امام محمد تقی علیہ السلام اگرچہ مدینہ میں قیام فرما تھے لیکن فرائض کی وسعت نے آپ کومدینہ ہی کے لے محدود نہیں رکھا تھا آپ مدینہ میں رہ کراطراف عالم کے عقیدت مندوں کی خبرگیری فرمایا کرتے تھے یہ ضروری نہیں کہ جس کے ساتھ کرم گستری کی جائے وہ آپ کے کوائف وحالات سے بھی آگاہ ہوعقیدہ کا تعلق دل کی گہرائی سے ہے کہ زمین وآسمان ہی نہیں ساری کائنات ان کے تابع ہوتی ہے انہیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ کسی سفرمیں طے مراحل کے لیے زمین اپنے قدموں سے نانپا کریں، ا ن کے لیے یہی بس ہے کہ جب اورجہاں چاہیں چشم زدن میں پہنچ جائیں اوریہ عقلا محال بھی نہیں ہے ایسے خاصان خدا کے اس قسم کے واقعات قران مجید میں بھی ملتے ہیں۔
آصف بن برخیاوصی جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے علماء نے اس قسم کے واقعات کا حوالہ دیا ہے ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہو کرشام پہنچے، وہاں ایک شخص کواس مقام پرعبادت میں مصروف ومشغول پایا جس جگہ امام حسین کا سرمبارک لٹکایا گیا تھا آپ نے اس سے کہا کہ میرے ہمراہ چلو وہ روانہ ہوا، ابھی چند قدم نہ چلا تھا ،کہ کوفہ کی مسجد میں جا پہنچا وہاں نماز ادا کرنے کے بعد جو روانگی ہوئی، توصرف چند منٹوں میں مدینہ منورہ جا پہنچے اور زیارت ونمازسے فراغت کی گئی، پھروہاں سے چل کر لمحوں میں مکہ معظمہ رسیدگی ہوئی ،طواف ودیگرعبادت سے فراغت کے بعد آپ نے چشم زدن میں اسے شام کی مسجد میں پہنچا دیا۔
اورخود نظروں سے اوجل ہوکرمدینہ منورہ جا پہنچے پھرجب دوسراسال آیا توآپ بدستورشام کی مسجد میں تشریف لے گئے اوراس عابد سے کہا کہ میرے ہمراہ چلو،چنانچہ وہ چل پڑا آپ نے چند لمحوں میں اسے سال گزشتہ کی طرح تمام مقدس مقامات کی زیارت کرا دی پہلے ہی سال کے واقعہ سے وہ شخص بے انتہا متاثرتھا ہی، کہ دوسرے سال بھی ایسا ہی واقعہ ہو گیا اب کی مرتبہ اس نے مسجد شام واپس پہنچتے ہی ان کا دامن تھام لیا اورقسم دے کرپوچھا کہ فرمائیے آپ اس عظیم کرامت کے مالک کون ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں محمد بن علی (امام محمدتقی ہوں) اس نے بڑی عقیدت اورتعظیم وتکریم کے مراسم ادا کئے۔
آپ کے واپس تشریف لے جانے کے بعد یہ خبربجلی کی طرح تمام پھیل گئی جب والی شام محمد بن عبدالملک کواس کی اطلاغ ملی اوریہ بھی پتہ چلا کہ لوگ اس واقعہ سے بے انتہا متاثرہو گئے ہیں تواس نے اس عابد پر”مدعی نبوت“ ہونے کا الزام لگا کراسے قید کردیا اورپھرشام سے منتقل کراکے عراق بھجوا دیا اس نے والی کو قیدخانہ سے ایک خط بھیجا جس میں لکھا کہ میں بے خطاہوں، مجھے رہا کیا جائے، تواس نے خط کی پشت پرلکھا کہ جوشخص تجھے شام سے کوفہ اورکوفہ سے مدینہ اوروہاں سے مکہ اورپھروہاں سے شام پہنچا سکتا ہے اپنی رہائی میں اسی کی طرف رجوع کر۔
اس جواب کے دوسرے دن یہ شخص مکمل سختی کے باوجود، سخت ترین پہرہ کے ہوتے ہوئے قیدخانہ سے غائب ہوگیا، علی بن خالدراوی کا بیان ہے کہ جب میں قیدخانہ کے پھاٹک پرپہنچا تودیکھا کہ تمام ذمہ داران حیران وپریشان ہیں، اورکچھ پتہ نہیں چلتا کہ عابد شامی زمین میں سما گیا یا آسمان پراٹھا لیا گیا، علامہ مفید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے علی بن خالد جودوسرے مذہب کا پیرو تھا، امامیہ مسلک کا معتقد ہوگیا
(شواہدالنبوت ص ۲۰۵ ،نورالابصار ص ۱۴۶ ، اعلام الوری ص ۷۳۱ ، ارشادمفید ص ۴۸۱) ۔
source : http://www.tebyan.net