اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

فتح حسین کی اور شکست یزید(لع)کی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب سے انسان کی تاریخ شروع ہوئی ہے دو مختلف مکاتب فکر وجود میں آئے ہیںایک حق کا شیدائی اور دوسرا باطل کا دلدادہ ان دونوں گروہوں میں ازل سے معرکہ آرائی چلی آرہی ہے اور اس معرکہ میں ظاہری طور پر کبھی باطل کا غلبہ رہا اور کبھی حق کی کامیابی رہی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں حق کے حامی اور حق پرست کی تعداد بہت ہی کم رہی ہے اور اس کے بر خلاف باطل کے پیروکار اور طالب دنیا کثرت سے پائے گئے ہیں ۔

شریعت اور حدود الٰہی سے خارج ہونے والوں اور بے ایمانوں کی تعداد زیادہ رہی ہے اور صاحبان ایمان کی تعداد کم ''فَقَلِیْلاً مَّا یُؤمِنُوْنَ''(١)''فَلاَ یُؤْمِنُونَ اِلاَّ قَلِیْلاً''(٢) اور انہوں نے حق کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے

جب حق اور باطل کے درمیان غیر منصفانہ جنگ ہوئی کیونکہ حق کی تعداد بہت کم اور باطل کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے تو اس معرکہ میں باطل کی کثرت ،افراد اور جدید اسلحوں سے لیس ہونے کی وجہ سے کامیاب رہی اور حق کے پیرو کارمغلوب رہے ۔

اہل حق کی قلت کی دلیل یہ ہے کہ حق ہمیشہ تلخ ہوا کرتا ہے لہٰذا اس کے پیروکار بہت کم ہوتے ہیں اور باطل شیریں ہوتا ہے تو اس کی طرف جذب ہونے والے زیادہ ہوتے ہیں ۔

چنانچہ پیغمبر اکرمۖ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''اَلْحَقُّ ثَقْیْل مُرّوَ الْبَاطِلُ خَفِیْف حُلْو''(3)حق بھاری اور تلخ ،لیکن باطل ہلکا اور شیریں ہوتا ہے ۔

ظاہری طور پر اولیاء اللہ ،انبیاء اور ائمہ ہی مغلوب رہے ہیں اور ان کے دشمن غالب رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آیا دشمنان دین اور دشمنان اسلام حقیقت میں کامیاب تھے اور ہیں ؟ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ حقیقی کامیابی اور فتح وظفر کیا ہے ؟اگر آپ عوام اور معاشرہ کے افراد سے سوال کریں کہ فتح و کامیابی کسے کہتے ہیں ؟تو وہ لوگ جواب دیں گے :غالب وہ گروہ ہے جو اپنے مقابل گروہ کو مغلوب کرے اور اس کو نابود کر ڈالے ۔لیکن قرآن مجید کی روشنی میں حق ہمیشہ رسول ۖ اور ائمہ کے ساتھ ہے ''کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلَبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِی عَزِیْز''(4)

''اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آنے والے ہیں بیشک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے''

علامہ جوادی(رہ)اسی آیت کے حاشیہ میں بیان فرماتے ہیں :یہ ایک وعدہ الٰہی ہے جو ہر دور میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور یقینا آخری غلبہ اور قانون خدا اور رسول ہی کیلئے باطل کا غلبہ ایک لمحہ ہے اور حق کا اقتدار ایک ابدی حقیقت اور دائمی حیثیت رکھتا ہے جس کیلئے مثل مشہور ہے کہ ''للباطل جولہ وللحق دولہ''باطل ایک جولانی اور وقتی حقیقت ہے اور حق ایک دولت اور اقتدار رکھتا ہے ۔

واقعہ کربلا کو دیکھیں ،ایک طرف اموی لشکر کی تیس ہزار فوج اور دوسری طرف امام حسین اپنے٧٢ اصحاب و انصار کے ساتھ اس جنگ ومعرکہ میں بظاہر بنی امیہ کو فتح ہوئی اور انہوں نے فرزند بنی ہاشم کو تہہ تیغ کر ڈالا ،عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا دیا اور بہت جلد انہیں حکومت ملی ،اپنی خواہشات کوتکمیل کرنے کا موقع ملا ،مال ومتاع دنیا تک پہنچے لیکن یہ انکی کامیابی اور ان کا غلبہ شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بہت جلد ان ظاہری فائدوں تک پہنچے لیکن مختصر مدت میں ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور شرمندگی،ننگ وعار،کے سوا ان کیلئے کچھ باقی نہیں رہا 

معرکہ حسینی میں اگرچہ اصحاب حسینی کی تعداد بہت کم تھی اور ان کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن اس میدان میں حقیقی کامیابی حسین کو ہوئی اور بنی امیہ اور یزیدیوں کو سوائے ذلیل وخوار اوررسوا ہونے کے کچھ اور نصیب نہیں ہوا کل حسین پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد جشن وسرور منانے والوں کا آج نام اور اثر تک باقی نہیں ہے لیکن جو گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے کچلے گئے جن کے پاکیزہ جسموں پر گھوڑے دوڑائے گئے جنکی مخدرات عصمت اسیر بنائی گئیں وہ آج ہر دل عزیز ،ہر آنکھ کا تارا ہر انقلاب کا سر چشمہ نظر آرہے ہیں اور بام عزت و عظمت پر جلوہ افروز ہیں۔

امام اپنے مقاصد میں کامیاب

کامیاب وہ نہیں ہے جو دوسرے کا حق چھین کر کچھ دنوں کیلئے تخت حکومت پر بیٹھ جائے اور غریب لوگوں کا خون چوستا رہے بلکہ کامیاب وہ ہے جو نیک اور مقدس ہدف لیکر میدان میں نکلے اوراس مقصد کو جامہ عمل پہنا سکے ۔

روز عاشورکے اس معرکہ میں حق و باطل کی تعداد سے قطع نظر کرتے ہوئے دیکھا جائے تو ہدف اور مقصد کے لحاظ سے امام حسین اور یزیدی گروہ میں فرق نظر آتا ہے دشمن اور یزیدیوں کا مقصد دین و شریعت کو ختم کرنا ،وحی و رسالت کو ٹھکرا دینا تھا انکا سارا مقصد اسلام کو مٹانا دین کو پامال کرنا بیت المال کو لوٹنا شریعت کو کھلونا بنانا اور لاالہ الا اللہ محمدۖرسول اللہ کی آواز کوبند کرنا تھا لہٰذا ان کے پاس دین و شریعت کو مٹانے کیلئے دین کے سچے محافظ اور ناصر کو شہید کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔

لیکن امام حسین کا مقصد امت کی اصلاح ،دین کا احیاء ،امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو اجرأکرنا تھا آپ اپنے مقصد قیام کو یوں بیان کرتے ہیں :''واللہ انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولا ظالما ،انما خرجت لطلب الاصلاح فی امت جدی ،ارید ان آمر بالمعروف وانھی عن المنکر،واسیر بسیرة جدی وابی''(5)خدابہتر جانتا ہے کہ میرا قیام نہ کسی فائدہ کی لالچ میں ہے نہ کسی غرور و تکبر کی بنیاد پر ہے نہ میں سر زمین خدا میں فساد برپا کرنا چاہتا ہوں اور نہ بندگان خدا پر ظلم کرنا چاہتا ہوں میں صرف اور صرف اس لئے وطن چھوڑ کر نکلا ہوں کہ میں اپنے جد کی امت کی اصلاح چاہتا ہوں نیز لوگوں کو نیکیوں کا حکم دینا اور انہیں برائیوں سے روکنا چاہتا ہوں اور میں اسی راہ کا مالک ہوں جومیرے جد اور میرے بابا کی تھی ۔

امام کا مقصد امت کی اصلاح کرنا ہے اور امت کی اصلاح کرنا بہت ہی ضروری ہے۔

''اصلاح طلبی ایک اسلامی نعرہ ہے ہر مسلمان، مسلمان ہونے کے ناطے اصلاح طلب ہوتا ہے کیونکہ اصلاح طلبی پیغمبروں کی روش اور انکی شان ہے اور اصلاح طلبی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایک مصداق بھی ہے ''

اسی طرح امام حسین فرماتے ہیں :

''اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ لَمْ یَکُنْ مَا کَانَ مِنَّا تَنَافُساً فِی سُلْطَانٍ وَلَا اِلْتِمَاساً مِنْ فُضُوْلِ الْحِطَامِ وَلٰکِنْ لَنَریٰ الْمَعَالِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَ نُظْھِرُ الْاِصْلاَحَ فِی بِلاَدِکَ وَیَا مَنْ اْلْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبَادَتِکَ''(6)

''با ر الہا!تو جانتا ہے کہ میں قدرت کی کرسی تک پہنچنے اور مال دنیا کو حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہوں ،بلکہ میرا مقصد تیرے دین کی نشانیوں کو ظاہر کرنا اور تیری سر زمین میں اصلاح کرنا ہے تاکہ تیرے مظلوم اور ستمدیدہ بندے امن و امان میں رہیں۔''

شہید مطہریلکھتے ہیں :امام حسین علیہ السلام ایک مصلح(اصلاح کرنے والا)تھے اور یہ خود امام کا کلام ہے........ میرا قیام مصلحانہ (نہ مسلحانہ )ہے میں اپنے جد کی امت کا ایک مصلح ہوں میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا ہے میرا مقصد رسول خدا ۖاور بابا علی مرتضیٰ (ع) کی سیرت کو اجا گر کرتے ہوئے زندہ کرنا ہے پیغمبر ۖ اور علی کی سیرت نابود ہو چکی ہے لہٰذامیںاسکو زندہ کرنا چاہتا ہوں ۔(7)

اصلاح کی ضرورت

جب بھی کسی مکتب فکر یا دین میں کہیں غیر دینی تعلیمات اور غیر شرعی احکام کو داخل کیا جاتا ہے یا دین کے بعض احکامات کو دین سے خارج کیا جاتا ہے اور لوگ اسی کو دین سمجھ کر عمل کرنے لگتے ہیں توحق وباطل کی ملاوٹ شروع ہو جاتی ہے اور بدعتوں کو دین کا جزء بنادیا جاتا ہے تو اس وقت اصلاح کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس کی اصلاح اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کیلئے عظیم قربانیاں دینی پڑتی ہیں

حسین بن علی نے دیکھا کہ سیرت رسول اور سیرت علی پامال ہو رہی ہے بدعتیں علی الاعلان ایجاد کی جا رہی ہیں اور اس پر عمل در آمد ہو رہا ہے وحی و رسالت کو بنی ہاشم کا کھیل سمجھ رہے ہیں دین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے۔

اَلاَ تَرَوْنَ اَنَّ الْحَقَّ لاَ یُعْمَلُ بِہ وَاَنَّ الْبَاطِلَ لَا یُتَنَاھِیْ عَنْہُ (8)

سنت رسول ۖ کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور بدعتوں کو زندہ کیا جا رہا ہے ''فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْ اُمِیْتَتْ وَاِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْ اُحِیْیَتْ''(9) جب یہ حالات دیکھے تو امام نے اصلاح کیلئے قدم اٹھایا اور اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے بدعتوں کا مقابلہ کیا دین کونابود ہونے سے بچایا وحی کی حفاظت کی سیرت پیغمبر ۖ اور علی کو زندہ کیا اور حق پر عمل کیا اور باطل کو منہ توڑ جواب دے کر اسلام کو نئی اورابدی زندگی دی۔

٢۔ جوانمردی کے میدان میں بھی امام کامیاب

جنگ کے قواعد و ضوابط یہ ہیں کہ مقابلہ تن بہ تن ہو عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کا لحاظ کیا جائے بیمار افراد کا خیال رکھا جائے شہدا کے لواحقین کے ساتھ نیک اور اچھا سلوک کیا جائے انہیںاسیر نہ کیا جائے اسلامی اصولوں کی پابندی کی جائے شہدا کے جسم سے لباس نہ اتارا جائے اموال کو غارت نہ کیا جائے خیموں میں آگ نہ لگائی جائے لیکن کربلامیں یہ سب کچھ ہوا۔

خیمے جلائے گئے اہل حرم کی گردن میں طوق،ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، اور پیروں میں بیڑیاں پہنائی گئیں بیمار کا خیال نہ رکھا گیا عورتوں اور بچوں کو اسیر کر لیا گیا امام حسین اور بنی ہاشم اور اصحاب کے سروں کو تن سے جدا کر دیا گیا سروں کو تیروں پر اور بیبیوں کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کیا گیا اہل بیت کی توہین کی گئی شراب کا نجس قطرہ چہرہ اقدس امام پر پھینکا گیا بوسہ رسول ۖ کی جگہ پر لکڑی کی ضرب لگائی گئی یہ سب یزیدیوں کی خراب کاریاں اور انسانیت سے دور اور نازیبا حرکتیں تھیں اور اس طریقے سے اپنی نا جوانمردی کا ثبوت دیا۔

لیکن مولا حسین جس پر خدا اور تمام عالمین کا درود و سلام ہو ،انہوں نے جوانمردی پر کبھی ضرب آنے نہیں دیا اور ہمیشہ اسلامی اور دینی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے جوانمردی کا ثبوت دیا ،مصائب اٹھائے ،مشقتیں برداشت کیں ،ناروا باتیں سنیں ،لیکن اپنے کو دائرہ دین و شریعت سے خارج ہونے نہیں دیا ،یہ بھی امام حسین کی ایک اور کامیابی ہے ۔

*******

١۔ بقرہ/ ٨٨

٢۔ نساء /٤٦

3۔ بحار الانوار، جلد ٧٤،ص٨٢

4۔ مجادلہ/ ٢١

5۔ بحار ،ج ٤٤،ص٣٢٩

6۔ تحف العقول، ص١٧٢

7۔ مجموعہ آثار ،ج ١٧،ص١٨٨

8۔ بحار، ج٤٤،ص٣٨١

9۔ فرہنگ جامع امام حسین، ص٣٥٦

 

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حیات طیبہ یا پاکیزہ زندگی (۱) / امام سجاد علیہ ...
حضرت امام علی علیہ السلام
ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(

 
user comment