آج بھی اکثر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ کربلا کے تاریخی واقعہ کو کیوں اس قدر اہمیت دی جاتی ہے جبکہ کمیت و کیفیت کے اعتبار سے اس کے مشابہ اور واقعات بھی موجود ہیں؟کیا وجہ ہے کہ ہر سال اس واقعہ کے اجتماعات گزشتہ سال سے بھی زیادہ پر شکوہ انداز میں منائے جاتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ بنی امیہ جن کو ظاہری فتح ہوئی ان کا نام و نشان تک باقی نہیں لیکن واقعہ کربلا نے ایسا ابدی رنگ اختیار کر لیا ہے کہ لوگوں سے فراموش نہیں ہوتا ؟یہ سوالا ت اور ان سے ملتے جلتے سوالات کا واقعۂ کربلا اور اس کے اہداف و مقاصد میں غور و فکر کرنے سے جواب مل جاتا ہے اور اس مسئلہ کا تجزیہ و تحلیل خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو تاریخِ اسلام سے واقف ہیں اتنا زیادہ پیچیدہ اور مشکل نہیں۔
واقعہ کربلا دو سیاسی پارٹیوں کی اقتدار یا مال و دولت اور زمین وغیرہ حاصل کرنے کے مسئلے پر جنگ نہیں تھی۔یہ واقعہ دو گروہوں اور دو قبیلوں کی ذاتی دشمنی کے باعث رونما نہیں ہوا۔یہ واقعہ دو فکری و عقیدتی مکاتب کا مقابلہ تھا یا درحقیقت حق و باطل کی جنگ تھی جو ابتدائے تاریخ بشریت سے جاری تھی اور ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ یہ مقابلہ اور جنگ تمام پیغمبروں اور تمام اصلاح پسند افراد کی جدوجہد کی ایک کڑی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ واقعہ جنگِ بدر و احزاب ہی کے مقاصد کی تکمیل کا ایک حصہ تھا۔ یہ بات واضح و روشن ہے کہ جب پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشریت کو بت پرستی یا خرافات اور جہالت و گمراہی سے نجات دلانے کے واسطے فکری و اجتماعی انقلاب کی رہبری کے لئے قدم اٹھایا اور حق پسند افراد کو اپنے ارد گرد جمع کیا تو اس وقت اس اصلاحی تحریک و قیام کے مخالفین نے متحد و منظم ہو کر اس آواز کو خاموش کرنے کی خاطر اپنی تما م تر کوششیں شروع کر دیں۔ان اسلام و انقلاب دشمن عناصر کی باگ ڈور بنی امیہ کے ہاتھ میں تھی مگر ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود عظمتِ اسلام کے سامنے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا اور ان کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں ۔ ان کی ناکامی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ پوری طرح ختم ہو گئے تھے بلکہ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ظاہری طور پر اس انقلاب کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تو انہوں نے ہر ناکام اور ضعیف دشمن کی طرح اپنی ظاہری و آشکارا کوششوں کو پسِ پردہ اور خفیہ صورت میں شروع کر دیا اور مناسب وقت و فرصت کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد بنی امیہ نے لوگوں کو زمانۂ جاہلیت کی طرف لے جانے کے لیے حکومت اور حکومتی عہدوں میں نفوذ پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی اور مسلمان زمانۂ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس قدر دور ہوتے گئے بنی امیہ کے لیے مناسب موقع فراہم ہوتا گیا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تقوی اور علمی، اخلاقی اور معنوی لیاقت کے بجائے رشتہ داری اور قوم و قبیلہ، حکومتی عہدوں کے لیے معیار بن گیا اور بعض خلفاء کے زمانے میں حکومتی عہدوں کو خلفاء کے رشتہ داروں اور قوم و قبیلے میں تقسیم کیا جاتا تھا، اسی اثناء میں بہت سے ایسے لوگ عہدوں پر فائز ہو گئے جو اپنے دل میں اسلام کے لیے بغض و عناد رکھتے تھے اور انہوں نے لوگوں کو زمانۂ جاہلیت کی طرف واپس لے جانے کی کوششیں شروع کر دیں یہ کوششیں اس قدر شدید تھی کہ حضرت علی علیہ اسلام جیسی پاک ترین شخصیت کو بھی اپنی خلافت کے دوران انہی منافقین اور اسلام دشمن عناصر کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ اسلام دشمن سازش اس قدر آشکارا تھی کہ خود اس کے رہبر بھی اس کے غیر اسلامی اور اسلام دشمن ہونے پر پردہ نہ ڈال سکے ۔بلکہ ان کے اپنے بیانات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے اہداف و مقاصد کیا تھے۔اور وہ اسلام سے کس قدر محبت رکھتے تھے۔ جیسے بنی امیہ کے سب سے معتبر شخص کا بنی امیہ اور بنی مروان کے پاس خلافت منتقل ہونے کے بعد پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے یہ عجیب و غریب جملہ کہنا۔''اے بنی امیہ، کوشش کرو کہ حکومت کو ایک ہاتھ میں لے لو ۔اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بہشت و دوزخ کا وجود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام ایک سیاسی چال تھی۔‘‘یا شام کے گورنر کا عراق پر قبضہ کرتے وقت یوں اپنے خیالات کا اظہار کرنا''اے لوگو! میں اس لئے نہیں آیا کہ تم لوگ نماز پڑھواور روزہ رکھو ، میں تم پر حکومت کرنے آیا ہوں جو شخص میری مخالفت کرے گا اس کو ختم کر دوں گا‘‘اور یزید لعین کا شہداء کے سروں کو دیکھ کر یہ کہنا'' اے کاش آج میرے بزرگان زندہ ہوتے، جو جنگِ بدر میں مارے گئے اور دیکھتے کہ میں نے کس طرح بنی ہاشم سے بدلہ لیا ہے‘‘یہ بیانات ان کے غیر اسلامی اور اسلام دشمن اہداف و مقاصد پر بہترین دلیل ہیں اور ان کے ان بیانات سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کے دلدادہ تھے اور لوگوں کو کس طرف لے جانا چاہتے تھے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امام حسین علیہ اسلام اس خطرے کے مقابلے میں خاموش بیٹھ سکتے تھے جو اسلام کو لاحق تھا اور یزید کے دور میں اپنی آخری حد تک پہنچ چکا تھا؟ کیا خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ ہستیاں جنہوں نے اپنے پاک دامن میں انہیں تربیت دی تھی ، اس پر راضی ہوتیں؟ کیا ان پر لازم نہیں تھا کہ وہ اس ظالم حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑا رہی تھی۔ بنی امیہ کے مذموم اور اسلام دشمن مقاصد کو آشکارا کریں اور اپنے پاک خون سے شجر اسلام کی آبیاری کریں اور دنیا کے سانے حقیقی اسلام کا چہرہ پیش کریں۔ امام حسین علیہ اسلام نے اپنا یہ فریضہ انجام دے کر تاریخ کا رخ موڑ دیا اور بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں کی ظالمانہ کوششوں کو ہمیشہ کے لیے ناکام بنا دیا۔ یہ ہے قیامِ حسین علیہ اسلام کی حقیقی صورتِ حال اور یہیں سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ نام اور تاریخِ حسین علیہ اسلام کیوں فراموش نہیں ہوتی؟ کیونکہ امام حسین علیہ اسلام اور ان کا مقصد ایک خاص زمانے اور ایک خاص عصر سے مختص نہ تھے۔امام حسین علیہ اسلام اور ان کا ہدف و مقصد جاوداں حیثیت کا حامل تھا۔
امام حسین علیہ اسلام نے راہِ خدا و اسلام، راہِ حق و عدالت میں اور جہالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو آزاد کرانے کے لئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔کیا یہ چیزیں کبھی پرانی اور فراموش ہونے والی ہیں؟ ہر گز نہیں .تو جب تک حضرت امام حسین علیہ اسلام کا ہدف و مقصد یعنی خدا ، اسلام اور حق طلب انسان باقی ہیں تو اس وقت تک امام حسین علیہ کا نام اور ان کی تحریک بھی باقی ہے۔
کربلا ،آزادی کا مکتب ہے اور امام حسین علیہ السلام اس مکتب کے معلم ہیں۔ اسلام میں جنگ کو اولیت نہیں ہے بلکہ جنگ، ہمیشہ انسانوں کی ہدایت کی راہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ یہی کوشش کی، کہ بغیر جنگ کے معاملہ حل ہوجائے۔ اسی لئے آپ نے کبھی بھی جنگ میں ابتداء نہیں کی۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ہم ان سے جنگ میں ابتداء نہیں کریں گے لیکن اگر اسلام کی بقا کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا تو اس سے دریغ نہیں کریں گے۔
کربلا جنگ کا میدان تھا ،مگر امام علیہ السلام نے انسانوں کو یہاں انسانیت کا درس دیا آخری وقت تک اسلام کی زریں تعلیمات کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر حق کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ خود اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھا اور اپنے خطبے میں فرمایا کہ ہم اہل بیت کی رضا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی اللہ سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں اور پھر آپ یا ایتھا النفس المطمئنۃ کا مصداق بن کر خدا کی بارگاہ میں اس حالت میں حاضر ہوئے کہ خدا نے آپ کے ذکر کو پوری دنیا میں عام کر دیا اور آج پوری دنیا میں ہر طرف امام حسین علیہ السلام اور ان کی تحریک کا ہی ذکر ہو رہا ہے اور جب تک اس فانی دنیا میں حق و باطل کا معرکہ جاری ہے کربلا کا نام اور ذکر باقی رہے گا اور دنیا کے تمام حریت پسند اسی تحریک سے جذبہ حاصل کر کے اپنے مشن کو انجام دیتے رہیں گے۔
source : http://urdu.irib.ir