اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

دينى حكومت اور جمہوريت

 

اسلام كے سياسى فلسفہ كى اہم ترين بحثوں ميں سے ايك ''دين اور جمہوريت'' كے در ميان تعلق كى تحقيق و بررسى ہے _اس بحث ميں بہت سے سوالات اور شبہات پائے جاتے ہيں _ ان ميں سے بعض شبہات كا سرچشمہ اسلام كے اصول ومبانى اور جمہوريت كے اصول و مبانى كے درميان ناقابل حل عدم مطابقت وعدم ہم آہنگى كا تصور ہے _ دينى حكومت اور جمہوريت كى ہم آہنگى كے بعض منكرين اس سرچشمہ كو نظريہ ولايت فقيہ ميں تلاش كرتے ہيں _ان كے خيال ميں اسلام جمہوريت سے ذاتى مخالفت نہيں ركھتا _ليكن ولائي نظام جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے جمہوريت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ بنابريں ايك كلى تقسيم بندى كے لحاظ سے ہميں تين اساسى نظريات كاسامنا ہے _

الف_ ايك نظريہ يہ ہے كہ دينى حكومت اور جمہوريت كى تركيب ممكن ہے اس نظريہ كے مطابق اسلام اور اس كى تعليمات كى پابندى جمہوريت اورمعاشرہ كے سياسى و انتظامى امور ميں لوگوں كى مداخلت سے مانع نہيں ہے _ جمہورى اسلامى كا نظام اور اس كا اساسى قانون اسى سياسى نظريہ پر قائم ہے _

ب_ وہ نظريہ جو اسلام اور -جمہوريت كے درميان ذاتى تضاد كا قائل ہے يہ نظريہ اس بنياد پر قائم ہے كہ اسلام بنيادى طور پر عوامى قيادت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ اسى لئے نہ صرف'' حكومت ولائي'' اور ولايت فقيہ كا سياسى نظريہ ، بلكہ ہر وہ دينى حكومت جو اسلام كى حاكميت كو تسليم كرتى ہے اور اس كى تعليمات اور احكام كى پابند ہے وہ ايك جمہورى اور عوامى حكومت نہيں ہوسكتى _

ج _ تيسرا نظريہ وہ ہے جو بنيادى طور پر دين اور جمہوريت كى تركيب كے امكان كا منكر نہيں ہے _ بلكہ اسے اس نظام ميں مشكل پيش آرہى ہے جو ولايت فقيہ پر مبتنى ہے _ اس نظريہ كى بنياد پر ولايت فقيہ كے اعتقاد اور جمہوريت كى باہمى تركيب ممكن نہيں ہے _ جمہوريت اور ولائي حكومت كبھى بھى ہم آہنگ نہيں ہوسكتے وہ حكومت جو ولايت فقيہ كى بنياد پر قائم ہوكبھى بھى جمہورى اور عوامى نہيں كہلاسكتى _ جمہوريت پر اعتقاد اور ولايت فقيہ پر اعتقاد، دو متضاد چيزيں ہيں _

ان تين نظريات كے متعلق فيصلہ كرنے اور دينى حكومت كے مخالفين كے نظريہ كے متعلق تفصيلى بحث سے پہلے بہتر ہے : جمہوريت كى حقيقت كے متعلق مزيدآشنائي حاصل كرليں _

جمہوريت كى حقيقت :

جمہوريت ايك يونانى اصطلاح ہے جو دو الفاظ'' demo'' يعنى عوام اور ''cracy'' يعنى حكومت سے مركب ہے _ عوامى حكومت يا عوامى قيادت اپنے دقيق معنى كے ساتھ تو ايك ايسا خواب ہے جو كبھى بھى شرمندہ تعبير نہيں ہوسكتا _ كيونكہ آج كے پيچيدہ معاشرے ميں كہ جہاں روزانہ دسيوں بڑے بڑے معاشرتى فيصلے  كئے جاتے ہيں اور مختلف حكومتى اداروں ميں مختلف قوانين وضع ہوتے ہيں ممكن ہى نہيں ہے كہ يہ فيصلے اور قوانين براہ راست لوگوں كے ذريعے انجام پائيں _ پس ناچار جمہورى حكومتوں ميں كچھ افراد لوگوں كى اكثريت رائے سے ان كى نمائندگى كرتے ہوئے عنان حكومت اپنے ہاتھ ميں لے ليتے ہيں اور در حقيقت عملى طور پر يہى افراد حكومت كرتے ہيں نہ كہ عوام_ البتہ قديم يونان كے شہروں كى حكومتوں ميں بہت سارے فيصلے شہر كے چوك ميں كھلے عام اور لوگوں كى رائے سے انجام ديئے جاتے تھے ليكن وہاں بھى تمام لوگوں كو راے دہى كا حق نہيں تھا كيونكہ خواتين اور غلام رائے نہيں دے سكتے تھے-_

ڈيمو كريسى يعنى جمہوريت ايك ايسا كلمہ ہے جس كى مختلف تفسيريں اور معانى كئے گئے ہيں _ اس مدعى كى دليل يہ ہے كہ مختلف مكاتب فكر نے بالكل متضاد نظريات كے باوجود جمہوريت كى حمايت كى ہے _ لبرل ازم اور فاشزم كے حامى اور قدامت پسند سبھى خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اور اپنے آپ كو حقيقى جمہوريت قائم كرنے والا قرار ديتے ہيں _ اشتراكى جمہوريت ، لبرل ازم ، آزاد جمہوريت ، صنعتى جمہوريت اور كثيرالراے جمہوريت (1) جيسى مختلف اصطلاحيں حقيقت ميں اس بات كى نشاندہى كرتى ہيں كہ جمہوريت سے مراد كوئي مخصوص معنى اور اصطلاح نہيں ہے _

جمہوريت كا كوئي ثابت معنى نہيںہے _ دنيا كے بيشتر ممالك ميں مختلف جمہورى حكومتيں قائم ہيں اور جمہوريت مختلف سياسى نظريات كے ساتھ ہم ساز و ہم آہنگ ہے يہ اس بات كى دليل ہے كہ جمہوريت كا كوئي ايسا معنى موجود نہيں ہے كہ جس پر سبھى متفق ہوں_ اس نے مختلف معاشروں كے اجتماعى تحولات اور تغيرات كے ساتھ ساتھ مختلف روپ ڈھالے ہيں _ آج چونكہ جمہوريت ايك مثبت معنى ركھتى ہے لہذابہت سے سياسى نظام خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اگرچہ ان كى حكومتوں ميں عوام كا عمل دخل بہت ہى كم ہو_

بنيادى طور پر جمہوريت كو دو لحاظ سے ديكھا جاتاہے_ از لحاظ قدر و قيمت اور از لحاظ ايك روش _ جمہوريت از لحاظ قدر و قيمت سے مراد يہ ہے كہ اكثريت كا انتخاب ہميشہ معاشرہ كى بھلائي اور حق كے انتخاب كے ہمراہ ہے _ جن موارد ميں عمومى آراء كا لحاظ كيا جاتا ہے وہاں حق باطل سے ممتازہوجاتا ہے _ بنابريں جمہوريت اجتماعى زندگى گزارنے كيلئے مناسب اور صحيح راہ حل دے سكتى ہے _ معاشرہ كى سعادت اور خوشبختى اكثريت كے انتخاب كى مرہون منت ہے _ كلاسيكل جمہوريت يعنى اٹھار ہويں صدى كى جمہوريت اسى نظريہ پر استوار تھى اور آج بھى كچھ گروہ اسى زاويہ نگاہ سے جمہوريت كو ديكھتے ہيں اور اكثريت كى رائے كو حق و باطل كى تشخيص كا معيار قرار ديتے ہيں _ اكثريت كى رائے كو قدر كى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور حق و حقيقت كو اسى ميں تلاش كرتے ہيں _

اس نظريہ كا نقطہ استدلال يہ ہے _

واضح سى بات ہے كہ ہر شخص اپنى انفرادى زندگى ميں اپنى ذاتى منفعت اور سعاد ت و خوشبختى كا خواہان ہے_ اور زندگى كے مختلف شعبوں ميں بہترين اور صحيح امور كا انتخاب كرتا ہے _ دوسرے لفظوں ميں لوگ اپنى انفرادى زندگى ميں منافع پر نظر ركھتے ہيں اور اپنى ذاتى خيرو بھلائي كى تلاش ميں رہتے ہيں_ لہذا اجتماعى زندگى ميں بھى اكثريت كا انتخاب ايك صحيح ترين انتخاب ہوگا _ چونكہ لوگ اپنے منافع كا صحيح اور بہترين ادراك ركھتے ہيں اور عمومى منافع و مصالح بھى اسى انفرادى تشخيص پر موقوف ہيں _ ہر فرد نے اجتماعى امور اور معاشرہ كے منافع و مصالح كو اپنى ذاتى تشخيص سے متعين كيا ہے اور اكثريت كى رائے معاشرہ كى خيرو منفعت  كى تعيين و تشخيص ميں عمومى رائے كى نشاندہى كرتى ہے بنابريں ہر اجتماعى واقعہ و مسئلہ آسانى سے خوب و بد اور نافع و مضر ميں تقسيم ہوسكتا ہے _ اور ارادہ عمومى جو كہ اكثريت رائے سے حاصل ہوا ہے اس خوب و بد اور مفيدو مضر كى آسانى سے شناخت كرسكتا ہے _

''جمہوريت از لحاظ ايك روش ''سے مراد يہ ہے كہ جمہوريت صرف اجتماعى تنازعات كا حل اور سياسى اقتدار كى تبديلى كا ايك ذريعہ ہے _ طول تاريخ كے عقلانے تجربہ سے يہ نتيجہ حاصل كيا ہے كہ جمہوريت، حكّام اور صاحبان اقتدار كے تعيّن كا بہترين طريقہ ہے بجائے اس كے كہ مختلف سياسى جماعتيں ، سياسى ليڈر اور اقتدار كے خواہشمند افراد جنگ، قتل و غارت ،دہشت گردى اور اختلافى مسائل كے ذريعہ اقتدار كو اپنے درميان تقسيم كرليں_ اس كيلئے ايك معقول اور بہترين راہ موجود ہے اور وہ حكمران يا پارليمنٹ كے ممبران كى تشخيص اور انتخاب كيلئے رائے عامہ كى طرف رجوع كرنا ہے _ اس لحاظ سے جمہوريت اور اكثريت كى رائے خوب و بد اور صحيح و غلط كا معيار نہيں ہے -ہوسكتا ہے لوگوں كى منتخب شدہ جماعت كہ جس كے متعلق اكثريت نے راے دى ہے عملى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كيلئے كوئي قدم نہ اٹھائے _ اكثريت كا انتخاب حق و حقانيت كے انتخاب كى دليل نہيں ہے _

موجودہ دور كے صاحبان نظرجمہوريت كو از لحاظ قدر و قيمت نہيں ديكھتے كوئي بھى يہ تصور نہيں كرتا كہ اكثريت كى رائے حتمى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كا پيغام ہے _ جرمن نازى ، اٹالوى فاشسٹ ، اور روسى اور مشرقى بلاك كے كيمونسٹ ،اكثريت كى رائے سے انقلاب لائے اور اقتدار حاصل كرنے ميں كامياب ہوئے _ ليكن عملى طور پر ان كے دور اقتدار انسانى الميوں سے بھرے ہوئے ہيں _

اجمالى طور پر جمہوريت كى حقيقت كے واضح ہونے كے بعد اس نظريہ كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ اسلام اور جمہوريت كے اصولوں ميں توافق اور ہم آہنگى ممكن نہيں ہے _   

اسلام اور جمہوريت كے در ميان ذاتى عدم توافق

بعض افراد معتقد ہيں كہ جمہوريت كچھ خاص اصولوں پر مبتنى ہے _ انسان ، معاشرہ اور سياست پر اس كى ايك خاص نگاہ ہے اور مخصوص اہداف كى حامل ہے _ يہ اصول و اہداف ،اسلامى تعليمات اور ان پر حاكم اصولوں كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق نہيں ہوسكتا اور اسكى ادلة ہم ذكر كريں گے_ اصلاً اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق ممكن نہيں ہے مگر يہ كہ اسلام مكمل طور پر سيكولر ہوجائے _ جمہوريت كے نظرى اصول ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ انسان سے خطا اور غلطى كا سرزد ہونا ممكن ہے يہ اصول خود ايك دوسرے اصول پر مبنى ہے كہ انسان ايك صاحب اختيار وجود ہے اور اسے انتخاب كا حق ہے _ خطا اور غلطى اس كے اختيار اور انتخاب كا لازمہ ہے ... انسان كے انتخاب كا بہترين مورد، فكر اور عقائد كى دنيا ہے _ انسان كيلئے يہ امكان ہونا چاہيئے كہ وہ آزادانہ طور پر مختلف آراء و نظريات كے متعلق غور و فكر كرسكے اور آزادانہ طور پر اپنا انتخاب كرسكے _ وہ اديان ميں سے كسى دين يا بے دينى كو اختيار كرنے ميں آزاد ہے _ جمہوريت كا ايك اصول يہ ہے كہ حقيقت واضح نہيں ہے اور وہ سب انسانوں كے درميان منتشر ہے لہذا ہر انتخاب حقيقت اور غير حقيقت كى ايك تركيب ہے_ليكن اگر كو ئي مكتب يا دين خود كو حق و حقيقت كا مظہر سمجھتا ہے اور دوسرے اديان كو كفر ، شرك اور ضلالت كا مجموعہ قرار ديتا ہے تو پھر كسى جمہورى حكومت كى كوئي جگہ نہيں بنتى _ اسلام قرآنى آيات كى روسے فقط خود كو دين بر حق سمجھتا ہے _ درج ذيل آيات صريحاً جمہوريت كى نفى كرتى ہيں _ سورہ يونس كى آيت 32 ميں ارشاد ہوتاہے:

''ماذا بعدالحق الاالضلال ''

اور حق ( كو ترك كرنے) كے بعد ضلالت و گمراہى كے سوا كچھ نہيں سورہ آل عمران كى آيت 85 ميں ہے :

''من يبتغ غير الاسلام ديناً فلن يقبل منہ''

اور جو شخص اسلام كے علاوہ كسى اور دين كا خواہاں ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہيں كيا جائے گا_

سورہ توبہ كى ابتدائي آيات بھى انسانى انتخاب كى نفى كرتى ہيں _

اس استدلال ميں واضح طور پر جمہوريت كے دو بنيادى اصولوںكو مد نظر ركھا گيا ہے _ پہلا يہ كہ'' كثرت رائے معرفت شناختي''ہے _ نسبى گرائي (1)اور ''تكثر گرائي (2)معرفت شنا ختي'' سے مراد يہ ہے كہ لوگوں كے پاس حقيقت كو كشف كرنے كا كوئي راستہ نہيں ہے اور حق كو باطل سے صحيح طور پر تشخيص نہيں ديا جاسكتا ،كوئي شخص بھى يہ دعوى نہيں كرسكتا كہ اس كى فكر ،سوچ ،اعتقاد اور دين ،حق ہے اور دوسرے افكار باطل ہيں _ حق و باطل دونسبى چيزيں ہيں اور ممكن ہے ہردين ، اعتقاد اور فكر حقانيت ركھتا ہو _ خالص باطل اور خالص حق كا كوئي وجود نہيں ہے_ يہ شكاكيت اور نسبى گرائي معرفتي، تمام افكار و عقائد اور نظريات كو ايك ہى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور سب كو قابل اعتبار سمجھتے ہيں لہذا يہ ايك قسم كا پلورل ازم (3)ہے اور اس كا لازمہ يہ ہے كہ كسى فكر ، نظريئےور مذہب كو منطق اور استدلال كے ذريعہ ثابت نہيں كيا جاسكتا بلكہ يہ انسان ہيں -جو مختلف آراء و افكار اور مذاہب ميں سے ايك كا انتخاب كرليتے ہيں _ پس حق كو باطل پر اور صحيح كو غلط پر ترجيح دينے كى دعوت دينے كى بجائے آزاد انتخاب كى راہيں ہموار كى جائيں كيونكہ حق كو باطل سے اور صحيح كو غلط سے تميز دى ہى نہيں جاسكتى _

اسى اصول پر ايك دوسرا اصول مبتنى ہے _ يعنى فكر و بيان اور عقائد و افكار كے انتخاب كى آزادى كا سرچشمہ يہى ''تكثير گرائي معرفتي'' ہے _ كيونكہ اگر ہميں حق كو باطل سے تميز دينے كے امكان كا يقين ہو جائے تو پھر كلى طور پر''آزادى انتخاب'' كا كوئي معنى نہيں رہتا _ كوئي صاحب عقل يہ تصور نہيں كر سكتا كہ حق و باطل كے در ميان تشخيص كا امكان ہوتے ہو ئے ہم اسے حق وباطل كے درميان انتخاب كى دعوت ديں _ كيونكہ معقول اور فطرى بات يہى ہے كہ حق كى تشخيص كے بعد اس كا اتباع كيا جائے _

اس استدلال كى بنا پر دين اور جمہوريت ميں توافق ممكن نہيں ہے _كيونكہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہے_ اور فقط اسلام كى حقانيت كو تسليم كرتى ہے بلكہ قوانين كے بنانے اور دوسرے معاشرتى امور ميں اسى اسلام كو اپنا مرجع قرار ديتى ہے _پس كيسے ممكن ہے كہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہونے كے ساتھ ساتھ جمہوريت كى بھى پابند رہے _جمہوريت اپنے دو بنيادى اصولوںكے لحاظ سے اسلام اور دوسرے مذاہب كے در ميان كسى فرق كى قائل نہيں ہے اور اسى پريقين ركھتى ہے كہ حقانيت كے اعتبار سے اسلام دوسرے مذاہب سے كوئي امتياز نہيں ركھتا_-

 


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر
اسلامی جہاد اور عوامی جہاد میں فرق

 
user comment