اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید عبادت کے کیا معنی ہیں؟

۴۔ توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید عبادت کے کیا معنی ہیں؟

۱۔ توحید ذاتی

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ توحید ذات کے معنی یہ ہیں کہ خدا ایک ہے دو خدا نہیں ہیں، لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول روایت میں بیان ہوا ہے ، کیونکہ اس کا مطلب ”واحدِ عددی“ ہے (یعنی دوسرے خدا کا تصور پایا جاتا ہے لیکن اس کا وجود خارجی نہیں ہے)، قطعاًیہ نظریہ باطل ہے، توحید ذات کے صحیح معنی یہ ہیں کہ خدا ایک ہے اور اس کے دوسرے کا تصور بھی نہیں ہے، یا دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ ”خدا کے لئے کوئی شبیہ و نظیر او رمانند نہیں ہے“ نہ کوئی چیز اس کی شبیہ ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز سے مشابہ، کیونکہ ایک لامحدود و بیکراں کامل وجود کے یہی صفات ہوتے ہیں۔

اسی وجہ سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا: ”اٴیّ شَیءٍ الله اٴکْبَر“ ( اللہ اکبر کے کیا معنی ہیں؟)

تو اس نے عرض کی: ”الله اکبر من کل شیء“ اللہ تمام چیزوں سے بڑا ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فَکَانَ ثمَّ شیءٍ فیکونُ اٴکبرُ مِنْہُ“ کیا کوئی چیز (اس کے مقابلہ میں) موجود ہے جس سے خدا بڑا ہو،؟

صحابی نے عرض کیا: ”فما ہو“؟ آپ خود ہی فرمائیں اللہ اکبر کی تفسیر کیا ہے؟

تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اللهُ اٴکبرُ من اٴنْ یُوصفْ“ خدا اس سے کہیں بلند و بالا ہے کہ اس کی توصیف کی جائے۔(1)

۲۔توحید صفاتی

جس وقت ہم یہ کہتے ہیں کہ توحید کی ایک قسم ”توحید صفاتی“ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف خداوندعالم جس طرح اپنی ذات میں ازلی اور ابدی ہے اسی طرح اپنے صفات: علم و قدرت وغیرہ میں بھی ازلی و ابدی ہے، تو دوسری طرف یہ کہ یہ صفات زائد بر ذات نہیں ہیں یعنی اس کی ذات پر عارض نہیں ہیں بلکہ یہ صفات ؛ عین ذات ہیں۔

نیز یہ کہ اس کے صفات ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں یعنی اس کا علم اور اس کی قدرت ایک ہی ہیں، اور دونوں اس کی عین ذات ہیں!۔

مزیدوضاحت:  جب ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں کہ شروع شروع میںہمارے یہاں بہت سے صفات نہیں تھے، پیدائش کے وقت نہ علم تھا اور نہ طاقت، لیکن آہستہ آہستہ یہ صفات ہمارے یہاں پیدا ہوتے گئے،اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ صفات ہمارے لئے زائد بر ذات ہیں ، لہٰذا ممکن ہے کہ ایک روز ہمارا وجود ہو لیکن ہمارا علم و طاقت ختم ہوجائے ، نیز ہم اس بات کو واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ ہمارا علم اور ہماری قدرت ہم سے جدا اور الگ ہیں، طاقت ہمارے جسم میں اور علم ہماری روح میں نقش ہے!

لیکن خداوندعالم کے یہاں یہ تصور نہیں پایاجاتا،بلکہ اس کی تمام ذات علم ہے، اس کی تمام ذات قدرت ہے اور یہ تمام چیزیں ایک ہی ہیں، البتہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان معنی و مفہوم کی تصدیق کرنا تھوڑا پیچیدہ او ر غیرمانوس ہے کیونکہ یہ صفات ہمارے یہاں نہیں پائے جاتے،

                                      

(1)  معانی الاخبار“ ،صدوق ۺ ، صفحہ ۱۱، حدیث۱

 صرف عقل و منطق اور دقیق استدلال کے ذریعہ ہی ان صفات کو سمجھا جاسکتا ہے۔(1)

۳۔توحید افعالی

یعنی دنیا میں ہر موجود،اور ہر فعل خداوندعالم کی ذات پاک کی طرف پلٹتا ہے، وہی مسبب الاسباب ہے، تمام علتوں کی علت اسی کی ذات اقدس ہے، یہاں تک کہ جن افعال کو ہم انجام دیتے ہیں ایک طرح سے وہ بھی اسی کی طرف پلٹتے ہیں، اس نے ہمیں قدرت، اختیار اور ارادہ دیا ہے، لہٰذا ایک لحاظ سے ہم اپنے افعال کے فاعل اور ان کے ذمہ دارہیں ، اورایک لحاظ سے ان کا فاعل خداوندعالم ہے، کیونکہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ سب اسی کی طرف پلٹتا ہے۔ ”لا موٴثر فی الوجود الا الله“ (وجود میں سوائے اللہ کے کوئی موثر نہیں ہے)

۴۔ عبادت میں توحید

یعنی صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے علاوہ کوئی عبادت کا اہل اور سزاوار نہیں ہے، کیونکہ عبادت اس کی ہونی چاہئے کہ جو کمالِ مطلق اور مطلق کمال ہو، جو سب سے بے نیاز ہو، جو تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا ہو، جو تمام موجودات کا خلق کرنے والا ہو، اور یہ صفات ذات اقدس الٰہی کے علاوہ کسی غیر میں نہیں ہیں۔

عبادت کا اصلی مقصد کمالِ مطلق اور لامتناہی وجودکی بارگاہ میں قرب حاصل کرنا ہے، تاکہ اس کے صفات کمال و جمال کا عکس انسان کی روح پر پڑے، جس کے نتیجہ میں انسان ہوا ہوس سے دوری اختیار کرے اور اپنے نفس کے تزکیہ اور پاکیزگی کے لئے سعی وکوشش کرے۔

عبادت کا یہ ہدف اور مقصد صرف ”اللہ تعالیٰ“ کی عبادت میں موجودہے اور اس کے علاوہ کسی غیر کی عبادت میں نہیں پایا جاتا چونکہ صرف وہی کمال مطلق ہے۔(۲)

                                   

(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۷، صفحہ ۴۴۶      (۲) تفسیر پیام قرآن، جلد ۳، صفحہ ۲۷۴

 

 

 

 

۵۔ دین کس طرح فطری ہے؟

فطرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعض حقائق کو بغیر کسی استدلال اور برہان کے حاصل کرلیتا ہے، (چاہے وہ پیچیدہ اور مشکل استدلال ہو اور چاہے واضح اور روشن استدلال ہوں) اور وہ حقائق اس پر واضح و روشن ہوتے ہیں ان کو وہ قبول کرلیتا ہے، مثلاً انسان کسی خوبصورت اور خوشبو دار پھول کو دیکھتا ہے تو اس کی ”خوبصورتی“ کا اعتراف کرتا ہے اور اس اعتراف کے سلسلہ میں کسی بھی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، انسان اس موقع پر کہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ خوبصورت ہے، اس میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا کی شناخت اور معرفت کے سلسلہ میں بھی فطرت کاکردار یہی ہے جس وقت انسان اپنے دل و جان میں جھانکتا ہے تو اس کو ”نور حق“ دکھائی دیتا ہے، اس کے دل کو ایک آواز سنائی دیتی ہے جو اس کو اس دنیا کے خالق اور صاحب علم و قدرت کی طرف دعوت دیتی ہے، اس مبداء کی طرف بلاتی ہے جو ”کمالِ مطلق“اور ”مطلقِ کمال“ ہے، اور اس درک اور احساس کے لئے اسی خوبصورت پھول کی طرح کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا پر ایمان کے فطری ہونے پر زندہ ثبوت:

سوال :ممکن ہے کوئی کہے:  یہ صرف دعویٰ ہے، اور خدا شناسی کے سلسلہ میں اس طرح کی فطرت کو ثابت کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں،کیو نکہ میں تواس طرح کا دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میرے دل و جان میں اس طرح کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کو قبول نہ کرے تو اس کو کس طرح قانع کرسکتا ہوں؟

جواب :ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جن کے ذریعہ توحید خدا کو فطری طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے اور یہ شواہد انکار کرنے والوں کا منہ توڑ جواب بھی ہیں چنا نچہ ان قرائن کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱۔ تاریخی حقائق : 

ان تا ریخی حقا ئق کے سلسلہ میں دنیا کے قدیم ترین مورخین نے جو تحقیق اور جستجو کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم و ملت میں کوئی دین نہیں تھا؟بلکہ ہر انسان اپنے لحاظ سے عالم ہستی کے مبدا علم و قدرت کا معتقد تھا اور اس پر ایمان رکھتا تھا اور اس کی عبادت کیا کرتا تھا، اگر یہ مان لیں کہ اس سلسلہ میں بعض اقوام مستثنیٰ تھیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا (کیونکہ ہر عام کے لئے نادر مقامات پر استثنا ہوتا ہے)

ویل ڈورانٹ“ مغربی مشہور مورخ اپنی کتاب ”تاریخ تمدن“ میں بے دینی کے بعض مقامات ذکر کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: ”ہمارے ذکر شدہ مطالب کے باوجود ”بے دینی“ بہت ہی کم حالات میں رہی ہے ، اور یہ قدیم عقیدہ کہ دین ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں تقریباً سبھی افراد شامل رہے ہیں، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے، یہ بات ایک فلسفی کی نظر میں بنیاد ی تاریخی اور علم نفسیات میں شمار ہوتی ہے، وہ اس بات پر قانع نہیں ہوتا کہ تمام ادیان میں باطل و بیہودہ مطالب تھے بلکہ وہ اس بات پر توجہ رکھتا ہے کہ دین قدیم الایام سے ہمیشہ تاریخ میں موجود رہا ہے“(1)

 (1)  تاریخ تمد ن ، ویل ڈورانٹ“ ، جلد اول، صفحہ ۸۷ و۸۹

یہی موٴلف ایک دوسری جگہ اس سلسلہ میں اس طرح لکھتا ہے: ”اس پرہیزگاری کا منبع و مرکزکہاں قرار پاتا ہے جو کسی بھی وجہ سے انسان کے دل میںختم ہونے والی نہیں ہے“(1)

ویل ڈورانٹ“ اپنی دوسری کتاب ”درسہای تاریخ“ میں ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیظ و غضب اور ناراحتی کی حالت میں کہتا ہے کہ ”دین کی سو جانیں ہوتی ہیں اگر اس کو ایک مرتبہ مار دیا جائے تو دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے!“(۲)

اگر خدا اور مذہب کا عقیدہ ، عادت، تقلید ، تلقین یا دوسروں کی تبلیغ کا پہلو رکھتا ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا اس طرح عام طور پر پا یا جاتا اور ہمیشہ تاریخ میں موجود رہتا، لہٰذا یہ بہترین دلیل ہے کہ دین فطری ہے۔

۲۔ آثار قدیمہ کے شواہد :

وہ آثار اور علامتیں جو ماقبل تاریخ (لکھنے کے فن اختراع سے پہلے اور لوگوں کے حالات زندگی تحریر کرنے سے پہلے) میں ایسے آثار و نشانیاں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ مختلف قومیں اپنے اپنے لحاظ سے دین و مذہب رکھتی تھیں، ”خدا “ اور مرنے کے بعد ”معاد“ پر عقیدہ رکھتی تھی، کیونکہ ان کی من پسند چیزیں مرنے کے بعد ان کے ساتھ دفن کی گئی ہیں تاکہ وہ مرنے کے بعد والی زندگی میں ان سے کام لے سکیں! مردوں کے جسموں کو گلنے اور سڑنے سے بچانے کے لئے ”مومیائی“ کرنا ،یا ”اہرام مصر“ جیسے مقبرے بنانا تاکہ طولانی مدت کے بعد بھی باقی رہیں یہ تمام چیزیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ماضی میں زندگی بسر کرنے والے افراد بھی خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے تھے۔

                                

 (1)  تاریخ تمد ن ، ویل ڈورانٹ“ ، جلد اول، صفحہ ۸۷ و۸۹

(۲)  فطرت“ شہید مطہری، صفحہ۱۵۳

اگرچہ ان کاموں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں مذہبی عقائد میں بہت سے خرافات بھی پائے جاتے تھے ، لیکن یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصلی مسئلہ یعنی مذہبی ایمان ماقبل تاریخ سے پہلے موجود تھا جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

۳۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق اور ان کے انکشافات:

انسانی روح کے مختلف پہلووٴں اور اس کی اصلی خواہشات پر ریسرچ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذہبی اعتقاد اور دین ایک فطری مسئلہ ہے۔

چار مشہور و معروف احساس (یا چار بلند خواہشات) اور انسانی روح کے بارے میں نفسیاتی ماہرین نے جو چار پہلو بیان کئے ہیں:   (۱۔ حس دانائی، ۲۔ حس زیبائی، ۳۔ حس نیکی، ۴۔ حس مذہبی،) ان مطالب پر واضح و روشن دلیلیں ہیں۔(1)

انسان کی حس مذہبی یا روح انسان کا چوتھا پہلو ، جس کو کبھی ”کمال مطلق کا لگاؤ“ یا ”دینی اور الٰہی لگاؤ“ کہا جاتا ہے یہ وہی حس اور طاقت ہے جو انسان کو مذہب کی طرف دعوت دیتی ہے ، اور بغیر کسی خاص دلیل کے خدا پر ایمان لے آتی ہے، البتہ ممکن ہے کہ اس مذہبی ایمان میں بہت سے خرافات پائے جاتے ہوں، جس کا نتیجہ کبھی بت پرستی ، یا سورج پرستی کی شکل میں دکھائی دے، لیکن ہماری گفتگو اصلی سرچشمہ کے بارے میں ہے۔

۴۔ مذہب مخالف پروپیگنڈے کا ناکام ہوجانا

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چند آخری صدیوں میں خصوصاً یورپ میں دین مخالف پروپیگنڈے بہت زیادہ ہوئے ہیں جو ابھی تک وسیع اور ہمہ گیروسائل کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔

سب سے پہلے یورپ کی علمی تحریک (رنسانس)کے زمانہ سے جب علمی اور سیاسی معاشرہ

                                

(1)  حس مذہبی یا بعد چہارم روح انسانی“ میں ”کونٹائم“ کے مقالہ کی طرف رجوع فرمائیں،( ترجمہ مہندس بیانی(

گرجاگھر کی حکومت کے دباؤ سے آزاد ہوا تو اس وقت اس قدر دین کے خلاف پروپیگنڈہ ہوا جس سے الحادی نظریہ یورپ میں وجود میں آیا ہے اور ہرجگہ پھیل گیا( البتہ یہ مخالفت عیسائی مذہب کے خلاف ہوئی چونکہ یہی دین وہاں پر رائج تھا ) اس سلسلہ میں فلاسفہ اور سائنس کے ماہرین سے مدد لی گئی تاکہ مذہبی بنیاد کو کھوکھلا کردیا جائے یہاں تک کہ گرجاگھر کی رونق جاتی رہی، اور یورپی مذہبی علماگوشہ نشین ہوگئے، یہی نہیں بلکہ خدا ، معجزہ، آسمانی کتاب اور روز قیامت پر ایمان کا شمار خرافات میں کیا جانے لگا، اور بشریت کے چار زمانہ والا فرضیہ ( قصہ و کہانی کا زمانہ، مذہب کا زمانہ، فلسفہ کا زمانہ اور علم کا زمانہ) بہت سے لوگوں کے نزدیک قابل قبول سمجھا جانے لگا ، اور اس تقسیم بندی کے لحاظ سے مذہب کا زمانہ بہت پہلے گزرچکا تھا!

عجیب بات تو یہ ہے کہ آج کل کی معاشرہ شناسی کی کتابوں میں جو کہ اسی زمانہ کی ترقی یافتہ کتابیں ہیں ان میں اس فارمولہ کو ایک اصل کے عنوان سے فرض کیا گیا ہے کہ مذہب کا ایک طبیعی سبب ہے چاہے وہ سبب ”جہل“ ہو یا ”خوف“ یا ”اجتماعی ضرورتیں“ یا ”اقتصادی مسائل“  اگرچہ ان کے نظریہ میں اختلاف پایا جاتا ہے!!۔

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس وقت رائج مذہب یعنی گرجا گھر نے ایک طویل مدت تک اپنے ظلم و ستم اور عالمی پیمانہ پر لوگوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا اور خاص کرسائنسدانوں پر بہت زیادہ سختیاں کیں نیز اپنے لئے بہت زیادہ مرفہ اور آرام طلب اور دکھاوے کی زندگی کے قائل ہوئے اور غریب لوگوں کو بالکل بھول گئے لہٰذا انھیں اپنے اعمال کی سزا تو بھگتنا ہی تھی ، لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ صرف پاپ اور گرجا کا مسئلہ نہ تھا بلکہ دنیا بھر کے تمام مذاہب کی بات تھی۔

کمیونسٹوں نے مذہب کو مٹانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردی اور تمام تر تبلیغاتی وسائل اور فلسفی نظریات کو لے کر میدان میں آئے اور اس پروپیگنڈہ کی بھر پور کوشش کی کہ ”مذہب معاشرہ کے لئے ”افیون“ ہے!

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی اس شدید مخالفت کے باوجود وہ لوگوں کے دلوں سے مذہب کی اصل کو نہیں مٹاسکے، اور مذہبی جوش و ولولہ کو نابود نہ کرسکے، اس طرح سے کہ آج ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ مذہبی احساسات پر پھر سے نکھار آرہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں بڑی تیزی سے مذہب کی باتیں ہورہی ہیں، اور میڈیا کی ہر خبر میں ان ممالک کے حکام کی پر یشانی کوبیان کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر مذہب خصوصاً اسلام کی طرف لوگوں کا رجحان روز بزور بڑھتا جارہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں کہ جہاں ابھی تک مذہب مخالف طاقتیں بیہودہ کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ، وہاں پر بھی مذہب پھیلتا ہوا نظرآتا ہے۔

ان مسائل کے پیش نظر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذہب کا سرچشمہ خود انسان کی ”فطرت“ ہے، لہٰذا وہ شدید مخالفت کے باوجود بھی اپنی حفاظت کرنے پر قادر ہے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مذہب کبھی کا مٹ گیا ہوتا۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...
سوال کا متن: سلام عليکم. يا علي ع مدد. ....مولا علي ...
کیا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟
کیا اسلامی ممالک کی بنکوں سے قرضہ لینا جائز ہے؟
حضرت زینب (س) نے کب وفات پائی اور کہاں دفن ہیں؟
خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ...
دوسرے اديان کے پيروں کے ساتھ مسلمانوں کے صلح آميز ...
کائناتی تصور معصومین علیہم السلام کی نظر میں

 
user comment