یہ عالمی واقعہ آج بھی اس لئے زندہ جاوید ہے کہ اپنے دین، اپنے مذہبی مسلمات کے تحفظ اور باطل کی فتنہ پردازیوں کے سیل پر بند باندھنے کے جس ایمانی جذبے کے ساتھ یہ قربانی دی گئی تھی۔
روئے ارضی نے اپنے سینے پر بہت سے واقعات کے نقوش کندہ کر رکھے ہیں، سطح زمین پر قتل و خون، سفاکیت و درندگی، بہیمیت و خون ریزی سے آمیز کتنے ہلاکت خیز مناظر اسٹیج کئے جاچکے ہیں۔
تاریخ انسانی کے پہلے قتل حضرت آدم کے بیٹے قابیل کا اپنے حقیقی بھائی ہابیل کو موت کے گھاٹ اتارنے سے لیکر موجودہ صدی کے امریکی سامراج کے ذریعہ افغانستان و عراق کی بھیانک تباہی تک تاریخ کی آنکھوں نے بے شمار خونی واقعات کا نظارہ کیا ہے۔ لیکن باطل طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر جس طرح نواسۂ رسول اور فاطمہؑ کے لخت جگر حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف جام شہادت نوش کیا، بلکہ غیر اسلامی عناصر کا غرور خاک میں ملا کر حق و باطل، خیر و شر ، نیکی اور بدی کے مابین واضح حد فاصل بھی قائم کردی۔ وہ آج بھی ہر ذی عقل کے خانۂ قلب پر اسی آب وتاب کے ساتھ مرتسم ہے، جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف فرزندان توحید اسلامی سن کے پہلے ماہ کی دسویں تاریخ کو اس واقعہ کے نقوش کو اپنے قلب کے نہاں خانوں میں تازہ کرتے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے فلسفے کو سلام و احترام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ بلکہ اس قافلۂ حق کے ہر فرد کے شایان شان خراج عقیدت پیش کرنے کو اپنا دینی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی تصور کرتے ہیں۔
10 محرم الحرام کو رونما ہونے والا یہ لرزہ خیز واقعہ صرف ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جنگ نہ تھی، طاقتور اور کمزوروں کے درمیان خون ریزی سے بھی اس کو تعبیر کرنا قرین انصاف نہیں ، بلکہ اس میں آزادی کی تڑپ اور غلامی کے خلاف نفرت کا عالمی اعلان تھا اور یہ حق و باطل کے درمیان اسلامی تاریخ کی وہ فیصلہ کن جنگ تھی جس کی معنویت اور معتبریت میں ماہ سال کی گردش کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سامان حرب و ضرب سے مسلح یزیدی لشکر کے سامنے گنتی کے نہتے اور بے سروسامان قافلے کی جنگ دراصل خیر و شر کے درمیان ایسی معرکہ آرائی تھی۔ جس کی مقدار و معیار دونوں اعتبار سے آج کے ترقی یافتہ دور میں جب کہ ساری اسلام دشمن طاقتیں اسلام ، اسلامی معتقدات اور اسلام کے نام لیواؤں کے خلاف عصا بکف نظر آتی ہیں اتنی ہی ضرورت ہے ، جتنی کہ تاریخ کے اس جاہلانہ دور میں تھی۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے حامیوں کے اندر دراصل وہ دینی جذبہ اور ایمانی جوش و ولولہ موجود تھا، جس نے انھیں باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے کی توانائی بخشی۔ ان کی ایمانی کیفیت پر حق و صداقت کی سان چڑھائی اور ان کے رگ و ریشے میں اسلامی حقیقت کی وہ برقی لہر دوڑادی کہ انھوں نے راہ حق میں اپنا سر تن سے جدا کرانے کے مشکل ترین عمل کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ انگیز کرلیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام چاہتے تو وہ کربلا کا سفر کبھی نہ کرتے، دنیاوی عہدے اور مناسب اور ہر قسم کی آرائش ان کے قدموں میں رہتی، لیکن آپ نے وقتی مفادات کی قربان گاہ پر اسلام کے آفاقی اور دائمی پیغام کو بھینٹ چڑھایا۔ آپ نے جس نبوی گود میں پرورش پائی تھی اور آپ کی بچپن اور جوانی کی تربیت جس پیغمبرانہ ماحول میں ہوئی تھی۔ اس میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ باطل حق کے خلاف سازشوں کا تانا بانا بننے میں مصروف عمل رہے اور توحیدی قافلہ ایمانی گنبد میں بیٹھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے غیبی مدد کی راہ تکتا رہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے روز و شب ایسے پاکیزہ اور صالح اسلامی ماحول میں گزرے تھے، جہاں آرام طلبی اور ،مفاد پرستی کے قافلوں کو پرمارنے کی بھی ہمت نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے لئے رخت سفر باندھ لیا، تو پھر لاکھ فہمائش اور ہزار دنیاوی جاہ و جلال کی پیش کش کے باوجود ان کے قدموں میں لغزش نہ آئی، مصلحتوں نے دامن تھاما، مگر ایوان باطل میں حق گوئی و حق پرستی کا نعرہ بلند کرنے کا وہ قابل رشک نشہ دماغ میں سمایا ہوا تھا کہ تمام تر ظاہری بے سر و سامانی اور حالات کی ناسازگاری کے باوجود راہ حق پر رواں دواں رہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کا یہ تاریخی سفر اپنے جلو میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کا خزینہ رکھتا ہے۔ یہ تاریخی واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ باطل کے خلاف کس طرح ایک سچے مجاہد کا رول ادا کیا جاتا ہے۔ جب انسانیت ظلم کی چکی میں پس رہی ہو اور آدم و حوا کی اولاد کو سر عام رسوا کیا جارہا ہو، اس وقت ہر صاحب ایمان کا کیا فرض بنتا ہے۔ کیا وہ ذلت کی زندگی گزارتا ہے اور دو روزہ زندگی کے راحت و آرام کی قیمت پر اپنی عزت کا سودا کرتا رہے۔ یا اس دو روزہ زندگی کو عزت اور سربلندی کے ساتھ گزارنے کے لئے اپنی قیمتی متاع کو بھی داؤ پر لگا دے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زندگی اور ان کے سفر کربلا سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ وہ دو روزہ زندگی کو عزت و سربلندی اور تمام تر اسلامی فتح مندی کے ساتھ بسر کیا جائے ورنہ اس ذلت سے عبارت زندگی کو خیر باد کہہ کر جام شہادت نوش کر لینا چاہئے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے باطل کے خلاف مزاحمت اور جد و جہد کا یہ سفر کسی دنیاوی غرض، جاہ و منصب کے حصول یا خون ریزی کے مقصد سے نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ دین اسلام کے خلاف ہونے والی ساززشوں کے قافلے کو ہمیشہ کے لئے پابہ سلاسل کردینا چاہتے تھے۔ انہیں ہرگز یہ پسند نہیں تھا کہ اسلام اور مذہبی شعائر پر باطل طاقتیں خم ٹھونک کر میدان میں آرہی ہوں، شیطان و ابلیس کے کارندے روئے زمین پر دندناتے پھر رہے ہوں اور ایک سچا مسلمان ان کے خلاف مزاحمت کا صور پھونکنے کے بجائے اپنی مصلحت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ جائے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے کوفہ روانگی سے پہلے ہی صاف لفظوں میں یہ واضح کردیا تھا کہ میرا یہ سفر صرف نانا محترم کے دین کے آفاقی پیغام کو عام کرنے اور بھٹکے ہوئے ہواؤں کو پھر سے سوئے حرم لے چلنے کے لئے ہے۔ انھوںنے کہا تھا: ’’میں مدینہ طیبہ سے اس لئے رخت سفر باندھ رہا ہوں کہ لوگوں پر ظلم کروں اور زمین پر فساد مچاؤں، بلکہ میرے نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر جو ظلم ہورہا ہے اور جو لوگ اللہ کے معصوم بندوں کو دام تزویر میں پھانس رہے ہیں ، ان کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں‘‘۔
۱۰محرم کی تاریخ کو جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی معیت میں یہ مختصر سا قافلہ کربلا کے بے آب و گیاہ میدان میں فروکش ہوا تو ان کے رفقائے کار نے حوصلہ اور عزم و ہمت اور جواں مردی و جرأت مندی کا مظاہرہ کیا کہ چشم فلک بھی حیران اور انگشت بدنداں تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز و اقارب اور اپنے جگر گوشوں کی درد ناک موت کے دلدوز مناظر کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا، قلب و نظر کی خوشی کا سامان فراہم کرنے والے جس نور نظر نے کبھی ان کی گود میں بیٹھ کر کلکاریاں کی تھیں، آج ان کی خاک و خون میں لت پت لاشیں ان کے بے بس کاندھوں پر تھیں۔ آسمان سے دھوپ نہیں آگ کے شعلے برس رہے تھے، زمین کے سینے سے گرم بگولے بلند ہورہے تھے، کئی دنوں کی پیاس کی وجہ سے حلق میں کانٹے لگ رہے تھے، مگر کیا مجال کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے پائے استقامت میں ذرہ برابر لغزش آئی ہو اور اخیر میں جب اپنا سر تن سے جدا کرنے کا وقت آیا، تو کیا ایسا ہوا کہ انھوں نے اس دنیا کی چند روز متاع کے بدلے اپنے اصولوں، آدرشوں، اپنے عقائد اور مسلمات کا سودا کرلیا ہو؟ یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ آج دنیا کا ہر فرد ان کی شہادت کے غم میں برابر کا شریک ہے اور انسانی آنکھیں گریہ و زاری کا جاں گسل منظر پیش کر رہی ہیں۔ روز ازل سے انسانی قافلوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے، ہر آنے والا دن کسی نہ کسی کی موت کی اندوہناک خبر لے کر آتا ہے ، لیکن کیا کوئی ایسی شخصیت ہے جس کی موت کے جانکاہ حادثے پر ایک دو سال نہیں، بلکہ چودہ سو سال سے بلا انقطاع ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمناک ہو؟ ۔ گردش ماہ و سال اور انقلابات زمانہ کے بے رحم ہاتھوں میں بھی یہ طاقت پیدا نہ ہوسکی کہ وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے واقعے پر نسیان کا پردہ ڈال دے۔ بلکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے جذبے میں عالمی پیمانے پر اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جب جب دس محرم کی تاریخ آتی ہے، ان کی شہادت کا واقعہ روشنی کا مینارہ بن کر ہمیں دعوت فکر و عمل دیتا ہے اور ہمیں اس شہادت کے عظیم فلسفے کو اپنے قلب و ذہن میں جاگزیں کرنے کا عظیم درس دیتا ہے۔
دیگر واقعات کی طرح شہادت حسین علیہ السلام صرف ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں، بلکہ یہ ہم انسانوں کی زندگی کا منشور اور ہماری عملی راہوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ اس میں زندگی گزارنے اور موت و حیات کے درمیانی عرصے کے لئے دستور ہے۔ اس کا صرف غازیانہ پہلو ہی تقلید کی دعوت نہیں دیتا ، بلکہ اس کا داعیانہ پہلو بھی ہمارے لئے فکر و عمل کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔
یہ عالمی واقعہ آج بھی اس لئے زندہ جاوید ہے کہ اپنے دین، اپنے مذہبی مسلمات کے تحفظ اور باطل کی فتنہ پردازیوں کے سیل پر بند باندھنے کے جس ایمانی جذبے کے ساتھ یہ قربانی دی گئی تھی۔ وہ سارے مطالبات پہلے سے کہیں زیادہ اپنی افادیت اور اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔
کیا آج بھی وہی حالات نہیں کہ یزیدی لشکر پورے کروفر کے ساتھ انسانیت کے گھر آنگن میں موت کا رقص کررہا ہے۔ پہلے تو ایک ہی یزید تھا مگر اب تو ہر قوم، ہر ملک کیا ہر خطے میں کوئی نہ کوئی یزید: بش، ایریل شیرون، ٹونی بلیئر یا کسی اور عیسائی اور یہودی نام سے مل جائے گا۔ جو ہماری عزت و آبرو ہی پر دست درازی نہیں کر رہے، بلکہ ہمارے دین اور مکہ مدینہ اور مسجد اقصیٰ جیسے مذہبی مقدسات کے خلاف بھی سازشوں کا دہانہ کھولے ہوئے ہیں اور ان سے کسی ایک تہذیب و ثقافت ،یا کسی خاص قوم یا مذہب کے نام لیواؤں کو ہی خطرہ نہیں ، بلکہ سچ پوچھئے تو پورا انسانی کنبہ خطرے میں ہے۔ ہمارے حال کو بھی اسی ماضی کے حسینی جذبے اور ایمانی جوش کی ضرورت ہے، ورنہ صیہونی دہشت گردوں پر مشتمل موجود سامراجی گروہ یزید کی شکل میں پوری انسانیت کو لقمہ تر بنا لے گا۔ طاقت و قوت اور مال و دولت کے نشے میں بد مست ممالک اور سرمایہ داری پر قابض اقوام کو اگر اس حسینی جذبے سے روشناس نہیں کرایا گیا تو نہ صرف ہماری جان و مال ، بلکہ ہماری قیمتی ترین متاع کے بھی چھن جانے کا قوی اندیشہ ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ، بلکہ ساری اقوام و ملل کے لئے درس اور پیغام حیات موجود ہے، ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے صحیح کہا تھا: ’’حسین علیہ السلام کی قربانی ہر فرقے و قوم کے لئے مشعل راہ ہے ‘‘۔ یہ تصور بالکل غلط اور عامیانہ ہے کہ موت سے زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اصل زندگی تو موت کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد ہی ملتی ہے۔ امام حسن البناء شہید کے ان جملوں میں یہی صداقت پوشیدہ ہے کہ : ’’ وہ امت جو جینے کا عزم کر لے، اس کے مٹنے کا کیا سوال؟ اس سے تو موت دور بھاگتی ہے۔‘‘ اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر نے جو یہ کہا تھا کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اس کا صاف مطلب ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل دراصل اس وقت کے یزید کا قتل تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام تو مرکز بھی زندہ جاوید اور ان کے کارناموں کے روشن نقوش تاریخ کے اوراق میں ہی نہیں، بلکہ ہر فرد بشر کے ذہنوں پر ثبت ہیں۔ اصل قتل تو اس یزید اور یزیدی روش کا ہوا تھا جو نوع انسانی کو اپنی سرکشی کے سامنے سر بسجود کرنے کی پالیسی کو روبہ عمل لانے پر بضد تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام خدائی نصرت پر ایمان ضرور رکھتے تھے، لیکن انھوں نے اس کا انتظار نہ کیا کہ آسمان سے پتھروں کی بارش ہوگی اور یزیدی قافلہ خس و خاشاک کی طرے بہہ جائے گا، یا پھر تیز ہواؤں کا آتشیں بگولہ آئے گا اور پوری یزیدی مملکت تہہ و بالا ہوجائے گی یا انھیں قوم نوح کی طرح سمندر کی گہرائیوں میں دفن کردیا جائے گا، بلکہ انھوں نے خدا کی مدد پر یقین رکھتے ہوئے باطل طاقتوں سے میدان کارزار میں دو بدو مقابلہ کیا اور حق کی سر بلندی و فتح مندی کا علم دنیا کے نقشے پر لہرا دیا ۔۔۔۔۔
source : http://www.taghribnews.ir