اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

اخلاق محمدی (ص) قرآنی تناظر میں

پروردگار عالم نے سورۂ قلم میں رسول اکرم (ص) کی ذات والا صفات کے مختلف پہلوئوں منجملہ آپ (ص) کے اخلاق کو بیان کرنے کے لئے ایک مقدس شئے یعنی قلم کی قسم کھائی ہے، وہ قلم جو علم و دانش کی ترویج اور انسانی تمدن و ثقافت کے کمال کا وسیلہ ہے، وہی قلم جس کی نوک سے جاری ہونے والے رشحات نے صفحات تاریخ پر علم و دانش اور تہذیب و تمدن کے نقوش کندہ کئے ہیں۔ آپ(ص) کی اخلاقی شخصیت کی تعریف و تمجید کے لئے رب العزت نے آپ(ص)کے متعدد اوصاف کریمہ میں صفت ''عظیم'' کا انتخاب کیا اور فرمایا:

{و انک لعلی خلق عظیم} (سورۂ قلم، آیت4)

''اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں۔''

شیخ طوسی (385۔460ھ) زوجۂ حضور اکرم (ص) سے روایت کرتے ہیں:

اخلاق پیغمبر وہی ہے جو سورۂ مومنون کی پہلی دس آیتوں میں بیان ہوا ہے: نماز میں خشوع، لغو باتوں سے پرہیز، زکات کی ادائیگی، عفت وپاکدامنی، وعدہ وفائی، امانتداری اور نماز کی پابندی۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شیخ فرماتے ہیں: خداوند کریم جس کی توصیف ''خلق عظیم'' کہہ کر کرے پھر اس سے بڑھ کرکوئی مدح و ستائش نہیں ہوسکتی۔

(التبیان فی تفسیر القرآن، شیخ طوسی، تحقیق احمد حبیب قصیر العاملی، 7510، بیروت)

اہل سنت کی کتابوں میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے:

''ایک شخص نے زوجۂ رسول(ص)سے آنحضرت کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں کہا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! کہا: ''قرآن ہی تو اخلاق پیغمبر(ص) ہے۔''

(صحیح مسلم، نووی بیروت، دار الکتب الولی، 1407ھ، 7461)

خلق عظیم کی بلندی اس وقت آشکار ہوکر سامنے آتی ہے جب اس بات پر توجہ دی جائے کہ جس خدا نے نبی ۖکے اخلاق و کردار کو عظیم کی صفت سے متصف کیا ہے اس خدا نے پوری دنیا کو حقیر گردانا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے: {قل متاع الدنیا قلیل} (سورۂ نسائ، آیت77)

''کہہ دیجئے کہ دنیا کا سرمایہ بہت تھوڑا ہے۔''

البتہ واضح رہے کہ اسی تھوڑے سے سرمایہ کے لئے ارشاد ہوتا ہے:

{و ان تعدوا نعمة اللہ لا تحصوھا} (سورۂ ابراہیم، آیت34)

''اگر تم اس کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہوگے تو ہرگز شمار نہیں کرسکتے۔''

اب ذرا سوچئے کہ جب انسان ان دنیوی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتا جو خدا کی نظر میں حقیر و قلیل ہیں تو اخلاق و کردار پیغمبر اکرم(ص)کی عظمت کو کیسے درک کرسکتا ہے جسے خود خدا نے صفت ''عظیم'' سے متصف فرمایا ہے! ایک مفسر قرآن فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد (ص) کے علاوہ کسی نبی کے لئے ''خلق عظیم'' کی تعبیر استعمال نہیں کی ہے۔ (تفسیر الکاشف)

پھر وہ لکھتے ہیں: اس آیۂ مبارکہ کا ہی نچوڑ حضور اکرم (ص) کے اس فرمان میں موجود ہے جس میں آپ نے فرمایا: ''میرے پروردگار نے ہی میری پرورش کی اور میری بہترین تربیت فرمائی۔'' یعنی پروردگار عالم نے آپ (ص)کے اخلاق و کردار کو آپ کے مقصد خلقت کے مطابق قرار دیا ہے۔ (وہی حوالہ)


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد
امام رضاعلیہ السلام اور ولایت عہدی كامنصب
امام زمانہ سے منسوب جزیرہ برمودا ٹرائنگل
کیا عباس بن عبدالمطلب اور ان کے فرزند شیعوں کے ...
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
امام جعفر صادق اورفکری جمود سے مقابلہ

 
user comment