قیامت کے بغیر زندگی بے معنا ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد ایک معین دن میں سارے انسان زندہ کیے جائیں گے اور ان کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیک اور صالح عمل والے جنت الفردوس اور برے اور گناہ گارافراد دوزخ بھیجے جائیں گے۔
اللہ لا الہ الاھو لیجمعنکم الی یوم القیامة لا ریب فیہ۔
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بے شک قیامت کے دن ، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، وہ تم سب کو جمع کرے گا۔
(سورہ نساء آیہ ۸۷)
فاما من طغی و اثر الحیوة الدنیا فان الجحیم ھی الماوی، و اما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوی، فان الجنة ھی الماوی۔
ترجمہ: لیکن جن لوگوں نے سرکسی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم رکھا، بے شک ان کا ٹھکانہ جھنم ہے اور جو لوگ مقام عدالت پروردگار سے ڈرتے ہیں اور اپنے نفس کو ھوی و ھوس سے بچاتے ہیں، یقینا جنت ان کا مقام ہیں۔
(سورہ نازعات آیہ ۳۷ سے ۴۱)
ہماراعقیدہ ہے کہ یہ دنیا ایک پل کی طرح ہے جس پر سے تمام انسانوں کو گزرنا ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی دنیا کی طرف جانا ہے یا دوسرے لفظوں میں ، دنیا ایک ایسی گزرگاہ، یونیورسٹی ، بازار، تجارت یا کھیتی ہے، جس کو ذریعہ بنا کر انسان اپنے اصلی ھدف تک پہچتاہے۔
امیر المومنین علیہ السلام دنیا کے بارے میں فرماتے ہیں:
ان الدنیا دار صدق لمن صدقھا ۔۔۔ و دارغناء لمن تذور منھا ، و دار موعظة لمن اتعظ بھا، مسجد احباء اللہ و مصلی ملائکة اللہ و مھبط وحی اللہ و متجر اولیاء اللہ۔
ترجمہ: نے شک دنیا صدق وصداقت کا گھر ہے اس کے لیے جو اس کے ساتھ سچا ہو، بے نیازی کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے زاد راہ ذخیرہ کرے، آگاھی و بےداری کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے نصیحت لے، دنیا محبان خدا کے لیے سجدہ کرنے ، نماز پڑھنے اور وحی نازل ہونے کی جگہ اور دوستان خدا کے لیے تجارت گاہ ہے۔(نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر۱۳۱)
قیامت کے دلائل واضح اور روشن ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کی دلیلیں اور نشانیاں نہایت واضح ہیں۔ اس لیے کہ ایک تو اس دنیاوی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلقت کا اصلی اور بنیادی مقصد نہیں ہو سکتی، کہ جس میں انسان چند روز کے لیے آئے اور ڈھیروں مشکلات کے ساتھ زندگی گزارے اور آخر میں سب کچھ ختم ہو جائے اور دنیا فنا ہو جائے۔ افحسبتم انما خلقنا کم عبثا و انکم الینا لا ترجعون۔ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تمہیں بیکار پیدا کیا گیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں آوگے۔ (سورہ مومنون آیہ ۱۱۵)
آیہ کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اگر قیامت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا بیہودہ و بیکار ہوتی۔
دوسرے یہ کہ: عدل الہی کا تقاضا ہے کہاچھے اور برے افراد جو اس دنیا میں ایک یہ صف میں ہیں بلکہ برے لوگ آگے ہیں، ایک دوسرے سے جدا ہوں اور سب کو ان کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا ملے۔ ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلھم کالذین آمنوا و عملوا الصالحات سواء محیاھم و مماتھم ساء ما یحکمون۔
ترجمہ: یعنی جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کی طرح قرار دیں گے جو ایمان لائیں ہیں اور عمل صالح انجام دیتے ہیں؟ اور ان کی زندگی اور موت ایک جیسی یوگی؟ وہ کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں۔(سورہ جاثیہ ۲۱)
۳۔ خدا کی بے پناہ رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے فیض اور نعمت کا سلسلہ انسان کی موت سے ختم نہ ہو ، بلکہ با صلاحیت اور اہل افراد کے تکامل کا سلسلہ آگے بڑھتا رہے۔ (کتب علی نفسہ الرحمة یجمعنکم الی یوم القیامةلا ریب فیہ) یعنی خدا نے اپنے اوپر رحمت کو فرض کیا ہے وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے۔(سورہ انعام آیہ ۱۲)
جو لوگ قیامت کے سلسلہ میں شک و تردید کے شکار تھے ، قرآن ان سے کہتا ہے: یہ کیسے ممکن ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے کے سلسلہ میں تم خدا کی قدرت میں شک کرو، حالانکہ تمہیں پہلی مرتبہ بھی اس نے ہی پیدا کیا ہے۔ جس نے تمہیں پہلی بار مٹی سے پیدا کیا ہے وہی تمہیں ایک بار پھر دوسری زندگی کی طرف پلٹائے گا۔ (افعیینا بالخلق الاول بل ھم فی لبس من خلق جدید) یعنی کیا پہلی خلقت سے تھک گیے(جو قیامت کی خلقت پر قادر نہ ہوں؟ لیکن وہ (ان واضح دلائل کے باوجود نئی خلقت کے متعلق شک کرتے ہیں۔
(سورہ ق آیہ ۱۵)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: (وضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحیی العظام و ھی رمیم) (قل یحیی الذی انشاء ھا اول مرة و ھو بکل خلق علیم)
یعنی اس نے ہمارے لیے ایک مثال پیش کی ، لیکن اپنی خلقت کو بھلا بیٹھا اور کہا کون ان پوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا؟ کہو کہ جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا ہے وہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ ہر مخلوق کے بارے میں علم رکھتا ہے۔(سورہ یاسین آیہ ۷۸، ۷۹)
علاوہ از ایں کیا زمین و آسمان کی خلقت کے مقابلہ میں انسان کی خلقت کوئی بڑی بات ہے؟ جو ہستی یہ قدرت رکھتی ہے کہ اس قدر وسیع اور حیرت انگیز کائنات کو پیدا کرے وہ یہ طاقت بھی رکھتی ہے کہ موت کے بعد مردوں کو زندہ کر دے۔ (اولم یرو ان اللہ الذی خلق السماوات والارض و لم یعیا بخلقھن بقادر علی ان یحیی الموتی بلی انہ علی کل شی قدیر) یعنی کیا وہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور جو ان کی خلقت سے عاجز نہیں ہوا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کرے ؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(سورہ احقاف ۳۳)