اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

مرکزی ایشیا میں اسلام کی نئی زندگی

 

آج کے زمانے میں مرکزی ایشیاء پانچ مستقل جمہوریوں قزاقستان، قرقیزستان، ازبکستان، ترکمنستان، تاجیکستان سے تشکیل پاتی ہے یہ علاقہ بہت سے قدرتی ذخائر کا مالک ہے اور تجارت کے اعتبار سے اس کی جائے وقوع بہت مناسب ہے، زمانہ قدیم میں یہاں سے شاہ راہ ریشم کا عبور ہوتا تھاسوویت یونین کا انحلال اور مرکزی ایشیا میں نئی مستقل جمہوریوں کی تشکیل، معاصر تاریخ میں ایک معنی خیزحادثہ ہے، یہ امر اقتصادی اور سیاسی جغرافیہ کے حوالے سے بہت سی مہم تبدیلوں کا باعث ہوا، یہ حادثہ ایسے علاقہ میں رونما ہوا جہاں مدّت سے اسلام اور مسلمانوں کا دور دورہ تھا۔

حقیقت میں سامانیان کی حکومت کے دوران مسلمان اس علاقہ پر مسلّط ہوگئے اور ان کا یہ تسلّط اکتوبر۱۹۱۷ عیسوی کے انقلاب تک جاری رہا۔

یہ علاقہ اسلام دنیا کا ایک بہت اہم حصّہ تھا کہ جس پر آخر میں ترک مسلّط ہوئے، اس علاقہ میں اسلام نے نہ تنہا بہت سی مذہبی، اجتماعی اور ثقافتی بنیادوں کو صدیوں پرمحیط وسعت بخشی، بلکہ بہت سے باعظمت شہر جیسے بخارا، سمرقند، تاشقند، مرو، اور خراسان کے بہت سے شہروں کی بنیاد ڈالی، یہ قدیم شہر بڑے علمی مراکز تھے۔ مصنفین، مفکرین، دانشمند جیسے ابن سینا، بیرونی، غزالی، عمر خیام اور فردوسی کہ جس کا علمی تاریخی اور ادبی آثار کی تخلیق میں بہت بڑا حصّہ ہے، اسی علاقہ سے وجود میں آئے آج کے زمانہ میں مرکزی ایشیاء پانج مستقل جمہوریوں قزاقستان، قرقیزستان، ازبکستان، ترکمنستان، تاجیکستان سے تشکیل پاتی ہے، مرکزی ایشیاء بہت بڑے علاقہ پر محیط ہے کہ تقریباً جس کی وسعت ۴۰ لاکھ کلومیٹر مربع اور اس کی آبادی تقریباً چھ کروڑ ہے۔ یہ علاقہ شمال سے روسی فیڈریشن، مشرق سے چین، جنوب سے ایران اور افغانستان اور مغرب سے دریائے خزر سے ملتا ہے اور مختلف آب وہوااور متنوع قدرتی اوضاع کا مالک ہے، شمال اور معرب میں وسیع وعریض دشت، مشرق میں ایک بڑے گرم بیایان، مغرب میں پامیر اور مشرق میں کیان شان مرکزی ایشیا کو بقیہ برِّاعظم سے جدا کرتا ہے، مرکزی ایشیا میں دو بڑی ”آمودریا“ اور ”سیردریا“ نامی نہریں ہیں، اس علاقہ کو عربی میں ”ماء النہر“ کہتے ہیں اس سے پہلے اس کو ”Transoxiana“ یعنی دو نہروں کے درمیان کا علاقہ کہا جاتا تھا(۱) اس علاقہ میں چند جزیرہ اور کچھ چھوٹے بڑے دریا پائے جاتے ہیں ان میں سب سے بڑا دریا مغرب میں کاسپین اور مرکز کے اطراف میں آرال نامی ایک چھوٹا دریا اور مشرق میں بالخاش نامی دوسرا چھوٹا دریا ہے۔ یہ علاقہ قابل توجہ قدرتی ذخائر جیسے تیل، گیس، پتھر کا کوئلہ، سونا، یورینیم اور دوسرے معادن سے سرشار ہے اور کھیتی باڑی کے اعتبار سے بھی بہت زرخیز ہے۔

تجارت کے اعتبار سے مرکزی ایشیا کی جغرافیائی جائے وقوع بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، سمندری راستے کے کشف سے پہلے مرکزی اور مشرقی ایشیا کی مشرقی یورپ اور مشرق کے نزدیکی ملکوں کے درمیان تجارت، اسی راستے پر تکیہ کرتی تھی(۲)

تاریخی نظر سے مرکزی ایشیا کے لوگ دو دستوں میں تقسیم ہوتے ہیں:

۱۔ پہلا دستہ خانہ بدوشوں کا ہے اور دوسرا دستہ شہر نشینوں کا، سب سے پہلے شہری مراکز تقریباً حضرت عیسیٰ مسیح﷼ کی ولادت سے ۱۵۰۰/سال پہلے ترکمنستان میں اور احتمالاً ایران پسند لوگوں سے بسائے گئے، سکندر کے ذریعہ ”ہخامنشیان“ کی بربادی کے بعد اس کے جانشینوں نے ہینسم کو مرکزی ایشیا کے جنوبی علاقہ میں اپنا رئیس بنالیا(۴) عیسیٰ مسیح﷼ کی ولادت سے قبل تیسری صدی کے درمیانی حصّے میں مرکزی ایشیا کے مشرق میں (آج کا ازبکستان) یونانی۔بلخی (باکتری) حکومت تشکیل پائی، حالانکہ مرکزی اشیا کا مغربی حصّہ (آج کا ترکمنستان) پارٹ بادشاہت سے متحد ہوگیا اسی وجہ سے الگ الگ تہذیبیں وجود میں آئیں لیکن یہ پورا علاقہ ایک ہی شاہ راہ بنام (شاہ راہ ریشم) سے جڑتا تھا۔ یہ ایک ایسا تجارتی راستہ تھا جو پورے بِّر اعظم جیسے چین، ہندوستان، وسطی ایشیا اور کالے سمندر کے ساحلی کے ممالک سے گذرتا تھا (۵)

حضرت عیسیٰ مسیح کی ولادت کے تیسرے سال کہ جب ایران پر ساسانی گروہ حاکم تھا تو اُس نے مرکزی ایشیاء کے جنوبی حصّے میںدوبارہ سے اپنا جھنڈا گاڑدیا۔

ان کی حکومت کے دوران کئی صدیوں تک اس علاقہ کا سیاسی انتظام، ثقافتی سرگرمیاں اور اقتصادی حالات بہت مناسب رہے(۶) لیکن ساتویں صدی عیسوی میں عربیوں کے حملہ سے لے حالت بدل گئی (۷) اسلام نے نہ فقط ایک جدید عقیدتی نظام بدلا بلکہ اس نے ایک اجتماعی اور معرفت شناسی کا نیا نظام پیش کیا (۸)

سن ۷۴۰ عیسوی یعنی ولید بن الملک کے دوران حکومت ،عربی لوگ قتیبہ بن مسلم بن عمرو الباہلی کی حاکمیت میں مرکزی ایشیاء پر حکومت کرتے تھے(۹) عربی سپہ سالار ”مرو“ میں آج کے ترکمنستان کے ”ماری“ شہر کے نزدیک تھا۔ اس دوران تقریباً پچاس ہزار عربی لوگوں نے بصرہ اور کوفہ سے ہجرت کی اور خراسان، بخارا اور دوسرے علاقوں میں جابسے ۔(۱۰) قتیبہ نے اپنی فوج میں بہت سی اصلاحیں کیں اور اس طرح اُس نے مقامی لوگوں کی وفاداری اور اطمینان کو جلب کرکے انکا دل جیت لیا۔ اُس نے بخار ا میں دو مسجدیں تعمیر کرائیں کہ جن میں سے ایک کو ”مسجد قتیبہ“ کہا جاتا ہے۔ کومنسٹوں کی حکومت کے دوران یہ مسجد کسٹم کے انبار میں تبدیل کردی گئی تھی، لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دوبارہ یہ مسجد مسلمانوں کو سپر کردی گئیں۔

عربی نسل نے کہ جو مقامی لوگوں سے الگ رہتے تھے اپنی زبان کو محفوظ رکھا، لیکن شروع شروع میں مقامی لوگ قرآن مجید کو فارسی زبان میں ازبر کرتے تھے (۱۱) اُنہوں نے یکا یک عربی زبان پر مہارت حاصل کرلی، لیکن اس عمل کی مداومت نہیں کی گئی۔ مرکزی ایشیا کے بہت سے شہر خلافت (اسلامی) کے ثقافتی قلمرو میں آگئے اور تقریباً ایک صدی تک اس علاقہ کے اسلامی تعلیم کے مہم مراکز، عربیوں کے زیر نظر رہے لیکن اس کے بعد سلجوقیان اور ترکوں کے ہاتھ میں آگئے اور مغلوں کے حملہ میں ویران ہوگئے۔ (۱۲)

عریبوں کے ”آمو“ دریا اور ”سیر“ دریا پر حملہ کے بعد مرکزی ایشیا میں ایمان کے جدید شیوہ اور زندگی کے نئے طریقے کے ساتھ نئی اجتماعی زندگی شروع ہوئی۔ مرکزی ایشیا کے ساکنوں نے عربیوں کے فلسفہ کو قبول کیا اور ان کی زبان کو اسلامی تہذیب و تعلیم کے لئے اقتباس کیا۔ اس علاقہ کے اصلی شہر جیسے سمرقتد، بخارا، ترمذ، خوازم، مرو، خنجد اور گند اور نسا، ان کے ساکنوں کے اسلامی تفکرات کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان شہروں کے دوسری اسلامی سرزمینوں سے تجارتی فکری اور مذہبی روابط تھے۔ اس علاقہ کے بہت سے دانشمند اس طرح ہیں: امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴۔۲۵۶ ھ ث) بزرگ محدَّث حافظ ابوعیسیٰ ابن عیسیٰ الترمذی (متوقی ۳۴۰ ھ ق) امام احمد بن محمد الخوارزمی (۳۹۳۔۴۸۴ ھ ق) بزرگ اسلامی متفکرَّ ابونصرطرحان حکیم الفارابی (متوفی ۳۳۹ ھ ق) زبردست عالم ابوریحان محمد بن احمد بیرونی (۲۶۲۔ ۳۴۸ ھ ق) اور مشہور و معروف دانشمند ابو علی سینا۔

ابو علی سینا نے طبّ اور فسلفہ میں بہت سی کتابیں لکھیں ہیں (۱۳) اس کے مکتوب آثار میں سے طب کے موضوع پر ”قانون علم طب“ کے نام سے ایک کتاب ہے کہ جس کا بارہویں صدی عیسوی میں لاتینی زبان میں ترجمہ ہوا جو فیزیکس کے عالموں کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ہے اوروہ اس سے ہمیشہ استفادہ کرتے ہیں اور یہ کتاب بہت مشہور ہے(۱۴)

محمد بن موسیٰ خوارزمی جیسا کہ اس کی کتاب کے نام الجبر سے معلوم ہوتا ہے، وہ عرب میں علم حساب کا موجد ہے، وہ فقط نہ ایک حساب دان تھا بلکہ ایک منجم اور جغرافی دان بھی تھا، اس کے آثار، جبر ہندسی اور یونانی ہندسہ کا مجموعہ ہے جو آج علم حساب کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ محمد بن موسیٰ خوارزمی نے صدیوں کے لئے خوارزمیوں کے روایتی اور قدیمی علم حساب کو بہت سی ضرورتوں کو پورا کرنے لئے جیسے آپاشی، سیاحت، تجارت اور معماری میں کہ جو زیادہ تر یونانی اور ہندی تہذیب سے متاٴثر تھی قابل استفادہ بنایا(۱۵)

عباسیوں کے دورہٴ حکومت میں عربیوں کی حاضری بہت جلد ختم ہوگئی لیکن اس علاقہ کی سلطنت خراسانیوں کے قلمروئے قدرت میں باقی رہی، اسی وجہ سے اس علاقہ میں ابھی ایرانیوں کا نفوذ زیادہ تھا۔

مرکزی ایشیا میں سب سے پہلے مسلمانوں کی مستقل حکومت ساسانیوں کی تھی کہ جو سن ۸۷۵ عیسوی میں ایک ایرانی النسل شخص کے ذریعہ وجود میں آئی اس نے اپنی حکومت کا مرکز، بخارہ کوقراردیا، ساسانی بادشاہت نے اپنی حکومت کے عروج میں ماوراء النہر، خوارزم اور ایران وافغانستان کے ایک وسیع علاقہ پر حکمرانی کی۔(۱۶) ساسانی حکومت کی داغ بیل ڈالنے والا اسماعیل بن احمد تھا کہ جس کی حکومت سن ۸۷۵ عیسوی سے ۹۹۹ ء تک تھی، ساسانیوں نے ایک حد تک یوروپ اور چین کے ساتھ تجارتی روابط کو وسعت بخشی اسی لئے شاہ راہ ریشم اسی دوران وجود میں آئی، ساسانی حکومت نے اس علاقہ یعنی ماوراء النہر، خوارزم، سیردریا، ایران اور افغانستان کی تاریخ میں بہت بڑا کرادار ادا کیا، اس دوران فارسی اور تاجیکی زبان کو فروغ ملا اسی وجہ سے یہاں پر بڑے بڑےشعراء جیسے رودکی اور فردوسی نے اپنے تاریخی آثار کو تحریری شکل عطا کی، لیکن عربی زبان نے ایک علمی زبان ہونے کے عنوان سے اپنی حیات کو ادامہ دیا۔(۱۷)

سولہویں صدی کے آغاز سے بخارا اور خیوہ کے خان نشین ،علاقہ کی دو بڑی طاقت ہونے کی حیثیت سے ظاہر ہوئے، ان کی قلمروئے حکومت ،بخارا تھا جو آج کے ا زبکستان کو بھی شامل ہے(۱۸) البتہ اس میں ترکمنستان، تاجیکستان اور افغانستان کابھی کچھ حصّہ شامل تھا، خیوہ تھوڑا چھوٹا علاقہ اورآرال دریاچہ کے جنوب میں واقع تھا اور اس کی قلمرو حکومت ترکمنوں، قزاقوں اور قاراقالپاقیوں کی سرزمین تھی، اٹھارویںعیسوی میں اس علاقہ میں واقع دیہاتوں سے کچھ لوگ تیسری بڑی طاقت کے عنوان سے ابھرے، ترکمن قزاق، قرقیز بادیا نشینوں کے طاقتور قبیلہ ای نظام کے بقایاجات ایسے ہی موجود ہے(۱۹)

مرکزوی ایشیا پر روسیوں کا تسلّط

روسیوں اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلی جھڑپ ”ولگا“ کے مقام پر رونماہوئی، رقیب، خان نشینوں کی طاقت کے تجزیہ نے کہ جس میں آسترخان، کازان، کریمہ اور اردو اور سیری علاقہ کے تاتاری خاننشین شامل تھے، ترازی روسیوں کے لئے ایک سنہرا موقع فراہم کیا تاکہ وہ اپنی گذشتہ شکستوں کی تلافی کرسکیں اور اس طرح مغلوں نے فاتح تاتاریوں کو اپنا غلام بنالیا، شروع میں روسیوں نے ”ولگا“ علاقہ میں پیش قدمی کی، سن ۱۵۵۲ عیسوی میں قازان اور ۱۵۵۶ عیسوی میں استرخان کوروس میں منظم کرنے کی خاطر روسیوں کے حملہ شروع ہوئے، کریمہ خان سن ۱۷۷۱ءء میں فتح ہوگیا اور ۱۷۸۳ءء میں روس میں منضم کرلیا گیا، قازان کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد بزرگ ”باسیل“ کلیسا کے مخوف ایوان کو ماسکو کے میدان میں فتح کی جشن منانے کی غرض سے تعمیر کیا گیا اس کی گنبدوں کو پیاز کی شکل میں بنایا گیا تاکہ تاتاری خدمت گزاروں کے عمّاموں کی شبیہ بن جائے(۲۰)

روس کے سیاسی رہبروں نے سن ۱۷۴۰ءء میں مسجدوں کے ویران کرنے کا کھُلّم کھُلّا حکم صادر کیا، تین سال کی مدت میں ”ولگا“ کے علاقے میں ۵۳۶ مسجدوں میں سے ۴۸۱ مسجدیں ویران ہوگئیں(۲۱) یہ امر ۱۷۴۴ءء میں ایک تیز شورش کا نتیجہ ہوا لہٰذا قازان میں دونئی مسجدوں کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی، جب دین کے بدلنے کی بے پناہ کوششوں ، مدارس اور مساجد کے انہدام اور دینی رہبروں کے قتل عام نے روسیوں کو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا تو انھوں نے اپنی سیاست اور استراجیک کو بدلا لہٰذا اس کے بعد سے مذہبی امور سیاست سے جدا ہوگئے، عیسائیوں کے ”ارتودوکس“ فرقے کی پہلی تبلیغی جماعت ”ملکہ آنالوانوا“ کے حکم سے قازان کی طرف روانہ کی گئی ”عیسائیوں کے امور کا نیا دفتر ۱۷۴۰ءء میں تاسیس ہوا(۲۲) اور آسترخان، نیژنی، نوگوارد اور ورونژ اس کے قلمرو نفوذ میں آگئے، اس پورے علاقے میں ان کی تنظیمیں تھی، ان تنظیموں نے اس علاقے کے عیسائیوں کو ادارہ کرنے کے لئے مسلمانوں کے اوپر ایک ٹیکس لاگو کردیا تھا، سن ۱۷۵۰میں حکومت کے سرکردگان ایک بحرانی حالت سے دوچار تھے اور عیسائیوں کے امور کا جدید دفتر بنام (K.N.Dٰٰ)آشکارا طور پر مسلمانوں کا مخالف تھا، لہٰذا یہ بات سبب ہوئی کہ ۱۷۶۴ءء میں اس دفتر کو بند کردیا(۲۳) ۱۷۸۴ءء میں کریمہ کے علاقے کے شہروں کے نام تبدیل کردیئے گئے اور کریمہ کا نام بھی ”تارویدہ“ اور مشہور شہر ”آق مسجد“ کو ”سمیفار وپل“ سے بدل دیا گیا، اٹھارویں صدی کے اواخر میں تاتاری نسل کے ایک لاکھ سے لے کر تین لاکھ افراد تک مرکزی استپ اور شمالی کریمہ میں کہ جو عثمانی بادشاہت کے بقایاجات تھے بے یار ومددگار آوارہ گھوم رہے تھے(۲۴)

مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ جو روس سے ملحق ہوئی وہ ترکستان تھی کہ جو دو خان نشین علاقوں ”خنجد“ و”خیوہ“ اور ایک امیر نشین علاقہ بخارا میں تقسیم ہوتی تھی۔ روسیوں کے حملے، کریمہ کی جنگ کے بعد شروع ہوئے۔ ازبک نسل مرکزی ایشیا کی سب سے بڑی ملت تھی کہ جس کی آبادی ۱۸۶۰ء ء میں۳۵ لاکھ تھی۔ اس زمانہ میں ترکمن قیر قیز اور تاجِک بہت چھوٹی چھوٹی ملتیں تھیں(۲۵) سن ۱۷۶۸ ء اور ۱۸۷۳ ء میں امیر نشین بخارا اور خان نشین خیوہ تحت الحمایہ ممالک میں تبدیل ہوگئے (۲۵) سن ۱۸۷۶ ء میں خانشین خنجد کامل طور سے روس کے ساتھ ملحق ہوگیا اور آشکارا طور پر اپنی خود مختاری کھوبیٹھا(۲۶)

ترازیوں کی حکومت کی اصلی سیاست ہر علاقہ کے اعتبار سے الگ الگ تھی، لیکن مجموعی طور پر ان کی سیاست یہ تھی کہ حاکم طبقہ جو روسی بادشاہت کا خطرنادشمن سمجھا جاتا تھا بالکل نابود ہوجائے، اس کے بعد روسیوں نے فئوڈال عمارتوں کو مسمار کردیا اور ان کو ان کے حقوق سے محروم کردیا، پھر ان کے اموال اور خراج کو ہڑپ کرلیا(۲۷)

یہاں پر مسلمان مختلف پہلوؤں میں ایک خاص علامت سے پہچانے جاتے تھے ، ترازی حکومت، ترکستان میں اسلام کو اپنا خطرناکترین دشمن سمجھتی تھی، کیونکہ روسیوں نے مسلمانوں کی کئی شورشوں کاتجربہ کررکھا تھا کہ جن کی ہدایت، مسلمان مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی جس طرح روسی لوگ، قوی جنگجو فوج کے ذریعہ اپنی حکومت کے مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے اسی طرح مسلمانوں کے ایک فرقے نے اپنی روایتی تعلیم کی اصلاح کرنے کی طرف توجّہ دی تاکہ انسانی قوّت کو روس کے ساتھ مقابلہ کے لئے آمادہ کریں(۲۸) اس فرقہ کا رہبر اسماعیل بیگ کا سپرینسکی تھا(۲۹) نئی فکروں کے ایجاد کرنے والوں کی تحریک نے، روایتی افراد کی مقاومت کے باوجود کہ جو روسی مستعمرات کے ادارہ کی ہر طرح کی اصلاحات کا مقابلہ کرتی تھی، ملی گرا نوخواہوں کی دوبارہ بیداری کے لئے اور روسی سازی کی سیاست کے خلاف بہت بلند اور کامیاب اقدامات کیے اور عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی دینی تبلیغ میں مدد کی(۳۰)

اسی طرح مسلمانوں کا ایک گروہ نئے متفکرین کے پرچم کے سایہ میں آگیا، روسی مسلمانوں کی پہلی کانگریس۱۵/اگست ۱۹۰۵ کو نیژنی شہر میں تشکیل پائی، اسماعیل بیگ کا سپرینسکی اس کانگریس کا صدر تھا۔

روسی مسلمانوں کے متحدہ محاذ کا اصلی موضوع روسی مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ایک ایسی حکومت کی مانگ تھا جس میں تمام اقوام حصّے دار ہوں،(۳۱) دوسری کانگریس ۱۳/سے ۲۳/جولائی ۱۹۰۶ءء کو ”سن پترزبورگ“ کے شہر میں بنائی گئی یہ دونوں کانگریس غیر قانونی تھیں، لیکن ان ک پورے ملک میں پھیل جانے کی وجہ سے حکومت نے نہ فقط ان کے اوپر پابندی لگانے کا اقدام کیا بلکہ ان کی دوسری نشستوں کو برپا کرنے کی بھی اجازت دیدی۔

تیسری کانگریس ۱۶ /سے ۲۱/ اگست تک دوبارہ نیژنی کے شہر میں بنائی گئی اس کانگریس کا صدر ”توپہی باس اُف“ تھا، یہ کانگریس برملا حساس موضوعات پر بحث کرتی تھی اور اس نے ایک ۱۵/ نفری کمیٹی بھی تشکیل دی، حالانکہ اس کمیٹی میں مسلمانوں کی تمام بڑی قوموں کی شرکت نہیں تھی، مرکزی کمیٹی میں آذر بائیجان سے فقط ایک ممبر تھا باقی سب تاتاری تھے، آزادی خواہان آذربائیجان نے کانگریس کی دوسری نشست کے بعد روسی مسلمانوں کے اعتماد کو کھودیا اور تاتاریوں کے لئے میدان کو خالی چھوڑدیا(۳۲)آذربائیجان کے آزادی خواہوں نے ۱۷/اکتوبر ۱۹۰۵ءء کو”باکو“ شہر میں (مسلمانوں کی مشروطہ پارٹی کے نام سے ایک پارٹی بنائی۔ جیسا کہ” لینین“ تاتاری مسلمانوںکے فوقیت کی بحث کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قازان کے تاتار کے دو جنس کے ہر ۱۰۰ اشخاص کے لئے دو مکتب فکر تھے حالانکہ عیسائیوں کے اُرتودکس فرقے کے کلیسا کے ممبروں کے ہر ۱۵۰۰ سے ۳۰۰ اشخاص کے لئے ایک مکتب فکر تھا(۳۳)

پان ترکوں کا عقیدہ تھا کہ تمام مسلمان متحد ہوں(۳۴) اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کا خیال تھا کہ فقط پان ترکیزم اور پان اسلامیزم کا اتحاد مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ ہے، کاسپرینسکی تنہا تین مختلف روزنامہ ”عالم نسواں“ ، ”عالم صبیاں“ اور خاخان کے نام سے نشر کرتا تھا، اسی وقت ایک سیاسی پارٹی ”تاتار جوان“ کے نام سے ظاہر ہوئی، ابتدا میں اس کی سرگرمیاں مخفی اور زیر زمینی تھیں اور یہ پارٹی ترک جوانوں کے لئے نمونہ تھی (۳۵) شروع میں اس نے ایک ہفت روزہ رسالہ ”خدمت وطن“ کے نام سے منتشر کیا لیکن ۱۹۰۸ءء میں روسیوں نے اس کو بند کردیا(۳۶)

اکتوبر کے انقلا ب کے وقت سوویت یونین میں اسلام کی وضعیت

جب سن ۱۹۱۷ میں ”بلشو کی“ انقلاب برپا ہوا تو مرکزی ایشیا کے جدید روشن فکروں نے ایک انجمن ”انجمن مسلمانان“ کے نام سے تشکیل دی اسی طرح علماء نے بھی ملاشیر علی کی سرکردگی میں ”جماعت علماء“ نامی پارٹی کی بنیاد ڈالی، اس انجمن کا پہلاجلسہ اپریل میں برگزار ہوا جس میں ۴۵۰ صاحب نظر افراد نے شرکت کی۔ انھوں نے اس جلسہ میں روس کے استعمارکے خاتمہ اور مقبوضہ سرزمینوں کو ان کے اصلی مالکوں کی طرف پلٹانے کی مانگ کی۔مرکزی ایشیا کے مسلمانوں کی دوسری کانفرنس تاشقند میں منعقد ہوئی کہ جو شریعت کے ذریعہ ادارہ ہوتی تھی اور اس کے کام کی انجام دہی محکمہ شریعت کے ذمّہ اور شیخ الالسلام کی صدارت میں تھی(۳۷)

اکتوبر کے انقلاب سے کچھ پہلے آوارستان کے ”آل آندی“کے مقام پر علماء، صوفیوں اور داغستان کے مذہبی رہبروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی اور شیخ نجم الدین نقشبندی کو داغستان اور چچنیہ کے امام کے عنوان سے انتخاب کیا اور اعلان کیا گیا کہ اس کی روش پہلے امام یعنی ”امام شامل“ کی روش ہے اور کسی مسلمان کو اس کی نافرمانی کا حق نہیں ہے۔ ”شیخ اوزن حاجی“ نے اعلان کیا ہم مسلمانوں کی سرزمین میں شریعت کی ایک ایسی حکومت کی بنیاد ڈالیں گے کہ جو جمہوری ہوگی۔ (۳۸) ان صوقیوں کے دس ہزار سے زیادہ مرید تھے اور یہ لوگ کہتے تھے کہ” بیگ“ (امام شامل کا بڑا بیٹا) اور ”کاینماس علی خان اُف“ ان کے کمانڈر ہونگے۔ انہوں نے ۱۹۲۵ ء تک بلشو کی فوجوں کا مقابلہ کیا جب ستمبر۲۵ ۱۹ میں بلشویکیوں نے امام نجم الدین کو گرفتار کرلیا تو دس لاکھ داغستانی مسلمانوں کو،صوفیوں اور مذہبی راہنماؤں کے اطراف سے بھگا دیا گیا۔ (۳۹) روس کی سرکاری خبر رسان ایجنسیوں نے اعتراف کیا کہ شکست کے زمانے میں داغستان میں ۱۹ نفر مرشد اور ۶۱۲۰۰ نفر مرید تھے اور جمہوریہ چچن میں چالیس لاکھ سے زیادہ ۰۰۰,۴۰۰ مسلمان اور پچاس ہزار ۰۰۰,۵۰ سے زیادہ بڑے صوفی موجود تھے۔ (۴۰) لیکن وہ صوفی حضرات جو پہاڑی علاقوں میں تھے انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ۔ جہاد فوج نے جنگ تو ختم کردی لیکن ایک دوسرا تدریجی جہاد شروع ہوگیا اور وہ یہ کہ مرکزی ایشیا کے پورے علاقے میں داخلی جنگ چھڑ گئی۔ مرکزکے کومنسٹی راہنما کا مرکزی ایشیا کے روسی کومنسٹوں پر کوئی اختیار نہیں تھا اسی وجہ سے بلشوکی انقلاب کے بعد، دوسال کے اندر روسی کو منسٹوں نے مرکزی ایشیا میں خوب قتل و غارتگری پھیلائی۔ مسلمانوں کی مسجدوں اور مدرسوں کو مسمار کردیا مردوں سے عورتوں کو جدا کرکے ان کی حرمت پامال کی گئی، روسی سپاہیوں نے سویوں عورتوں کو غلامی سے آزادی دلانے کے بہانے یا بعبارت دیگران کو گھر کی چہار دیواری کے اندر محبوس ہونے کے بہانے، گرفتار کرلیا۔ تاشقند کے مقامی لوگوں کی فوج بنام ”اور دا“ کی مدد سے فاتح کو منسٹوں کے ہاتھ سے مقبوضہ زمین دوبارہ واپس آگئی اور یہ چیز ”پارتیزانی“ مقاوم فوج کو ایک نئی حیات ملنے کا سبب بنی جو ان کو مقامی فوج کی مدد سے عطا ہوئی، بعد میں کومنسٹ مورّخوں نے اس کو ”پاسماچی“ (پاندیت) قیام کا نام دیا کہ جو اکتوبر کے انقلاب کے بعد ایک دہائی سے زیادہ مدت تک جاری رہا۔

فرغانہ کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصد کمی ہوگئی تھی ان میں کتنے لوگ وبائی امراض کے پھیلنے کی وجہ سے مرے اور کتنے افرا جنگ میں مارے گئے کسی کے لئے مشخص نہیں ہے۔ مرنے والوںکی صحیح اور دقیق تعداد کا توعلم نہیں ہے لیکن ان داخلی جنگوں میں کم سے کم دس لاکھ آدمی جاں بحق ہوئے۔

۱۹۱۹ءء سے ۱۹۲۵ءء تک حکومت کا اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں محدود اور درمیانہ نظریہ تھا، سوشیالسٹی حکومت چاہتی تھی کہ مسلمانوں کو ٹھنڈا رکھا جائے کیونکہ سوشیالیسٹی قانون کے سایہ میں مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق دینا روسی ترازیوں کے حقوق دینے سے زیادہ بہتر ہے اورےہ لوگ حکومت کے لئے زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں، لہٰذا خود لینین نے کہ جو اس طرح کی تھیوری کے مروجین میں سے تھا اجازت دی کہ مسلمان اپنی کچھ مساجد اور مدرسوں کو کہ جن کو فوج نے مسمار کردیا تھا دوبارہ بنالیں لیکن یہ سازش زیادہ دن تک نہ چل سکی، جب اسٹالین اپنی خاص چالاکیوں کی وجہ سے حکومت پر مسلّط ہونے میں کامیاب ہوگیا تو اسلام اور مسلمانوں کے اوپر بلاواسطہ حملوں کی تجویز پاس کی گئی، مدارس اور مساجد کومسمار کرایا جانے لگا، یا بند کردیا گیا، بہت سی تاریخی مساجد کہ جو لکڑی کی بنی ہونے کی وجہ سے مشہور اور اسلامی معماری کا شاہکار تھیں، جلادیا گیا، مال اور جائدادیں اور اوقاف ہڑپ کرلیے گئے، دروس اور مباحث اسلامی کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ شریعت کی عدالت ختم کردی گئی، سیکڑوں اور ہزاروںں مسلمانوں کو جسمانی اذیتیں پہنچائی گئیں یا ان کو قتل کردیا گیا، ، یہاں تک کہ جدّت پسند اور روشن فکروں کے رہنماؤں کو کہ جو کومنسٹوں کے ہمراہی اور ہمفکر تھے وہ بھی امان میں نہ تھے، ان کو ماسکو لایا جاتا تا کہ آگ کے سپرد کیا جائے(۴۱) ۱۹۰۲۰ءء کے آخر تک ۱۰ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے افغانستان کی طرف ہجرت کی، مہاجروں کے دوسرے قافلوں نے ترکی، وسطی ایشیا یہاں تک کہ ہندوستان میں جاکر پناہ لی۔

سودیت یونین کے مسلمانوں کا اپنی تہذیب اور اپنے کلچر سے جدا ہونے اور مذہبی جماعتوں سے قطع رابطہ کے ساتھ ان کی زبان کے الف باء بھی ۱۹۲۸ءء میں عربی سے ”لاتینی“ زبان میں اور اُس کے بعد ۱۹۴۰ءء میں ”سریلیک“ زبان میں تبدیل ہوگئے(۴۲) شادی بیاہ کی مذہبی رسمیں بے اعتبار اور معیوب سمجھی جانے لگیں، ہر اسلامی عمل کے معیار اور اقدار جیسے روزہ، نماز، حج اور ختنہ کے اوپر سوالیہ نشان لگایا جانے لگا۔

اسٹالین کے مرنے کے بعد خروش چوف نے اسلام کے خلاف ایک دوسری مہم کا آغاز کیا اور وہ یہ کہ اُس نے اسلام کو مارکیسزم اور لینیزم کی آئیڈیولوجی کے برعکس خطرناک دشمن قرار دیا لیکن اس کی یہ حرکت اسٹالین کےنظریہ یعنی مذہب کے مقابلملائم رویہ اور لینین کے قوانین سے انحراف کے سبب شدید محکومیت کی شکار ہوئی۔

اس کے زمانہٴ حکومت میں سوویت یونین کی تاریخ میں سب سے خطرناک اسلام مخالف یہ ہی تحریک تھی(۴۳) ۱۹۶۰ءء کی دہائی کے اوائل میں مرکزی ایشیا کے تاشقند شہر کی یونیورسٹی میں منکران خدا کی ایک جماعت کی تاسیس ہوئی۔

سوویت یونین کے مختلف مسلمان نشین جمہوری ممالک میں ۱۹۶۰ءء کے بعد اسلام مخالف اسناد جیسے فیلم، ڈرامے تصاویر وغیرہ دکھانے کی مہم شروع کی گئی، ضدّ دین اور ضدّمذہب کے مرکزی ایشیا کے مختلف شہروں عجائب گھربنائے گئے۔

خدا کے انکار کا ایک عجائب گھر بخارا کی ایک قدیم مسجد میں نقشبندی صوفیوں کے مقبروں کے نزدیک کھولا گیا، مسجدوں کے بند کرنے کی کینہ توزی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ زیادہ تر بڑی مسجدوں کو بند کردیا گیا اور تقریباً دیہاتوں کی چھوٹی تمام ہی مسجدوں میںتالے لگادئیے گئے، ۱۹۴۷ءء اور ۱۹۷۵ءء کے درمیان روس میں اسلام مخالف ۹۲۳ کتابیں اور کتابچے مسلمانوں کی ۲۱ زبانوں میں نشر کئے گئے، یہ تعداد دوسری اسلام مخاف کتابوں کے علاوہ ہے۔ (۴۴) ۱۹۶۴ءء میں روس کے ایک محقق کی تحقیق کے مطابق روشن ہوا کہ مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کی قلت کے باوجود مسلمانوں کی تعداد پہلے جیسی ہی تھی، اسلام مخالف پروپیکنڈے مسلمانوں کو متعاقد کرنے اور ان کو اپنے عقائد سے دست بردار کرنے میں ناکام رہ گئے(۴۵) مسلمانوں اور روسیوں کے درمیان معاشرتی تاثیر وتاثر ایک ظاہری امر تھا، آپس میں نسلی ملاپ بہت کم تھا، نسلی اور نژادی انفکاک خصوصاً دیہاتوں میں اپنی پہلی حالت پر باقی تھا، شہروں میں معاشرتی میل جول کا فقدان ان کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا، مسلمانوں اور روسیوں کے درمیان شادیاں بہت کم ہوتی تھیں، یہاں تک کہ ایک مسلمان مرد کی روسی عورت کے ساتھ شادی کرنا بالکل غیرمعمول اور رائج نہ تھا(۴۶)

۱۹۸۰ءء کے اواخر میں جب سے میخائل گورباچوف کے ہاتھ میں سوویت یونین کا اقتدار آیا تو اس کی سیاست یعنی ”پروسٹوریکا“ اور ”گلاسٹوسٹ“ مرکزی ایشیا پر موثر ثابت ہوئی، اس کا سب سے بڑا نتیجہ اسلام سے ہماہنگ آئین کا قبول کرنا ظاہر ہوا، یہ تبدیلی مقامی افراد کے لئے تعجب اور اشتیاق کا سبب ہوئی، یہ سیاست ایک تہذیبی، اجتماعی اور مذہبی حادثہ تھا اور عام لوگ چاہتے تھے کہ کومنسٹوں کی مسلّط تہذیب اور کلچر سے اپنی جدا ئی کو ثابت کریں، کئی نئی مسجدیں بنائی گئیں اور بہت سے علاقوںمیں چند ایک غیر رسمی مذہبی دروس شروع ہوگئے ، اگرچہ ابھی تک حکومت کے کلیدی عہدہ دار کومنسٹ پارٹی سے تھے اور مذہبی رسومات کا انجام دینابھی ممنوع تھا لیکن اس کے باوجود حکومت، اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کی تشویق دلاتی تھی، مذہب کی حیات نو کے ساتھ ساتھ صوفیزم میں بھی کہ جو مرکزی ایشیا میں جڑ پکڑے ہوئے تھا، زندگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

صدیوں تک صوفی گری مرکزی ایشیا میں اسلام کے درخت کی سب سے پُربار شاخ رہی تھی، یہاں تک کے سات دہائیوں کے گذرنے کے بعد بھی ایک ۸۶سالہ ”شیخاصفراپر“ نامی خاتون پا میر میں ایک صوفی کے مقبرے کی متولی تھی(۴۷)

سوویت یونین کے انحلال کے بعد اسلام ان جمہوریوں کی آئیڈیالوجی بدلنے اور اپنے نظریات پیش کرنے کے لئے آمادہ تھا۔اس کے بعدسے اسلامی تہذیب کا موضوع روز ناموں اور رسالوں کے سرورق پر اپنی موجودیت کا اعلان کرنے لگا، عربی اور اسلامی کتابیں چھاپی جانے لگی، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن ،مذہی راہنماؤں کو تقریروں کی اجازت دینے لگے اور بہت سے مذہبی پروگرام جیسے نماز عید کو کو ٹی وی سے نشر کیا جانے لگا تھا۔

”فرنمانہ“ مرکزی ایشیا میں سب سے بڑی آبادی والی جگہ ہے، لیکن اس کے نمنگان شہر میں جو ایک ماڈرن اور فیشن ایبل شہر تھا اسلام کے وجود کا سب سے زیادہ اثر دیکھا جاتا تھا۔ ”عدالت“ کے نام سے رضاکارانہ اور خصوصی جماعتیں جن کے میمبران اکثر جوان تھے اور مقامی اسلامی گروہوں سے منسلک تھے، صوبوں کے مراکز جیسے نمنکان، اندیجان اور خنجدمیں رونق افروز ہوگئیں۔ بیسویں صدی میں ایک ”اخوان المسلمین“ نامی گروہ نے مرکزی ایشیا میں نفوذ کیا، اس کا اصلی مقصد اسلامی حکومت کو تشکیل دینا تھا۔ ۱۹۳۰ءء کی دہائی میں (اخوان المسلمین) نے مرکزی ایشیا کے شہروں میں خفیہ مراکز ایجاد کیے ، اس تحریک نے ”پروستوریکا“ سیاست کے ظاہر ہونے کے بعد اپنے آپ کو آشکار کردیا، انسانس اسلامی پارٹی(i.r.p)کہ جو پہلے برادر گروہوں کی بلاواسطہ وارث اور ان کی محنتوں کا نتیجہ تھی، مرکزی ایشیا کے پانچوں جمہوری ملکوں میں پھیل گئی(۴۸)

سوویت یونین کے جمہوری ممالک اور ان میں مسلمانوں کی آبادی

دارالکومت ملک فیصد آبادی رقبہ/کیلومیٹر مربع

تاشكند ازبكستان/ 86/ 19810077/ 447400

دوشنبه تاجيكستان/ 88/ 5490000/ 143100

شق آباد تركمنستان/ 86/ 3789000/ 488100

آلماتى قزاقستان/ 52/ 16782000/ 27177000

بيشكيك قرقيزستان/ 3.77/ 4590000/ 198500

نیچے دیا گیا خاکہ سوویت یونین کی جمہوریوں میں نومبر ۱۹۷۹ءء اور جنوری ۱۹۸۹ءء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی کو کو دکھاتا ہے

آبادی میں فی صدی اضافہ

درصد رشد جمعيت/ 1989/ 1979

34 (ازبكستان)/ 16686240/ 12455978

1.24 (قزاقستان)/ 8137878/ 6556442

(تاجيكستان) 5.45/ 4216693/ 2897697

(تركمنستان) 34/ 2718297/ 2027913

(قرقيزستان) 8.32/ 2530998/ 1906271

(آذربایجان) 24/ 6791106/ 5477330

(تاتار) 4.7/ 6645588/ 6185196

(داغستانى) 1.25/ 2072071/ 1656676

(چواش) 5/ 1839228/ 175133

(تاشقير) 7.5/ 1449462/ 1371452

(چچن) 8.26/ 958309/ 755782

(اوست) 3.10/ 597802/ 541983

(قراقالپاك) 6.39/ 423436/ 303324

(قاب هاردو) 7.22/ 394651/ 321719

(ركريم) 2.103/ 268736/ 132272

(اويغور) 5.24/ 262199/ 210612

(اينگوش) 6.27/ 286198/ 237577

(ترك) 7.123/ 207369/ 92689

(كاراكاى) 1.19/ 156140/ 131174

(كرد) 32/ 152952/ 115858

(اووش) 9.14/ 124941/ 108711

(آبخازى) 2.13/ 102938/ 90915

(بلغار) 8.32/ 88711/ 66334

(دونكان) 8.34/ 69686/ 51694

(چركس) 7.12/ 52356/ 46740

(بلوچ) 1.53/ 29091/ 18997

(عرب) 2.70/ 11599/ 6813

توجہ:

یہ مردم شماری ، ملّی اور نسلی مردم شمار ی کے لحاظ سے ہے، کیونکہ کومنسٹ حکمرانوں نے مردم شماری کو مذہبی روایات کے اعتار سے منتشر نہیں کیا ہے، یہ خاکہ سوویت یونین میں مسلمانوں کی واقعی آبادی کو روشن نہیں کرتا، اس رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل آبادی چھ کروڑ ہوتی ہے۔

فروری ۱۹۹۰ ءء میں مرکزی ایشیا کے مسلمانوں نے مرکزی ایشیا کے مسلمانوں کے امور کے صدر کی برطرفی کی مانگ کی، انھوں نے اس پر عورتوںسے نامشروع روابط کا الزام لگایا اور اس کواستعفا دینے پر مجبور کیا، اسی زمانہ میں جاہ طلب آلماتی ”رادبیگ نیسان بای“ نے قزاقستان کا مفتی اعظم بننے کے لئے اُمیدواری کا اعلان اور ماسکو سے مشورہ کے بغیر قزاق مسلمانوں کی ایک جدا تنظیم بنانے کا اقدام کیا(۴۹) لوگ اس سے زیادہ پر راضی نہیں تھے کہ ماسکو ان کے لئے فقط فیصلہ کرے کہ کون ان کو مذہبی مسائل کی تعلیم دینے کے لئے معیّن ہو۔

اسلام کی بیداری میں اس معنوی استقلال کی سب سے پہلی علامت جدید مسجدوں کی تعمیر تھی ، اکتوبر ۱۹۹۰ ءء میں قزاقستان میں موجود مسجدوں کی تعداد ۵۰، ترکمنستان میں ۳۰، تاجیکستان میں ۴۰ ، اورازبکستان میں ۹۰ تھی، جبکہ ۱۹۸۹ءء سے پہلے قزاقستان میں ۱۵، ترکمنستان میں۵، تاجیکستان میں ۱۷، اور ازبکستان میں ۳۷ مسجدیں تھی(۵۰) اکتوبر ۱۹۹۱ میں روس کے ہر جہوری ملک میں ایک ہزار سے زیادہ جدید مسجدیں تعمیر ہوگئیں ۔ہر روز ایک نئی مسجد کی بنیاد رکھی جاتی تھی ، مرمّت شدہ گھر، مدارس، اجتماعی مراکز یہاں تک کہ معطّل کارخانے مسجدوں میں تبدیل ہوگئے۔ ۱۹۹۲ءء میں ہر جہوری ملک میں ہزاروں مساجد بن گئیں ،ان مساجد اور مدارس کی تعمیر کے مالی اخاراجات عربی ممالک کی طرف سے تامین ہوتے تھے، ۱۹۹۰ءء کے شروع میں سعودی عرب نے مرکزی ایشیا میں ایک اچھوتے عمل کا اقدام کیا جس سے لوگ دوبارہ اسلام کی طرف متوجہ ہوگئے ، اس نے اس علاقہ میں ۰۰۰/۰۰/۱۰ (دس لاکھ) قرآن بھیجنے کا انتظام اور مقامی زبان میں قرآن کے ترجمہ کے خرچ کا اہتمام کیا، نیز تاشقند میں ایک اسلامی نشر واشاعت کا مرکز کھلوایا، ان علاقوں میں قرآن کا وارد ہونا بہت زیادہ عمومی شوق اور ہیجان کا باعث ہوا، سعودی عرب کے ریڈیو اسٹیشن نے اپنے پروگراموں میں تبدیلی کرتے ہوئے مرکزی ایشیا کے مسلمانوں کے لئے ندائے اسلام کے نام سے ایک پروگرام کو ترتیب دیا، شاہ فہد نے باردیگر ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۲ء میں سویوں حج کے امید وار افراد کو وظیفہ حج کے انجام دینے کے لئے مدعو کیا۔

سعودی عرب حکومت نے ۱۹۹۱ءء میں خلیج فارس کی جنگ میں ایک سمجھوتے پر دستخط کرتے ہوئے ان جمہوریوں کو ماسکو کی حمایت کی غرض سے ڈیڑ عرب ڈالر قرض دے کر مذکورہ جنگ میں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا(۵۱) اس کے باوجود بھی، عرب برادری مذہبی اور احساسی روابط کی حد تک ہی باقی رہی، عملی میدان تک نہ پہنچ سکی۔ ۱۹۹۲ءء میں سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل مرکزی ایشیا کے دورے پر آیا اس نے دیکھا کہ ان کے کام نے لوگوں کو دوبارہ اسلام کی طرف پلٹنے میں زیادہ مدد دی ہے نہ یہ کہ اقتصادی وسعت اور تجارتی روابط کو ایجاد کیا ہے، یہاں تک کہ قزاقستان کے آلماتی میں شہر سب سے پہلے کھلنے والے غیر ملکی ایک سعودی بینک بہ نام ”البرکہ“ میں مقامی لوگوں کی سرمایہ گذاری بہت کم تھی۔

ازبکستان میں مسلمانوں کی مذہبی بیداری

تاجیکستان کی داخلی جنگ تمام پڑوسی ملکوں کے لئے ایک خطرناک موضوع میں تبدیل ہوگئی، اس ڈر اور دہشت کا ریشہ اس ملک کی تاریخ اور جغرافیہ سے ملتا ہے۔

درّہ فرغانہ کاصوبہ، جس میں فرغانہ، نمنگان اور اندیجان شہر شامل ہیں، تاجیکستان کی سرحد پرواقع ہے۔جب تاجیکستان کی داخلی جنگ ازبکستان تک پہنچ گئی تو اسلامی تنظیموں نے اپنی نہضت کے لئے بہت سی حمایتوں کو حاصل کیا، تاریخی نظر سے یہ زرخیز درّہ کہ جو پٹ سن کی کاشت سے مشہور ہے، اسلام کا قلعہ شمار ہوتا تھا،نمنگان شہر کے شہردار (D.M) کے جانشین عبدالرشید عبدالله اُف کے کہنے کے مطابق یہاں کے لوگ کومنسٹوں کے تسلُّط کے دوران بھی روایتی رسموں کو خفیہ طور سے انجام دیتے تھے ۱۹۹۱ءء میں ازبکستان کے استقلال کے بعد درّہ فرغانہ میں اسلام نے نئی زندگی پائی ۱۹۹۰ سے ۱۹۹۲ تک نمنگان کی مسجدوں کی تعداد ۲ سے ۲۶ تک پہنچ گئی، آج نمنگان ضلع میں ۱۳۰ مسجدیں اور مسلمانوں کی تعداد ۱۵/لاکھ ہے، ۱۹۸۹ءء میں نمنگان ضلع سے فقط ۴ افراد کو وظیفہٴ حج کو ادا کرنے کی اجازت ملی ، لیکن ۱۹۹۲ءء میں نمنگان ضلع سےحاجیوں کی تعداد ۱۵۰۰ /نفر تک پہنچ گئی اور پورے ملک کے حاجیوں کی تعداد ۴۰۰۰ (چار ہزار) تھی۔

صدر ”اسلام کریم اُف“ اسلام گرائی اور اس کی تجدید حیات کی نوید دیتا اور اپنی ملک کے اندر تقریوں کو ”بسم ا الرحمن الرحیم“ سے شروع کرتا تھا، وہ مئی۱۹۹۲ءء میں سعودی عرب کے دورہ پر گیا اور مکہ مکرمہ پہنچ کر حج وعمرہ سے مشرّف ہوا، کریم اُف کی حکومت نے ایک مولوی کو اپنے ادارہ کے مذہبی امور کے لئے رئیس کے عنوان سے منتخب کیا اور عید فطر وقربان پر عمومی تطیل کا اعلان کیا۔

نتیجہ:

مرکزی ایشیا میں اسلام کی دوبارہ زندگی ۱۹۸۰ءء کی دہائی کے اواخر میں شروع ہوئی، یہ وہ زمانہ تھا جب روس کے تسلط کے دوران میخائل گورباچوف کی سیاست، ”پروسترویکا“ اور ”گلاستوست“ کے تحت پورے سوویت یونین میں لوگوں کو اپنی مذہبی روسمات کے انجام دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس سیاست کے ساتھ مسلمانوں کی مذہبی زندگی کی تجدید حیات کی لہر پورے ملک میں دوڑ گئی۔ ستّر سال مذہبی اعمال کی محدودیت اور دین کے توقّف کے بعد یکایک اسلام کی تجدید حیات کا پورے سوویت یونین میں چرچہ ہوگیا۔

مرکزی ایشیا کے مسلمان، روس کے تسلّط کے دوران بڑے آرام سے بیٹھے تھے، ان کی آبادی کی اکثریت سنّی مسلمان اور حنفی فرقہ سے وابستہ تھی۔ دسمبر ۱۹۹۱ءء میں یکایک کومنسٹ سوویت یونین کے انحلال کے بعد مرکزی ایشیا میں اسلامی سنتوں کے احیاء کے زیادہ مقدمات فراہم ہوئے۔مذہبی احکام کے جاری ہونے کا سب سے واضح نمونہ، اسلامی معاشرت کو قبول کرنا اور اپنانا تھا، ان میں مذہبی شادی ، نماز یومیہ کی ادائیگی اور مساجد کی طرف زیادہ رغبت وغیرہ شامل تھیں۔ اسی طرح مساجد اور مدارس کی تعمیر کا بھی قابل توجہ تعدادمیں آغاز ہوا۔۹۹۰۔۱۹۹۱ء میں مسجدوں کی تعداد کا افتتاح ۱۶۰ سے ۵۰۰ تک پہنچ گیا، مساجد اور مدارس کی تعمیر کا خرچ عربی ملکوں کے ذریعہ ادا ہوا۔ایرا ن اور ترکی بھی کہ جو مرکزی ایشیا کے مسلمانوں کی حمایت میں رقابت کی صف میں کھڑے تھے اس کام میں شریک تھے۔سعودی عرب نے قرآن مجید کے نسخوں کی ایک بڑی تعداد اس علاقہ میں ارسال کی۔ ترکی، ایران اور سعودی عرب نے مذہبی جماعتوں کو یہاں پر بھیجا اور مرکزی ایشیا کے طالب علموں کو اپنے اپنے ملکوں میں دینیات کی تعلیم کی دعوت دی، آہستہ آہستہ اسلامی پارٹیاں زیادہ ہوتی گئیں اور اسلامی پارٹیوں کار سانس سب ملکوں میں پھیل گیا۔

تاجیکستان نے غیر مذہبی مفکرین کا جدّی طور سے مقالہ شروع کردیا ہے اور اُمید ہے مستقبل قریب میں مرکزی ایشیا میں اسلام زیادہ بااہمیت ہوجائے گا، کیونکہ مرکزی ایشیا کے تمام جمہوری ملکوں نے سرکاری طور پر اپنی حکومتوں کو اسلامی حکومت ہونے کا اعلان کردیا ہے۔

حوالے

Modern Age Islam and the رسالہ سے نقل، طبع دہلی

۱۔ اس ہنر کو یونانی زبان میں Laxartusاور Oxus اور عربی زبان میں سیحون جیحون کہا جاتا ہے․

۲۔ دوندرا کاؤشیک، مرکزی ایشیا راز منہ جدید (ماسکو، انتشارات توسعہ، ۱۹۷۰) ص۱۴․

۳۔ پیٹر فرینانڈ، آسیای میانہ جدید وہمسایگانش (لندن، امور بین الملل بنیاد سلطنتی، ۱۹۹۴ءء) ص۷․

۴ پیٹر فرینانڈ، گذشتہ، ص۱۵․

۵ مقبول بدخشانی، تاریخ ایران (لاہور، مجلس تاریخ ادب، ۱۹۷۶ء) ج۱، ص۲۹۲۔۲۹۷․

۶۔ ایچ، اے، آر، گیپ، فتوحات اعراب در آسیای مرکزی، لندن، ۱۹۲۳ء، ص۱۵․

۷ مقبول بدخشانی، گذشتہ، ج۲، ص۱۴۲․

۸ سین بریل، دائرة المعارف اسلام، (طبع جدید ۱۹۸۶ء) ص۵۴۱۔۵۶۷․

۹۔ یاقوت الرومی، معجم البلدان، (بیروت دائرةالصادر، ۱۹۸۶ء) ج۱، ص۵۶۵۔۵۶۷․

۱۰۔ ریچررڈ، نفرای، تاریخ بخارا، (کیمرج، ماساچوست، ۱۹۵۴ء) ، ص۱۴۷، اصل میں یہ کتاب نرشخی نے عربی زبان میں لکی ہے)

۱۱۔ مقبول بدخشانی، گذشتہ ، ص۱۳۵․

۱۲۔ شمس الدین ”فروپاشی انحاد جماہیر شوروی وچشم انداز احیای اسلام در آسیائے مرکزی“ مجلہ مطالعات، آسیای غربی، علیگڑھ شمارہ ہفتم (۱۹۹۱ء) ص۲۳․

۱۳۔ دوندرا کاؤشیک ، گذشتہ، ص۱۷․

۱۴۔ گذشتہ․

۱۵۔ ای فلیپ، اردوی، شاہانہ، مردان صحراگرد استپ(لندن، ۱۹۶۵ء) ، ص۸․

۱۶۔گذشتہ․

۱۷۔ ارمینس ویمیرانی، تاریخ بخارا، ترجمہ نفیس الدین (لاہور، مجلس، تاریخی ادب، ۱۹۵۹ء)․

۱۸۔ گذشتہ، حیدر(۱۸۰۰۔۱۸۲۶) یہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو امیر کا نام دیا․

۱۹۔ مقبول بدخشانی، گذشتہ ، ص۱۶․

۲۰۔محمد، ام، خان،”اسلام در دورہٴ ترازہا وانقلاب اکتوبر“ مجلہ بنیاد امور اقلیت مسلمان، شمارہ اوّل، (لندن جنوری۱۹۹۱ء) ج۷، ص۲۴․

۲۱۔ گذشتہ․

۲۲۔ گذشتہ․

۔۲۳۔ رودکی ایل ، روشت، ملیت ہای قومی در اتحاد جماہیر شوروی: نگاہی جامعہ شناختی بہ یک مسئلہ تاریخی، (نیویورک، ۱۹۸۱ء)، ص۶۶․

۲۴۔ سیمور بکر، بخارا وخیوہ وکشور ہای تحت الحمایہ روس(۱۹۶۵۔۱۹۴۲ء)، (ہاوارد، ۱۹۸۶

۲۵۔ شمس الدین، گذشتہ، ص۲۶․

۲۶۔ شیرین آکینز، مسلمانان اتحاد جماہیر شوروی، (چاپ دوم، لندن ۱۹۸۶ء)، ص۵۷․

۲۷۔ مرکزی ایشیا میں تاتاروں نے مدارس کے نئے اصول، رسالوں، محلوں اور روزناموں کا انتشار، ترجمہ اور چھپائی کو اسماعیل بیگ کاسپرینسکی کہ جو کریمہ شہر کا مشہور شخص تھا، کی صدرات میں آغاز کیا، جس نے مرکزی ایشیا کے مقامی لوگوں میں تحریک کی لہر دوڑادی، ان روز ناموں کا مرکزی ایشیا کے لوگوں کا ثقافتی بیداری میں بہت بڑا کردار رہا، اس مطلب کو دیکھن کے لئے رجوع کریں، دوندرا کاؤشیک کی گذشتہ کتاب کے صفحہ ۷۵۔۸۰ پر اور آروید ناتھ کی کتاب ”شکل گیری جمہوری ہای شوروی آسیای مرکزی (دہلی نو۱۹۶۷ء)، ص۵۰۔۶۳․

۲۸۔ شمس الدین، مسائل نوگرای سیاسی درمیان روسہای آسیای مرکزی قبل از انقلاب اکبر، مجلہ ہندی سیاست، شمارہ ہای ۱۔۲۔۶ (اپریل، اگست۱۹۶۹ء) ج۷، ص۸۵۔۸۶․

۲۹۔ تدؤسز سرتیو چوسکی، آذربائیجان شوروی، (۱۹۰۵۔۱۹۲۰ء) ہویت ملی در یک جمعیت مسلمان، (انتشارات دانشگاہ کیمبریج ۱۹۸۵)، ص۶۸۔۹۰․

۳۰۔ گذشتہ․

۳۱۔ و، ل، لین، مجموعہ کامل آثار، (ماسکو ۱۹۶۲ء) ، ج۲۸، ص۵۱۴․

۳۴۔ پان ترکیزم کی تحریک کہ جو ترکوں کی حمایت میں تھی، پہلی عالمی جنگ کے اختتام اور تھوڑا اس کے بعد سوویت یونین کی مہم سیاست کا قابل توجہ عنصر تھا․

۳۲۔P.14.24.ibid,no.35

۳۳۔ محمد، ام، خان، گذشتہ، ص۳۴․

۳۴۔ تاریخ اسلام کمبریج، چاپ ہولت لامستوی ولویس، (انتشارات دانشگاہ کیمبریج، ۱۹۷۰)، ج۱، ص۱․

۳۵۔ بنیکسوت و ویمبوش، تصوف در اتحاد جماہیر شوروی، (لندن، ۱۹۸۵ء) ص۲۴․

۳۶۔ گذشتہ، ص۳۰․

۳۷۔ تدؤسز سوتیوچوسکی، گذشتہ، ص۱۳۴․

۳۸۔ شمس الدین، گذشتہ، ص۲۷․

۳۹۔ فضل الرحمان، ”سیاست اتحاد جماہیر سوروی درقبال مسلمان روسیہ“ مجلّہ بنیاد امور اقلیت مسلمانان، (۱۹۸۰ء)، ج۲، ص۴۰․

۴۰۔ بنیکسون، اسلام رسمی دراتحاد جماہیر شوروی، مذہب در سرزمینہای کمونیستی، مجلّہ بنیاد امور اقیت ہای مسلمانان، شمارہ، ۳،(۱۹۷۰ء) ج۷، ص۱۵۱․

۴۴۔گذشتہ․

۴۵۔ جی ام لانداؤ بہ ”برخی کارہای شوروی ہا بر روی اسلام، مطالعات خاور میانہ“ شمارہ ۳ (لندن، اکتوبر ۱۹۷۳)، ج۹، ص۳۶۲․

۴۱۔ ریچرڈ پیپ ”مسلمانان آسیای مرکی، بخش دوم“ مجلہ خاور میانہ، شمارہ ۳(واشنگٹن، تابستان۱۹۹۵ء) ج۹، ص۲۹۵۔۳۰۳․

۴۲۔ احمد رشید، ”تجدید حیات تصوف“ مجلہ اقتصادی شرق دور، (۱۷ دسمبر۱۹۹۲ء)

۴۳۔ گذشتہ، تجدید حیات آسیای مرکزی، اسلام یا ناسیونالیسم، (کراچی، انتشارات دانشگاہ آکسفورد، ۱۹۹۴ء) ص۴۴․

۴۴۔ گذشتہ، ص۴۵․

۴۵۔”چالش اسلامی“ مجلہ اقتصادی شرق دور، (۱۲جولائی۱۹۹۰ء) یہ تعداد مرکزی ایشیا کے ۱۹۹۰ءء کے مسافر اہل قلم کے اقوال کے مطابق ہے۔

۴۶۔ احمد رشید، گذشتہ، ۲۲۰۔۲۲۱․

۴۷۔ دلیپ ہیرو ”پیشرفت وانحطاط اسلام در آسیای مرکزی“ مجل بین المللی خاور میانہ، شمارہٴ۴۴۳ (پانچ فروری ۱۹۹۳ء) ص۲۰

 

 

 

 

 


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی

 
user comment