بعض اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر غیبت صغریٰ کا خاتمہ کیوں ہوگیا؟ اگر غیبت صغریٰ کا سلسلہ چلتا رہتا اور امام پوری غیبت کے دوران امور کی نگرانی اور عوام الناس کی ہدایت کے لئے نائب خاص مقرر فرماتے رہتے تو کیا حرج تھا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام کی غیبت سے متعلق طریقہ کار کا تعین خداوندعالم نے فرمایا ہے اور امام کی ذمہ داری اسی معینہ طریقہ ٴ کار کو اختیار کرنا ہے۔،جب دلائل کے ذریعہ امامت کا اثبات ہوچکا ہے تو اس کے بعد نظام اور طریقہٴ کار کے بارے میں کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی، امام بھی حکم الٰہی اور روش خدواندی کا مطیع ہوتا ہے، کسی شئے کی علت یا سبب دریافت کرنا درحقیقت تسلیم وبندگی اور عبودیت کے منافی ہے، گذشتہ مقالات سے یہ بات بخوبی واضح ہوچکی ہے کہ غیبت سے متعلق تمام سوالات واعتراضات ایک ہی طرح کے ہیں اور ان میں کوئی سوال ایسا نہیں ہے کہ اگر اس کا جواب معلوم نہ ہوسکے تو کوئی بہت بڑی خرابی لازم آئے گی۔
بہرحال اگر مزید معرفت اور حصول بصیرت کے لئے ایسا سوال کیا جاتا ہے تو اس کے جواب کے لئے ہمیں اس سوال کو دو سوالوں میں تقسیم کرنا ہوگا:
۱۔کیوں امام کےلئے دو غیبتیںرکھی گئیں اور ابتدا ہی سے غیبت کبریٰ کا سلسلہ کیوں شروع نہ ہوا؟
۲۔غیبت صغریٰ کے آغاز اور نواب خاص کی تعیین کے بعد یہ سلسلہ کیوں ختم ہوگیا؟ اگر غیبت صغریٰ کا سلسلہ ہی جاری رہتا تو کیاقباحت تھی؟
پہلے سوال کا جواب
۱۔غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ کا مقدمہ تھی اور غیبت صغریٰ کے ذریعہ ہی غیبت کبریٰ کے مقدمات فراہم کئے گئے ابتداء میں لوگوں کے لئے غیبت نامانوس چیز تھی ان کے ذہن غیبت کے تصور سے ناواقف تھے، اگرچہ امام علی نقی وامام حسن عسکری کے دور میں کبھی کبھی ایسے نمونے نظرآتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگوار ذہنوں کو غیبت سے مانوس کرنے کے لئے کچھ وقت کے لئے نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے لیکن مکمل غیبت کبھی سامنے نہ آسکی ایسے میں اگر اچانک پہلی ہی منزل میں غیبت کبریٰ اختیار کرلی جاتی تو لوگوں کی حیرت واستعجاب بلکہ وحشت وانکار کا باعث اور انحراف و گمراہی کے اسباب کی موجب ہوتی، امام سے اچانک مکمل رابطہ قطع ہوجانا (جیسا کہ غیبت کبریٰ میں ہوا ہے) اکثر افراد کے لئے سخت دشوار اور تکلیف دہ ہوتا۔
اسی لئے تقریبا ۷۰/سال تک نواب خاص کے ذریعہ لوگوں کا رابطہ امام کے ساتھ قائم رہا اور مومنین نوابین خاص کے ذریعہ اپنے مسائل ومشکلات امام زمانہ کی خدمت میں پیش کرکے ان کاجواب حاصل کرتے تھے، امام کی جانب سے توقیعات لوگوں تک پہنچتی تھیں،بہت سے خوش نصیب افراد کو آپ کی خدمت میں شرفیابی کا موقع ملا اور اس طرح دھیرے دھیرے لوگ غیبت سے مانوس ہوتے رہے۔
۲۔ابتدا میں نواب خاص کے ذریعہ رابطہ اور بہت سے افراد کا آپ کی زیارت سے شرفیاب ہونا آپ کی ولادت اور حیات طیبہ کے اثبات کے لئے مفید بلکہ لازم اور ضروری تھا، اگر آپ کے معاملات مکمل طور پر پوشیدہ رکھے جاتے کہ کسی کو بھی آپ کی ولادت تک کا علم نہ ہوتا تو اس سے فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچتا لوگ آپ کے وجود اقدس کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتے اسی لئے امام حسن عسکری کی حیات طیبہ میں اور غیبت صغریٰ کے دوران بھی بہت سے مخصوص افراد کو آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اورحضرت کے دست مبارک سے معجزات ظاہر ہونے کے باعث ایسے خوش نصیب افراد کا ایمان اور مستحکم ہو گیا۔
دوسرے سوال کا جواب
۱۔غیبت صغریٰ کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اصل طریقہٴ کار غیبت کبریٰ ہی تھا اور غیبت صغریٰ تو صرف مقدمہ کے طور پر اختیار کی گئی تھی تاکہ ذہن مانوس ہوجائیں اور غیبت کبریٰ کے مقدمات فراہم ہوجائیں۔
۲۔اگر یہ مسلم ہو کہ نائب خاص کا حکم نافذ نہ ہوگا اسے قدرت ظاہری حاصل نہ ہوگی اور وہ مکمل طریقہ سے امور میں مداخلت نہ کرسکے گا بلکہ دیگر طاقتیں اور حکام وقت اپنی تمام تر توجہات اسی کی طرف مرکوز کرکے اس کے کام میں رکاو ٹ ڈالتے رہیں گے اس کے ساتھ ٹکراؤ جاری رہے گا تو ایسی صورت میں اقتدار کی ہوس رکھنے والے موقع پرست افراد بھی نیابت خاصہ کا دعویٰ کرکے گمراہی کے اسباب فراہم کردیں گے جیسا کہ غیبت صغریٰ کی مختصر مدت میں ہی دیکھنے میں آیا کہ نہ معلوم کتنے افراد نیابت خاصہ کے دعوے دار ہوگئے، یہ چیز بذات خود ایک مفسدہ ہے جس کا دور کرنا ضروری ہے کہ اس مفسدہ کو دور کرنے کی مصلحت، نائب خاص کی تعیین سے اگر زیادہ نہ بھی ہو تو کم بھی نہیں ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ غیبت کے ابتدائی دور کے مصالح سے قطع نظر،نیابت خاصہ کا تسلسل اور ایسے نائبین خاص جن کے اختیارات محدود ہوں ،اورنفاذ حکم کی کوئی صورت نہ ہو اور حکام وقت کے زیر اثر تقیہ کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں تو ایسے نائبین خاص کی تعیین میں عقلی طور پر کوئی لازمی مصلحت نہیں ہے بلکہ اس میں مفسدہ کے امکانات زیادہ ہیں۔
”واللّٰہ اعلم بمصالح الاٴمور وَلا یُسئَلُ عَمّا یَفعلُ وَھُم یُسئَلونَ وَلا یَفعلُ وَلاةُ اَمرہ الاّ بِمَا اَمَرھُمُ اللّہ تعالیٰ بِہ فَانَّھُم عِبادُہُ الْمُکرمُونَ لَا یَسبِقُونَہ بِالْقَول وَھم بِاَمْرہِ یَعمَلونَ۔“
اور اللہ تمام امور کی مصلحتوں کو بہتر جانتا ہے ا ور اس سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ ہر ایک کا حساب لینے والا ہے اور اس کے والیان امرصرف وہی کرتے ہیں جو اللہ نے انہیںحکم دیا ہے بیشک وہ اس کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے رہتے ہیں۔
سامرہ کا مقدس سرداب
مغرض دشمنان اہل بیت اور مخالفین شیعہ کی جانب سے شیعوں پر لگائے جانے والی ناروا تہمتوں میں یہ افتراء بھی شامل ہے کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علیہ السلام نے سامرہ کے سرداب (تہہ خانہ) سے غیبت اختیار کی ہے آپ اسی سرداب میں ہیں اور اسی سرداب میں ظاہر ہوں گے!! ہر رات شیعہ اس تہہ خانہ کے دروازہ پر جمع ہوتے ہیں اور جب ستارے خوب چمکنے لگتے ہیں تو اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور پھر اگلے روز جمع ہوجاتے ہیں!!!
ایسے بے بنیاد اور جھوٹے اتہامات کی تکذیب کے لئے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، جو چیز عیاں ہے اسے بیان کرنے سے کیا حاصل ، ہر شخص واقف ہے کہ ایسی تہمتیں ابن خلدون اور ابن حجر جیسے افراد کے ذہن کی ایجاد ہیں جنھوں نے شیعہ دشمنی، اہل بیت سے انحراف، بنی امیہ اوردشمنان خاندان رسالت سے قلبی رجحان کے باعث ایسی خرافات جعل کی ہیں ایسے مصنفین بلکہ ان کے بعد آج تک پیدا ہونے والے افراد شیعہ کتب ومنابع سے شیعہ عقائد ونظریات حاصل کرنے کے بجائے اپنی طرف سے جھوٹی باتیں گڑھ لیتے ہیں یا سابقین کے افترا اور جعلی باتوں کو نقل کرتے ہیں اور انھیں جھوٹی و فرضی باتوں کوشیعہ عقائد کے بارے میں تحقیقی کارنامہ سمجھ کر بخیال خود، شیعی عقائد کے بارے میں معرفت حاصل کرلیتے ہیں اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہتے ہیں۔
کتنی تعجب خیز بات ہے کہ جس قوم کے ہزاروں عظیم الشان مصنفین نے اپنے عقائد ونظریات مکمل صراحت ووضاحت کے ساتھ اپنی تالیفات میں تحریر کئے ہوں اس قوم کی طرف ایسی چیز کی نسبت دی جائے جس کا احتمال بھی کسی مصنف نے نہ دیا ہو۔
امامت اور دیگر عقائد کے بارے میں علم کلام واعتقادات کی کتب میں شیعی نظریات محفوظ وموجود ہیں اور غیبت کے سلسلہ میں ائمہ ہدیٰ کے دور سے آج تک جتنی کتب بھی تحریر کی گئی ہیں ان میں غیبت سے متعلق تمام جزئیات مرقوم ہیں اور کسی معمولی سے معمولی کتاب میںبھی اس ناروا تہمت کا کوئی ذکر نہیںہے۔
”امام سامرہ کے سرداب میں مخفی ہیں“ اس کا کوئی قائل نہیں ہے بلکہ شیعہ کتب میں موجود روایات اور غیبت صغریٰ وکبریٰ کے دور میں حضرت سے منسوب معجزات وکرامات اور شرف زیارت حاصل کرنے والے افراد کے واقعات اس جھوٹے الزام کی تردید وتکذیب کرتے ہیں۔
بے شک سامرہ میں ایک سرداب ہے شیعہ حضرات وہاںزیارت کے لئے جاتے ہیں، خداکی عبادت کرتے ہیں دعائیںمانگتے ہیں لیکن اس بنا پر نہیں کہ وہاں امام پوشیدہ ہیں یا آپ اسی مقام پر قیام فرماہیں، بلکہ اس عبادت اورزیارت واحترام کی وجہ یہ ہے کہ یہ سرداب مقدس بلکہ اس کے اطراف کے مقامات، اورا س کے قرب وجوار کی جگہ دراصل ائمہ معصومین کے بیت الشرف اور امام علیہ السلام کی جائے ولادت ہے اس سرزمین پر بے شمار معجزات رونما ہوئے ہیں۔
انسان جب اس مقدس سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو اس عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور مومن تصورات کی دنیا میں ان مقامات سے امام زمانہ(عج) آپ کے پدربزرگوار اور جد امجد کے ارتباط میں کھوجاتا ہے کہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں ان ذوات مقدسہ کی رفت وآمد رہتی تھی اور یہ حضرات وہاں خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے انھیں مقامات میں وہ سرداب بھی شامل ہے، یہ مقامات دور ائمہ میں بھی محبان اہلبیت کا مرکز تھے اور آج بھی۔ شیعیان اہلبیت کی نگاہ میں ایسے مقامات اور گھرانے محترم ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ مقدس گھروں کے لئے خداوندعالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:
” فی بیوت اٴذن ا للّٰہ ان تُرفع ویُذکر فیہااسمہ یسبح لہ فیہا بالغد و والآصال“
ان گھروں میں ،جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اسکے نام کا ذکر کیا
جائے کہ ان گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح کرنے والے ہیں۔(۱)
صرف سرداب ہی نہیں بلکہ وہ دیگر مقامات کہ جن پرحضرت کے مبارک قدم پہنچے تھے وہ بھی محبان اہلبیت کی نگاہ میں لائق احترام ہیں۔ (جیسے مسجد جمکران)(۲)
(۱) سورہٴ نورآیت۳۶
(۲) ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ ص۳۷۱ تا ص۳۷۳ میں اس موضوع کو تحریر کیا ہے اسی طرح محدث نوری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”کشف الاستار“ میں اوردیگر مولفین نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔
source : http://www.islamshia-w.co