کہا جاتا ہے کہ شب قدر میں بندوں کے تمام تقدیری امور جیسے خیر و شر،ولادت،موت آئندہ شب قدر تک معین ہوجاتے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر اگلے سال تک ہر شخص کی تقدیر معین ہے ۔ اس بناء پر وہ اپنی معین تقدیر کے دائرہ میں زندگی بسر کرتا ہے اور اس کو کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ شب قدر میں جو تقدیر اس کے لئے معین ہوئی ہے وہ اسی کے تحت زندگی بسر کرتا ہے ،اس بناء پر اس کی زندگی جبر مطلق ہے ، خصوصا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ شب قدر ہر سال آتی ہے اور انسان ولادت سے مرنے تک معین شدہ تقدیر کے دائرہ میں زندگی بسرکرتا ہے اور اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے ، کیا ایسا نہیں ہے؟
اس سوال کا صحیح جواب دینے کے لئے چند مسائل کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے :
١۔ شب قدر سے کیا مراد ہے؟
شب قدر ، ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک ہے ۔ ہماری روایات کے مطابق انیسویں یا اکیسویں یا تیسویں راتوں میں کوئی ایک رات ، شب قدر ہے ۔ (١) اس رات میں (جس میں قرآن کریم بھی نازل ہوا ہے) لوگوں کے تمام اچھے اور برے امور ، ولادت، موت، روزی، حج، طاعت، گناہ ، خلاصہ یہ کہ پورے سال میں جو بھی حادثہ رونما ہونے والا ہے وہ سب امورمعین ہوتے ہیں(٢) ۔ شب قدر ہمیشہ اور ہر سال آتی ہے ،اس رات میں عبادت کرنے کا بے حد ثواب ہے اور ایک سال کی زندگی پر بہت زیادہ موثر ہے (٣) ۔ اس رات میں آنے والے سال کے تمام حوادث کو امام زمانہ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور آپ اپنے اور دوسروںکے حالات سے باخبر ہوجاتے ہیں ۔ امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں : '' انہ ینزل فی لیلة القدر الی ولی الامر تفسیر الامور سنة سنہ، یومر فی امر نفسہ بکذا و کذا و فی امر الناس بکذا و کذا '' ۔ شب قدر میں ولی امر (ہر زمانہ کے امام) کو کاموں کی تفسیر اور حوادث کی خبر دی جاتی ہے اور وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے کاموں کی طرف مامور ہوتے ہیں (٤) ۔
پس شب قدر وہ رات ہے :
١۔ جس میں قرآن کریم نازل ہوا ۔
٢۔ آئندہ سال کے حوادث اس رات میں مقدر ہوتے ہیں ۔
٣۔ یہ حوادث امام زمانہ (روحی و جسمی فداہ)کو پیش کئے جاتے ہیں، اورآپ کچھ کاموں پر مامور ہوتے ہیں ۔
اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شب قدر ، تقدیر، اندازہ گیری اور دنیا کے حوادث کو معین کرنے کی رات ہے ۔
٢۔ قدر اور تقدیر کے کیا معنی ہیں؟
لغت میں ''قدر'' کے معنی مقدار اور اندازہ کرنے کے ہیں (٥) ۔ ''تقدیر'' بھی اندازہ کرنے اور معین کرنے کو کہتے ہیں (٦) لیکن ''قدر'' کے اصطلاحی معنی کسی چیز کے وجود کی خصوصیت اور اس کی پیدائش کی کیفیت کے ہیں (٧) دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ہر چیز کے وجود کی محدودیت اور اندازے کو ''قدر'' کہتے ہیں (٨) ۔
حکمت الہی کے نظریہ کے مطابق خلقت کے نظام میں ہر چیز کا ایک خاص اندازہ ہے اور کسی بھی چیز کو بغیر حساب و کتاب کے خلق نہیں کیا گیا ہے ۔ اس دنیا کا بھی حساب و کتاب ہے اور یہ ریاضی کے حساب کی بنیاد پر تنظیم ہوئی ہے ، اس کا ماضی، حال اور آئندہ ایک دوسرے سے مرتبط ہے ۔ استاد مطہری نے قدر کی تعریف میں فرمایا: '' ... قدر کے معنی اندازہ اور معین کرنے کے ہیں... حوادث جہانی ... چونکہ اس کی حدیں، مقدار اور زمانی و مکانی موقعیت معین کی گئی ہیں ، لہذا یہ تقدیر الہی کے اندازے کے مطابق ہے (٩) ۔ پس خلاصہ یہ کہ ''قدر'' کے معنی کسی چیز کی جسمانی اور فطری خصوصیات کے ہیں جس میں شکل، طول، عرض اور زمانی و مکانی موقعیت شامل ہے اور یہ تمام مادی اور فطری موجودات کو اپنے دائرہ میں لئے ہوئے ہے ۔
یہی معنی روایات سے بھی استفادہ ہوتے ہیں ، جیسا کہ ایک روایت میں امام رضا(علیہ السلام) سے سوال کیا گیا: قدر کے کیا معنی ہیں؟: امام (علیہ السلام) نے فرمایا: ''تقدیر الشئی ، طولہ و عرضہ''۔ ہرچیز کا اندازہ جو طول و عرض کے اعتبار سے وسیع تر ہو (١٠) ،ایک دوسری روایت میں امام رضا (علیہ السلام) نے قدر کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہرچیزکا اندازہ جو طول و عرض اور باقی رہنے کے اعتبار سے وسیع تر ہو (١١) ۔
اس بناء پر تقدیر الہی کے معنی یہ ہیں کہ مادی دنیا میں مخلوقات اپنے وجود ، آثاراور خصوصیات کے اعتبار سے محدود ہیں اور یہ محدودیت ،خاص امور سے مرتبط ہے ایسے امور جو اس کی علت اور شرایط ہیں، اور علل و شرایط اور وجود کے مختلف ہونے کی وجہ سے موجودات کے آثار اور خصوصیتیں بھی مختلف ہیں، ہر مادی موجود کو مخصوص پیمانے کے ذریعہ اندر اور باہر سے اندازہ کیا جاتا ہے ۔ یہ قالب ، حدودیعنی طول ، عرض، شکل،رنگ ، مکان اور زمان کی کیفیت اور تمام عوارض، مادی خصوصیات شمار کی جاتی ہیں ، لہذا مادی موجودات میں تقدیر الہی کا مطلب یہ ہے کہ موجودات کو ان کے شایان شان وجود کی طرف ہدایت کرنا جو ان کے لئے مقدور ہوا ہے (١٢) ۔
لیکن قدر کی فلسفی تعبیرکے اعتبار سے اصل علیت ہے '' اصل علیت یعنی حوادث کا ایک دوسرے کے ساتھ ضروری اور قطعی ارتباط ۔ اور دوسرے یہ کہ ہر حادثہ کا ضروری اور یقینی ہونا نیز اپنے وجود کی خصوصیات اور تقدیر کو ایک امر یا امور سے مقدم سمجھنا (١٣) ۔
پوری دنیا اور تمام حوادثات کے اوپر اصل علیت اور نظام اسباب و مسببات حاکم ہے اور ہر حادثہ اپنے وجود کی ضرورت نیز زمانی اور مکانی خصوصیت ، شکل و صورت اوراپنی دوسری تمام خصوصیات کو اپنی علتوں کے مقدمہ سے کسب کرتا ہے ، ہر وجود کے ماضی، حال اور استقبال اوراس کے متقدمہ علتوں کے درمیان جدا نہ ہونے والا رابطہ پایا جاتا ہے (١٤) ۔
مادی موجودات کی علتیں فاعل، مادہ ، شرایط اور عدم مانع ہے اور ان میں سے ہر ایک کا خاص اثر ہے اوریہ تمام تاثیرات ایک خاص وجود کے قالب کو تشکیل دیتے ہیں ۔ اگر یہ تمام علیتں، شرایط اور عدم مانع ایک جگہ جمع ہوجائیں توعلت تامہ بن جائے گی اور اپنے معلول کو ضرورت اور وجود عطا کرتی ہے جس کو دینی متون میں ''قضائے الہی'' سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ہر موجودکا اس کے علل و شرایط کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص قالب ہوتا ہے جو اپنے وجود کی خصوصیت اور عوارض کو تشکیل دیتا ہے اور دینی متون میں اس کو ''قدر الہی '' سے تعبیر کرتے ہیں ۔پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ شب قدر میں تمام چیزیں مقدر ہوتی ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر حادثہ کا معین قالب اور خاص اندازہ روشن اور معین ہے ۔ یہ اندازہ کرنا یقینی نہیں ہے کیونکہ عالم طبیعت میں واقعہ ہوتا ہے اور عالم متغیر ہے اور اس میں خاص شرایط و موانع پائے جاتے ہیں، ۔ اس عالم میں اشیاء کا وجود صرف اس صورت میں یقینی ہوتا ہے جب اس موجود کی علت تامہ موجود ہو یعنی تمام شرایط موجود ہوں اورموانع مفقود ہوں اور فاعل بھی اس میں اثر ڈالے ۔
مندرجہ بالا مقدمہ کی طرف توجہ کرنے کے بعد شب قدر ، بندوں کی قسمت اور ان کا اختیاری کردار واضح ہوجاتا ہے ۔ قدر یعنی ہر واقعہ او رحادثہ کا اپنی علتوں کے ساتھ مرتبط ہونا اور شب قدر میں اس ارتباط کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اولا : ہر زمانہ کے امام کو اس ارتباط کی خبر دی جاتی ہے اور ثانیا : ان حادثات کا ان کی علتوں کے ساتھ جو ارتباط ہوتا ہے وہ بھی واضح ہوجاتا ہے ۔ خداوند عالم نے اس طرح مقدر کیا ہے کہ اشیاء کے درمیان ارتباط قائم ہوجائے ، مثلا عزت اور اپنے بزرگوں سے دفاع کے درمیان جو ارتباط پایا جاتا ہے ۔جو بھی اپنے بزرگوں سے دفاع کرے گا وہ عزیز ہوجائے گا اور جو بھی ظلم و ستم کو قبول کرے گا وہ ذلیل ہوجائے گا ۔ تقدیر الہی یہی ہے ۔ یا طول عمر اور صفائی کے درمیان کا رابطہ یا بعض گناہوں کا ترک کرنا جیسے صلہ رحم کو قطع کرنا اور صدقہ دے کر اس رابطہ کو برقرار کرنا ۔ ایک جگہ بیان ہوا ہے : جو بھی لمبی عمر چاہتا ہے اس کو اس قالب میں آنا چاہئے ۔ جو بھی ان شرایط کو حاصل کرلے گا اس کی عمر لمبی ہوگی اور جو بھی ان امور میں کوتاہی کرے گا اس کی عمر کم ہوگی ۔ لہذا افعال اور اختیاری کردار میں عمل اور نتیجہ کے درمیان جو کہ تقدیر الہی ہے ، ایک مستقیم رابطہ موجود ہے ۔ جب تک انسان زندہ ہے اس کے سامنے دوطرح کا راستہ ہے : یا وہ اپنے حسن اختیار و انتخاب کی وجہ سے کمیل بن زیاد نخعی ، حضرت علی (علیہ السلام) کا صحابی ہوجائے گا ، یا اپنے برے اختیار اور انتخاب کی وجہ سے حارث بن زیاد نخعی ، جناب مسلم کے بچوں کا قاتل بن جائے گا ۔ ایک ماں باپ سے دو بھائی ایک سعید اور دوسرا شقی۔ بس تقدیر الہی کے صحیح معنی یہ ہیں: اپنے حسن اختیار کی وجہ سے صحیح راستہ کی طرف چلا جائے تو کمیل ہوجائے گا اور اگر برے اختیارکی وجہ سے غلط اور منحرف راستہ کی طرف جائے گا تو حارث ہوجائے گا ۔ تقدیر الہی اور آدمی کے اختیار کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے ، کیونکہ علل و شرایط کے تسلسل میں کسی کام کو اس کے نتیجہ تک پہنچانے میں انسان کا ارادہ ایک سبب اور علت ہے اور ''قدر'' انسان کے ارادہ و اختیار کا جانشین نہیں ہوتا ۔ اختیاری کردار میں کردار اور تقدیر کے درمیان ایک مستقیم رابطہ ہے جو شرایط کے رابطہ اور معلول سے وجود میں آیا ہے اور ہمارے اختیاری افعال میں اسباب و علل کے عوامل میں سے ایک انسان کا اختیاری فعل ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا ریاضی کے حساب پر منظم ہے اور ہر حادثہ کا ایک خاص سبب ہے ۔ آگ کی تاثیر گرم اور جلانا ہے ، پانی کی تاثیر سرداور بجھانا ہے اورہم چونکہ مادی زندگی میں محصور ہیں اس لئے ماضی، حال اور آئندہ سے بے خبر ہیں، اور حوادث کے واقع ہونے کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے وگرنہ تقدیر الہی بغیر حساب و کتاب کے نہیں ہے اور ایک خاص نظم کے اوپر منحصر ہے ۔ جو بھی اپنے حسن اختیار کی وجہ سے نیک کام انجام دے گا یا خلوص نیت کے ساتھ کوئی دعا کرے گا تو وہ اس کا نتیجہ اس دنیا میں دیکھے گا اور جو سوء اختیار کی وجہ سے کسی گناہ کا مرتکب ہوگا وہ اس کی تلخی کو اسی دنیا میں چکھے گا ۔
لہذا یہ جو فرمایا ہے کہ شب قدر میں بندوں کے مقدرات جیسے موت،حیات ، ولادت اور زیارت وغیرہ کو بنایا جاتا ہے یہ سب علل و شرایط اور عدم مانع کو مد نظر رکھتے ہوئے قائم کیا جاتا ہے اور ان علل و شرایط میں سے ایک اختیار ہے ۔ کیونکہ اس رات میں شب بیداری ،عبادت اور دعاء کی تاکید کی گئی ہے تاکہ یہ اعمال اس خاص رات میں جو ایک ہزار راتوں سے برتر ہے ، فیض الہی کے نازل ہونے کے اسباب فراہم ہوسکیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی پورسے سال کوئی کام انجام دے تو اس کی تقدیر نہ بدلے کیونکہ تقدیر بدلتی رہتی ہے اور اپنے مقدمات کی وجہ سے یہ قابل تغییر ہے ۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم یہ جانتا ہے کہ کس چیز کو خاص زمان و مکان میں کس صورت اور کن شرایط کے ساتھ محقق کرنا چاہئے اور وہ جانتا ہے کہ فلاں شخص اپنے اختیار سے کوئی خاص کام انجام دے گا ۔ انسان کا اختیاری فعل ، اختیاری صفت کی وجہ سے خداوند عالم کے ازلی علم سے متعلق ہے جو کہ شب قدر بلکہ تمام زمانہ میں امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے ۔ یہ کام اختیار کے ساتھ منافات نہیںرکھتا اوراس کے اوپر تاکید بھی کی گئی ہے ۔ مثلا ایک تجربہ کار استاد اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کاکس شاگرد کی صلاحیت کیسی ہے اور وہ اپنی کوشش اور محنت کے ذریعہ کتنے نمبر حاصل کرسکتا ہے اور کون شاگرد کم استعداد ہونے اورمحنت نہ کرنے کی وجہ سے متوسط نمبر حاصل کرے گا اور کون شاگرد اپنی کاہلی اورسستی کی وجہ سے امتحان میں فعل ہوجائے گا ۔ معلم اس کی علت کا علم رکھنے کی وجہ سے یہ سب جانتا ہے اور وہ اپنے شاگردوں کی کوشش کی نفی نہیں کرتا ہے ۔ شب قدر میں تمام انسانوں کے اختیاری کردار کو ان کی اختیاری صفت کے ساتھ اندازہ کیا جاتا ہے ۔ خداوند عالم نے علتوں کے عالم ہونے کی وجہ سے اپنی نظم کی بنیاد پر بنایا ہے ۔
١۔ اقبال الاعمال، سید بن طاووس، تحقیق و تصحیح جواد قیومی اصفہانی، ج١، ص ٣١٢ و ٣١٣ و ٣٧٤ و ٣٧٥۔
٢۔ الکافی، کلینی، ج٤، ص ١٥٧ ۔
٣۔ المراقبات، ملکی تبریزی، ص ٢٣٧ ۔ ٢٥٢۔
٤۔ الکافی ، ج١، ص ٢٤٨۔
٥۔ قاموس قرآن، سید علی اکبر قرشی، ج٥، ص ٢٤٦ و ٢٤٧۔
٦۔ گذشتہ حوالہ، ص ٢٤٨۔
٧۔ المیزان ، سید محمد حسین طباطبائی، ج١٢، ص ١٥٠ و ١٥١۔
٨۔ گذشتہ حوالہ ، ج ١٩، ص ١٠١۔
٩۔ انسان و سرنوشت، شہید مطہری، ص ٥٢۔
١٠۔ المحاسن البرقی، ج١، ص ٢٤٤۔
١١۔ بحار الانوار، ج٥، ص ١٢٢۔
١٢۔ المیزان، ج١٩ ، ص ١٠١۔ ١٠٣۔
١٣۔ انسان و سرنوشت ، ص ٥٣۔
١٤۔ گذشتہ حوالہ، ص ٥٥ و ٥٦۔
source : http://www.taghrib.ir/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=260:1389-06-12-06-36-39&catid=34:1388-06-09-06-50-26&Itemid=55