مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ، وہ اپنے انداز سے زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس اپنی تہذیب ، اپنا تمدّن اور اپنا معاشرہ ہے ، جس دین کی وہ پیروی کرتے ہیں ،وہ دین پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی رہنمائی کر تا ہے،زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ لب نہیں چھوڑتا۔ اس لیے اپنے طور پر زندگی کے نظام کو ترتیب دینے کے بجائے ان کے پاس مرتب شدہ نظام پہلے ہی سے موجود ہے۔ خوش قسمتی سیزندگی کا جو فلسفہ اسلام بتا تا ہے اور اپنے پیروکاروں کے لیے جو اصول وضع کرتا ہے، وہ تمام حقائق پر مبنی،انتہائی مفید اور فطرت کے عین مطابق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال کا طویل وقفہ گذرجانے کے بعد بھی اسلامی تہذیب و معاشرت روئے زمین پر نئی تابانی کے ساتھ زندہ ہے اور دنیا کے ہر حصہ کے انصاف پسند وپڑھے لکھے افراد نہ صرف اس کی افادیت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کو ترجیح بھی دیتے ہیں۔ در اصل انہیں معلوم ہے کہ مسلم معاشرہ میں سادگی ، خوش اخلاقی، بھائی چارگی موجود ہوتی ہے۔اس سماج کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک کر تے ہیں ، پڑوسی کے کام آتے ہیں۔ انسانیت کے لیے اپنی جان تک حاضر کردیتے ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسلامی معاشرت ظاہری وباطنی طہارت و صفائی اور صدق ووفاداری سے آراستہ ہے ، اس معاشرت میں اونچ نیچ کے فرق ، چھوٹے بڑے کے امتیاز اور امیر و غریب کے مابین تفریق کا کوئی تصور نہیں ۔ یہاں عدل و انصاف کو اولیت دی جاتی ہے، پسماندہ افراد کی خبر گیری ہوتی ہے ، عورت کے ناموس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اسے بحیثیت انسان ،اس کامقام وحق دیا جاتا ہے ۔ اس معاشرہ میں ریتی رواج اور رسومات و بد عات کا بھی گزر نہیں۔ کیا ایسا صالح معاشرہ کوئی اور پیش کرسکتا ہے؟ لیکن افسوس یہی تہذیب معاشرت ہندوستا ن میں نازک حالات سے دوچارہے۔
ہندوستا ن جس کے دامن میں تقریبا ٢٠ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ ان کا رہن سہن، رسم ورواج اور زندگی بسر کرنے کے طور طریق اسلامی کلچر کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ان کے درمیان ایسی رسومات وبدعات زور و شور کے ساتھ رائج ہیں جن کے لیے مسلم معاشرہ میں کوئی گنجائش نہیں اور ایسی برائیاں عام ہیں ،جن سے مسلم تہذیب و معاشرت پر کاری ضرب لگتی دکھائی دیتی ہے۔
مثلا اسلام آپسی بھائی چارے کاپیغام دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیاہے ''تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں'' لیکن فی الوقت مسلم معاشرے میں صورت ِحال اس کے برعکس ہے ،ہر سطح پر اختلافات کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔ تعلیمی معاملہ ہو یا سیاسی، معاشی مسئلہ ہو یا مسلکی، کل ہند سطح پر آج بے شمار فرقے ہیں، اس پر مزید یہ کہ ان کے درمیان باہمی رسہ کشی ، نفرت وکدورت اور بغض و عداوت کی حد تک ہے ۔ ایک فرقہ کے لوگ دوسرے کے افراد کو برداشت نہیں کرتے ۔ بسا اوقات ان کے درمیان میدان کار زار کے گرم ہونے کی نوبت تک آجاتی ہے ۔
اس صورت حال سے مسلم معاشرہ پراگندہ ہوچکاہے، جس کے دل میں جھانک کر دیکھو ، ایک لاوا پکتا ہوانظر آتا ہے۔ ذات و برادری کے نام پر الگ حد ِفاصل قائم ہے۔ اپنے آپ کو بڑی برادریسے منسوب کر نے والے حضرات چھوٹی برادری کے لوگوں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے آپ پر فخر کرتے ہیں۔ چاہے وہ اسلامی قدروں و اصولوں کو کھلم کھلا کیوں نہ ڈھاتے ہوں ۔ اسی برادری واد کے سبب اکثر و بیشتر ہندوستان کے مسلم معاشرے میں انصاف و حق گوئی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اپنی برادری کی بے جا بات کو بھی جا بتا نے کاچلن عام ہے۔ یہ مرض نا خواندہ یا دنیوی افراد کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ملک کے پڑھے لکھے حضرا ت بھی اس وباکے شکارہیں۔ مسلکی و قبائلی اختلافات کے علاوہ معاشی و سیاسی سطح پر بھی یہی صورت حال ہے ۔ جس کے باعث مسلمان آئے دن ملک کے سیاسی منظر نامے سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان کی نشستیں بتد ریج گھٹ رہی ہیں اور صوبائی انتخابا ت میں بھی وہ بے اثر ہوتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلامی معاشرت میں بغض و عناد اور کسی بھی سطح پر نقصان دہ حد تک اختلافات کی گنجائش نہیں تو پھر ہندوستان میں مسلم معاشرہ کیوں اختلافات کی زد میں بری طرح کراہ رہا ہے؟ سر دست اس سلسلہ میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
مسلم معاشرے کی ایک خوبی سادگی و خوش اخلاقی ہے مگر افسوس ہندوستان کے مسلم معاشرے میں اس کابھی فقدان ہے ۔تصنع اور بناوٹ کا عالم یہ ہے کہ لوگ بناوٹ کو اپنا محبوب مشغلہ یا اپنی ساکھ دکھانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اسی لیے کھانے میں اتنے تکلفات ہیں کہ الامان والحفیظ۔ اور لباس کا کیا کہنا، طرح طرح کے فیشن اپنائے جارہے ہیں۔ مسلمان آج کوٹ ،پینٹ، شرٹ ، ٹائی وغیرہ کو اہمیت دے رہے ہیں۔ مسلم عورتیں دوسروں کے مانند عجیب و غریب ترا ش خراش کپڑ ے پہن رہی ہیں۔ تاکہ ان کے اعضائے جسم دلکش و پُر فریب دکھائی دیں۔ چہرے کے لیے پائو ڈر و کریم کا مسلسل استعمال چمڑے کو محفوظ رکھنے کے لیے نہیں، دکھانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ لِپ اسٹک اور دیگر غیرمناسب لوازمات کی بھی مسلم عورتوں میں بڑی مقبولیت ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اب یہ دکھاوٹ عبادت و ریاضت میں بھی کی آنے لگی ہے۔ حالانکہ مسلم معاشرہ انتہائی سادگی کا آئنہ دار ہے۔ یہ سادگی مسلم معاشرہ کی ایسی خصوصیت ہے جو دوسری اقوام کو بھاتی ہے اور وہ متأثر ہو کر دائرہ اسلام میں بھی داخل ہوجاتے ہیں۔
خوش اخلاقی کا تو ہندستان کے مسلم معاشرہ میں الاماشاء اللہ ہی نام و نشان دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ بد خلقی ، ترش روئی اور بد سلوکی عام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم سماج پر کھلے عام نقد و جرح کی جا رہی ہے اور اسیانتہائی غیر مہذب بتایا جا رہا ہے۔
مسلم ہندوسانی معاشرہ میںتعلیم وتربیت اور سنجیدگی کی بھی کمی ہے۔ جب کہ مسلم معاشرے میں ان تینوں چیزوں کو خاص اہمیت دی گئی ۔ اسلام تعلیم کولے کر بہت سنجیدہ ہے ،اس نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم کی دولت حاصل کر نے کی مختلف انداز سے تر غیب دلائی ہے۔ کیونکہ یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ تعلیم کے بنا کسی بھی سماج میں سنجیدگی و متا نت کا خواب ادھوراہے ۔ لیکن ہمارے سماج میں ہنوز تعلیم کی طرف کوئی خاص رجحان نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا تعلیمی شرح فیصد دوسروں کے مقابلے کافی گرا ہوا ہے اور اس کے نتائج یہ سامنے آرہے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس معاشی و اقتصادی وسائل کی کمی ہے ، دوسرے ان کی سوسائٹی سنجیدگی سے محروم ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ چند فیصد کو چھوڑ کر زیادہ ترشعو ر سے ہی محروم ہیں۔
صفائی ستھرائی کے تعلق سے مشہور ہے کہ مسلمان انتہائی گندے رہتے ہیں ، ان کے محلے غلاظت سے پُر ہوتے ہیں، سڑکیں ، نالیاں صاف نہیں ہوتیں ، گھروں میں بھی کوئی سلیقہ مندی نہیں پائی جاتی ۔ یہ سچ ہے ۔ اس سے انکار حقیقت سے منہ موڑنا ہے کہ ہندوستان کے زیادہ تر مسلمانوں کی بستیاں و علاقے گندگی سے آلودہ ہوتے ہیں ۔ ایک تو اس لیے کہ نگر پالیکائیں جان بوجھ کر مسلم علاقوں کی طرف دھیان نہیں دیتیں ،دوسرے یہ کہ خود مسلمان اس سلسلہ میں کافی سست نظر آتے ہیں ۔ جہاں تک سوال اسلامی معاشرت اور طہارت کاہے تو اسلام میں ناپاکی و گندگی کا تصور تک نہیں ہے ۔ کیونکہ اسلام پاکی وطہارت کا ایک مستقل نظام پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم نے طہارت پر توجہ دلائی ہے اور احادیث و فقہ کی کتابوں میں پورے پورے ابواب ''کتاب الطہارة '' کے نام سے باندھے گئے ہیں ۔بعض فقہ و احادیث کی کتابوں میں طہارت کے بیان کو کتاب الایمان پر مقدم کیا ہے اور حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ پاکی و صفائی ستھرائی نصف ایمان ہے۔ اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک طہارت وصفائی کس قدر اہم ہے ۔پا کی کے تعلق سے اسلامی نقطہ نظراور اس کی تعلیما ت کو سامنے رکھ کر یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ جس قدر پاک و صاف مسلمان رہ سکتے ہیں، دنیا کے کسی بھی کلچر و سماج سے متعلق لوگ ہر گز نہیں رہ سکتے ۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی وہ ناپاک ہوں غسل کریں۔ جب بھی وہ قضائے حاجت کے لیے جائیں، فوراً استنجی کریں، ہمہ وقت پاک کپڑے پہنیں، جس جگہ رہیں، اس جگہ کی پاکی و صفائی کا پورااہتمام رکھیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ ان چیزوں کا خیال نہ رکھیںاور دوسروں سے متأثر ہو جائیں ۔ مسلم معاشرہ میں اس چیز پر توجہ دی جانی چاہئے۔
اسلامی معاشرت کا ایک مفید ترین پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے ہر فرد کو چاہے وہ غریب ہو یا امیر ، مفلس ہو یا نادار ، ایک سادہ زندگی بسر کر نے کی ترغیب دیتا ہے ۔ تاکہ زندگی کے پیچ وخم سے وہ آزاد رہیں۔ مثلا شادی یا نکاح کو اسلامی معاشرہ میں اس قدر سادگی و اختصارکے ساتھ انجام دیا جا نا چاہئے کہ اس میں والدین کا کچھ خرچ ہی نہ ہو، لیکن ہندوستانی مسلم معاشرہ میں شادی بیا ہ کے موقع پر اسلامی تعلیما ت کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور دوسروں کے سماج کی رسومات کو اپنا یا جا تا ہے۔ لڑکی کے نکاح کے لیے درجنوں قیمتی جوڑے، ہزاروں روپوں کے سونے چاندی کے زیوارات اور ہزاروں ،کبھی کبھی لاکھوں کا جہیز بھی دیا جاتا ہے۔ محلہ والوں کے کھانے کی دعوت اور سیکڑوں افراد پر مشتمل بارات کی خاطر و مدارت الگ کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح سے لڑکی کے نکاح میں ہزاروں یا لاکھوں روپے خرچ ہونا عام بات ہے۔ لڑکے کی شادی میں بھی ان گنت رسومات رائج ہیں۔ بینڈ باجے کے ساتھ ایک لائو لشکر کی شکل میں بارات لے جائی جاتی ہے۔ زیور بھی چڑھایا جاتا ہے اور جوڑے بھی دیے جاتے ہیں۔ گویا کہ شریعت نے نکاح کو جس قدر آسان بنایا تھا، مسلم معاشرے نے اسے اسی قدر دشوار یا مہنگا بنادیا۔ ایک غریب و پسماندہ شخص کے لیے اپنے بچوں کا نکاح انتہائی بھاری پڑتا ہے۔ لڑکی والے کو اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دینا ہوتا ہے، جس کے لیے اسے قرض لینا پڑتا ہے ۔ نہیں تو اس کی لڑکی گھر پر بیٹھی رہتی ہے ، مسلم سماج اسے قبول نہیں کرتا۔ یعنی وہ سماج جو اسلام کے ساتھ علی الاعلان اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔ اگرچہ مسلم معاشرہ سے اس برائی کے خاتمہ کے لیے علماء و دانشوران کی جانب سے ان گنت اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں لیکن کامیابی ہنوز ندارد۔ اس لیے کہ بہت سے علماء حضرات بھی اس طرح کی بد عت میں ملوث ہیں ۔ ان میں اتنی سکت نہیںکہ وہ عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم اٹھا سکیں۔ ڈھیر ساری ہندوانہ رسومات سے مسلم سماج کو پاک صاف کر نے کے لیے ذمہ داران حضرات کو سخت جد وجہد کر نی ہوگی۔
اس کے علاوہ انسانی قدروں و فطرت کے تقاضوں کی بھی آج کے مسلم معاشرے میں کوئی پرواہ نہیں کی جارہی ہے۔ جھوٹ ، وعدہ خلافی، عہد شکنی، مکاری ،دھوکہ بازی اور بد عنوانی جسیی چیزوں کو مسلم معاشرے میںخوب پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ لوگ کھلے عام جھوٹ بولتے ہیں، مگر ان پر نقد نہیں کی جاتی ، عہد و وعدہ کر کے اسے توڑتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی اثر نہیں لیا جاتا ، دھوکہ دیتے ہیں، لیکن یہ بھی کوئی عیب کی بات شمار نہیں کی جاتی ۔ ذرا ذرا سی بات پر مارپیٹ اور قتل عام تک نوبت آجاتی ہے مگر معاشرتی سطح پر ان کی سرزنش نہیں ہوتی ۔مسلم معاشر ہ کیا ہے؟گویا کہ جھوٹ ، مکاری ، فحاشی، پیٹھ پیچھے برائی ، نا خواندگی ، مفلو ک الحالی ، گالی گلوچ ،رسومات و بدعات ، گندگی و نا پاکی کا ڈھیر ہے ۔جہاںساری برائیاں ہیں، اگر نہیں ہے تو انسانی و اسلامی معاشرت وتہذیب ۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں کی ملک میںڈھیر ساری مذہبی، ملی وسماجی جماعتیں ہیں، ان گنت مدارس ہیں، علمائ، حفاظ ہیں ،حجّاج ہیں، نمازیوں کی بھی کافی تعداد ہے ، اگر سب لوگ معاشرہ کے تئیں اپنی ذمہ داری کونبھائیں ،تو یقینی طور سے ان کے درمیان ایک معاشرتی و تہذیبی انقلاب بر پا ہو سکتا ہے۔
source : http://www.shianet.in