حضرت محمد بن عبداللہ ص] پیغمبر اسلام کے آباء و اجداد کا ایمان اورعصمت
آپ(ص) کے سب آباء و اجداد سب کے سب اسی دین ابراہیمی کے پیرو تھے، بلکہ دین کے محافظ و نگراں تھے۔ اصول کافی میں سعدی بن ظریف سے اور انہوں نے اصبغ بن نباتہ سے روایت بیان کی ہے کہ میں نے امیرالمومنین(ع) کو کہتے ہوئے سنا کہ میرے باپ ابوطالب اور میرے جد عبد المطلب، ہاشم اور عبد مناف نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی لوگوں نے دریافت کیا تو پھر وہ کس کی عبادت کرتے تھے تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ بیت (قبلہ) کی طرف منہ کر کے دین ابراہیم(ع) کے طریقہ پر نماز پڑھا کرتے تھے۔
اجداد رسول اللہ(ص) کے ایمان کے بارے میں شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے مدارج النبوۃ میں لکھا ہے کہ رسول(ص) کے آباء و اجداد حضرت آدم(ع) سے حضرت عبد اللہ(ع) تک سب کے سب کفر و شرک کی نجاست سے پاک تھے۔
علماء اہلسنّت کے جلیل القدر عالم علامہ سیوطی نے نو کتابیں اسی موضوع پر لکھی ہیں کہ رسول خدا (ص) کے آباء و اجداد (ذکور و اناث) سب کے سب باایمان اور دین حنیفی (دین ابراہیمی) پر تھے۔ ان سب میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ آپ(ص) کے آباء و اجداد مشرک نہیں تھے، کبھی کفر اختیار نہیں کیا، بلکہ برابر دین ابراہیمی کے پیرو رہے۔ مثلاً لکھتے ہیں: ان آباء النبی لم یکن فیھم مشرک۔ یعنی حضرت(ص) کے آباء و اجداد میں ایک شخص بھی مشرک نہیں تھا۔[1]
خصائص علویہ کے حوالہ سے علامہ عبید اللہ امرتسری، جناب سلمان سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت(ص) کو فرماتے ہوئے کہ آدم(ع) سے چودہ ہزار برس پہلے میں اور علی(ع) عرش کے دہنی طرف ایک نور سے پیدا ہوئے۔ ہم خدا کی تسبیح و تقدیس کیا کرتے تھے۔ جب خدا نے آدم(ع) کو پیدا کیا تو ہم کو مَردوں کی پشتوں سے عورتوں کے پاک رحموں کی طرف منتقل فرمایا۔ یہاں تک کہ ہم منتقل ہو کر عبد المطلب کی صلب تک پہونچے۔ پھر ہم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک حصہ عبد اللہ(ع) اور ایک حصہ ابوطالب(ع) کے صلب میں منتقل کردیا۔ مجھے ایک حصہ سے اور علی(ع) کو دوسرے حصہ سے پیدا کیا اور ہمارے لئے اسماء حسنیٰ میں سے نام مشتق کئے۔ پس اللہ محمود ہے اور میں محمد(ص) ہوں، اللہ اعلیٰ ہے اور میرا بھائی علی(ع) ہیں، اللہ فاطر ہے اور میری بیٹی فاطمہ(ع) ہے، اللہ محسن ہے اور مرے دونوں فرزند حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں۔ پس میرا نام پیغمبری میں ہے اور علی(ع) کا نام خلافت اور شجاعت میں۔ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور علی(ع) اللہ کی تلوار ہیں۔[2]
انصاف کا تقاضا بھی یہی تھا کہ نبی(ص) و علی(ع) کے نور کے لئے اصلابطاہرہ اور ارحام طیبہ ہوں، ورنہ ظلم لازم آئے گا۔ ظلم کی تعریف ہے "وضع الشیء فی غیر محلہ" جو عدل الٰہی کے خلاف ہے اس لئے کہ طہارت، عصمت کا لازمہ ہے۔ معصوم ہر اعتبار سے طاہر اور عیب و نقص سے پاک و پاکیزہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی نجاست و خبث سے ملوث نہیں ہوتا اورخداوند متعال کا لا ریب کلام میں ارشاد ہو رہا ہے: "انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس …"۔
لہذا پیغمبر اسلام(ص) کے آباء و اجداد میں تمام عورت و مرد، حضرت آدم(ع) تک دین الہی کے صرف زبانی دعویدار نہیں تھے بلکہ اس کے قوانین پر مضبوطی سے عامل تھے۔ آپ(ص) کے نسب کی ہر عورت و مرد کے تعلقات آدم(ع) تک شرعی نکاح کے طریقے سے قرار پائے تھے۔
احادیث کا ایک بے شمار ذخیرہ کتب احادیث میں موجود ہے جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ(ص) اور آپ(ص) کا خاندان ہمیشہ نکاح میں شریعت اسلامی کا پابند رہا۔
صاحب حبیب السیر لکھتے ہیں: "آن عطیہ عظمیٰ از اصلاب طاہرۂ آباء ببطون امہات پارسا بطریقہ مناکحہ شریعۃ انتقال می فرمود"۔
یہ عطیہ عظمیٰ (نور نبی(ص) و علی(ع)) پاک مَردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے ارحام کی طرف مناکحہ شرعیہ کے ذریعے منتقل ہوتا رہا۔ [3]
شاہ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: "چنانچہ بیہقی در سنن خود از ابن عباس آوردہ کہ فرمود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نزائید مرا از سفاح جاہلیت چیزی نزائید مگر مرا نکاح اسلام"میری خلقت نکاح اسلام سے ہوئی ہے نہ کہ سفاح جاہلیت (زنا) سے۔[4]
خاندان بنی ہاشم کی نسبی و حسبی فضیلت کے بارے میں ام المومنین جناب عائشہ نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت بیان کی ہے کہ آپ(ص) نے فرماتے تھے کہ مجھ سے جبرائیل نے بیان کیا کہ میں نے مشرق و مغرب کو الٹ پلٹ کر دیکھ ڈالا مگر آپ سے افضل کسی شخص کو نہیں پایا اور دنیا کے پورے پورب و پچھّم کو چھان ڈالا، لیکن بنی ہاشم سے افضل کسی خاندان کو نہیں پایا۔ [5]
آپ کے آباء و اجداد صرف عقیدۂ توحید کے قائل ہی نہیں، بلکہ اس کے مروّج اور محافظ تھے۔ ہر دور میں اپنے زمانے کے لوگوں کو مذہب حقّہ کی خوبیوں سے ان حضرات نے روشناس کرایا اس دین کی تبلیغ و اشاعت میں سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہمیشہ اس خاندان نے دین و ایمان کے تحفظ و بقا کے لئے جانی و مالی قربانیاں دیں۔
اللہ کی طرف سے اس خاندان پر ہمیشہ رحمتوں کا نزول ہوتا رہا، ان کو ہر شرف اور فضیلت عطا کی گئی نبوت و رسالت کا منصب بھی دیا اور عصمت و امامت کا شرف بھی آج بھی آپ کا ایک فرزند زمانے کا امام ہے جو پردہ غیب میں ہے، جب حکم خدا ہوگا ظاہر ہو کر ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام ہوگا۔(عجل اللہ فرجہ و سھل اللہ مخرجہ)۔
آپ(ص) کے آباء و اجداد کی شأن اور مختصر حالات زندگی
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) حضرت ابراہیم(ع) کی نسل سے ہیں۔ حضرت ابراہیم(ع) اہواز، بابل یا عراق کے ایک قریہ "کوثہ" میں طوفان نوح (ع)سے ۱۰۸۱ سال بعد پیدا ہوئے جب آپ(ع) کی عمر ۸۶ سال کی ہوئی تو آپ کے ہاں بطن جنابِ ہاجرہ سے حضرت اسماعیل(ع) پیدا ہوئے اور ۹۰ سال کی عمر میں جناب سارہ سے حضرت اسحاق (ع) پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم(ع) نے دونوں بیویوں کو ایک جگہ رکھنا مناسب نہ سمجھ کر جناب سارہ کو حضرت اسحاق کے ساتھ شام میں چھوڑا اور جناب ہاجرہ کو حضرت اسماعیل کے ساتھ حجاز کے شہر مکہ میں بحکم خدا پہنچا آئے۔ اسحاق (ع)کی شادی شام میں اور اسماعیل کی مکہ میں قبیلہ جرہم کی ایک لڑکی سے ہوئے۔ اس طرح اسحاق (ع) کی نسل شام میں اور اسماعیل(ع) کی نسل مکہ میں بڑھی۔ جب ابراہیم(ع) کی عمر ۱۰۰ سال کی ہوئی اور جناب ہاجرہ کا انتقال بھی ہوگیا تو آپ مکہ تشریف لائے اور اسماعیل(ع) کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ تعمیر ہجرتِ نبوی(ص) سے ۲۷۹۳ سال قبل ہوئی تھی۔ انہوں نے خواب کے زریعے بحکم خدا اپنے بیٹے اسماعیل(ع) کو ذبح کرا چاہا تھا۔ جس کے ردّ عمل میں خدا نے دُنبہ بھیج کر فرمایا کہ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ ابراہیم(ع) سنو! ہم نے تمہارے فدیہ (اسماعیل(ع)) کو ذبح عظیم امام حسین(ع) سے بدل دیا ہے۔
اس کے بعد چند باتوں میں آپ(ع) کا امتحان لیا گیا جس میں کامیابی کے بعد آپ(ع) کو درجہ امامت پر فائز کیا گیا۔ آپ(ع) نے خواہش کی کہ یہ عہدہ میری نسل مِں مستقر کردیا جائے۔ ارشاد ہوا: بہتر ہے لیکن تمہاری نسل میں جو ظالم ہوں گے وہ اس سے محروم رہیں گے۔ آپ(ع) کا لقب خلیل اللہ تھا اور آپ(ع) اولو العزم پیغمبر تھے۔ آپ(ع) صاحبِ شریعت تھے اور خدا کی بارگاہ میں آپ(ع) کا یہ درجہ تھا کہ خاتم الانبیاء(ص) کی شریعت کے باقی رہنے کا حکم دیا گیا۔ آپ(ع) نے ۱۷۵ سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور مقام قدس جلیل (خلیل الرحمن) میں دفن کے گئے۔ وفات سے قبل آپ(ع) نے اپنا جانشین حضرت اسماعیل(ع) کو قرار دیا۔ حضرت اسماعیل(ع) کے یہ خصوصی امتیازات ہیں کہ:
۱۔ انہیں کی وجہ سے مکہ آباد ہوا۔
۲۔ چاہ زمزم برآمد ہوا۔
۳۔ حج کعبہ کی عبادت کا آغاز ہوا۔
۴۔ دس ذی الحجہ کو عید قربان کی سنت جاری ہوئی۔
آپ(ع) کا انتقال ۱۳۷ سال کی عمر میں ہوا اور آپ(ع) حجر اسماعیل (مکہ( کے قریب دفن ہوئے۔ آپ(ع) کے بارہ فرزند تھے۔ آپ(ع) کی وفات کے بعد خانہ کعبہ کی نگرانی اور دیگر خدمات آپ(ع) کے فرزند ہی کرتے رہے۔ آپ(ع) کے فرزندوں میں قیدار کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ غرض یہ کہ اولاد حضرت اسماعیل مکہ معظمہ میں بڑھتی اور نشو و نما پاتی رہی، یہاں تک کہ تیسری صدی عیسوی میں ایک شخص "فہر" نامی پیدا ہوا جو انتہائی باکمال تھا۔ اس فہر کی نسل سے پیغمبر اسلام(ص) متولد ہوئے۔ علامہ طریحی کا کہنا ہے کہ اسی فہر یا اس کے دادا نضر بن کنانہ کو قریش کہا جاتا ہے، کیونکہ بحر الہند سے انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی شکار کی تھی جس کو قریش کہا جاتا تھا اور اُسے لا کر مکہ میں رکھ دیا تھا جسے لوگ دیکھنے کے لئے دور دور سے آتے تھے۔ لفظ فہر عبرانی ہے اور اس کے معنی پتھر کے ہیں اور قریش کے معنی قدیم عربی میں "سوداگر" کے ہیں۔
قصی:
پانچویں صدی عیسوی میں ایک بزرگ، فہر کی نسل سے گزرے ہیں جن کا نام "قصی" تھا۔ قصی کا اصل نام زید اور کنیت ابوالمغیرہ تھی۔ ان کے باپ کا نام کلاب اور ماں کا نام فاطمہ بنت سعد اور بیوی کا نام عاتکہ بنت خالخ بن لیک تھا۔ یہ نہایت ہی نامور بلند حوصلہ، جوانمرد اور عظیم الشان بزرگ تھے۔ انہیں زبردست عزت و اقتدار حاصل ہوا۔ یہ نیک چلن، بامروّت، سخی اور دلیر تھے۔ اِن کے خیالات پاک اور بے لوث تھے۔ اِن کے اخلاق بلند، شائستہ اور مہذب تھے۔ ان کی ایک بیوی حبی بنت خلیل خزاعی تھیں۔ یہ خیل بنو خزاعہ کا سردار تھا اس نے وفات کے وقت خانہ کعبہ کی تولیت حبی کو سپرد کردینا چاہی۔ اس نے اس اہم خدمت کو قصی کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ اس طرح قصی بن کلاب اس عظیم شرف کے بھی مالک بن گئے۔ انہوں نے خانہ کعبہ کی مرمّت کرائی اور دار الندوہ بنوایا۔ رفاہ عام کے سلسلہ میں بے شمار خدمات کیں۔ مکہ میں کنواں کھدوایا جس کا نام عجول تھا۔ قصی اگرچہ نبی یا امام نہ تھے، لیکن حاملِ نور محمدی(ص) تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آسمان فضیلت کے آفتاب بن گئے۔
عبدِ مناف: قصی کے چھ بیٹے تھے جن میں عبد الدار سب سے بڑا اور عبد المناف سب سے لائق تھا۔ انہوں نے موت کے وقت بڑے بیٹے کو تمام مناصب سپرد کئے، لیکن عبد مناف نے اپنی لیاقت کی وجہ سے سب میں شرکت حاصل کر لی۔ یہ قریش کے مسلم الثبوت سردار بن گئے۔ عبد مناف کا اصل نام مغیرہ اور کنیت ابو عبد شمس تھی اور ماں کا نام حبی بنت خلیل تھا۔ انہوں نے عاتکہ بنت امرہ سلمیہ بن حلال سے شادی کی۔ انہیں حسن و جمال کی وجہ سے "قمر" ماہتاب کہا جاتا تھا۔
"دیار بکری" کا کہنا ہے کہ عبد مناف کو مغیرہ کہتے تھے۔ وہ تقویٰ اور صلہ رحم کی تلقین کیا کرتے تھے۔ باپ اور بیٹے دونوں ایک ہی عقیدہ پر تھے اور انہوں نے کبھی بُت پرستی نہیں کی تھی۔ یہ بھی اپنے باپ قصی کی طرح بے حد مناقب اور بے شمار فضائل کے مالک اور نورِ محمدی کے حامل تھے۔ انہوں نے ملک شام کے مقامِ غزوہ میں انتقال کیا۔
عبد مناف کے جیتے جی تو کوئی جھگڑا نہیں اٹھا۔ لیکن ان کے بعد اُن کی اولادمیں جن میں ہاشم، مطلب، عبد شمس اوقر نوفل نمایاں حیثیت رکھتے تھے، یہ جذبہ اُبھر پڑا کہ عبد الدار کی اولاد سے وہ مناصب لے لینے چاہئیں جن کے وہ اہل نہیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے بنی عبد الدار سے مناصب کی واپسی یا تقسیم کا سوال کیا تو انہوں نے انکار کردیا۔ اس کے بعد جنگ کا میدان ہموار ہوگیا۔ بالآخر اس بات پر صلح ہوگئی کہ رفادہ سقایہ کی قیادت بنی عبد مناف کے قبضہ میں ہے اور لواء برداری کا منصب بنی عبد الدار کے پاس رہے اور دار الندوہ کی صدارت مشترکہ ہو۔
ھاشم:
آپ کا نام عمرو اور کنیت ابو نفلہ تھی۔ آپ کے والد عبد مناف اور والدہ عاتکہ بنت مرۃ السلمیہ تھیں۔ آپ کو بلند مرتبہ ہونے کی وجہ سے عمرو العلا بھی کہتے تھے۔ آپ اور عبد الشمس دونوں اس طرح جڑواں پیدا ہوئے تھے کہ آپ کے پاؤں کا پنجہ عبد الشمس کی پیشانی سے چپکا ہوا تھا جسے تلوار کے ذریعہ سے علیحدہ کیا گیا اور بے انتہا خون بہا، جس کی تعبیر نجومیوں نے باہمی خونریز جنگ سے کی جو بالکل صحیح اتری اور دونوں خاندانوں کے درمیان ہمیشہ جنگ متوارث رہی جس کا اختتام ۱۳۳ ہجری میں ہوا۔ بنی عباس (ہاشمی) اور بنی امیہ (شمسی) میں ایسی خونریز جنگ ہوئی جس نے بنی امیہ کی قوت و طاقت اور بلندی اقبال کا چراغ ہمیشہ کے لئے بجھا دیا۔
آپ فطرتاً سیر چشم اور فیاض تھے۔ دولت مندی میں بھی بڑی حیثیت کے مالک تھے۔ حجاج کی خدمت، آپ کی زندگی کا کارنامہ تھا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ آپ کو ہاشم اس لئے کہتے ہیں کہ آپ نے ایک شدید قحط کے موقع پر اپنی ذاتی دولت سے شام جا کر بہت کافی کیک خریدا تھا اور اسے لا کر تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ اسے شوربا میں توڑ کر کھا جاؤ۔ ہشم کے معنی توڑنے کے ہیں، لہذا ہاشم کہے جانے لگے۔
آپ نے اپنی شادی اپنے خاندان کی ایک لڑکی سے کی، جس سے حضرت اسد پیدا ہوئے۔ دوسری شادی خزرجیوں کے ایک مشہور قبیلہ بنی عدی ابن نجار، یثرب (مدینہ) کی نجیب الطرفین دختر سے کی۔ اُسی کے بطن سے ایک باوقار لڑکا پیدا ہوا جو آگے چل کر عبد المطلب شیبۃ الحمد سے پکارا گیا۔ عبد المطلب ابھی دودھ ہی پیتے تھے کہ جناب ہاشم کا انتقال ہوگیا۔ آپ کی اولاد کے متعلق حضرت جبرئیل کا کہنا ہے کہ میں نے مشرق و مغرب کو چھان کر دیکھا ہے کہ محمد مصطفی (ص) سے بہتر کوئی نہیں ہے اور بنی ہاشم سے بہتر کوئی خاندان نہیں ہے۔ جناب ہاشم نے ۵۱۰ ء میں بمقام غزوہ شام میں انتقال فرمایا۔
جنابِ اسد:
آپ حضرت ہاشم کے بڑے بیٹے تھے۔ آپ کی ولادت ۴۹۷ء سے قبل ہوئی تھی۔ آپ میں انسانی ہمدردی بحدِ کمال پہنچی ہوئی تھی۔ علامہ اہلسنّت فخر الدین رازی کا بیان ہے کہ جناب اسد نے ایک دن اپنے ایک دوست کو سخت بھوکا پا کر (جو بنی خزوم سے تھا) اپنی والدہ سے کہا کہ اس کے لئے کھانے کا بند و بست کرو۔ انہوں نے پنیر اور آٹا وغیرہ کافی مقدار میں اس کے گھر بھجوا کر اُسے سکون بخشا۔ پھر اِسی واقعہ سے متاثر ہو کر جنابِ ہاشم نے اہل مکہ کو جمع کیا اور ان میں تجارت کا جذبہ و شوق پیدا کیا۔ اسد کے معنی شیر کے ہیں۔ ابن خالویہ کا یہ کہنا ہے کہ "شیر" کے پانچ سو نام ہیں جن میں ایک اسد بھی ہے۔ شیر بھوک اور پیاس پر صابر ہوتا ہے۔ علامہ طریحی کا کہنا ہے کہ شیر کی اولاد کم ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت اسد کی اولاد کم تھی، بلکہ اولاد ذکور مفقود اور غالباً صرف فاطمہ بنت اسد ہی تھیں جو بعد میں حضرت علی(ع) کی والدہ گرامی قرار پائیں۔
جناب عبد المطلب:
آپ حضرت ہاشم کے نہایت جلیل القدر صاحبزادے تھے۔ والد کا انتقال بچپنے میں ہی ہوچکا تھا۔ پرورش کے فراض آپ کے چچا مُطَّلِب کی کنار عاطفت میں ادا ہوئے اور خوش قسمتی سے آخر میں عرب کے سب سے بڑے سردار قرار پائے۔ آپ کے والد ہی کی طرح آپ کی والدہ بھی (جن کا نام سلمیٰ تھا) شرافت و عظمت میں انتہائی بلندی کی مالک تھیں۔ جناب عبد المطلب کا ایک نام شیبۃ الحمد بھی تھا، کیونکہ آپ کی ولادت کے وقت آپ کے سر پرسفید بال تھے اور شیب، سر کی سفیدی کو کہتے ہیں۔ حمد سے اسے مضاف اس لئے کیا کہ آگے چل کر بے انتہا ممدوح ہونے کی ان میں علامتیں دیکھی جا رہی تھیں۔ آپ سنِ شعور تک پہنچتے ہی جناب ہاشم کی طرح نامور اور مشہور ہوگئے۔ آپ نے اپنے آباؤ و اجداد کی طرح اپنے پر شراب حرام کر رکھی تھی اور غارِ حراء میں بیٹھ کر عبادت کرتے تھے۔ آپ کا دسترخوان اتنا وسیع تھا کہ انسانوں کے علاوہ پرندوں کو بھی کھانا کھلایا جاتا تھا۔ مصیبت زدوں کی امداد اور غریبوں کی خبرگیری ان کا خاص شیوہ تھا۔ آپ نے بعض ایسے طریقے رائج کئے جو بعد میں مذہبی نقطۂ نظر سے انسانی زندگی کے اصول بن گئے۔ مثلاً ایفاء نذر، نکاح محارم سے اجتناب، دختر کشی کی ممانعت، خمر و زنا کی حرمت اور چور کے ہاتھ کا کاٹنا۔ عبد المطلب کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے چاہ زمزم کو جو مرورِ زمانہ سے بند ہوچکا تھا، پھر کھدوا کر جاری کیا۔
آپ کے عہد کا اہم واقعہ کعبہ معظمہ پر لشکر کشی ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ ابرہۃ الاشرم یمن کا عیسائی بادشاہ تھا۔ اس میں مذہبی تعصب بے حد تھا۔ خانہ کعبہ کی عظمت و حرمت دیکھ کر آتشِ حسد سے بھڑک اٹھا اور اس کے وقار کو گھٹانے کے لئے مقامِ "صنعا" میں ایک عظیم الشان گرجا بنوایا۔ مگر اس کی لوگوں کی نظر میں خانہ کعبہ والی عظمت نہ پیدا ہوسکی تو اس نے کعبہ کو گرانے کا فیصلہ کیا اور اسود بن مقصود حبشی کی زیر سرکردگی بہت بڑا لشکر، مکہ کی طرف روانہ کردیا۔ قریش، کنانہ، خزاعہ اور ہذیل پہلے تو لڑنے کے لئے تیار ہوئے۔ لیکن لشکر کی کثرت دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے اور مکہ کی پہاڑیوں میں اہل و عیال سمیت جا چھُپے۔ مگر عبد المطلب اپنے چند ساتھیوں سمیت خانہ کعبہ کے دروازے میں جا کھڑے ہوئے اور کہا: مالک تیرا گھر ہے اور صرف تو ہی بچانے والا ہے۔ اسی دوران میں لشکر کے سردار نے مکہ والوں کے کھیت سے مویشی پکڑے جن میں عبد المطلب کے دو سو اونٹ بھی تھی۔ الغرض ابرہہ نے حناط حمیری کو مکہ والوں کے پاس بھیجا اور کہا کہ ہم تم سے لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا ارادہ صرف کعبہ کو گرانے کا ہے۔ عبد المطلب نے پیغام کا یہ جواب دیا کہ ہمیں بھی لڑنے سے کوئی غرض نہیں اور اور اس کے بعد عبد المطلب نے ابرہہ سے ملنے کی درخواست کی۔ اُس نے اجازت دی تو یہ داخلِ دربار ہوئے۔ ابہہ نے خیر مقدم کیا اور ان کے ساتھ تخت سے اتر کر فرش پر بیٹھا۔ عبد المطلب نے دوران گفتگو میں اپنےاونٹوں کی رہائی اور واپسی کا سوال کیا۔ اس نے کہا تم نے اپنے آبائی مکان "کعبہ کے لئے کچھ نہیں کہا؟ انہوں نے جواب دیا: "انا رب الابل و للبیت رب سیمنعہ"۔ میں اونٹوں کا مالک ہوں اپنے اونٹ مانگتا ہوں جو کعبہ کا مالک ہے اپنے گھر کو خود بچائے گا۔ عبد المطلب کے اونٹ ان کو مل گئے اور وہ واپس آگئے۔ غرض یہ کہ ابرہہ عظیم الشان لشکر لے کر خانہ کعبہ کی طرف بڑھا اور جب اس کی دیواریں نظر آنے لگیں تو دھادا بول دینے کا حکم دے دیا۔ خدا کا کرنا دیکھئے کہ جیسے ہی گستاخ و بیباک لشکر نے قدم بڑھایا مکہ کے غربی سمت سے خداوند عالم کا ہوائی لشکر"ابابیل" کی صورت میں نمودار ہوا۔ ان پرندوں کی چونچ اور پنجوں میں ایک ایک کنکری تھی۔ انہوں نے یہ کنکریاں ابرہہ کے لشکر پر برسانا شروع کیں۔ چھوٹی چھوٹی کنکریوں نے بڑی بڑی گولیوں کا کام کر کے سارے لشکر کا کام تمام کردیا۔ ابرہہ جو محمود نامی سرخ ہاتھی پر سوار تھا، زخمی ہو کر یمن کی طرف بھاگا، لیکن راستہ ہی میں واصلِ جہنم ہوگیا۔چونکہ ابرہہ ہاتھی پر سوار تھا اور عرب نے اس قبل ہاتھی نہ دیکھا تھا نیز اس لئے کہ بڑے بڑے ہاتھیوں کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کی ننّھی ننّھی کنکریوں سے بحکم خدا تباہ کر کے خدا کے گھر کو بچا لیا اس لئے اس واقعہ کو ہاتھی کی طرف منسوب کیا گیا اور اسی سے سنہ عام الفیل کہا گیا۔
مہندی کا خضاب عبد المطلب نے ایجاد کیا۔ ابن ندیم کا کہنا ہے کہ آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک خط مامون رشید کے کتب خانہ میں موجود تھا۔
جناب عبد اللہ:
آپ جناب عبد المطلب کے بیٹے تھے۔ کنیت ابو احمد تھی۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا جو عمر بن صائد بن عمر بن مخذوم کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کے کئی بھائی تھے جن میں ابوطالب کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ جناب عبد اللہ ہی و عظیم المرتبت بزرگ ہیں جن کو ہمارے نبی کریم(ص) کے والد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نہایت متین، سنجیدہ اور شریف طبیعت کے انسان تھے اور ن صرف جلالتِ نسب بلکہ مکارمِ اخلاق کی وجہ سے تمام جوانانِ قریش میں امتیاز کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ محاسنِ اعمال اور شمائل مطبوع میں فرد تھے۔ حرکات موزوں اور لطف و گفتار میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے۔ جناب عبد المطلب آپ کو سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عبد المطلب نے یہ نذر مانی کہ اگر خدا نے مجھے دس بیٹے دیئے تو میں ان میں سے ایک راہ خدا میں قربان کردوں گا۔ اور اس کی تکمیل میں عبد اللہ کو ذبح کرنے چلے، لوگوں نے پکڑ لیا اور کہا کہ آپ قربانی کے لئے قرعہ ڈالیں۔ چنانچہ بار بار جناب عبد اللہ کے ذبح پر ہی قرعہ نکلتا رہا۔ عبد حضرت عبد المطلب نے سخت اصرار کے ساتھ انہیں ذبح کرنا چاہا، لیکن اونٹوں کی تعداد بڑھا کر قرعہ کے لئے ۱۰۰ تک لے گئے۔ بالآخر تین بار عبد اللہ کے مقابلہ میں ۱۰۰ اونٹوں پر قرعہ نکلا اور عبد اللہ ذبح سے بچ گئے۔
اس کے بعد آپ کی شادی قبیلہ زہرا میں وہب ابن عبد مناف کی صاحبزادی "آمنہ" سے ہوگئی۔ شادی کے وقت جناب عبد اللہ کی عمر تقریباً ۱۸ سال کی تھی۔ آپ نے ۲۸ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ آپ مکہ سے بسلسلہ تجارت مدینہ تشریف لے گئے تھے۔ وہیں آپ کا انتقال ہوگیا اور آپ مقامِ ابوأ میں دفن کئے گئے۔ آپ نے ترکہ میں اونٹ، بکریاں اور ایک لونڈی چھوڑی جس کا نام "برکت" اور عرف ام ایمن تھا۔
حضرت ابوطالب: آپ حضرت ہاشم کے پوتے، عبد المطلب کے بیٹے اور جناب عبد اللہ کے سگے بھائی تھے۔ آپ کا اصلی نام عمران تھا۔ کنیت ابوطالب تھی۔ آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت عمرو مخزومی تھیں۔ شمس العلماء نذیر احمد کا کہنا ہے کہ آپ عبد المطلب کی اولاد ذکور میں سب سے زیادہ باوقار اور عقلمند تھے۔
عبد المطلب(ع) کے بعد پیغمبر اسلام (ص)کی پرورش آپ نے شروع کی اور تا حیات اُن کی نصرت و حمایت کرتے رہے۔ مولوی شبلی کا کہنا ہے کہ ابوطالب(ع) کا یہ طریقہ تا زیست رہا کہ آنحضرت(ص) کو اپنے ساتھ سلاتے تھے اور جہاں جاتے تھے ساتھ لے جاتے تھے۔ کفار قریش اور اشرار یہود سے آپ نے آنحضرت(ص) کی حفاظت کی اور انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنے دیا۔ مورّخ ابن اثیر کا کہنا ہے کہ سفر شام کے موقع پر ایک راہب کی نظر آپ(ص) پر پڑی۔ اس نے اِن میں بزرگی کے آثار دیکھے اور ابوطالب(ع) سے کہا کہ انہیں جلد واپس وطن لے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ انہیں یہود قتل کر ڈالیں۔ ابوطالب(ع) نے اپنا سارا سامانِ تجارت فروخت کر کے وطن کی راہ لی۔
مورّخ دیار بکری کا کہنا ہے کہ حضرت محمد مصطفی (ص)، جناب ابوطالب(ع) کی تحریک سے جناب خدیجہ(ع) کا مال برائے فروخت شام کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ چند دنوں میں خدیجہ(ع) نے شادی کی خواہش کی اور نسبت ٹھہر گئی۔
جناب ابوطالب(ع) نے آنحضرت(ص) کی طرف سے خطبۂ نکاح پڑھا۔ جناب ابوطالب(ع) کے خطبہ کی ابتدا اِن لفظوں سے ہے: "الحمد لله الذی جعلنا من ذریة ابراهیم" تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں ذریت ابراہیم(ع) میں قرار دیا۔ چار سو سرخ دینار پر عقد ہوا۔ عقد نکاح کے بعد "فرح ابوطالب فرحاً شدیداً" حضرت ابوطالب(ع) بہت ہی خوش ہوئے۔
علامہ طریحی کا بحوالہ امام جعفر صادق علیہ السلام کہنا ہے کہ ابوطالب(ع) ایمان کے تحفّظ میں اصحاب کہف کے مانند تھے۔
شمس العلماء نذیر احمد کا کہنا ہے کہ عبد المطلب اور ابوطالب دین فطرت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔
اہلسنّت کے علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ "ان ابا النبی لم یکن فیھم مشرک" آنحضرت(ص) کے آباؤ و اجداد میں ایک شخص بھی مشرک نہیں تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ اے نبی(ص)! ہم نے تم کو سجدہ کرنے والوں کی پشت میں رکھا۔
علامہ شبلی کا کہنا ہے کہ ابوطالب وصال کے وقت بھی کلمہ پڑھ رہے تھے۔ لیکن بخاری کی ایک ایسی مرسل روایت کی بناء پر جس میں مسیّب شامل ہے انہیں غیر مسلم کہا جاتا ہے، جو قابلِ صحت اور لائق تسلیم روایت نہیں ہے۔غرض یہ کہ آپ کے مومن اور مسلمان ہونے پر منصف مؤرخین کا اتفاق ہے۔
جناب ابوطالب کے دو شعر قابل ملاحظہ ہیں:
و دعوتنی و علمت انک صادق
و لقد صدقت فکنت قبل امین
و لقد علمت بان دین محمد
من خبر ادیان البریۃ دین
اے محمد(ص)! تم نے مجھے اسلام کی طرف دعوت دی اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ(ص) یقیناً سچے ہیں کیونکہ آپ(ص) اس عہد نبوت کے اظہار سے قبل بھی لوگوں کی نظر میں سچے رہے ہیں۔ میں اچھی طرح جانے ہوئے ہوں کہ اے محمد(ص)! آپ(ص) کا دین، دنیا کے تمام ادیان سے بہتر ہے۔
واضح رہے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کے انتقال کے سال کو رسول اللہ(ص) نے "عام الحزن" سے موسوم کردیا تھا۔
[1] مسالک الخلفاء: ص۱۹ از تاریخ ائمہ
[2] ارجح المطالب: ص۵۲۸
[3] حبیب السیر: ص۱
[4] مدارج النبوۃ: ج۲، ص۶
[5] مدارج النبوۃ: ج۲، ص۶، تاریخاحمدی: ص۶
source : http://www.alhassanain.com