۔تیل اور تیل کی منڈیوں پر تسلط
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کےبعد پٹرول بڑی طاقتوں کے لئے ایک اسٹراٹیجیک ضرورت کے طور پر سامنے آیا یہانتک کہ مشرق وسطی کے ملکوں پر قبضہ کرنا بڑی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بن گیا۔مغرب نے تیل کے ڈخائر تک سابق سوویت یونین کو دسترسی حاصل کرنے سے روکے رکھا۔ اسی بناپر ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق اور مغرب دونوں نے ایران کو اپنے تسلط میں لانے کی بھرپورکوشش کی تاہم ان کوششوں میں مشرق کو ناکامی ہوئي اور ایران مغرب کے زیر تسلط چلا گيا لیکن اس کے بعد ہم دیکھتےہیں کہ ایران کی اسلامی تحریک کے خلاف مشرق ومغرب دونوں متحدہوگئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرق و مغرب کے اتحاد کا یہ نہایت نادر نمونہ ہے کیونکہ یہ سامراجی قطب خود کو ایک مشترکہ دشمن کی زد میں دیکھ رہے تھے جو سامراجی تسلط کو مسترد کرچکا تھا اور جس نے دنیا میں نئي اقدار اور نظریے پیش کئےتھے۔
تیل کا نکالنا اور اسکی برآمدات سے حاصل شدہ منافع تیل پیدا کرنےوالے ممالک کے لئے اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ مشرق وسطی بالخصوص خلیج فارس کے حالات میں ذرا سی تبدیلی تیل کی عالمی منڈیوں، بازار حصص اور تیل کی قیمتوں کو اتھل پتھل کردیتی ہے جس کے نتیجے میں دنیا کے بہت سے ممالک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ مشرق وسطی کے علاقے میں دنیا کے دوتہائي شناختہ شدہ تیل کے ذخائر ہیں اور اسی علاقے سے دنیا کے استعمال کا نصف تیل برامد کیا جاتا ہےجو سامراجی علاقوں یعنی یورپ اور امریکہ کو جاتا ہے۔ تیل ہی کے تعلق سے ایک اور نہایت اہم موضوع ہے جس سے سرمایہ دارانہ سامراجی دنیا سانس لے رہی یہ موضوع تیل سےحاصل ہونے والی آمدنی کے بڑے حصے کا سرمایہ دارانہ دنیا میں واپس پہنچنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تیل پیداکرنے والے ملکوں کو اپنےاس کالے سونے سے ہونے والی آمدنی دوبارہ مغرب کے خزانوں میں پنہچ جاتی ہے جس سے وہ اپنی صنعتیں چلاتےہیں اور اپنے لوگوں کے لئے روزگار پیدا کرتےہیں وہ اسطرح کے مغرب اپنی مصنوعات ان ملکوں کو منہ مانگے داموں فروخت کرتا ہے۔ یہ دوگنا استحصال ہے جو زور و شور سے جاری ہے اسی بناپر مشرق وسطی کے تعلق سے مغرب کی پالیسیوں کو تیل کی پالیسیاں کہا جاتا ہے ۔ آج عالمی سطح پر اسلامی بیداری، تیل اور مشرق وسطی اس طرح ایک دوسرے میں ضم ہوچکےہیں دنیا کے دیگر اقتصادی، فکری اور جیو پالیٹیکل مسائل پیچھے چلے گئےہیں اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔
امریکہ کی گریٹر مشرق وسطی کی سازش دو اھم اھداف کے حصول اور سامراج کو درپیش دو بنیادی مسائل حل کرنے کےلئے رچی گئي تھی۔ اس کا پہلا مقصد دنیا کو امریکہ کے زیر تسلط لانا اور دوسرا مقصد پٹروڈالرز سے اس مہم کے لئے بجٹ فراہم کرنا تھا۔ اسلامی بیداری کو کنٹرول یا منحرف کرنا پہلا مسئلہ تھا جو اس سازش کےسہارے حل ہوسکتا تھا اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ اس سازش کےتحت ساری دنیا پر اپنی ثقافت مسلط کرنا چاہتاتھا۔ امریکہ گرچہ اس سازش پر عمل کرنے میں فی الحال شکست کھاچکا ہے لیکن چونکہ یہ امریکہ کی طویل مدت سازشوں میں سے ایک ہے لھذا اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ امریکہ اپنی ان کوششوں کوجاری رکھے گا۔ امریکہ کی کوششوں کی شکست یا کامیابی کا انحصار اسلامی بیداری کی تحریک اور امریکہ کے مقابل مسلمانوں کی استقامت و مزاحمت نیز اپنی تحریک کو آگے بڑھانے پرہے۔
۔ایران میں اسلامی حکومت کی سرنگونی کی کوششیں
ایران کی اسٹراٹیجیک اور جیو اسٹراٹیجک پوزیشن گذشتہ دوصدیوں سے سامراج کی توجہ کا سبب رہی ہے ۔ انیس سو ترپن کی فوجی بغاوت کے بعد ایران کی اہمیت اوربڑھ گئي اور پٹھو پہلوی حکومت نے بغیرکسی شرط کے مغربی سامراج بالخصوص امریکہ کے مفادات کی راہ میں کوئي دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ پہلوی حکومتوں کی اسی شدید وابستگي سے متاثر ہوکر امریکہ کے سابق وزیرخارجہ ہنری کیسنجر کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ شاہ امریکہ کا نادر ترین اتحادی اور ایک غیرمشروط حلیف تھا۔
ایران کا اسلامی انقلاب چونکہ ہرپہلو سے امریکہ مخالف تھا لھذا امریکہ نے اسکی کامیابی کے روز اول ہی سے اس کےخلاف سازشیں رچنا شروع کردیا تھا۔ امریکہ نےاپنی گوناگوں سازشوں اور ہتھکنڈوں سے اسلامی حکومت کو گرانے یا کم از کم اسے اپنی پالیسیاں بدلنے یا ایران کی اسلامی انقلابی ثقافت کو متاثر کرنے کی کوششیں کیں۔ اسلامی انقلاب کے خلاف امریکہ کے اقدامات، ایران امریکہ کی رسہ کشی اور ان کی وجوہات ایک الگ تحقیق کی متقاضی ہے ۔ امریکہ، ایران کو دنیا میں بہت سی اسلامی تحریکوں کے پس پشت سمجھتا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایسے اندیشوں کا سبب جو کہ علماء کی حاکمیت کے تحت ہے نہ صرف یرغمالیوں کے بحران کی بناپر بلکہ ایران کے اسلامی انقلاب کی آئيڈیالوجی کی بناپربھی ہے لھذا ایران کےبارے میں اعتدال پسند اور انتھا پسند اسلام پسندوں کانظریہ صادق نہیں آتا، ایران نے اسلام پسندوں کے تعلق سے امریکہ کے رویے کو واضح کردیا ہے۔ اسلامی بیداری کے مقابل امریکہ کی بوکھلاہٹ اور اسلام پسندوں کے خلاف امریکہ کی دشمنی کو، امریکہ کی خارجہ پالیسی مشینری کو ایران سےلاحق شدید پریشانی کے اسباب کی گتھی کھولے بغیر نہيں سمجھا جاسکتا۔ ایسا لگتاہےکہ واشنگٹن نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں جاری اسلامی تحریکوں کو پرکھنے کامعیار اسلامی انقلاب کو بنارکھا ہے۔ اسی تناظر میں ہم یہ کھ سکتےہیں کہ ایران کے تعلق سے امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں ساری دنیا میں اسلام پسندوں کےساتھ امریکہ کے تعلقات میں نشیب و فراز آئيں گے۔
گذشتہ تین دھائیوں میں ایران کے خلاف امریکہ کی سیاسی، اقتصادی اور سکیوریٹی پالیسیوں کے باوجود بعض امریکی حکام یہ اعتراف کرنے پرمجبور ہیں کہ امریکہ اسلامی بیداری کی بڑہتی لہر کو یورپ و امریکہ میں داخل ہونے سے بھی نہیں روک سکا ہے ، اسی بناپر امریکہ اور یورپ میں ہونے والی کانفرنسوں کا ایک اہم ترین موضوع اسلامی بیداری سے مقابلہ کرنے کے طریقہ کار بن چکا ہے۔
برطانوی وزارت خارجہ نے حکومت کے لئے اسٹراٹیجیک ریسرچ رپورٹ بھیجی ہےکہ " مذہبی اور ثقافتی نظریات کے ممکنہ تصادم سے اس بات کا قومی امکان پایاجاتا ہےکہ برطانیہ اور مغربی دیموکریسیوں پر اثرات پڑیں گے۔ مذہبی عقائد ایک بار پھر بین الاقوامی تعلقات کو جہت دیں گے اوربعض موقعوں پر ممکن ہے یہ جہت دہندہ طاقت سیاسی اھداف کی حامل بھی ہوجاے۔ ایسا لگتا ہےکہ مغربی ڈیموکریسیوں اور بعض اسلامی ملکوں اور گروہوں کےدرمیاں تعلقات میں دوبارہ مسائل سراٹھائيں گےاور ان تعلقات میں کشیدگي کی وجوہات بڑی پیچيدہ ہیں۔ مسئلہ فلسطین اگر حل نہ ہوا تو اسی طرح درد سربنارہے گا۔ دیگر ملکوں کی مذہبی چپقلشیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر برطانیہ کے حالات پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
اس رپورٹ میں آیا ہےکہ آئندہ دھائي اور اسکے بعد اسلامی ملکوں اور قوموں کے ساتھ تعلقات کا برقراررکھنا مغرب کےلئے اسٹراٹیجیک چیلنج بن جائے گي۔ دنیا کو مذاہب کی شناخت کوبہتر بنانے اور مذہب سے جنم لینے والے سیاسی محرکات کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگي۔ مذاہب میں مشترکہ اقدار کے باوجود مغربی جمہوریتوں اور اسلامی ملکوں کے تعلقات کےبارےمیں اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے کی ضرورت کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اوراسی بناپر اسلامی ملکوں اور مسلمانوں کےساتھ تعلقات برقراررکھنا مغربی ملکوں اور برطانیہ کے لئےایک اہم چینلج بن جائے گي۔
مغرب بالخصوص امریکہ میں مسلمانوں اور اسلامی گروہوں اور ان کے مراکز کےخلاف غیر قانونی اور غیر جمہوری اقدامات منجملہ یورپ کےبعض ممالک میں اسلامی حجاب پرپابندی اور مسلمانوں کےخلاف تعصب آمیز اور امتیازی پالیسیاں یہ بتاتی ہیں کہ مغرب کو اسلام سے شدید خوف لاحق ہوچکا ہے۔گرچہ مغرب اسلام اور مسلمانوں کو شکست دینے میں ناکام ہے اور رہے گالیکن اس نے اپنی سازشوں کو مزید تیزکردیا ہے۔ مغرب اسلام ومسلمین اور اسلامی جمہوریہ ایران کےخلاف بدستور اپنی نفسیاتی جنگ جاری رکھے ہوے ہے۔ مغرب کی ان ہی دشمنانہ پالیسیوں کودیکھتےہوے اھل نظر کا کہنا ہےکہ اکیسویں صدی اسلام کی فکری اور معنوی طاقتوں کے ظہور اور مغرب کے تقافتی تسلط سے مقابلے کی صدی ہے اور کیا قرآن کا یہ وعدہ نہیں ہے کہ کافر اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھانے کی کوشش کریں گے لیکن خدا اپنے نور کی تکمیل کرے گا خواہ کافروں کو یہ بات اچھی ہی نہ لگے۔
نورخدا ہے کفر کی ظلمت پرخندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
source : http://www.taghrib.ir/