اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

تفرقے کے علل و اسباب

شرک

شرک آمیز افکار انسانوں کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ جس معاشرے کی بنیاد مشرکانہ عقیدے پر ہو اس میں انسان ایک دوسرے سے جدا اور ایک دوسرے کے لئے اجنبی اور مختلف طبقات میں تقسیم ہوں گے۔ جب مشرک معاشرے میں سر آغاز وجود اور پورے عالم پر مسلط و محیط ہستی سے انسانوں کے رابطے کا موضوع اٹھے گا تو فطری بات ہے کہ اس معاشرے کے انسان ایک دوسرے سے جدا ہوں گے کیونکہ کوئی ایک طبقہ کسی ایک خدا سے متعلق ہوگا تو دوسرا طبقہ کسی دوسرے خدا سے اور تیسرا طبقہ کسی تیسرے خدا سے۔ جس معاشرے میں شرک کا بول بالا ہوگا وہاں انسانوں اور انسانی طبقات کے درمیان ایک ناقابل تسخیر دیوار اور کبھی نہ پٹنے والی خلیج ہوگی۔

شیطان

جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے صالح بندوں کے درمیان اختلاف نظر آ رہا ہے وہاں یقینا شیطان اور دشمن خدا کا عمل دخل ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلاف نظر آئے، آپ غور کریں تو آپ کو بڑی آسانی سے شیطان بھی نظر آ جائے گا۔ یا پھر وہ شیطان، جو ہمارے نفس کے اندر موجود ہے جسے نفس امارہ کہتے ہیں اور جو سب سے خطرناک شیطان ہے، ہمیں دکھائی دے گا۔ بنابریں ہر اختلاف کے پس پردہ یا تو ہماری انانیت، جاہ طلبی اور مفاد پرستی ہے اور یا پھر خارجی اور ظاہری شیطان یعنی دشمن، سامراج اور ظالم طاقتوں کا ہاتھ کارفرما ہے۔ 

جہالت و کج فہمی

اگر آپ امت اسلامیہ کو تفرقے کا شکار دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو صحیح طور پر اس کا ادراک نہیں ہے کہ اتحاد بھی دین کا جز ہے۔ اب وہ دور ہے کہ جس میں امت اسلامیہ کو خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، علمی ہستیاں ہوں یا دینی عمائدین اور یا پھر عوامی طبقات سب کو ہمیشہ سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہئے، دشمن کے حربوں کو پہچاننا اور اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان کا ایک موثر ترین حربہ اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے۔ وہ پیسے خرچ کرکے اور مربوط سازشوں کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کو آپسی اختلافات میں الجھائے رکھیں اور ہماری غفلتوں، کج فہمیوں اور تعصب کو استعمال کرکے ہمیں ایک دوسرے کی نابودی پر مامور کر دیں۔

آج بعض مکاتب فکر میں تنگ نظری دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے علاوہ پورے عالم اسلام کو کافر سمجھتے ہیں۔ جسے بھی پیغمبر اسلام سے عشق و محبت ہے وہ کافر ہے؟! اس تنگ نظری کے عوامل کیا ہیں؟ ہمیں تو بے حد خوشی ہوگی کہ ان اختلافات سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ گرمجوشی سے تھامیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔

نسلی تعصب

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان قوموں کے درمیان قومیتی، قومی، لسانی اور اسی جیسے دوسرے پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے۔ بالکل واضح ہے کہ یہ حالت امت اسلامیہ کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے عمل کی شروعات کی علامت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اسی ملک میں گزشتہ (شاہی) حکومت کے دور میں کس طرح نسل، حسب و نسب اور خون سے متعلق غلط افسانوں اور خیالات کی جانب بازگشت اور فارسیت اور ایرانیت کا مسئلہ کس زور و شور سے اٹھایا گيا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ ملت ایران کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا؟ ضرر و زیاں کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہو سکتا تھا۔ سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ اس سے دیگر اسلامی قوموں کے مقابلے میں ملت ایران کے اندر علاحدگی پسندی کا جذبہ پیدا ہوا اور دوسری قوموں کے ساتھ اس قوم کی کشیدگی شروع ہوئی۔ یہی کام عرب قوموں کے ساتھ کیا گيا اور یہی چال علاقے کی دیگر قومیتوں کے ساتھ بھی چلی گئی اور آج بھی چلی جا رہی ہے۔

صاحبان اقتدار

مسلمان فرقوں اور مسلکوں کے درمیان صدیوں قبل سے آج تک اختلافات، ٹکراؤ، تنازعہ اور تضاد جاری رہا ہے اور ان اختلافات کا نقصان ہمیشہ مسلمانوں کو پہنچا ہے۔ تاریخ اسلام میں ان اختلافات اور تنازعات کے بہت بڑے حصے کی ساری ذمہ داری مادی طاقتوں کی ہے۔ ابتدائی اختلافات یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے اور اسی جیسے دوسرے مسائل سے لیکر ديگر اختلافی موضوعات تک جو طول تاریخ میں اسلامی فرقوں کے ما بین خاص طور پر شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان نظر آتے ہیں تقریبا تمام اسلامی خطوں میں ان اختلافات کے تار سیاسی طاقتوں سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ البتہ عمومی جہالت، عقل و منطق سے خالی تعصب اور ایک دوسرے کے اختلافات کو برانگيختہ کرنے کا بھی بہت اثر پڑتا ہے لیکن یہ سب کچھ مقدمہ ہے اور صرف انہی عوامل کی بنیاد پر تاریخ کے وہ اندوہناک واقعات رونما نہیں ہو سکتے تھے۔ ان بڑے سانحوں کی ذمہ داری زمانے کی طاقتوں پر ہے جنہوں نے ان اختلافات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ جب استعمار اسلامی ممالک میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر گھس آیا تو واضح ہو گیا کہ اس کی نظریں بھی اسی ہدف پر ٹکی ہوئی ہیں۔

عالم اسلام میں اختلافات اور تفرقہ پیدا کرنے والے حلقے

آج دنیا میں "مسجد ضرار" (وہ مسجد جہاں بیٹھ کر منافقین مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کرتے تھے وحی الہی سے پیغمبر اسلام کو منافین کی سازش کا علم ہوا اور آپ کو پتہ چلا کہ "مسجد ضرار" کی تعمیر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے کی گئی ہے چنانچہ آپ نے اس مسجد کو مسمار کر دینے کا حکم دیا) کی تعمیر کے لئے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کے اتحاد پر ضرب لگانے اور اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف اور تنازعے کو ہوا دینے کے مقصد سے مراکز اور ادارے قائم کرنے کے لئے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ کچھ شیطان صفت افراد ہیں جو بالکل اسی طرح جیسے اس نے اللہ سے کہا تھا کہ " ولاغونھم اجمعین" ( اور یقینا میں ان سب کو گمراہ کروں گا حجر39) اور اس نے اپنے وجود کو بندگان خدا کو بہکانے اور گمراہ کرنے کے لئے وقف کر دیا، ان افراد نے بھی خود کو اختلافات پیدا کرنے کے لئے وقف کر رکھا ہے۔

اسلامی بیداری کا مظہر وہ افراد نہیں جو آج عالم اسلام میں دہشت گردی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ جو لوگ عراق میں مجرمانہ کارروائیاں کر رہے ہیں، جو لوگ عالم اسلام میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، جو لوگ شیعہ سنی کے نام پر یا نسل پرستی کے نام پر مسلمانوں کے بیچ فتنہ و فساد پھیلانے کو اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں وہ ہرگز اسلامی بیداری کا نمونہ اور آئینہ نہیں قرار پا سکتے، یہ بات تو خود سامراجی طاقتیں بھی جانتی ہیں۔ جو لوگ رجعت پسند اور دہشت گرد گروہوں کے ذریعے مغربی دنیا میں اسلام کو متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں بھی معلوم ہے کہ حقیقت اس سے الگ ہے۔

آج عالم اسلام کے اندر بعض تفرقہ انگیز عناصر اہل بیت علیہم السلام کے مکتب فکر اور تعلیمات کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی ایسی تصویر کشی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حقیقت سے بالکل پرے ہے۔ آج مختلف ممالک میں بڑی طاقتوں کے ہاتھوں بکے ہوئے درباری علماء شیعوں کے خلاف کفر کے فتوے دے رہے ہیں۔ شیعہ سنی اختلاف آج امریکا کا سب سےمرغوب ہدف ہے، عالمی تسلط پسندانہ نظام کا اہم ہدف ہے اور ان کی آلہ کار حکومتوں کا بنیادی مقصد ہے۔

بعض اسلامی حکومتیں

یہ بے پناہ زمین دوز ذخائر، یہ قدرتی دولت اور یہ بے شمار ہتھیار اسلامی ممالک اور مسلمان معاشروں کے پاس ہیں۔ ہم اپنا دفاع کرنے پر قادر کیوں نہیں ہیں؟ اس لئے کہ ہم متحد نہیں ہیں۔ ہم متحد کیوں نہیں ہیں؟ اس لئے کہ جن حکومتوں کو اتحاد کی ضمانت فراہم کرنا چاہئے ان کے اہداف کچھ اور ہی ہیں، قوم پرستانہ اہداف، کفر آلود اہداف اور غیر اسلامی اہداف۔ البتہ قوموں کے دل ایک ساتھ ہیں۔ کون سی دو قومیں ہیں جن میں ایک دوسرے کے لئے کینہ و نفرت ہو؟ آٹھ سالہ جنگ کے بعد ملت ایران اور ملت عراق کی آغوش ایک دوسرے کے لئے کھلی ہوئی ہے۔ جنگ کا تعلق قوموں سے نہیں ہے، اختلافات سے قوموں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ سارا کیا دھرا حکومتوں کا ہوتا ہے جن کے پیش نظر غیر اسلامی اہداف ہوتے ہیں۔ اس کا علاج کیا جانا چاہئے

مسلمانوں کے مفادات سے علمائے اسلام کی لا تعلقی!

حقیقت یہ ہے کہ ایک ہزار سال تک شیعہ اور سنی فرقوں کو لڑوایا گيا، انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھیں، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کی۔ مسلمانوں بشمول شیعہ سنی کے درمیان اختلافات کی ذہنیت موجود ہے۔ دشمن مسلمانوں کے ان دونوں بڑے فرقوں کے ما بین اختلافات کی آگ بھڑکانے کے لئے اسی ذہنیت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ بعض اسلامی ممالک میں کبھی شیعہ اہل علم کو سنی حضرات کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والا بیان دینے کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور کبھی سنی عالم دین کو ایسا بیان دینے کے لئے اکسایا جاتا ہے جس سے شیعہ فرقے کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ بعض اسلامی ممالک میں بد قسمتی سے یہ سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگر اس سلسلے میں علماء اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اپنے فریضے کو پہچانیں اور اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ حقیقت خود ان کی نظر میں واضح ہے، وہ اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ شخصی طور پر شیعہ فرقے سے ان کے اپنے برادرانہ تعلقات ہیں بلکہ تمام لوگوں کو اس اسلامی اخوت و برادری کا درس دیں، اس کی تلقین کریں اور دشمنوں کی سازشوں سے انہیں آگاہ کریں، اگر یہ کام انجام دیا جائے تو عوامی سطح پر بروئے کار لائے جانے والے دشمن کے حربوں کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔

اغیار سے وابستہ عناصر

بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو امریکا اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کے لئے تیار ہیں۔ میں اس وقت ایران کے بعض ہمسایہ ممالک میں کچھ ایسے ہاتھوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو بڑے منظم طریقے سے اور عمدی طور پر شیعہ سنی فساد برپا کرنے کے در پے ہیں، مسلکوں، قومیتوں کو ایک دوسرے سے دور کر رہے ہیں اور سیاسی حلقوں کو آپس میں دست بگریباں کر رہے ہیں تاکہ گدلے پانی سے اپنے مفادات کی مچھلیوں کا شکار کر سکیں اور اسلامی ممالک میں اپنے ناجائز اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔ قومیں، حکومتیں، تمام مسلمان، سیاسی حلقے، روشن خیال افراد اور سرکردہ شخصیات کو چاہئے کہ دشمن کی اس سازش کی جانب سے ہوشیار رہیں اور مختلف بہانوں سے اختلاف بھڑکانے کی دشمن کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

جعلی مسلک

علمائے اسلام بہت ہوشیار رہیں، آپ اتحاد کو پارہ پارہ کر دینے والے ان جعلی مسلکوں کی جانب سے بہت ہوشیار رہئے۔ تیل سے ملنے والے ان ڈالروں سے جو تفرقہ کے لئے استعمال ہو رہے ہیں بہت زیادہ محتاط رہئے۔ ان بکے ہوئے پلید ہاتھوں کی جانب سے جو مسلمانوں کے اتحاد کے "عروۃ الوثقی" کو پارہ پارہ کر دینے کے در پے ہیں محتاط رہئے۔ ان کا مقابلہ کیجئے۔ یہی اتحاد سے لگاؤ اور اسلامی اتحاد کی راہ پر چلنے کا تقاضہ ہے۔ اس کے بغیر ( اتحاد) ممکن ہی نہیں ہے۔

اختلاف و شگاف کی ان دراز مدت سازشوں نے جو سو، دو سو یا پانچ سو سال سے جاری ہیں سامراجی مسلک پیدا کر دئے ہیں جو عالم اسلام کے پیکر عظیم میں ایسے زخم لگائیں جن کا آسانی سے مداوا نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر وہابیت اور بعض دیگر جعلی مسلک اور مکاتب جو عالم اسلام میں شگاف اور انتشار پید کرنے کے لئے وجود میں لائے گئے ہیں۔

شروع سے ہی وہابیت کو اسلامی اتحاد پر ضرب لگانے اور مسلم برادری کے درمیان اسرائیل جیسا اڈہ قائم کرنے کے لئے تیار کیا گیا۔ جس طرح اسلام پر ضرب لگانے کے لئے ایک ٹھکانے کے طور پر اسرائیل کی تشکیل عمل میں لائی گئی اسی طرح وہابیوں اور ان نجد کے حکمرانوں کی حکومت تیار کی گئی تاکہ اسلامی برادری کے اندر ان کا ایک محفوظ مرکز ہو جو ان سے وابستہ ہو اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہی ہو رہا ہے۔

مقدسات کی توہین

اسلامی نظام کے نقطہ نگاہ سے ایک دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے۔ جو افراد نادانستہ طور پر، غفلت میں پڑ کر یا بعض اوقات اندھے اور نا معقول تعصب کی بنا پر، خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، ایک دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں انہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں؟! دشمن کے بہترین حربے یہی افراد ہیں۔

شیعہ اور سنی دونوں ہی اپنے اپنے مذہبی پروگرام، اپنے اپنے طور طریقے اور اپنے اپنے دینی امور انجام دیتے ہیں اور انہیں دینا بھی چاہئے۔ ریڈ لائن یہ ہے کہ ان کے درمیان مقدسات کی بے حرمتی کی بنا پر خواہ بعض شیعہ افراد غفلت میں پڑ کر اس کے مرتکب ہوں یا سنی حضرات جیسے سلفی اور دیگر مسلکوں کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک دوسرے کی نفی کرنے پر تلے رہتے ہیں، اس طرح کا کوئی کام انجام دیں تو یہ در حقیقت وہی چیز ہوگی جو دشمن کی مرضی کے مطابق ہے۔ ایسے مواقع پر آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔

قومی اختلافات کی آگ

انتہا پسندانہ قوم پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قومی اختلافات زیادہ تر اغیار سے وابستہ روشن خیال افراد کی جانب سے بھڑکائے جاتے ہیں۔

اتحاد مخالف بعض عوامل جیسے قومی اختلافات، مذہبی اختلافات، مسلکی اختلافات، فرقہ وارانہ اختلافات اور سیاسی اختلافات کا موجود ہونا تقریبا ایک فطری امر ہے، اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ انہی قومی، مسلکی، مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کی آڑ لیکر اسلام دشمن طاقتیں اپنی دائمی سازش کے تحت مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں۔ ان اختلافات کے پیچھے دشمن کا ہاتھ، دشمن کی سازشیں اور دشمن کی چالیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا علاج ضروری ہے۔ تمام فرقوں کے اہل نظر حضرات کو چاہئے کہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ کی آگ پھیلنے اور باہمی بھائي چارے اور محبت و الفت کو مٹنے نہ دیں جو دشمنان اسلام کی کوشش ہے۔


source : http://www.ahlulbaytportal.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر

 
user comment