وحدت امت اسلامی ایک ایسا موضوع نہیں جو اس صدی کے آخر میں مطرح ہوا ہو ، بلکہ کلمہ توحید اور توحید کلمہ کی طرف دعوت دینااسلام کی بنیادی دعوت میں شمار کیا جاتا ہے ۔
چنانچہ اس ضمن میں قرآن مجید کے نصائح ،فرامین، کفار اور دشمنوں کی صفوں کی حد بندی کرنے کی تاکید اور مسلمانوں کو آپس میں محبت ،رحم دلی ،شفقت، اتحاد اور اچھی رفتارکے ساتھ پیش آنے کی وصیت اورحبل ا․․․کے سائے میں مسلمانوں کو اتحاد کے مرکز پر قائم رہنے کادرس دیتے ہیںاور اس یکجہتی اور بھائی چارگی کو ایک الله کی نعمت سے یاد کرتے ہیں نیز حضرت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ بھی اسی راہ وروش پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ آن حضرت کی فطرت و عادت قوانین خدا کو انجام دینااوراحکام قرآن پر عمل کرنا تھی ۔
دینی سوالات کا جواب دینے والی حضرت امام رضاء علیہ السلام سائٹ خراسان رضوی ان سوالات کہ قرآن مجید نے وحدت اسلامی پرکتنا زوردیا؟
مختلف آیات کے ذریعہ یکجہتی ،برادری اور آپس میں بھائی چارگی ․کا جواب دینے کے لئے ان آیات میں سے بعض آیات مندرجہ ذیل پیش خدمت ہیں:
۱۔آیة اعتصام بحبل الله
خدا وند عالم سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۳ /میں ارشاد فرماتا ہے واعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا․․․․․اور تم سب کے سب( مل کر) خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالواور اپنے حال (زار) پر خدا کے احسان کو (تو)یاد کروجب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو خدا نے تمہارے دلوں میں (ایک دوسرے کی )اُلفت پیدا کردی تو تم اس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم(گویا) سلگتی ہوئی آگ کی بھٹی (دوزخ) کے لب پر(کھڑے تھے)اور گراہی چاہتے تھے) کہ خدا نے تم کو اس سے بچالیا تو خدا اپنے احکام یوں واضح بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ اس آیت میں برادری ، بھائی بھائی سے مراد ایمانی بھائی اور برادرایمانی ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیںاس لئے کہ ان میں سے ہرایک دوسرے کے لئے وہی سوچ وفکر رکھتا ہے جو دوسرااس کے لئے سوچتا ہے ۔
اعتصام یعنی الله کی رسی جو سب کے لئے ایک ساتھ( اکھٹے) بلندی پر چڑھنے کے لئے راستہ فراہم کرتی ہے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم تنھا اکیلے قاب قوسین اَو اَدنی کی منزلوں کو طے کرسکتے ہیں( سورہ نجم، آیة ۹ )جو اس راہ پر مقرر ہیں کہ امت کی ان منزلوں کو طے کرنے میں مدد کریں تاکہ وہ پرواز کرکے ان منزلوں کو آسانی سے طے کرلیںتاکہ اس امت اور امام کو دیکھ کر دوسرے بھی ان کی طرح پرواز کرنے کے لئے اپنے پروں کو آمادہ کریں اور راہ حق تک پہونچنے کی کوشش کریں ۔
واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین(سورہ شعراء آیت ۲۱۵)حبل خدا ایک ساتھ اکھٹے ، اتحاد اور منظم ہوکرراہ خدا کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کاندھوں پر چستی ،چالاکی سے سنگین بوجھ اور ذمہ داری اٹھانے کاسبب بنتا ہے لہذا اس بنیاد پر فان ید اللهمع الجماعة (نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۷)زیادہ سے زیادہ قدرت کے ساتھ اپنے الہی پیغام کو پایہء تکمیل تک پہونچائے ۔
آیةسلم:
اسلام میں ایک ساتھ داخل ہونا
یا ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافة ولا تتبعوا خطوات الشیطان انّہ لکم عدوٌ مبین (سورہ بقرہ آیت/۲۰۸)اے ایمان والو تم سب کے سب (اکبار) اسلام میں (پوری) طرح داخل ہوجاؤاور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو وہ یقینی تمہارا ظاہر باظاہر دشمن ہے ۔
کلمہ سلم جنگ کے مقابل میں صلح وشازش کے معنی میں ہے اور کلمہ کافہ مادہ کف سے ایک چیز کے انجام دینے سے باز رہنااور ایک چیز کے ظاہر ہونے کے معنی میں ہے اور اس کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔
چنانچہ ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیت عبد الله بن سلام یہودی اور اسکے اصحاب (دوستوں) کی شان میں نازل ہوئی ہے اس لئے کہ وہ جب اسلام لیکر آئے تو انھوں نے چند مسئلوں جیسے سنیچر کے دن کی تعظیم ، اونٹ کے دودھ اور گوشت سے کراہت میں مسلمانوں سے اختلاف کرنے لگے اور پیغمبر اسلام سے درخواست کی کہ توریت کو لیکر آئیں اور اس پر عمل کریں تو خدا وند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی اور تمام کو صلح ، دوستی پر عمل اور آپس میں مسالمت آمیز زندگی بسر کرنے کی دعوت دی ۔
بعض تفاسیر میں وارد ہوا ہے کہ انھوں نے حضرت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی : توریت لے آئیں اور اپنی نمازوں میں توریت کی تلاوت کریں ؛ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور ان کو شیطان کی پیروی کرنے سے منع کیا گیا۔( اسباب نزول واحدی،/۶۸)
پروردگار عالم نے اس آیت میں مومنین کو مورد خطاب قرار دیتے ہوئے سب کو صلح ،دوستی، اتحاد اور مسالمت آمیز زندگی بسر کرنے کی دعوت دی ہے ذاتِ اقدس الہی فرماتا ہے : اے مؤمنوں !سب کے سب دشمن کے خلاف میل جول کرکے ایمان کے محکم قلعہ میں داخل ہوجاؤ اس لئے کہ صلح ،اتحادایک مضبوط اورنافابل تسخیرقلعہ ہے جو انسان کو ہر آفت اور بلا سے محقوظ رکھے گا لہذااس آیت میںسلم سے مراد صلح ، اتحاد اور دشمن کے خلاف آپس میں اخوّت اسلامی کے دائرہ میں مسلمانوں اور مؤمنین کے درمیان میل جول کرکے تعلق برقرار رکھنا ؛صرف اسلام کی طرف دعوت دینامقصودنہیں ۔
چنانچہ اس آیت میں مؤمنین سے خطاب ،ان کواسلام ، ایمان کے داخلی حدود میں مقید رہنے اور اتحاد کے ساتھ تفرقہ سے دوری اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہاں اگر خطاب عام لوگوں سے ہوتا تو آیت میں ناس کا لفظ استعمال ہوتااور اگر ایسا ممکن ہوتا تو پھر سلم کا انطباق اصل اسلام پر کیا جاتاجیسا کہ اہل سنت کے بعض مفسرین نے یہی معنی مراد لئے ہیں ۔ (الجامع لاحکام القرآن ،۲۴۔۲۳/۲) ادخلوا فعل امر ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے اور چونکہ کلمہ کافہ آیة ادخلوا فی السلم کافة میںتمام اور جمیع کے معنی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتحاد اور بردری کے ساتھ رہنے کا حکم ایک یا چند افراد خاص پر واجب نہیں جو واجب کفائی مانتے ہوئے ایک کے انجام دینے سے باقی افراد سے ساقط ہوجائے، اسی طرح اتحاد کا واجب ہونا خصوصًا مجموع من حیث مجموع لاگو نہیں ہوا جو تنہاشخص پر کوئی تکلیف معین نہ کی گئی ہو؛لہذا چونکہ ہر شخص ،حیثیت فردی اور حیثیت اجتماعی رکھتا ہے تو اسی وجہ سے اس آیت کا حکم ہر ہر شخص سے مختص ہے ؛ مگر ان کی اجتماعی حیثیت کا لحاظ رکھتے ہوئے ۔
آیہ اخوت
انّما المؤ منون اخوةٌفاَ صلحوا بین اخویکم واتقوا الله لعلکم ترحمون (حجرات/۱۰) مؤمنین تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل جول کرادیا کرواور خدا سے ڈرتے رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے یہ آیت اخوت اور برادری کی دعوت دیتی اور ہر طرح کے اختلاف سے منع کرتی ہے تاکہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم… فتح/۲۹ کی بنیاد پر آپس میں سلوک اور مہربانی کے ساتھ اسلام کے سایہ میں مسالمت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں ۔
لہذا اس بناء پر جوکوئی بھی اسلام کے دائرہ میں رہکر اپنے کو مؤمن کہتے ہوئے لوگوں سے جھگڑا کرتا اور آپس میں اختلاف کرتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کام سے باز رہکر اس اختلاف کو دور کرے حیسا کہ قرآن مجید اس بار ے میں ارشاد فرماتا ہے کہ اگر مؤمنین میں دوگروہ مختلف باتوں کی وجہ سے غلط اثر لیکر باطل چیزوں کی تشخیص دیکر آپس میں جھگڑا کریں تووعظ ونصیحت کے ذریعہ ان کے درمیان صلح صفائی کرادی جائے اور اگر وہ صلح وصفائی نہ کریں اور ایک گروہ دوسرے پر ستم کرے تو باغی اور ستمگر گروہ کا مقابلہ کرکے اس کو اسکی جگہ پر بٹھادیا جائے تاکہ قانون الہی کے سامنے تسلیم ہوجائیں لہذا اگر وہ قانون الہی کے تابع ہوگئے تو عدل وانصاف کے ساتھ ان کے درمیان صلح کردی جائے اور صلح کراتے وقت عدالت کا لحاظ رکھا جائے لیکن صرف صلح طلبی مقصود نہ ہواس لئے کہ یہاں پرصرف صلح ، سازش کی تعریف اور مدح نہیں کی گئی اس لئے کہ مقصد صرف ستمگرسے ستمدیدہ کا حق لیکر ستمدیدہ کو دینا ہے نہ ستم دیدہ کو اپنے حق سے درگذرکرنے پر مجبور کرنااس لئے کہ اگر چہ یہ کام صلح وسازش ایجاد کرتا ہے لیکن عدل وانصاف اورعدالت سے بہت زیادہ دور ہے ۔
وان طائفتٰن من المؤمنین اقتتلوافاصلحوا بینھما فان بغت احدیٰھماعلی الاخریٰ فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء إلی امرالله فان فائت فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا انّ الله یحب المقسطین حجرات/ ۹۔
پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت میں اسلامی اتحاد
اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے مدینہ میں داخل ہوتے وقت مسجد بنانے ، حکومت اسلامی کی تشکیل ،شہر کی آبادی اور ترقی وتمدن کے بجائے حضرت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا سب سے پہلانعرہ اخوت وبرادریِ دینی تھا اور آن حضرت نے مسلمانوں کو الله کی راہ میںدودو کرکے ایک دوسرے کابھائی قرار دیا اخی النبی(ص) بین اصحابہ من المھاجرین والانصار اخوین اخوین (بحار،۳۸،/۳۳۶)مسلمانوں اور اپنے اور حضرت علی کے درمیان عقد اخوت پڑھکراور نیز اوس وخزرج کے درمیان اتحاد ویک پارچگی پیدا کرکے آپسی اتحاد کو تحقق بخشا ۔
چنانچہ حکومت اسلامی ہی کے آغاز سے وحدت کا نعرہ مطرح ہوا اور اسی طرح حکومت اسلامی کے مدینہ میںاستحکام اور مکہ فتح ہونے کے بعد مسلمانوں کا شبہ جزیرئہ عرب پر مکمل طور سے غلبہ اور برتری پیدا کرنے لئے حضرت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حجة الوداع میں اس وحدت کی حفاظت کی سب سے زیادہ تاکید کی اور فرمایا : المسلمون اخوہ تتکافی دمائھم یسعی بذمتھم اَدناھم وھم ید علی من سواھم: (بحار ،۶۷،/ ۲۴۲) مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کا خون یکسان ایک دوسرے کے جیسا ہے اور کسی کا خون بھی ایک دوسرے کے سے خون گران قیمت نہیں جس طرح نسبتی بھائی نسبتی باپ رکھتے ہیںاسی طرح ایمانی بھائی بھی ایمانی باپ رکھے نگے جو امیر المؤمنین حضرت علی﷼ اورحضرت رسول خدا(ص) کے مانند ہونگے لہذا اسی وجہ سے حضرت رسول خدا (ص)نے اپنے آپ اور حضرت علی علیہ السلام کو امت اسلامی کے دوباپ معرفی کئے اور فرمایا : انا وعلی ابواھذہ الامة (وہی ۹۵/ ۱۶) وحدت کے نعرہ کے علاوہ بھی آنحضرت کی سیرت طیبہ یہ واضح کرتی ہے کہ آپ نے اس امر کی اہمیت کو باقی رکھنے کا کتنا اہتمام کیا جس کے چند موارد مندرجہ ذیل بیان کئے جاتے ہیں جو آن حضرت کی کوشش اور سعی کو بطور وضاحت بیان کرتے ہے ۔
۱۔ چنانچہ جنگ مصطلق میں مسلمانوں کی کامیابی ،جیت اور مشرکین کی ہارکے بعدمسلمانوں کے دو آدمیوں کے درمیان جن میں ایک مہاجر اور دوسرا انصار سے تھا آپس میں لفظی بحث ہوگئی اور ان دونوں نے جاہلی رسم ورواج کی بناء پر اپنے اپنے قبیلوں کو مدد کے لئے پکارا ان کے آپسی جھگڑے کی آواز دشمن کی شکست خوردہ زمین پر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے کان میں پہونچی اور اس آوازنے پیغمبر اسلام ﷺکے قلب مبارک کومتاٴثر کیا تو آپ نے فرمایا:اس خبیثانہ آواز پر اعتناء نہ کرنااس لئے کہ یہ وہی جھالت کا نعرہ ہے پھر اسی وقت آن حضرت نے ان کے ذہنوں کو مشوش کرنے کے لئے لشکرکے حرکت کرنے کا حکم صادریاکیاتاکہ ان کے دماغ سے یہ تازہ کدورت ختم ہوجائے اور پھر آپنے کافی دور چلنے کے بعد اچانک لشکر کے پڑاؤ کا حکم دیا اوروہ سب کے سب تھکن کے باعث سوگئے ایسے کے جب نیندسے بیدار ہوئے تو اس تلخ حادثہ کی ہلکی سی رمک بھی ان کے چہروں پر ظاہرنہ تھی اور وہ سب کچھ فراموش کرچکے تھے چنانچہ پیغمبر اسلام (ص)نے اس تدبیر کے ذریعہ جامعہ کو دوبارہ وحدت پر باقی رکھا۔(سیرة ابن ہشام ۳۰۳/۳)
۲۔ اوس وخزرج کے جوان اسلام سے پہلے مدینہ میںآپس میں جنگ کرتے اور لڑتے رہتے تھے ، اسلام لانے کے بعد آپس میں اتحاد اور ھمبستگی کے ساتھ برادرانہ زندگی بسر کرنے لگے اور ہر روز پیغمبر اسلام (ص)کی خدمت میں مسجد کے باہر اکھٹے ہوکر میٹھی میٹھی باتیں کرتے اور ایک دوسرے کی مدح میں نغمہ گاتے چنانچہ ایک دن یہودیوں کاایک سردار یہ ماجرہ دیکھکر بہت زیادہ ناراحت ہوااوراس نے ایک یہودی جوان سے کہا کہ ان کے درمیان میں بیٹھ کر گذشتہ عصر جاہلیت کے قصہ بیان کرکے دونوں قبیلوں میں آپس میں جنگ کا بیج بوکر آجائے تاکہ دوبارہ نفاق کا پودہ پروان چڑجائے چنانچہ اس یہودی نوجوان نے یہ کردار بخوبی ایساپیش کیاکہ ابھی وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے کہ آپس میں لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا اور دونوں گرہوں کے جوانوں نے ہاتھوں میں تلواریں کھنچ لیں اور نزدیک تھا کہ آپس میں درگیر ہوجائیں ، مگر جیسے ہی پیغمبر اسلام ﷺ اس واقعہ سے باخبر ہوئے فورًا آپ نے ان کے درمیان بلند آواز سے فرمایا :الله !الله! اَبدعوی الجاھلیة واَنا بین اظھرکم بعد ان ھداکم اللهبالإسلام واَکرمکم بہ وقطع بہ عنکم اَمر الجاھلیة واستنقذ کم من الکفروالف بین قلوبکم: تمہیں خدا کا واسطہ !! تمہیں خدا کاواسطہ!!کیا اس کے باوجود کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں ،دوبارہ جاہلیت کے جھگڑوں کوزندہ کرنا چاہتے ہودرحالیکہ خدا وندعالم نے تم کو اسلام کے وسیلہ سے ہدایت اور کرامت بخشی ،دورجاہلیت کے روابط کو ختم کیا اور تمہیں کفر سے نجات بخشکر ایک دوسرے کے دل کو آپس میں نزدیک کیا ۔
چنانچہ اسی وقت حضرت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے شہد سے زیادہ شرین سخن نے فتنہ کی آتش کو خاموش کردیاتب دونوں طرف کے جوان سمجھ گئے کہ ہم یہودی جوان کے فتنہ آور دھوکہ میں آگئے اور ہم نے آپسی اتحاد کو جنگ وجدل سے بدل دیا ،لہذا اسی وقت اٹھے اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر اتحاد کے ساتھ آپس میں گلے لگ کر وحدت کے سائے میںچلے گئے ۔(سیرة ابن ھشام ۲۵۰/۲.
source : http://www.taghrib.ir