ائمہ معصومین سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ شب قدر میں قرآن سر پر رکھیں اور قرآن و ائمہ سے متوسل ہوکے خداوند معتال سے اپنی حاجات طلب کریں شب قدر ایسی مبارک شب ہے کہ جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور ایسی شب ہے کہ جس میں ہماری زندگی کا سالانہ پروگرام مقدّر اورمرتب کیا جاتا ہے اور ہم بھی اپنے عمل سے اس پرواگرم میں شریک ہیں بہترین عمل اس شب میں یہ ہے کہ انسان قرآن کا مطالعہ اور اس میں غور فکر کرے اور دعا مناجات کرے اور یہ بات واضح ہے کہ دعامیں حضرت حق کے محضر میں اس کے بہترین اور مقرّبین بندوں اور اس کے دوستوں کو شفیع قرار دینا چاہیے اس سے بہتر کیا ہو سکتاہے کہ ہم قرآن کی پناہ لے کر خدا کے محضر میں قدم رکھیں اور قرآن و عترت سے متوسل ہو جائیں ۔
قرآن سر پر رکھنا اور قرآن و اہل بیت کو وسیلہ قرار دینا یہ سب ان کی عظمت ،جو خداوند عالم کے نزدیک ہے ،کی وجہ سے ہے اور ہمارا تواضع ثقلین کے مقابلے میں ہے در واقع ثقلین کے مقابلے میں ادب کرنا خدا کے مقابلے میں ادب کرنے کے برابر ہے اور یہی بندگی کے حدود کی رعایت کرنے کا نام ہے اور یہ عمل ہم نے خود ائمہ معصومین سے سیکھا ہے ۔
مرحوم آ یت اللہ میرزاجواد ملکی تبریزی ( امام خمینی کے عرفان کے استاد) فرماتے ہیں :
قرآن سر پر لیتے وقت چار نیتیں دل میں رکھو ۔
١۔ دماغ قرآن کی وساطت سے قوی ہوجائے ۔
٢۔ انسان کی عقل قرآن اور علوم قرآن سے کامل ہوجائے ۔
٣۔ عقل قرآن اور اس کی عظمت کے آگے خاضع ہو جائے ۔
٤۔ نور عقل نور قرآن کے ساتھ مخلوط ہو جائے ۔
حقیقت میں ہم اس عمل سے دکھا رہیں کہ ہماری فکر اور عقل بلکہ ہمار اپورا وجود قرآن کے زیر سایہ ہے اور کتاب خدا کے ذریعہ سے ہی ہم خدا کی جانب رخ کرتے ہیں
source : http://www.abna.ir