے شمار ہیں  لہذا ہر چیز میں  سے جو بہتر ہو اسے لے لو ۔

(٥٧)جو لوگوں  میں  بغیر علم فتویٰ دیتا ہے اس پر زمین و آسمان لعنت کرتے ہیں  ۔

(٥٨)علم دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ علم جس میں  لوگوں  کے لئے دقت نظری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں  اور یہ احکام اسلام ہیں  اور دوسرا وہ علم جس میں  دقت کی ضرورت نہیں  ہوتی وہ قدرت خدا ہے ۔

(٥٩)جس علم میں  فہم نہ ہو وہ بے فائدہ ہوتا ہے ۔

(٦٠)دوسری چیزیں  جب کم ہو جاتی ہیں  تو قیمتی ہو جاتی ہیں  مگر علم جب زیادہ ہوتا ہے تب لائق عزت ہوتا ہے ۔

(٦١)لوگوں  میں  سب سے کم قیمت وہ لوگ ہیں  جولوگوں  میں  سب سے کم علم ہیں  اور جو بچپن میں  علم حاصل نہ کر سکا وہ بڑا ہو کربھی آگے نہیں  بڑھ سکتا ۔

(٦٢)اگر حاملان علم، جیسا حق تھا اسی طرح علم کو بروئے کار کاتے تو یقینا اللہ اور اس کی اطاعت کرنے والے سب کے سب انہیں  دوست رکھتے مگر انہوں  نے تو علم کو دنیا کی چاہت میں  حاصل کیا  لہذا خدا ان پر غضب ناک ہوا اور یہ لوگوں  کے درمیان بے وقعت ہو کر رہ گئے ۔

(٦٣)اس علم کے تین طرح کے طالب ہوتے ہیں  آگاہ ہو جائو ان کو ان کی صفات کے ذریعہ پہچانوں : ان میں  سے ایک نوع ایسے لوگوں  کی ہے جو بحث و جدال کے لئے علم حاصل کرتے ہیں  اور دوسری قسم ان لوگوں  کی ہے جو مختلف حلیوں  اور بہانوں  کے لئے علم حاصل کرتے ہیں  اور تیسری نوع ان لوگوں  کی ہوتی ہے جو سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے علم حاصل کرتے ہیں  اور وہ لوگ جو علم کو کٹ حجتی کے لئے حاصل کرتے ہیں  تم انہیں  باتوں  میں  لوگوں  سے فخر و مباہات کرتے ہوئے پائو گے جبکہ وہ ظاہرا انکساری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوں  گے اور یہ لوگ تقویٰ سے عاری ہوتے ہیں  ۔لہذا اللہ نے ان کے سینوں  کو کوٹ ڈالا۔اور انکی ناک کاٹ ڈالی۔البتہ جہاں  تک ان علماء کا تعلق ہے جو تکبر اور فریب کاری کے لئے علم حاصل کرتے ہیں  تو ایسا عالم اپنے جیسے علماء پر فخر مباہات کرتا ہے ۔مگر مالداروں  کے سامنے تواضح ا ختیار کرتا ہے اس طرح ان حلوئوں  کو ہضم کر لیتا ہے ۔مگر اپنے دین کو برباد کر لیتا ہے اسی لئے خدا نے اسے اندھا کر دیا اور علماء کے درمیان سے اس کا نام مٹا ڈالا اور تیسری قسم اس علماء کی ہے جو عمل وفقہ کے لئے علم حاصل کرتے ہیں  تو تم ایسے طالبعلم کو ہمیشہ غم زدہ و مخزون دیکھو گے اندھیری راتوں  میں  ( عبادت خدا کے لئے) وہ کھڑا رہتا ہے۔اور ظلمت کے پردوں  میں  رجوع کرتا ہے( نیک اعمال انجام دیتا ہے) اللہ سے خوفزدہ رہتا ہے اسی لئے اللہ اس کے قدموں  کو ثبات دیدیتا ہے اور روز قیامت اسے (عذاب) سے امان عطا کر دیتا ہے ۔

(٦٤)عالم کا اپنے علم کا شکریہ یہ ہے کہ وہ اپنے علم کو اہلیت رکھنے والوں  کو اپنا علم عطا کرے۔

(٦٥)علم ایک طرح کی زندگی ہے۔

(٦٦)علم ہر بھلائی کی جڑ ہے ۔

(٦٧) علم معرفت کی کونپل ہے ۔

(٦٨)عالم اپنے دل و دماغ سے دیکھتا ہے اور جاہل آنکھوں  سے

(٦٩) علم تونگروں  کے لئے زینت اور فقیروں  کے لئے تونگری ہے ۔

(٧٠)عالم جاہل کو پہنچانتا ہے کیونکہ وہ پہلے کبھی جاہل تھا ۔

(٧١) جاہل عالم کو نہیں  پہچانتا  کیونکہ وہ پہلے کبھی عالم نہ تھا ۔

(٧٢)ایمان و علم جڑوا بھائی ہیں  اور کبھی جدا نہ ہونے والے دوست ہیں  ۔

(٧٣) عالم و متعلم دونوں  اجر میں  شریک ہیں  مگر ان کے درمیان والوں  کے لئے کوئی اجر نہیں  ۔

(٧٤)علم دلیل کا اولین جز اور معرفت انتہا ہے

(٧٥)بغیر علم عبادت کرنے والا چکی کے گدھے کی طرح ہے جو چکر لگاتا ہے مگر اپنی جگہ سے نہیں  ہٹتا

(٧٦)انبیاء کے نزدیک اولیت اس شخص کو حاصل ہے جو لوگوں  میں  ان انبیاء کے لائے ہوئے احکامات کے بارے میں  سب سے زیادہ علم رکھتا ہو۔

(٧٧)اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ غضب کے لائق جابر عالم ہوتا ہے ۔

(٧٨)تمہارے اوپر علم سب سے زیادہ واجب ہے جس پر عمل کرنے کے متعلق (روز قیامت) تم سے باز پرس ہوگی

ّ( ٧٩)بہترین ذخیرہ وہ علم ہے جس پر عمل کیاجائے  اور وہ نیکی جو جتائی نہ جائے

(٨٠)تزکیہ عقل کے لئے سب سے زیادہ مدد گار شئے تعلیم ہے۔

(٨١)عوام کی آفت فاجر عالم ہے

(٨٢)جب انسان کا علم بڑھ جاتا ہے تو اس کا ادب و لحاظ  اور اللہ سے خوف بھی بڑھ جاتا ہے ۔

(٨٣)انسان کا حسب نسب اس کا علم اور جمال اس کی عقل ہے

(٨٤)بہترین علم وہ ہے جس کے ذریعہ تم نے اپنی ہدایت درست کی ہو اور بد ترین علم وہ ہے جس کے ذریعہ تم نے آخرت خراب کرلی ہو

(٨٥)بہت سے علم کے دعویدار عالم نہیں  ہوتے

(٨٦)عالم کی لغزش کائنات کو خراب کر دیتی ہے

(٨٧)عالم کے لئے ضروری ہے کہ جو وہ نہیں  جانتا اس کا علم حاصل کرے اور جو جانتا ہے عوام کو سکھائے ۔

(٨٨)وہ علم جو تمہاری اصلاح نہ کرے گمراہی ہے اور وہ مال جو تمہیں  فائدہ نہ پہنچائے وبال جان ہے

(٨٩)میں  نہیں  جنتا کہنا نصف علم ہے۔

(٩٠) اللہ کے علاوہ ہر عالم متعلم ہے ۔

(٩١)علم کی کونپل تصور فہم ہے

(٩٢)طالب علم کے لئے دنیا کی عزت اور آخرت کی کامیابی ہے

(٩٣)عمل اس وقت تک صاف ستھرا نہیں  ہو سکتا جب تک علم درست نہ ہو گا ۔

( ٩٤)عمل اس وقت تک پاک نہیں  ہو سکتا جب وہ علم سے جڑا نہ ہو

(٩٥)علم صرف صاحبان علم سے ہی حاصل کیا جاتا ہے

(٩٦)جسمانی راحت کے ساتھ علم حاصل نہیں  کیا جا سکتا ۔

ّ(٩٧)جس کے پاس علم نہیں  اس کے پاس ہدایت بھی نہیں

(٩٨)اپنے علم کی مخالفت کرنے والوں  کا جرم و گناہ عظیم ہوتا ہے ۔

(٩٩)جس کا علم اس کی عقل سے زیادہ ہو جاتا ہے وہ اس کے لئے وبال بن جاتا ہے ۔

(١٠٠)جو تعلیم کی تلخیوں  کو برداشت نہیں  کر پاتا وہ جہالت کی ذلت میں  باقی رہتا ہے ۔

(١٠١)جو علم کی آخری حدوں  تک پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ اپنی جاہلیت کی حدود کو اجاگر کر دیتا ہے ۔

(١٠٢) علم کے جلسے موقع غنیمت ہیں  ۔

(١٠٣) رسول خدا ۖ نے مجھے ہزار بات تعلیم فرمائے اور ہر باب سے ہزار باب وا ہوئے ۔


source : http://www.shianet.in/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام زین العابدین علیہ السلام اخلاق کی دنیامیں
نمازِ حاجت میں امام حسين (ع) کی دعا
ولایت علی ع قرآن کریم میں
علم, فرمودات باب العلم حضرت علی{ع}
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت امام زمانہ (عج) کا خط شیخ مفید کے نام
اقوال حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
معصومین علیہم السلام کی چالیس حدیثیں والدین کے ...
حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی ...
امیرالمومنین (ع) کی وصیتیں اور ہدایات

 
user comment