عالم ربانی، عارف حقیقی حضرت آیت اللہ العظمیٰ محمد تقی بھجت قدس اللہ نفسہ الزکیہ کی وفات کی برسی کے موقع پر ہم یہاں آپ کی اس وصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آپ نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کو فرمائی تھی۔
رہبر معظم انقلاب نے ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۰ کو حوزہ علمیہ قم کے طلاب اور اساتید کے مجمع میں ایک حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے آیت اللہ العظمیٰ بھجت کی وصیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
مرحوم آیت اللہ بھجت (رضوان اللہ تعالی علیہ) مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ اس دعا کو ہمیشہ پڑھا کرو: «یا الله یا رحمان یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک».اے اللہ اے رحمن اے رحیم اے دلوں کو بدلنے والے ہمارے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ ممکن تھا اس میں ایک اشکال پیدا ہو تو انہوں نے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے یوں فرمایا: ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ «ثبت قلبی علی دینک» کس لیے کہیں چونکہ ہمارا دین اور ایمان تو صحیح ہے منطقی ہے، مستحکم ہے، یہ دعا تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ایمان ابھی کمزور ہے۔ آپ فرماتے تھے: جس درجے پر انسان کا ایمان اور یقین پایا جاتا ہے اس درجے سے اس کا تنزل کرنا ممکن ہے۔ «ثبت قلبی علی دینک» کا مطلب یہ ہے کہ دین کو اسی درجہ پر ثابت کر دے جس درجے پر وہ ہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی شیریں ہو گی اور موت آسان۔ ہم لوگوں کی ایک بنیادی مشکل موت کی مشکل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: «امتنا مهتدین غیر ضالین، طائعین غیر مستکرهین غیر عاصین». ہمیں ایسے حال میں موت دینا کہ ہم ہدایت یافتہ ہوں گمراہ نہ ہوں، اطاعت گزار ہوں اطاعت سے انکار کرنے والے اور گناہگار نہ ہوں۔ امام تو پوری زندگی ہدایت کے راستے پر رہے ہیں تو پھر یہ دعا کیوں کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مرحلہ بہت دشوار مرحلہ ہے۔
حکم مستوری و مستی همه بر عاقبت است
کس ندانست که آخر به چه حالت برود»
ہوش اور مدہوشی کا حکم انسان کی عاقبت پر منحصر ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ آخر وہ کسی حال میں جائے گا۔
source : abna.ir