میں سکون خاطر، مطمئن دل ، خوش و خرم روح اور پرامید ضمیر کے ساتھ بہ فضل و کرم الٰہی بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے اجازت لے کر اپنے ابدی مقام کی طرف روانہ ہو رہا ہوں ۔ مجھے آپ کی نیک دعاؤں کی سخت ضرورت ہے اور خدائے رحمان و رحیم سے میری دعا ہے کہ وہ خدمت میں کوتاہی پر میرے قصور اور غلطیون کو معاف کرے ، قوم سے بھی مجھے امید ہے کہ وہ میری طرف سے کی جانےوالی اور ہونے والی کوتاہیوں سے درگذر کرے گی اور پوری طاقت ، ہمّت اور عزم مصمم کے ساتھ آگے بڑھتی رہے گی۔"
یہ بانی انقلاب اسلامی ایران ، بت شکن دوران ، موسی زمان ، حضرت امام خمینی (رح) کے الہٰی و سیاسی وصیت نامے کے آخری جملے تھے ۔ یہ اس قائد کی زندگی کے آخری تاثرات ہیں جس نے اپنی قوم کو ظلم و ستم کی چکی میں پسنے سے نجات دلائی اور اس کو فحاشی اور برائی کے بھنور میں غرق ہونے سے بچا لیا ۔ اور اب دس سال تک نوبنیاد اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت کی قیادت و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے بعد خالق حقیقی سے وصال کی تیاری کرچکا تھا ۔ امام خمینی (رح) نے حیرت انگیز طور پراپنی رحلت کی تاریخ سے متعلق کئی سال قبل ایک شعر میں فرمایا تھا :
سالہا می گذرد حادثہ ھا می آید
انتظار فرج از نیمۂ خرداد کشم
اس شعر کا ترجمہ کسی شاعر نے یوں کیا ہے :
حادثوں ہی سے عبارت ہوگئی ہے زندگی
انتظار دوست میں ہوں نیمۂ خرداد سے
source : http://www.aqrazavi.org