اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق اور لوگوں کے اموال اور مکمل عدالت اجتماعی کے اجراء کرنے کا مسئلہ ہے ۔ اُوپر والی آیات اس حصہ سے مربوط احکام کا ایک گوشہ ہیں۔
پہلے اس بناپر کہ وارثوں کے حقوق مرنے والے کے مال میں سے ضائع نہ ہوں اور پسماندگان، یتیم اور چھوٹے بچوں کا حق پائمال نہ ہو، صاحب ایمان افراد کو حکم دیتا ہے اور اُن سے یہ کہتا ہے: اے ایمان لانے والو! جب تم میں سے کسی کو موت آگھیرے تو وصیت کرتے وقت دو عادل افراد کو گواہی کے لئے بلاؤ اور اپنا مال امانت کے طور پر ورثا کے حوالے کرنے کے لئے ان کے سپرد کردو ( یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا شَھَادَةُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ ) ۔
یہاں عدل سے مراد وہی عدالت ہے جو گناہِ کبیرہ وغیرہ سے پرہیز کرنے کے معنی میں ہے ۔ البتہ آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی ہے کہ عدالت سے مراد ”امور مالی میں امانت“ اور ”عدم خیانت“ ہو مگر یہ کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہو کہ اس سے مزید شرائط بھی اس سلسلے میں ضروری ہیں ۔
”منکم“ سے مراد یعنی تم مسلمانوں میں سے، غیر مسلم افراد کے مقابلے میں ہے کہ جس کی طرف بعد والے جملے میں اشارہ ہوگا ۔
البتہ اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ یہاں عام شہادت کے متعلق بحث نہیں ہے، بلکہ یہ وہ شہادت ہے جو وصیت کے ساتھ وابستہ ہے، یعنی یہ دونوں افراد وصی بھی ہیں اور گواہ بھی ۔ باقی رہا یہ احتمال کہ یہاں پر دو گواہوں کے علاوہ ایک تیسرے شخص کا وصی کے طور پر انتخاب بھی ضروری ہے تو وہ ظاہر آیت کے خلاف اور شانِ نزول کے مخالف ہے، کیونکہ ہم شان نزول میں پڑھ چکے ہیں کہ ابن ماریہ کے ہمسفر صرف دو افراد تھے کہ جنھیں اُس نے اپنی میراث پر وصی اور گواہ اٹھہرایا تھا ۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے: اگر تم مسافرت میں ہو اور تم پر موت کی مصیت آپڑے (اور مسلمانوں میں سے کوئی وصی اور شاہد تمھیں نہ مل سکے) تو اس مقصد کے لئے غیر مسلمانوں میں سے دو افراد کا انتخاب کرلو (اٴَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إِنْ اٴَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَاٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةُ الْمَوْتِ ) ۔
اگرچہ اس آیت میں اس موضوع سے متعلق کوئی بات دکھائی نہیں دیتی کہ غیر مسلموں میں سے وصی وشاہد کا انتخاب مسلمانوں میں سے کسی مسلمان کے نہ ملنے کے ساتھ مشروط ہے البتہ یہ بات واضح ہے کہ مراد ایسی صورت میں ہی ہے جب مسلمان تک رسائی نہ ہو اور مسافرت کی قید کا ذکر بھی اسی وجہ سے ہوا ہے ۔ اسی طرح کلمہ ”اٴو“ اگرچہ عام طور پر اختیار کے لئے آتا ہے لیکن یہاں بھی بہت سے دوسرے مواقع کی طرح ”ترتیب“ ہی منظور ہے، یعنی پہلے تومسلمانوں میں سے انتخاب ہونا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر غیر مسلموں میں سے انتخاب کرو ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ غیر مسلموں سے یہاں صرف اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ ہی مراد ہیں کیونکہ اسلام مشرکوں اور بت پرستوں کی اہمیت کا کبھی قائل نہیں ہوا ۔
پھر حکم دیتا ہے کہ اگر گواہی دینے کے وقت، رفعِ شک کی غرض سے، ان دونوں افراد کو نماز کے بعد اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ الله کی قسم کھائیں (تَحْبِسُونَھُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلاَةِ فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ إِنْ ارْتَبْتُمْ) اور ان کی شہادت اس طرح سے ہونا چاہیے کہ وہ کہیں کہ: ہم اس بات پر آمادہ نہیں ہیں کہ حق کو مادی منافع کی خاطر بیچ ڈالیں اور ناحق گواہی دیں اگرچہ ہمارے رشتہ داروں اور عزیزوں کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو (لاَنَشْتَرِی بِہِ ثَمَنًا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ ) اور ہم کبھی خدائی گواہی کو نہیں چھپائیں گے کیونکہ اس طرح تو تم گنہگاروں میں سے ہوجائیں گے (وَلاَنَکْتُمُ شَھَادَةَ اللهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِینَ ) ۔
اس حقیقت پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ:
اوّلاً یہ تمام لوازمات شک وشبہ اور اتہام کی صورت میں ادائے شہادت کے سلسے میں ہیں ۔
دوسرا یہ کہ حفاظت کے لئے ایک طرح کی محکم ضمانت ہے اور یہ بات شہادت عدلین کو بغیر قسم کے قبول کرلینے کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ حکم عدم اتہام کے مواقع کے ساتھ مربوط ہے، لہٰذا اس بناپر نہ تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی یہ غیرمسلموں کے ساتھ مخصوص ہے (غور کیجیے) ۔
تیسرا یہ کہ نماز سے مراد غیر مسلموں کی صورت میں از روئے اصول وقاعدہ خود ان کی ہی نماز ہونا چاہیے جو اُن میں توجّہ اور خوف خدا پیدا کرتی ہے، باقی رہا مسلمانوں کے بارے میں تو ایک گروہ کا نظریہ تو یہ ہے کہ اس سے مراد خاص طور پر نماز عصر ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی بعض روایات میں بھی اس بارے میں اشارہ ہوا ہے لیکن آیت کا ظاہر مطلق ہے اور وہ ہر نماز کے لئے ہے، ہوسکتا ہے کہ ہماری روایات میں خصوصیت کے ساتھ نماز عصر کا ذکر استحبابی پہلو رکھتا ہو کیونکہ نماز عصر میں لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہوجاتے تھے ۔ علاوہ ازیں فیصلہ اور قضاوت کا وقت بھی مسلمانوں کے نزدیک زیادہ تر یہی ہوتا تھا ۔
چوتھا یہ کہ شہادت کے لئے نماز کے وقت کا انتخاب اس بناپر تھا ہ کیونکہ اس موقع پر انسان میں خدا خوفی کی روح بیدار ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
”اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ“(۱)
زمان ومکان کی حالت انسان کو حق کی طرف متوجہ کرتی ہے، یہاں تک کہ بعض فقہا نے کہا ہے کہ اگر گواہی کے لئے مکہ میں ہوں تو بہتر ہے خصوصاًکعبہ کے پاس ”رکن“ و ”مقام“ کے درمیان کہ جو بہت ہی مقدس جگہ ہے اور اگر مدینہ میں ہوں تو پیغمبر کے منبر کے پاس یہ شہادت ادا ہو ۔
بعد والی آیت میں ایسے مواقع کے متعلق گفتگو ہورہی ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ دونوں گواہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انھوں نے حق کے خلاف گواہی دی ہے جیسا کہ آیت کی شان نزول میں بیان ہوا ہے ۔ ایسے موقع کے لئے حکم یہ ہے کہ: اگر یہ معلوم ہوجائے کہ دونوں گواہ گناہ، جرم اور تعدی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انھوں نے حق کو پامال کردیا ہے تو دوسرے دو آدمی اُن لوگوں میں سے لئے جائیں جب پر پہلے گواہوں نے ظلم کیا ہے یعنی مرنے والے کے ورثا میں سے اور وہ اپنا حق ثابت کرنے کے لئے گواہی دیں گے (فَإِنْ عُثِرَ عَلیٰ اٴَنَّھُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَھُمَا مِنْ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمْ الْاٴَوْلَیَانِ) ۔
مرحوم طبرسیۺ نے ”مجمع البیان“ میں کہا ہے کہ یہ آیت معنی اور اعراب کے لحاظ سے پیچیدہ ترین اور مشکل ترین آیات قرآن میں سے ہے، لیکن دونکات کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آیت اس قدر پیچیدہ بھی نہیں ہے ۔
پہلا نکتہ ہے کہ لفظ ”اثم“ (گناہ) کے قرینہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ”اسْتَحَقَّ “سے مراد جرم اور دوسرے کے حق پر تجاوز ہے اور دوسرے یہ کہ ”اولیان“ یہاں ”اولان“ کے معنی میں ہے یعنی دو گواہ کہ جنھیں پہلے گواہی دینا چاہیے تھی اور اب وہ راہ راست سے منحرف ہوگئے ہیں، بنابر یں آیت کا معنی اس طرح ہوگا کہ اگر کوئی ایسی اطلاع مل جائے کہ پہلے والے دو گواہ غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں تو دوافراد ان کی جگہ لے لیں گے یہ دو گواہ ان لوگوں میں ہوں گے کہ جن پر پہلے دو گواہوں نے زیادتی اور تجاوز کیا ہے(۲)
آیت کے ذیل میں دوسرے دو گواہوں کی ذمہ داری یوں بیان کی گئی ہے: خدا کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی پہلے دوافراد کی گواہی کی نسبت زیادہ صحیح اور حق کے زیادہ قریب ہے اور تجاوز اور کسی ظلم وستم کے مرتکب نہیں ہوں گے اور اگر ہم ایسا کریں گے تو ظالموں میں سے قرار پائیں گے (فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ لَشَھَادَتُنَا اٴَحَقُّ مِنْ شَھَادَتِھِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ) ۔
حقیقت میں مرنے والے کے اولیاء پہلے سے اس کے مال ومتاع کے بارے میں مسافرت کے وقت یا مسافرت کے علاوہ جو کچھ جانتے ہیں اس کی بنیاد پر گواہی دیں گے کہ پہلے دو گواہ ظلم وخیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ گواہی مشاہدہ وحس کی بناپر ہے نہ کہ حدس وقرائن کی رو سے ۔
زیر بحث آیت کے آخر میں در حقیقت ان احکام کا فلسفہ بیان ہورہا ہے جو شہادت کے سلسلے میں پہلی آیات میں گزر چکے ہیں کہ اگر اُوپر والے حکم کے مطابق عمل ہو یعنی دونوں گواہوں کو نماز کے بعد جماعت کی موجودگی میں گواہی کے لئے طلب کریں اور ان کی خیانت ظاہر ہونے کی صورت میں دوسرے افراد ورثاء میں سے ان کی جگہ لے لیں اور حق کو واضح کریں تو یہ لائحہ عمل اس بات کا سبب بنے گا وہ گواہ گواہی کے معاملے میں غور وخوض سے کام لیں گے اور خدا کے خوف یا خلق خدا کے ڈر سے واقع کے مطابق گواہی دیں گے (ذٰلِکَ اٴَدْنَی اٴَنْ یَاٴْتُوا بِالشَّھَادَةِ عَلیٰ وَجْھِھَا اٴَوْ یَخَافُوا اٴَنْ تُرَدَّ اٴَیْمَانٌ بَعْدَ اٴَیْمَانِھِمْ) ۔
در حقیقت یہ کام اس بات کا سبب بنے گا کہ اُن میں خدا کے سامنے یا بندگانِ خدا کے سامنے زیادہ سے زیادہ بازپُرس کا خوف پیدا ہوجائے گا اور وہ حق کے مرکز سے روگرداں نہ ہوں ۔
آیت کے آخر میں تمام گذشتہ احکام کی تاکید کے لئے ایک حکم دیا گیا ہے:
پرہیزگاری اختیار کرو اور فرمان خدا کان لگا کر سنو اور یہ جان لو کہ خدا فاسق گروہ کو ہدایت نہیں کرتا (وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوا وَاللهُ لاَیَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ) ۔
۱۰۹ یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا اٴُجِبْتُمْ قَالُوا لاَعِلْمَ لَنَا إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ
ترجمہ
۱۰۹۔ اُس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور انھیں کہے گا کہ لوگوں نے تمھاری دعوت کا کیا جواب دیا تھا تو وہ کہیں گے ہمیں تو پتہ نہیں تُو خود تمام پوشیدہ چیزوںکا جاننے والا ہے ۔
۱۔سورہٴ عنکبوت، آیت۴۵-
۲۔اس بناپر اعراب کے لحاظ سے ”آخران“ مبتدا ہے اور ”یَقُومَانِ مَقَامَھُمَا “ خبر ہے اور ”اولیان“ ”استحق“ کا فاعل ہے ”الَّذِینَ“ ورثاء کے معنی میں ہے جن پر ظلم ہوا ہے اور جارومجرور ”مِنَ الَّذِینَ “کا ”اخران“ کی صفت ہوگا (غور کیجیے)
source : http://www.makaremshirazi.org