ایسا خرچ جو کہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے کیاجائے یا مخلوق خدا کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیاجائے یہ ضروری خرچ ہے البتہ انسانی زندگی میں ضروریات زندگی کے علاوہ دوسری قسم کا خرچ بھی داخل ہوگیاہے، جس کو اسراف کا نام دیاگیا ہے۔ جو خرچ بھی نمودونمائش،نفس کی تسکین، ذوق و شوق کی تکمیل یا سماج میں خود کو بڑا ثابت کرنے کے لیے کیاجائے وہ اسراف اور فضول خرچی کی تعریف میں آتاہے۔
فی زمانہ یوں تو ہر شخض اس بُرائی میں مبتلا ہے، لیکن وہ ملت جو احکام شریعت اور نظام زندگی رکھتی ہے وہ بھی اس قبیح بُرائی کا شکار نظرآتی ہے۔ آج کل فضول خرچی اور اسراف کے معاملے میںمسابقت ہونے لگی ہے۔ غریب، امیر، شہری، دیہاتی، جاہل، عالم اور عورت، مرد سب اس برائی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ بھی اسراف کی راہ پر چل پڑیں تو اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیاہوسکتی ہے۔ اخبارات میں برابر تقاریب اور سرگرمیوں کی تفصیلات آتی رہتی ہیں، جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اپنی دولت کو کس طرح بے دریغ خرچ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ شادی بیاہ اورچھوٹی موٹی تقریبات پردولت کو پانی کی طرح بہاناقابل فخر بن گیا ہے۔ روزمرّہ کی زندگی میںبھی اسراف و فضول خرچی عام نظرآتی ہے۔ گھروں کی سجاوٹ، لباس کے اہتمام، سواریوں کی خریداری اور دوسری ضروریات زندگی کی تکمیل میں ہر شخص تفاخر و تکاثر کی راہ پر گامزن نظرآتا ہے۔
کچھ لوگوں کایہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کو دولت سے نوازا ہے تو اسے استعمال کرنے میں اور خاص کر اپنی خوشیوں کو دوبالاکرنے اور اپنے ار مانوں اورآرزوﺅں کی تکمیل کرنے میں اور عیش وآرام کے لیے صرف کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقینا مال و دولت اللہ کی نعمت ہے، جس کے حاصل ہونے پر ہر شخص کو شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کرکے کسی فرد کو یہ کامل اختیار نہیں دیاکہ وہ جیسے چاہے خرچ کرے۔ بعض لوگوں کایہ خیال ہے کہ سوائے ناجائز و حرام کاموں کے دیگر امور پر دولت کو جیسے چاہے خرچ کیاجاسکتا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے اسلام نے دولت کی آمد اور خرچ دونوں پر بندھ باندھا ہے۔ نہ حصول دولت میں حرص و ہوس کی اجازت دی ہے اور نہ خرچ میں بے اعتدالی کی اجازت دی ہے۔بلکہ یہ بات بھی بتادی ہے کہ قیامت کے دن دولت کی آمد و خرچ کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ چنانچہ حدیث میں آیاہے کہ قیامت کے دن کسی بنی آدم کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اس سے چار سوال نہ کیے جائیں:عمر کیسے گزری ؟ جوانی کہاں گزری؟ مال کہا ںسے کمایا اورکہاں خرچ کیا؟ اورجو کچھ علم حاصل کیاتھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟(ترمذی)
اسلام نے مہمان کی خاطر مدارات سے منع نہیں کیاہے، بلکہ مہمان کی توقیر و عزت کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلى الله علبه وسلم نے فرمایا :’جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، انھیں اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنی چاہیے‘ (بخاری ومسلم)
اسی طرح سیرت النبی میں یہ بات ملتی ہے کہ جب آپ ا صلى الله علبه وسلم مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو باربار فرماتے ”اور کھائیے اور کھائیے“اسی طرح قرآن مجید میں فرمایاگیا: ”اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاﺅ، پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“۔ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایاگیا:”فضول خرچی نہ کرو فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے”.
درج بالا احادیث نبوی اور آیات مبارکہ کے پس منظر میں ہم اپنی تقریبات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ مہمانوں کی تکریم کے نام پر انواع واقسام کے پکوان کوضروری کرلیاگیا ہے۔ علاوہ ازیں شادی خانوں کی سجاوٹ اور روشنی کے نام پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیاجاتاہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ شادی بیاہ کے پکوانوں ، شادی خانوں کی سجاوٹ، ویڈیو اور فوٹوگرافی ، زرق برق لباس، دلہن کے زیورات و دیگرچیزوں پرمقابلہ آرائی ہونے لگی ہے۔ دعوت ناموں کی چھپائی پر ہی ہزاروں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ آپ انے فرمایا :
”بخدا مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ دنیا تم پر اپنا جال پھیلائے گی، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر اس نے پھیلایاتھا تو تم بھی دنیا طلبی میں مقابلہ کرنے لگوگے، جس طرح انھوںنے مقابلہ کرنا شروع کردیاتھا۔ پس وہ تمہیں ہلاک کردے گی، جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیاتھا“۔ (بخاری)
دوسری جوچیز فخر و مباہات کا باعث بنتی جارہی ﮬﯾﮟ وہ شادیوں کے موقع پر ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ لباس اور زیور ہے۔ ہر شخص اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ وہ مشہور زمانہ یا زمانہ کا چلتاہوا جدید فیشن کاحامل لباس زیب تن کرے ، اسی طرح خواتین بھی لباس کے نت نئے انداز اور فلموں یا سیریلوں کے اداکاراﺅں کے لباس کو اپنانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مصروف ہیں، افسوس تو یہ ہے کہ جدید لباس کے چکرمیں خواتین اتنی بے لگام ہوگئی ہیں کہ انہیں جسم کی نمائش یا عریانی کی بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ زیورات خریدنا، موقع بہ موقع زیورات کو تبدیل کرنا یا انھیں جدید فیشن بنانا اور ہر تقریب کے مواقع پر نئے زیور کا استعمال کرنا خواتین کی ایک عادت سی ہوگئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں جو کچھ نعمتیں عطا کی ہیں، خاص طورپر جو کچھ دولت عطا کی ہے، اس پر ہر انسان کو قیامت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ چنانچہ سورہ التکاثر میں ارشاد ہے:”تم سے ضرور ان نعمتوں کے بارے میں قیامت کے دن پوچھاجائے گا”۔ ظاہر ہے جو شخص اللہ کی نعمتیں پاکر اللہ کی مرضی اور منشاءکے مطابق زندگی گزارے گا وہ اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہوسکے گا اور جو شخص اللہ کی نعمتوں کو تفاخر، نام ونمود اور شہرت وعزت کی طلب میں لگائے گا، اسے ذلّت و رسوائی کاسامنا کرناپڑے گا۔ مال ودولت عطا فرماکر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دولت مندوں پر زکوٰة فرض فرمائی ہے۔ بلکہ محتاجوں، ضرورت مندوں، مسکینوں، مسافروں کے علاوہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا بھی بار بار حکم دیاہے۔ مال و دولت حاصل کرکے آزاد ہوجانا، کیف و سرور کی محفلیں آراستہ کرنا، پارٹیز و کلب پر دولت خرچ کرنا، عا لیشان بنگلوں اور فارم ہاﺅزيس میں عیش کوشی کاسامان فراہم کرنا اورتفریح طبع کے لیے دولت کالٹانا کسی بھی صورت میں اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں ہوسکتا۔ دولت عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر چند ذمے داریاں بھی ڈالی ہیں۔ اگر اہل دولت اللہ او ر رسول کے واضح احکامات کے باوجود اسراف و فضول خرچی میں اپنی دولت صرف کریں اور انفاق فی سبیل اللہ سے کترائیں گے تو قیامت کے دن وہ اللہ اور اس کے رسول صلى الله علبه وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اپنی خوشی، بچوں کی خواہش، بیوی کی آرزو، ماں باپ کی تمنا کے نام پر بے مصرف اور فضول امور میںدولت لٹانا، احکام الٰہی سے کھلی بغاوت ہے، ایسے افراد شیطان کے راستے کے راہی ہیں۔ بلکہ وہ شیطان کے بھائی ہیں۔ شیطان پر جس طرح اللہ کا غضب ہے، اسی طرح وہ بھی غضب الٰہی کا مستحق بن سکتے ہیں۔
source : http://rizvia.net