اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

ائمہ عسکرین کے اصحاب اور شاگرد

ائمہ عسکرین کا زیادہ وقت دور افتادہ شہر سامرہ کے قید خانوں میں حکومتی کار ندوں کی کڑی نگرانی میں گزرا، اس گھٹن والے ماحول اور محدودیت کے باوجود یہ ائمہ قد آور شخصیت اور با فضیلت لوگوں کی تربیت میں کامیاب رہے، شیخ طوسی نے ان لوگوں کی تعداد جوامام علی النقی (ع) سے روایت کرتے تھے ١٨٥ بتائی ہے۔ چند نمایاں افراد کے نام درج ذیل ہیں ۔

١۔ حسین بن سعید الاہوازی، ٣٠ کتابوں کے مصنف

٢۔ حسن بن سعید ٥٠ کتابوں کے مصنف

٣۔ ابو ہاشم جعفر ، امام رضا (ع) سے امام زمانہ تک کی خدمت میں رہے۔

٤۔ عبدالعظیم بن عبداﷲ بن علی، اکابر محدثین اور علما میں شمار ہوتے ہیں۔

٥۔ ابن السکیت بن یعقوب بن اسحٰق، امام جواد اور امام ہادی کے مخصوص اصحاب میں تھے۔ متوکل کے سوال پرکہ

اس کے بیٹے افضل ہیں یا حسنین ، جواب دیا کہ حسنین کا غلام قنبر بھی تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے بہتر ہے۔ متوکل نے گدی سے زبان کھنچوادی اور اتنا مارا کہ شہید ہوگئے۔

امام حسن عسکری (ع) کی زندگی کے ٢٨ سال میں ٢٢ سال اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ گزرے ، آپ کی امامت کا عرصہ صرف ٦ سال رہا۔ آپ کے چند اصحاب کے نام:

١۔ ابو علی احمد بن اسحٰق بن عبداﷲ الاشعری، موثق اور معتبر امام کے سفیر اوروکیل۔

٢۔ احمد بن محمد بن مطہر، اتنے معتبر کہ امام نے اپنی والدہ کے حج میں ان کو سفر کا نگراں رکھا۔

٣۔ ابو سہل ۔ بغداد کے بزرگ ترین علما علم کلام میں تھے۔ الانوار فی تاریخ الائمہ والا طہار، کے مصنف کی حیثیت

سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔

حاصل کلام:

مقالہ کے اختتام پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حاصل کلام کیا ہے؟ عنوان کے تحت بیان کئے گئے نگارشآت کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عہد امامت عسکرئین تاریخ ائمہ حقہ میں اہم واقعات کار مرکز اور پیش رو ہے ۔ ایک نہایت جار حانہ ماحول میں قیام حق میں ائمہ عسکرئین کی ثابت قدمی ظاہر کرتا ہے۔ مستقبل کے امر مشیت یعنی فلسفہ غیبت جیسے عجیب اور حساس نظریہ کو متارف کرنے اور اس کی بتدریخ پذیرائی میں ائمہ عسکرئین کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ اس کا ئنات کو قیامت تک جاتا ہے اور پیغام حق کو بھی قیامت تک باقی رہنا ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب میں مہدی کا تصور اور عقیدہ موجود ہے اسلام میں یہ عقیدہ آنحضرت کی ١٢ وین جانشینی اور قریش سے نسلی وابستگی سے مشروط ہے۔ اس کی ولایت کا اعلان بھی ضروری ہے تاکہ مرنے والے جاہلیت کی موت نہ مریں۔ شیعہ عقیدہ کی رو سے مہدی نسل حسین کی نویں پشت میں ہے۔ مشیت اب تک ١١ ہادیوں کو بھیجکر دنیا کا ان سے برتاؤ دیکھ چکی تھی اپنے آخری نور عصمت کی دو امی حفاظت کے لئے خدا نے اپنے ولی کو ایک عارضی عرصہ کے لئے پردہ میں رکھا جو غیبت صغریٰ کہلا تا ہے۔ عہد عسکرئین سے ہی قابل اعتماد اصحاب کا سلسلہ شروع ہوا جو امام اور عوام کے درمیان رابطہ کا کام انجام دیتا تھا بالآخر یہ نواب اربعہ۔ کی شکل اختیار کر گیا جو تقریباً ٧٠ سال کے عرصہ تک یکے بعد دیگرے چار نائبوں پر مشتمل رہا۔اس طرح ٧٠ سال کی عارضی غیبت میں امام کے زیر ہدایت ذہنی پختگی کا عمل شروع ہوا جو امام کی غیر معینہ مدت کی پوشیدگی یعنی غیبت کبریٰ پرمرجعیت اور اجتہاد کے ادارہ کی شکل اختیار کر گیا جو تشیع کا نشان امتیاز ہے۔ غیبت کبریٰ منزل نہیں بلکہ ایک طویل تسلسل ہے جس کی انتہا اﷲ ہی جانتا ہے یا وہ جس کو اﷲ نے علم دیا ہے۔ یہ ائمہ عسکرئین کا احسان ہے کہ قیامت تک آنے والی نسلوں کو تعلیمات محمد (ص) و آل محمد (ص) کی روشنی میں اپنی زندگی استوار کرنے کےلئے ایک مستحکم نظام مہیا کردیا۔ خدا ہمیں علوم معصومین سے استفادہ اور عمل کی توفیق دے۔

اظہار تشکر۔

اس مقالہ کی تدوین میںکئی افراد اور اداروں کا شکریہ واجب الادا ہے جن کے نام حوالے اور کتابوں میں شامل ہیں۔ خصوصی طور پر میں ممنون ہوں اسلامک ریسرچ اور کلچرل سینٹر کراچی کی شیخ مفید لائبریری اور لائبریرین موسی رضا صاحب اور آلِ عبا ریسرچ سینٹر لائبریری کے جناب مشرف حسین صاحب کا۔ مقالہ میں علامہ ترابی کے گراں بہا حوالے کو شامل کرنے میں جناب ہادی عسکری صاحب کا خصوصی تعاون رہا جن کے ذریعہ محمدی ٹیپ بنک سے علامہ مرحوم کی تقاریر تک رسائی ممکن ہوسکی۔ تحقیقی کام کرنے والوںکے لئے یہ بینک ایک قیمتی ذخیرہئ معلومات ہے، میں خطیب آل عبا مولانا ناصر عباس زیدی صاحب کا مشکور ہوں کہ بہ نظر اصلاح مقالہ کو پڑھا، منتظمین گروہ جعفری پاکستان قابل مبارک باد ہیں کہ تسلسل سے اس مطالعاتی نشستوں کو جاری رکھا۔ میں اپنے اہل خانہ کا ممنون ہوںکہ ان کے تعاون سے فرصت کے لمحات کو عمل خیر میں استعمال کرسکا خدا ان کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ آپ سامعین کا ممنون ہوں کہ اپ نے عزت افزائی فرمائی۔ آخر میں میں خدائے تعالیٰ اور چہاردہ معصومین کا شرک گزار ہوں کہ مجھے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ایک اور موقع ملا۔ خدا اس خدمت کو قبول فرمائے۔

ضمیمہ:

علامہ سید رضی جعفر صاحب کے ترجمہ زیارت جامعہ سے اقتباسات

سلام ہو آپ لوگوں پر اے نبوت کے گھر والے، اے پیغام ِ ربانی کے مرکز، اے فرشتوں کے آمد ورفت کے محور، اے وحی خدوندِ کے نزول کی جگہ، اے رحمت کے سرچشمے، اے علم کے خزانہ دار، اے حلم کی آخری منزل، اے نعمتوں کے پاسبان ، اے رب العالمین کے منتخب بندے کی عترت آپ پر اﷲ کی رحمت و برکت ہو۔

یوں ان القاب کا سلسلہ اور ائمہ کے صفات کے ذکر کے بعد گواہیوں کا ذکر ہے کہ خداوند عالم نے آپ حضرت کو مکرم بندوں کے نہایت اشرف مرتبہ پر فائز کیا جن تک نہ کسی کی رسائی ہے اور نہ کوئی اس سے زیادہ بلند ہوسکتا ہے۔

ان توصیفات کا ذکر اپنے معراج پر پہنچتا ہے جب ہم کہتے ہیں اے آلِ محمد (ص) آپ ہی کے ذریعے اﷲ نے کائنات کا آغاز کیا آپ ہی پر اختتام ہوگا، آپ ہی کے صدقے میں بارش نازل ہوتی ہے اور آسمان و زمین اپنی جگہ پر قائم ہے۔ آپ ہی کے وسیلہ سے پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔ جو آپ کے ولایت کا انکار کرے گا اس پر رحمن کا غضب نازل ہوگا۔

رواز و نیاز کے انداز میں یہ زیارت آخری مرحلہ پر پہنچتی ہے جہاں امام نے یہ کہنے کی تعلیم دی ہے کہ ''اے ولی ئ خدا میرے اور خدا کے درمیان بہت سے معاصی کا پردہ حائل ہے جو آپ کی رضا و خوشنودی ہی سے دور ہوسکتا ہے آپ لوگوں کی ذاتِ بر حق کا واسطہ جس سے کائنات کے امور کی نگرانی آپ کے سپرد کی میرے گناہوں کو بخشوا دیجئے اور میری شفاعت کیجئے ۔ ''

زیارت اس طرح ذکر خدا پر ختم ہوتی ہے کہ اے پالنے والے مجھے ان لوگوں کے زمرہ میں شامل کرلے جو ان حضرات کی معرفت اور صفات سے فیضیاب ہونے والے ہیں اور حضرت محمد (ص) مصطفی اور ان کے اہلِ بیت پر کثرت سے درود و سلام۔ بے شک اﷲ ہمارے لئے کافی اور بہترین سرپرست ہے۔


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد
امام رضاعلیہ السلام اور ولایت عہدی كامنصب
امام زمانہ سے منسوب جزیرہ برمودا ٹرائنگل
کیا عباس بن عبدالمطلب اور ان کے فرزند شیعوں کے ...
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں

 
user comment