اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

اولیاء اللہ علیہم السلام سے توسل - 1

مادی اور روحانی مشکلات کے خاتمے کی غرض سے بارگاہ بارگاہ اولیاء اللہ سے توسل کا مسئلہ وہابیوں اور دنیا کے دوسرے مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ اہم اختلافی مسئلہ ہے۔ وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ نیک اعمال کے ذریعے خدا سے توسل میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اولیاء اللہ سے توسل جائز نہیں ہے۔

بقلم آیت اللہ مکارم شیرازی؛ ترجمہ:ف۔ح۔مہدوی

اولیاء اللہ علیہم السلام سے توسل - 1

10

اولیاء اللہ علیہم السلام سے توسل

توسل قرآن مجید اور عقل کے آئینے میں

مادی اور روحانی مشکلات کے خاتمے کی غرض سے بارگاہ بارگاہ اولیاء اللہ سے توسل کا مسئلہ وہابیوں اور دنیا کے دوسرے مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ اہم اختلافی مسئلہ ہے۔ وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ نیک اعمال کے ذریعے خدا سے توسل میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اولیاء اللہ سے توسل جائز نہیں ہے۔

وہابی توسل کو شرک سمجھتے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر مسلمان اولیاء اللہ سے توسل کو جائز سمجھتے ہیں جس کی تشریح آئے گی۔

وہابیوں کا وہم یہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات توسل کو کو شرک میں شمار کرتے ہیں۔

خداوند متعال سورہ زمر میں ارشاد فرماتا ہے:

"مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى"۔ (1)

ترجمہ: ہم ان کی عبادت نہیں کرتے ہیں مگر اس لیے کہ ہم کو اللہ سے قریب کردیں۔

یہ آیت کریمہ فرشتوں کی طرح کے معبودوں کے بارے میں ہے اور دور جاہلیت کے مشرکین کا کہنا تھا کہ ہم ان کی پرستش کرتے ہیں تا کہ وہ ہمیں خدا کے قریب کردیں اور قرآ ان کی بات کو شرک قرار دیتا ہے۔

سورہ جن میں ارشاد ربانی ہے:

"فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا"۔ (2)

ترجمہ: خدا کے ساتھ دوسرے کسی کو مت بلاؤ (اللہ کے سوا کسی کو خدا مت کہو)۔

اور اللہ تعالی نے سورہ رعد میں ارشاد فرمایا ہے:

"وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ" (3)

ترجمہ: وہ لوگ جو اس (اللہ) کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے وہ ان کی صدا پر ذرا بھی لبیک نہیں کہتے۔

وہابیوں کا وہم و پندار یہ ہے کہ یہ آیات اولیاء اللہ سے توسل کی نفی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے نزدیک ایک بحث اور بھی چلتی ہے کہ فرض کریں کہ حیات نبی (ص) کے دوران آپ (ص) سے توسل جائز بھی ہو، وصال کے بعد آپ (ص) سے توسل کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

یہ تھا وہابی دعؤوں کا خلاصہ

مگر افسوس کہ ان ہی بے بنیاد اور بے سند دعؤوں کی بنیاد پر وہابیوں نے بہت سے مسلمانوں پر شرک اور کفر کا بہتان تراشا، ان کی جان اور مال کو مباح قرار دیا، خون کی ہولیاں کھیلی گئیں اور لوگوں کے اموال لوٹ لئے گئے۔

اب جبکہ ہم ان کا اعتقاد جان گئے، بہتر ہے کہ اصلی ملے کی جانب لوٹ جائیں ور توسل کے مسئلے کا اصولی حل پیش کریں۔

پہلے ہم لغت، قرآنی آیات اور روایات و احادیث کو مدنظر رکھ کر توسل کے معانی اور مفاہیم پر روشنی ڈالتے ہیں:

"توسل" لغت میں وسیلے کا انتخاب ہے اور وسیلہ اس چیز کا نام ہے جو انسان کو کسی اور سے قریب تر کردے۔

لسان العرب کی تعریف:

"لسان العرب" ـ جو لغت کی مشہور کتاب ہے ـ میں مذکور ہے کہ:

"وصَّلَ إلى الله وسيلةً إذا عَمِل عملا تقرّب به إليه و الوسيلة ما يتقرّب به إلى الغير"۔

ترجمہ: خدا سے توسل اور (خدا سے تعلق بنانے کے لئے) وسیلے کا انتخاب یہ ہے کہ انسان ایسا عمل انجام دے جو اسے خدا سے قریب کرے؛ اور وسیلہ سے مراد ہو شیئے ہے جس کے توسط سے کسی اور چیز (یا شخص) ی قربت حاصل کی جاتی ہے۔

مصباح اللغۃ کی تعریف:

"مصباح اللغۃ" میں ہے کہ:

"الوسيلة ما يتقرّب به إلى الشىء و الجمع الوسائل"۔

ترجمہ: وسیلہ وہ چیز ہے جس کے توسط سے انسان کسی اور چیز یا شخص کی قربت حاصل کرتا ہے اور اس کی جمع "وسائل" ہے۔

مقاييس اللغۃ کی تعریف

"مقاييس اللغۃ" میں ہے:

"الوسيلة الرغبة و الطلب".

ترجمہ: وسیلہ رغبت اور طلب کا نام ہے۔

چنانچہ وسیلہ "حصول قرب" بھی ہے اور اس چیز کے معنی میں آیا ہے جس سے کسی اور کی قربت حاصل کی جاتی ہے اور اس کا مفہوم وسیع ہے۔

ایک بار پھر آیات قرآنی کی طرف لوٹتے ہیں:

قرآن مجید میں لفظ "وسیلہ" دو آیتوں میں استعمال ہوا ہے۔

پہلی آیت سورہ مائدہ کی آیت 35 ہے جہاں ارشاد باری ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"

ترجمہ: اے ایمان لانے والو! اللہ کے غضب سے بچو اور اس کے یہاں پہنچنے کے لیے ذریعہ (وسیلہ) تلاش کرو (یا وسیلے کے انتخاب کرو) اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تم فلاح اور کامیابی حاصل کرلو۔

ان تینون "تقوی، توسل اور جہاد" کا نتیجہ وہی ہے جو آیت کے آخر میں آیا ہے: "لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"، یعنی یہ تمہاری فلاح اور کامیابی کا باعث ہیں۔

دوسری آیت ـ جس میں وسیلے کا لفظ بروئے کار لایا گیا ہے ـ سورہ اسراء (یا سورہ بنی اسرائیل) کی آیت 57 ہے۔ آیت 57 کو بہتر سمجھنے کے لئے آیت 56 کی طرف رجوع کرتے ہیں جہاں ارشاد ہوتا ہے:

"قُلِ ادْعُواْ الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلاَ يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلاَ تَحْوِيلاً"۔

ترجمہ: کہئے کہ (مدد کے لئے) بلاؤ انہیں جن کو تم اللہ کے سوا (معبود یا مددگار) سمجھتے ہو تو (دیکھنا کہ) کہ وہ تم سے کوئی تکلیف دور کرنے کی قوت نہیں رکھتے اور نہ ہی تمہارے حالات تبدیل کرسکتے ہیں۔

اس آیت میں "ادعوا الذين" سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں (غیراللہ سے) سے مراد بت وغیرہ نہیں ہیں کیونکہ "الذين" ذوالعقول (صاحبان عقل موجودات) کے لئے آتا ہے، چنانچہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جن کی وہ (مشرکین) کی پرستش کیا کرتے تھے؛ یا حضرت مسیح (یا عزیز) (ع) ہیں، جن کو بعض لوگ معبود سمجھتے ہور ان کی پرستش کرتے تھے۔

یہ آیت کہہ رہی ہے کہ فرشتے یا حضرت عیسی (یا عزیز) تمہاری مشکلات حل نہیں کرسکتے ہیں اور تم سے تکالیف دور نہیں کرسکتے۔ اگلی آیت (سورہ اسراء کی آیت 57) میں ارشاد خداوندی ہے:

"أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا"۔

ترجمہ: یعنی یہ لوگ (جنہیں کفار و مشرکین مدد کے لئے پکارتے ہیں) خود بارگاہ پروردگار میں پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی وسیلے کی تلاش میں ہیں "أَيُّهُمْ أَقْرَبُ" ایسا وسیلہ جو خدا سے قریب تر ہو، "يَرْجُونَ رَحْمَتَهُ" یعنی وہ خدا کی رحمت کے امیدوار ہیں "وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ" اور وہ خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں؛ "إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا" بے شک تمہارے رب کے عذاب سے سب ڈرتے ہیں اور وہ ڈرنے والی چیز ہے۔

وہابیوں کی بڑی خطا یہ ہے کہ ان کے تصور کے مطابق اولیاء اللہ سے توسل کا مفہوم یہ ہے کہ (توسل کرنے والے) اس کو "کاشف الضر" (ضرر و زیاں برطرف اور نقصان و تکلیف دور کرنے والا) سمجھ لیں۔

وہابی تصور کرتے ہیں کہ (توسل کرنے والے) انہیں حاجت برآری اور تکالیف و نقصانات دور کرنے کا مستقل سرچشمہ سمجھتے ہیں۔

حالانکہ توسل سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے۔

وہابیوں نے اس مسئلے میں جن آیات کا سہارا لیا ہے ان کا تعلق عبادات سے ہے جبکہ کوئی بھی شخص اولیاء اللہ کی عبادت نہیں کرتا۔

جب ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے توسل کرتے ہیں تو کیا ہم آپ (ص) کی عبادت کرتے ہیں؟ کیا ہم آنحضرت (ص) "تأثیر" کے حوالے سے (خدا سے) مستقل سمجھتے ہیں اور کیا ہم آپ (ص) کو تکالیف دور کرنے والی ذات سمجھتے ہیں؟

جس توسل کی جانب قرآن مجید نے دعوت دی ہے وہ یہ ہے کہ اس وسیلے سے ہم خدا کا قرب حاصل کریں؛ یعنی اولیاء اللہ بارگاہ الہی میں شفاعت کرتے ہیں، وہی جو ہم شفاعت کے باب میں کہہ چکے۔

توسل کی ماہیت درحقیقت شفاعت کی ماہیت ہی ہے۔ شفاعت کے بارے میں آیات کریمہ کی تعداد زیادہ ہے اور توسل کے بارے میں دو آیتیں نازل ہوئی ہیں؛ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ سورہ اسراء کی آیت 57 میں "أَيُّهُمْ أَقْرَبُ" اس بات کی دلیل ہے کہ حتی فرشتے اور حضرت عیسی (ع) بھی اپنے لئے وسیلے کا انتخاب کرتے ہیں، ایسے وسیلے کا انتخاب کرتے ہیں؛ وہ ایسے وسیلے کا انتخاب کرتے ہیں جو خدا سے قریب تر ہو۔ "اَيُّهُمْ میں "هم" جمع (غائب) کی ضمیر ذوی العقول (صاحبان عقل) سے تعلق رکھتی ہے (یعنی وہ ایسے وسائل میں سے وسیلے کا انتخاب کرتے ہیں جو صاحبان عقول و ہوش ہوتے ہیں)؛ یعنی وہ بھی صالحین اور اولیاء ے توسل کرتے ہیں اور ایسے صالح اور ولی کو وسلیہ بنا کر اللہ کے حضور قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو دیگر صالحین اور اولیاء اللہ کی نسبت خدا سے قریب تر ہوں۔

بہرحال بحث کے آغاز میں ہی معلوم ہونا چاہئے کہ اولیاء اللہ سے توسل ہے کیا؟ کیا ان کی بندگی اور پرستش ہے؟ ہرگز نہیں۔

کیا توسل سے مراد اولیاء اللہ کو تأثیر کے حوالے سے مستقل قاضی قرار دینا مقصود ہے؟ کیا وہ "قاضی الحاجات" (اور تکلیفیں دور کرنے والے) ہیں اور "کاشف الکربات" (تکلیفیں دور کرنے والے) ہیں؟ ہرگز نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اولیاء اللہ خدا کی بارگاہ میں ان لوگوں کی شفاعت کرتے ہیں جنہوں نے ان سے توسل کیا ہے۔ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ: میں ایک بڑے آدمی کے گھر جانا چاہتا ہوں جو مجھے نہیں جانتا؛ میں ایسے شخص سے درخواست کرتا ہوں جو مجھے بھی جانتا ہے اور اس بزرگ سے بھی شناسائی رکھتا ہے، کہ میرے ہمراہ اس بزرگ کے گھر چلے اور اس سے میرا تعارف کرائے اور میری شفاعت یا سفارش کرے؛ بے شک یہ عمل نہ تو میری طرف سے وساطت اور سفارش کرنے والے کی پرستش ہے اور نہ ہی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وساطت کرنے والا شخص اس بزرگ کے عمل میں مستقل تأثیر رکھتا ہے۔

یہاں مناسب ہوگا کہ ایک دلچسپ کلام سے استفادہ کریں جو "بن علوی" نے اپنی کتاب "مَفاهيمُ يَجِبُ أَنْ تُصَحَّحَ" میں بیان کیا ہے۔ بن علوی کہتے ہیں کہ: بہت سے لوگ توسل کی حقیقت جاننے میں خطا سے دوچار ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم (بن علوی) توسل کا صحیح مفہوم ـ اپنی رائے کی روشنی ـ میں بیان کرتے ہیں لیکن اس سے قبل چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1۔ توسل دعا کی ایک روش

توسل دعا کی ایک روش ہے اور درحقیقت خدا کی طرف توجہ کے ابواب میں سے ایک باب ہے۔ چنانچہ حقیقی مقصد و مقصود خداوند سبحان ہے؛ اور جس ہستی سے آپ توسل کرتے ہیں (یعنی جس کو آپ وسیلہ قرار دیتے ہیں) وہ خدا سے تقرب کا وسیلہ اور واسطہ ہے؛ اور اگر کسی کا عقیدہ اس کے سوا کچھ اور ہو وہ مشرک ہے۔

2۔ توسل کا سبب

جو شخص کسی شخص کے وسیلے سے خدا سے متوسل ہوتا ہے اس کا سبب وہ عقیدت و محبت ہے جو وہ (متوسل) اس شخص (وسیلے) سے رکھتا ہے اور وہ اعتقاد جو وہ (متوسل) اس (وسیلے) کی نسبت رکھتا ہے۔ اس کا اعتقاد یہ ہے کہ خداوند سبحان اس شخص (وسیلے) کو دوست رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے؛ اور اگر بالفرض ثابت ہوجائے کہ وہ شخص ایسا (نیک و صالح) نہیں ہے تو اس سے احتراز اور اجتناب کرکے دوری اختیار کرے گا۔

جی ہاں! معیار یہی ہے کہ وہ محبوب پروردگار ہے۔

3۔ توسل جو شرک ہے

اگر توسل کرنے والے شخص (متوسل) کا عقیدہ یہ ہو کہ "مُتَوَسَّلٌٌ بِه" (یعنی وہ شخص جسے وہ سود و زیاں کے لئے وسیلہ قرار دیتا ہے) بنفسہ (بذات خود) مستقل طور پر (خدا سے شفاعت کئے بغیر) مؤثر ہے (اور اپنی مرضی سے فائدہ نہیں پہنـچاتا اور نقصان دور کرتا ہے) یہ شخص مشرک ہے۔

4۔ توسل واجب نہیں ہے

توسل ایک واجب اور ضروری امر نہیں ہے اور دعا کی استجابت کا توسل پر ہی منحصر نہیں ہے۔ اہم "دعا" اور بارگاہ الہی میں حاضری ہے، اس کی شکل اور روش حیسی بھی ہو۔ جیسا کہ خداوند متعال کا ارشاد گرامی ہے:

"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ"۔ (4)

ترجمہ: اور (اے میرے رسول (ص)!) جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو بلاشبہ میں نزدیک ہوں۔

"بن علوی المالکی" اس تمہید کے بعد مسئلۂ توسل میں اہل سنت کے فقہاء ، علماء اور متکلمین (5) کی آراء کا جائزہ لیتے ہيں اور کہتے ہيں:

"مسلمین کے درمیان "توسل الی اللہ بالاعمال الصالحہ" (اعمال صالحہ کے ذریعے خدا سے توسل) کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یعنی انسان نیک و صالح اعمال کے ذریعے خدا سے توسل کرے (اور اپنے اعمال کو قرب الہی کا وسیلہ قرار دے)، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مثلاً جو شخص روزہ رکھے، نماز پڑھے، قرآن کی تلاوت کرے اور خدا کی راہ میں صدقہ دے، وہ ان اعمال کے ذریعے خدا سے توسل کرکے اس کا قرب حاصل کرتا ہے اور یہ امر مسلم ہے اور اس میں کوئی بحث ہی نہیں ہے"۔

اس قسم کا توسل حتی سلفیوں نے بھی قبول کیا ہے؛ مثال کے طور پر "ابن تیمیہ" نے اپنی مختلف کتابوں بالخصوص اپنے رسالے "القاعدة الجلیلة في التوسل والوسيلة" میں اس قسم کے توسل کی تأئید کی ہے۔

ابن تیمیہ نے اس قسم کے توسل ـ یعنی اعمال صالحہ کے ذریعے توسل ـ کی تصدیق و تأئید کی ہے، پس اختلاف کہاں ہے؟ کیا اختلاف غیر صالح اعمال کے ذریعے توسل کے مسئلے میں ہے؛ جیسے اولیاء اللہ کی ذوات مقدسہ سے توسل، کہ انسان کہہ دے:

"اللهم إنّى اتوسّل إليك بنبيك محمّد (ص)"۔

ترجمہ: بار خدایا! میں متوسل ہوتا ہوں اور تیرا تقرب چاہتا ہوں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وسیلے سے۔

بن علوی اس کے بعد کہتے ہیں: اس مسئلے میں اختلاف اور وہابیوں کی جانب سے اولیاء اللہ سے توسل کا انکار، درحقیقت ایک قسم کا شکلی اور لفظی (ظاہری و نمائشی) اختلاف ہے اور "جوہری" (و بنیادی اصولوں میں) اختلاف نہيں ہے، بالفاظ دیگر، یہ ایک لفظی نزاع ہے، کیونکہ اولیاء اللہ سے توسل درحقیقت ان (اولیاء) کے اعمال کے توسل ہے، جو کہ جائز ہے۔ چنانچہ اگر مخالفین بھی انصاف و بصیرت کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ مسئلہ ان کے لئے بھی واضح ہوجائے گا اور ان کے اعتراضات بھی ختم ہوجائیں گے اور فتنوں کی آگ بجھ جائے گی اور اس کے بعد پھر کبھی بھی مسلمانوں پر شرک اور ضلالت و گمراہی کی تہمت عائد کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

بن علوی اس کلام کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"جو شخص اولیاء اللہ میں سے کسی ایک سے توسل کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس (ولی اللہ) کو دوست رکھتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ وہ کیوں اس ولی اللہ کو دوست رکھتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس کا اعتقاد کہ یہ (ولی) ایک نیک اور صالح شخص ہے یا یہ کہ وہ خدا سے محبت کرتا اور اس کو دوست رکھتا ہے یا یہ کہ خدا سے محبت کرتا اور اس کو دوست رکھتا ہے۔ یا انسان اس وسیلے (ولی اللہ) سے محبت کرتا ہے۔ جب ہم ان سب شقوں کا تجزیہ و تشریح کرتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ توسل کی ان ساری وجوہات و اسباب کے پیچھے نیک اعمال کارفرما ہیں؛ یعنی ان سے توسل درحقیقت بارگاہ الہی میں اعمال صالحہ سے توسل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور یہی وہی چیز ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ (6)

البتہ ہم اگلے صفحات میں وضاحت کریں گے کہ بزرگوں سے توسل ـ خواہ یہ توسل ان کے نیک اعمال کے لئے نہ بھی ہو بلکہ ان کی شان و منزلت کی بلندی کے لغے ہو کہ وہ بارگاہ الہی میں عزت و آبرو کے مالک ہیں اور سربلند ہیں، یا پھر توسل کسی اور وجہ سے ہو ـ (درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہيں ہے) مگر انہیں صرف تأثیر میں مستقل نہ سمجھیں بلکہ انہیں بارگاہ الہی میں شفیع جانیں، یہ توسل نہ تو کفر ہے اور نہ ہی اسلام کے خلاف ہے۔

قرآن مجید کی آیات میں کئی مرتبہ اس قسم کے توسل کی جانب اشارہ ہوا ہے۔ شرک وہ ہے کہ ہم کسی کسی چیز یا شخص کو خدا کے مقابلے میں تأثیر (و تصرف) میں مستقل سمجھیں۔ وہابیوں کا اشتباہ یہ ہے کہ انھوں نے آیت کریمہ "مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَى"، (7) میں "عبادت" و "شفاعت" کو مخلوط کردیا ہے اور ان کے خیال میں شفاعت بھی شرک ہے حالانکہ "واسطوں" (وسیلوں) کی بندگی اور پرستش شرک ہے چنانچہ نہ تو ان کی شفاعت شرک ہے اور نہ ہی ان سے توسل شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ (غور کریں)۔

توسل اسلامی روایات کی روشنی میں

توسل پر دلالت کرنے والی آیات ہر قسم کے توسل پر مطلق دلالت کرتی ہیں بشرطیکہ یہ توسل اسلام کے صحیح اعتقادی اصولوں کے خلاف نہ ہوں اور اگر اسلامی اصولوں کے خلاف نہ ہو تو نہ صرف آیات کریمہ اس کو جائز گردانتی ہیں بلکہ توسل کو ایک پسندیدہ عمل قرار دیتی ہیں۔ (8)

بہت سی روایات بھی ـ جو متواتر ہیں یا تواتر کی حدود تک پہنچی ہیں ـ توسل پر دلالت کرتی ہیں۔

ان روایات میں متعدد روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات بابرکات سے توسل کے بارے میں ہیں۔ ان میں سے بعض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت سے قبل کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں، بعض کا تعلق آپ (ص) کی ولادت کے بعد اور آپ (ص) کے دوران حیات سے ہے اور بعض دیگر کا تعلق آپ (ص) کے وصال کے بعد کے زمانے سے ہے۔

البتہ بعض روایات ایسی بھی ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ دیگر بزرگان دین سے توسل، پر دلالت کرتی ہیں۔

میں یہاں اس بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ بعض (توسلات) درخواست اور دعا کی صورت میں، بعض دیگر بارگاہ ربوبی میں شفاعت کی شکل میں اور بعض دوسری روایات خدا کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے (اور آپ (ص) کے صدقے) پکارنے کی صورت میں ہیں۔

خلاصہ یہ کہ، ان روایات میں توسلات کی ساری اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں اور یہ روایات درحقیقت وہابیوں کی تمام بہانہ جوئیوں کا راستہ روکنے کے لئے کافی ہیں۔

اب ہم ان روایات کے بعض نمونے پیش کرتے ہیں:

1۔ آدم علیہ السلام کا آنحضرت (ص) سے توسل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت سے (کئی ہزار سال) قبل حضرت آدم علیہ السلام کا آنحضرت (ص) سے توسل:

حاکم نے مستدرک میں اور ان کے علاوہ راویوں کی ایک بڑی جماعت نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"جب حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے اس خطا کا ارتکاب کیا (اور شجرہ ممنوعہ کا پھل کھا لیا، اور سزا کے مستحق ٹہرے تو) بارگاہ الہی میں عارض ہوئے:

"يا رب اسألك بحق محمد لما غفرت لى"۔

ترجمہ: بارخدایا! میں تجھ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق کا واسطہ دے کر پکارتا ہوں، تا کہ تو مجھے بخش دے۔

خالق کائنات نے فرمایا: اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کہاں سے پہچانا، حالانکہ میں نے ابھی تک ان کو خلق ہی نہیں کیا ہے؟

آدم (ع) نے عرض کیا: پروردگارا! اس کا سبب یہ ہے کہ تو نے مجھے اپنی قدرت سے خلق فرمایا اور میرے جسم میں اپنی روح پھونکی، میں نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ عرش کے ستونوں پر لکھا ہوا ہے: "لا إله إلا الله محمد رسول الله (ص)"اور میں یہ عبارت دیکھ کر سمجھ گیا کہ تو نے محمد کا نام اپنے نام سے منسوب فرمایا ہے (اور اس کو اپنے نام کے ساتھ جگہ دی ہے اور اس کو اپنا رسول قرار دیا ہے) کہ وہ مخلوقات تیرا محبوبترین بندہ ہے۔

خداوند رحمن و رحیم نے ارشاد فرمایا: اے آدم! تم نے سچ بولا "إنه لَأَحَبُّ الخلقِ إِلَيَّ" (وہ تمام مخلوقات میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں)، "ادعنى بحقه فقد غفرت لك" (تم محمد (ص) کے حق کا واسطہ دے کر پکارو تو میں تم کو بخش دونگا۔ (9)

٭٭٭

حوالہ جات و توضیحات:

1۔ سورہ زمر آیت 3۔

2۔ سورہ جن آیت 18۔

3۔ سورہ رعد آیت 14۔

4۔ سورہ بقرہ آیت 186۔ مکمل آیت کچھ یوں ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ(ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو بلاشبہ میں نزدیک ہوں‘پکارنے والے کی صدا پر لبیک کہتا ہوں جب وہ مجھے پکارے تو انہیں لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر یقین رکھیں‘شاید وہ نیک راہ پر آجائیں)۔

5۔ متکلمین یعنی علمائے علم کلام؛ علم کلام میں اصول عقائد سے بحث ہوتی ہے۔/مترجم

6۔ كتاب مفاهيم يجب أن تصحّح، صفحه 116 و 117۔

7. سوره زمر، آیت 3۔

8۔ ظاہر آیات سے حتی توسل کے وجوب کا استفادہ ہوتا ہے کیونکہ سورہ مائدہ کی آیت 35 مین توسل کو تقوی اور جہاد کے ہمراہ کے ذریعے ذکر کیا گیا ہے اور "ابتغوا" فعل امر کا صیغہ ہے؛ یعنی تم خدا تک پہنچنے کے لئے وسیلہ ڈھونڈو یا وسیلے کا انتخاب کرو۔ اور یہ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔/ مترجم

9۔ المستدرك على الصحيحين جلد 2 صفحه 615۔ (حاکم نے اپنے راویوں کے توسط سے یہ حدیث عبد الرحمن بن زيد بن اسلم نے اپنے باپ اور دادا کے توسط سے عمر بن خطاب سے نقل کی ہے)۔ حافظ سیوطی نے الخصائص النبویہ میں اس کو نقل کیا اور صحیح گردانا ہے؛ بیہقی نے دلائل النبوة مین اس کو نقل کیا ہے جہاں وہ ضعیف روایات نقل کرنے سے اچتناب کرتے ہيں۔ فسطلانی اور زرقانی نے مواهب اللدنيّه، میں اس حدیث کو نقل کیا اور صحیح گردانا ہے اور ایک بڑی جماعت نے اس کو نقل کیا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے "مقاہیم یجب ان أَنْ تُصَحَح؛ بن علوی المالکی، صفحہ 121 کی طرف رجوع کریں۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ...
اسلام کیا ہے؟
قرآن مجید میں آیا ہے کہ انسان کا رزق حلال ھونے کے ...
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...
اهلبیت (علیهم السلام) کو چند افراد میں کیوں مخصوص ...
کیا قرآن مجید اور تسبیح سے استخارہ کرنے کی کوئی ...
کیا معصومین {ع} ترک اولی کرتے تھے؟
روزے كے اثرات كيا هر شخص پر يكساں هوتے هيں ؟
شب قدر کے بہترین اعمال کیا ہیں؟
اسلام میں قلم و کتابت کی کیا اهمیت هے؟

 
user comment