پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کا اجتماع جو کل رات تک جاری رہا، اس لحاظ خاصی اہمیت رکھتا ہے کہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور حکومتی اداروں کی جانب سے بے حسی اور مسلسل لا تعلقی کے باوجود، لوگوں کی کثیر تعداد نے اس میں شرکت کی۔ دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل خوف ہراس پھیلائے جانے اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے عدم تحفظ کے احساس کے بعد بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت اور جلسہ گاہ میں بچوں اور خواتین کی موجودگی قابل تحسین تھی۔ صرف ایک روز قبل ہی دہشت گردوں نے ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو اپنی سفاکی کا نشانہ بناکر شہید کردیا تھا اور اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ دہشت گرد اس اجتماع میں آنے جانے والوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کو رواج دینے میں کون قصور وار ہے اور اس میں کس کا ہاتھ ہے؟ اس چیز کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آپسی چپقلشوں میں مارے جانے والے افراد کے سوا دہشت گردی کے ان گنت واقعات میں زیادہ تر عام شہریوں اور بے گناہ افراد کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ، ان کی مساجد، مجالس اور جلوسوں میں خودکش حملے اور بم دھماکے، اور وہ بھی تسلسل کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نظر انداز کردیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں میں یہ احساس شدت کے ساتھ موجود ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ایسا کیوں ہے؟ اور کن وجوہات کی بنا پر مسلمہ دہشت گردوں اور قاتلوں کو رہا کردیا جاتا ہے؟ خود اپنی جگہ سوال ہے کہ جس کا معقول جواب کسی کے پاس نہیں۔ سیاسی جماعتوں کا کردار بھی اس لحاظ سے قابل تعریف نہیں ہے اور انہوں نے بھی بے حسی اور لاتعلقی کی سیاست اپنا رکھی ہے، چنانچہ اس اجتماع سے اپنے خطاب میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعغری نے اس نکتے کو اٹھایا اور کہا کہ ملک کی سیاسی جماعتیں ہمارے حقوق پامال کرنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یکم جولائی کو مینار پاکستان پر ملت جعفریہ کو سیاسی روڈ میپ دیں گے، علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں اس نکتے پر بھی تاکید کی کہ پاکستان کے 50 ملین شیعہ اگر یکجا ہوجائیں تو کوئی ان کے آگے سر نہیں اٹھا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کا یہ سمندر نشتر پارک سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کومتنبہ کرتا ہے کہ وہ ہمارے حقوق غصب کرنا چھوڑ دیں ہم اپنے حقوق کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کاشیلٹر نہیں لیں گے۔ انھوں نے حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ، میاں نواز شریف اورایم کیوایم کے قائدالطاف حسین سے بھی سوال کیا کہ ملکی سطح کی یہ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین یہ بتائیں کہ انہوں نے آج تک ہم کو کیا دیا ہے۔پاکستان میں امریکی مداخلتوں کے تعلق سے کھل کر امریکی سفیر کیمرون منٹر پر تنقید کی اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں امریکی مشنز بند کیے جائیں۔ اس موقع پرجلسہ گاہ "نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت، نعرہ حیدری اور لبیک یاحسین، کے نعروں سے گونجتی رہی، کانفرنس سے اپنے مرکزی خطاب میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا ناصرعباس نے یکم جولائی کو مینار پاکستان لاہور میں "قرآن واہلبیت "کانفرنس کے انعقاد کا بھی اعلان کیا جس کی بنیاد شہید قائد ملت جعفریہ علامہ سید عارف الحسین الحسینی نے رکھی تھی، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ہر مظلوم کے حامی ہیں چاہے سنی، شیعہ، ہندو، عیسائی سمیت جو سب اس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کے بیٹے ہیں ان کے درمیان اتحاد ہونا چاہیے، ہم انہیں اتحاد کی دعوت دیتے ہیں یہ اجتماع یزید شکن اور طاغوت شکن اجتماع ہے ہم نے رسول اللہ کے فرمان پر قرآن و اہلبیت کا دامن تھام رکھا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں شہید کیا جاتا رہا، گھروں کو جلایا گیا، لاشوں کو پامال کیا جاتا رہا لیکن ہم نے کبھی بھی طاغوت کے آگے سر نہیں جھکایا۔ انہوں نے انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ ہوش کے ناخن لے ملک میں یزیدی اور طاغوتی قوتوں کو لگام دے ہم شہادتوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں، شہادت ہماری میراث ہے لیکن ہم ظلم برداشت نہیں کریں گے۔اجلاس سے دیگر شیعہ زعما نے بھی خطاب کیا۔مجموعی طور پر اس اجتماع کا پیغام یہ تھا کہ ملت جعفریہ ملکی سالمیت، قومی وحدت اور اتحاد بین المسلمین پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس کے منافی ہر اقدام کی نفی کرتی ہے۔ دہشت گردوں اور ان کی سر پرستی کرنے والوں کے لئے بھی اس اجتماع کا ایک پیغام یہ تھا کہ ملت جعفریہ کو ڈرا دھمکا کر دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا اور وہ پاکستان کے سیاسی میدان میں بدستور فعال کردار ادا کرتی رہے گی اور یکم جولائی کو مینار پاکستان پر جس اجتماع کی کال دی گئی ہے وہ اس حوالے سے سنگ میل ثابت ہوگا۔
source : http://urdu.irib.ir