اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

''دولت''

سورة انفال آیت 28 '' اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال و اولاد ایک امتحان کی چیز ہے..... باری تعالیٰ نے اپنی ام الکتاب میں  انسانوں  کو آگاہ کردیا ہے۔ یہ تمہارا مال اور اولاد فتنہ ہے۔ حضرت انسان کی فطرت ہے کہ وہ دولت سے بے حد محبت کرتا ہے۔ یہ فساد کی جڑ ہے۔ بہت سے خاندان اس دولت کے چکر میں  آ آکر تباہ برباد ہوگئے۔ لوگوں  کے گھروں  میں  نا اتفاقی ، لڑائی جھگڑے، نفرت اولادیں  اپنے والدین سے سگے بھائی بہنوں  اور دیگر خاندان کے افرادوں  سے کٹ کے رہ گئے۔ میراث کے جھگڑے تو اتنے خطرناک موڑ پر آگئے کہ ایک دوسرے کی جان لینے اور دینے پر تل گئے۔ مقدمہ بازی نا اتفاقی اور دشمنی کے واقعات اخبارات میں  آتے رہتے ہیں  کسی نے کان کاٹ دیے کسی نے چھرا گھونپ دئے۔ آپسی معاملہ تھا مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے حل ہوسکتا تھا۔ ایسے ہی موقع پر کچھ لوگ تاک میں  رہتے حمایتی لوگ کھڑے جاتے چونکہ اس وقت کا ماحول گرما گرمی کا ہوتا ہے گالی گلوچ ، ہجت اکارت و بحث و مباحثہ ، میٹنگ اس طرح معاملہ حل ہوجاتا ہے الفرض حمایتی لوگ اگر غلط آدمی کا ساتھ دیتے تب حق دار قانونی کارروائی کرتا ۔ معاملہ پولس تک تب حمایتی چھٹ جاتے وہاں  سوال پیدا ہوجاتا کہ کون صحیح؟ کون غلط؟ قانون کی روشنی  میں  اسے حل کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی دولت حاصل کرنے والے چور لٹیرے راہ چلتے کسی کے گلے سے ہار کھینچ کر بھاگ جاتا، کوئی بینک میں  روپے جمع کرانے یا لانے جارہا اسے لوٹ لیا جاتا ہے۔ ایسے کئی دکاندار آپس میں  ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے چکر میں  میرا ہی مال بکے، لوگ میری دکان سے خریدیں  بہت سی ترکیبیں  کرتے کہ میں  سب سے زیادہ کمائوں ، اس طرح کی اخلاقی گراوٹ کا لوگ شکار ہوگئے۔ مزاج بدل گئے۔ 
خدا نے رزق ہر ایک کے حصہ میں  لکھ دیا ہے۔ ہر ایک اپنی اپنی تقدیر سے کما کھا رہا ہے۔ جس طرح موت کا یقین ہے کہ ایک دن موت آکر رہے گی ایسے ہی رزق کا معاملہ صرف انسان ہی نہیں  بے شمار خدا کی مخلوقات ہوائوں  میں  فضائوں  میں  زمین میں  کیڑے مکوڑے سانپ بچوں  اژدھے بڑے سے بڑے اور چھوٹی سی چھوٹی پانی کی بے شمار مخلوقات ہیں  ہم انسان اس کا شمار بھی نہیں  کرسکتے یہ دولت، عزت و شہرت و اولادیں  سب کا دینے والا خدا ہی ہے اس پر ہمیں  قناعت کرنا چاہیے ایک مقررہ مدت اس دنیا میں  رہنے کے بعد ہمیں  اسی کے پاس واپس جانا ہے۔ یہ تمام چیزیں  باوا آدم کے زمانے سے لے کر اب تک کوئی ساتھ نہیں  لے گیا سوائے کفن کے آخر یہ دولت ہی تو سب کچھ نہیں  ہماری نیکی اور برائی ہی ساتھ ساتھ قبر میں  جائے گی لہٰذا جو بھی مل جائے اس پر قناعت کرلینا ہی بہتر ہے۔ مگر ایسا خیال بہت کم لوگوں  کے ذہن میں  آتا ہے۔ جدوجہد کرتے رہو مجبوروں  ، ناداروں ، یتیموں  ، پریشان حال لوگوں  کا دل جیتتے رہو اور خدا سے لو لگا لو کہ دے گا تو تو ہی دے گا۔ خدا ہی کی وہ ذات ہے جسے ذرہ ذرہ کی خبر ہے۔ ہر ایک کی ضرورت وہی پورا کرنے والا وہ عالم الغیب ہے۔ اس ذات پاک پر مکمل یقین رکھو، ڈھلمل یقین نہ بنو ، دنیا کے لپّن چھپّن میں  نہ پڑو، غلط سلط راہوں  میں  نہ پھنس جانا، لینے کے دینے پڑجائیں  گے۔ خدا نے پیدا کرکے یوں  ہی چھوڑ نہیں  دیا اس کے بھی حقوق ہیں  ان باتوں  پر بھی دھیان دو۔ اس کے دربار سے جڑے رہو ناطہ بنائے رکھو جس طرح گائوں  والوں  سے رشتہ داروں  سے ناطے داری کسی نہ کسی موقع پر کام آجاتی تو رب العالمین سے تو لینا ہے۔ آج نہیں  تو کل و کل نہیں  تو پرسو کبھی نہ کبھی اس کی نگاہ کرم ہو ہی جائے گی ۔ اس کی ذات سے ناامیدی؟ بالکل نہیں  !  وہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔ تم محکوم ہو اور وہ حاکم ہے۔ بچہ روتا نہیں  جب تک تو ماں  بھی دودھ نہیں  پلاتی۔ ذرا اس بچہ کی طرح دو آنسو بہا کے تو دیکھو۔ اس کے دینے اور نہ دینے میں  مصلحت ہے۔ جس کے پاس نہیں  وہ لینے کے چکر میں جس کے پاس ہے اس کی حالت گویا گنجے کے ہاتھ میں ناخن جیسی۔ اس کی تو چال ڈھال و بات چیت و بات چیت و طور طریقہ سب بدل جاتے ہیں ۔ تم تو سکون سے ہوجاتے مگر ان بے چاروں  کو راتوں  میں  نیند نہیں  گولی کھاتے تاکہ نیند آجائے۔ بیئر پیتے انہیں  دھڑکہ لگا رہتا ہے کہیں  یہ دولت چھن نہ جائے کبھی بھائی لوگ کا ڈر کبھی انکم ٹیکس والوں  کا رشتہ داروں  اور تعلقات والوں  سے بھی کہیں  اُردھار نہ مانگ بیٹھے۔ بہت سنبھل کر لوگوں  سے ملاقات کرتے گویا نیک بن جاتے نگاہیں  جھکا کر چلنے لگتے، خیر یہ حالت بڑی عمر والوں  کی ہوتی ہے نوجوان طبقہ تو اودھم مچایا رہتا۔ اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گیا۔ بہت سے بچے و والدین نے انہیں  کسی نہ کسی طرح امریکہ، دبئی، سعودی، قطر وغیرہ وغیرہ ممالک نوکری کے لیے اچھی نوکری اور مناسب تنخواہ شروع شروع میں  سب معاملات اچھے چلتے، خط و کتابت لین دین پورا گھر خوش حال مناسب رشتہ لڑکوں  کے دیکھ کر والدین شادی بھی کردیتے کچھ عرصہ بعد اکثر گھروں  کے حالات وہ نہیں  رہتے۔ لڑکا کہتا میں  نے دیش چھوڑا دیار دوست چھوڑا میں  نے قربانی دی اب جو کمایا ہوں  کسی کو نہ دوں  گا۔ والدین اور گھر کے دیگر و قارئین خود انداز لگا لو دولت آتی ہے لیکن بعد کے حالات وہ نہیں  رہتے اس دولت نے کتنوں  کا خانہ خراب کیا ہے، بڑے بڑے آفیسر اور عہدیداروں  و ڈپٹی کلکٹر جن کی ڈگریاں  I.A.S. ،  I.I.T.،  I.F.S.،  P.H.D.  جیسے بڑے عہدیداران کوئی آدرش گھوٹالے میں  کوئی نیشنل ہیلتھ سروس کے گھوٹالے میں  ، لوہے کی کانکنی میں  جسے (C.V.C.) سنٹرل ویجلنس کمشنر نے اپنی ویب سائڈ پر بتایا ہے۔ کسی نے 250 کروڑ کو 40 لاکھ روپیوں  کی ، 350 کروڑ کی ناجائز پراپرٹی بنائی۔ کسی نے 118 کروڑ کسی نے 150کروڑ کی جائیداد بنائی۔ دولت کی بے جا خواہش نے ان کو کہیں  کا نہ رکھا زندگی کا ستیاناس کردیا، قانونی چکر میں  پھنسا دیا، جیل میں  ڈال دیے گئے۔ 31آفیسروں  کو معطل کردیاگیا۔ 45آفیسروں  کے خلاف کارروائی کی ابھی تک اجازت حکومت نے نہ دی یہ وہ لوگ تھے جنہیں  آگے اور بھی ترقی ملنے والی تھی مگر افسوس عزت گنوا بیٹھے۔ اپنی اولادوں  کے مستقبل برباد کردئے۔ بہرحال خدا کے دینے اور نہ دینے میں  مصلحت ہے دیکھیے صاحب حیالات کو قابو میں  رکھیے دولت کا ملنا دشوار بھی نہیں  یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی اس آرزو کی خلش سے خود کو بچا بھی نہیں  سکتے لیکن قناعت اور صبر کے گھونٹ پی کر اسے قابو میں  کرسکتے ہیں ۔ یہ جو ارمان و آرزو خواہش کبھی کم نہ ہوں  گی ۔ بزرگوں  میں  ایک بزرگ دنیا انہیں  مرزا غالب کے نام سے جانتی ہے خوب کہا    
ہزاروں  خواہشیں  ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔۔۔۔بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر
اسلامی جہاد اور عوامی جہاد میں فرق

 
user comment