اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

معاشرے کے ساتھ رہیے

امام صادق (ع) لوگوں سے چاہتے تھے کہ وہ معاشرے سے مل جل کر رہیں‘ تاکہ اس سے سیکھ سکیں۔ کسی معصوم سے منقول ہے کہ ایک شخص نے امام (ع) سے عرض کیا : جعلت فداک ‘ قال رجل عرف ھذا الا مر لزم بیتہ ولم یعرف الی احد من اخوانہ ۔قال : کیف یتفقہ ھذا فی دینہ ( میں آپ پر قربان جائوں! ایک شخص ہے جو آپ کے امر ولایت کی معرفت رکھتا ہے۔ (یعنی مسلک اہل بیت کا چاہنے والا ہے اور ان سے انتساب رکھتا ہے )لیکن گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور اسکی اپنے کسی بھائ سے آشنائ اور جان پہچان نہیں۔ امام (ع) نے فرمایا : پھراس نے اس وصف کے ساتھ کیسے اپنے دین میں سمجھ بوجھ پیدا کی ہے ؟ ۔بحار الانوار ﹣ ج۱ ﹣ ص ۲۲۰﹣ باب ۶﹣ روایت ۶۰)

’’انسانی معاشرے سے کٹ کر ‘کیسے سیکھ سکتاہے؟ ‘‘۔اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ امام (ع) چاہتے ہیں کہ انسان اس معاشرے اور اجتماع سے مل کر رہے جو اسے علم و دانش فراہم کرتا ہے تاکہ اس ذریعے سے اسکی دینی معرفت گہرائ حاصل کرسکے ۔دین سے اسکا تعلق آگاہانہ ہونا چاہۓ نہ کہ جہالت پر مبنی۔ آپ (ع)نے فرمایا ہے : وددت ان اصحابی ضربت روؤسھم بالسیاط حتی یتفقھوا (مجھے پسند ہو گا کہ میرے اصحاب کو(دین کے بارے میں)سمجھ بوجھ پر ابھارنے کے لۓ ان کے سروں پر تازیانے برساۓ جائیں) نیز’’ علی ابن حمزہ ‘‘نے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ حضرت (ع)نے فرمایا : تفقھوا فی الدین فانہ لم یتفقہ منکم فھو اعرابی (دین میں سمجھ بوجھ اختیار کرو یقینا تم میں سے جو کوئی اس بارے میںسوجھ بوجھ حاصل نہ کرے‘ وہ اعرابی ہے۔ بحار الانوار ﹣ ج ۱ ﹣ ص ۲۱۵ ﹣ باب ۹ ﹣ روایت ۱۹) ۔یہاں ’’اعرابی‘‘ اس انسان کے لۓ بطور کنایہ استعمال ہوا ہے جو درست صورت اور گہرائ کے ساتھ دین کے بارے میں نا جانتا ہو‘ اس میں دین کی سمجھ بوجھ نہ ہو بلکہ اسکی دینداری سطحی نوعیت کی ہو۔ قالت الاعراب آمنّا قل لم تؤ منوا ولکن قولوا أسلمنا ولمّاید خل الایمان فی قلوبکم (یہ بادیہ نشین عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آۓ ہیں ۔ ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لاۓ‘ ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لاۓ ہیں‘ ایمان ابھی تمہارے دل میں داخل نہیں ہوا ہے۔ سورئہ حجرات ۴۹ ﹣ آیت ۱۴)

قرآن مجید میںایک دوسرے مقام پر ارشاد الٰہی ہے : لیتفقھوا فی الدین ولینذر وا قومھم اذا رجعواالیھم لعلھم یحذرون (تاکہ دین (اور اسلامی احکام و معارف) کے بارے میں سمجھ بوجھ حاصل کریں‘ اور اپنی قوم کی طرف واپس آ کر انہیں ڈرائیں کہ(شاید وہ (پروردگار عالم کے احکام و فرامین کی مخالفت سے خوفزدہ ہوں اور) پرہیز گار بن جائیں)۔ سورئہ توبہ ۹ ﹣ آیت ۱۲۲)

امام جعفر صادق  (ع)کا پیغام

عزیزو ! امام جعفر صادق علم و دانش ‘ حکمت و معرفت کا جیتا جاگتا نمونہ تھے ‘ روحانیت اور معنویت کا پیکر تھے۔ ایک ایسے انسان تھے جو ایک احساس ذمے داری لۓ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے۔ آپ(ع) چاہتے تھے کہ لوگ اپنے دین کے بارے میں سمجھ بوجھ پیدا کریں اور دین میں گہری معرفت حاصل کریں۔ کیونکہ ایسی معرفت کے حصول کے بعد ہی ان میں حق و باطل کے درمیان تمیز کی صلاحیت پیداہو گی۔ جس کے ذریعے وہ گمراہ کرنے والوں کے ہاتھوں ایجاد کردہ راستوں کی موجودگی کے باوجود حق اور باطل کو آپس میں خلط ملط نہ ہونے دیں گے۔ کیونکہ گمراہ قائدین کی کوشش ہوتی ہے کہ باطل میں حق کی خصوصیات کی آمیزش کر کے اسے بطور حق سامنے لائیںاور حق کو باطل کی خصوصیات کے ساتھ ظاہر کریں۔

امام (ع) ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم مہذب ‘ بیدار اور دین میں غور و فکر کرنے والے انسان بنیں ۔جب دین کی پابندی کریں ‘ تو اسکی تعلیمات سے بھی مناسب طور پر آشنا ہوں اور جب پروردگار عالم کی فرمانبرداری کا عزم کریں تو اس اطاعت اور فرمانبرداری کے دوران جن باریکیوں اور گہرائوں کو مدِ نظر رکھناضروری ہے‘ ان سے بھی باخبر ہو۔اپنے معاشرے کے درمیان زندگی بسر کرتے ہوۓ‘ ہم پر لازم ہے کہ چھوٹے بڑے تمام امور میں اپنے سماج کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو شعور اور ذمے داری کے ساتھ اپنے کاندھوں پر لیں۔امام جعفر صادق علیہ السلام کا پیغام یہ ہے کہ ہمیں آگاہ‘ باخبر اور علم و دانش کا حامل ہونا چاہۓ۔ ہم جاہل اور بے خبر افراد میں سے نہ ہوں۔ ہوشیار اور بیدار ہوں‘ غفلت اور بے خبری میں غوطہ ور نہیں۔ہم ایک ایسی ملت بنیں جو اپنے تمام معاملات اورامور میں اور انسان کو درپیش تمام مسائل و مشکلات میں ذمے دار نہ کردار کی مالک ہو ‘ نہ کہ حیات و زندگی کے مسائل سے لاتعلق اور غیرذمے دارقوم۔وآخر دعوانا الحمد ﷲ رب العالمین۔

 ماتحتوں سے سلوک

حضرت ابو ذر غفاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ (ص) نے فرمایا:خداوند عالم نے تمہارے بعض بھائوں کو تمہارا ماتحت بنایا ہے۔جس کسی کا بھائ اسکا ماتحت ہو اسے چاہۓ کہ جو خود کھاۓ وہ اسے کھلاۓ ‘جو خود پہنے وہ اسے بھی پہناۓ اور کبھی  ایسا کوئی کام اسکے سپردنہ کرے جو اسکی طاقت سے باہر ہو۔اور اگر کوئی دشوار کام اسکے سپردکرے تو اسکی انجامدہی میں اسکی مدد کرے۔(بحارالانوار۔ج۷۴۔ص۱۴۱)


source : ttp://www.bayenat.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔

 
user comment