اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

تربيت عمل سے نہ كہ زبان سے

بہت سے ماں باپ ايسے ہيں جو تربيت كے ليے وعظ و نصيت اور زبانى امر و نہى كافى سمجھتے ہيں _ وہ يہ گمان كرتے ہيں كہ جب وہ بچے كو امر و نہى كررہے ہوتے ہيں ، اسے زبانى سمجھا بجھارے ہوتے ہيں تو گويا وہ تربيت ميں مشغول ہيں اور باقى امور حيات ميں وہ تربيت سے دست بردار ہوجاتے ہيں _ يہى وجہ ہے كہ ايسے ماں باپ ننھے بچے كو تربيت كے قابل نہيں سمجھتے اور كہتے ہيں كہ ابھى بچہ ہے كچھ نہيں سمجھ سكے گا _ جب بچہ رشد و تميز كى عمر كو پہنچتا ہے تو وہ تربيت كا آغاز كرتے ہيں _ جب وہ خوب و بد كو سمجھنے لگے تو اس كى تربيت شروع كرتے ہيں _ جب كہ يہ نظريہ بالكل غلط ہے _ بچہ اپنى پيدائشے كے روز ہى سے تربيت كے قابل ہوتا ہے _ وہ لحظہ لحظہ تربيت پاتا ہے اور ايك خاط مزاج ہيں ڈھلتا چلا جاتا ہے ، ماں باپ متوجہ ہوں يا نہ ہوں _ بچہ تربيت كے ليے اس امر كا انتظار نہيں كرتا كہ ماں باپ اسے كسى كام كا حكم ديں يا كسى چيز سے روكيں بچے كے اعصاب اور حساس و ظريف ذہن روز اوّل ہى سے ايك كيمرے كى طرح تمام چيزوں كى فلم بنانے لگتے ہيں اور اسى كے مطابق اس كى تعمير ہوتى ہے او ر وہ تربيت پاتاہے _ پانچ چھ سالہ بچہ تعمير شدہ ہوتا ہے اور جو ايك خاص صورت اختيار كرچكا ہوتا ہے اور جو كچھ اسے بننا ہوتا ہے بن چكتا ہے _ اچھائي يا برائي كا عادى ہوچكتا ہے لہذا بعد كى تربيت بہت مشكل اور كم اثر ہوتى ہے بچے تو بالكل مقلد ہوتا ہے وہ اپنے ماں باپ اور ادھر ادھر رہنے والے ديگر لوگوں كے اعمال، رفتار اور اخلاق كو ديكھتا ہے اور اس كى تقليد كرتا ہے وہ ماں باپ كو احترام كى نظر سے ديكھتا ہے اور انہيں كے طرز حيات اور كاموں كو اچھائي اور برائي كا معيار قرار ديتا ہے اور پھر اسى كے مطابق عمل كرتا ہے _ بچے كا وجود تو كسى سانچے ميں نہيں ڈھلا ہوتا وہ ماں باپ كو ايك نمونہ سمجھ كر ان كے مطابق اپنے آپ كو ڈھالتا ہے _ وہ كردار كو ديكھتا ہے باتوں اور پند ونصيحت پر توجہ نہيں ديتا _ اگر كردار گفتار سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ كردار كو ترجيح ديتا ہے _

بيٹى اپنى ماں كو ديكھتى ہے اور اس سے آداب زندگى ، شوہر دارى ، خانہ دارى اور بچوں كى پرورش كا سليقہ سيكھتى ہے اور اپنے باپ كو د يكھ كے مردوں كو پہچانتى ہے _ بيٹا اپنے باپ كے طرز زندگى سے درس حبات لبتا ہے ، اس سے بيو ى اور بچوں سے سلوك كرنا سكيھتا ہے اور اپنى ماں كے طرر عمل سے عورتو كو پہچانتا ہے اور اپنى آئندہ زندگى كے ليے اسى كو ديكھ كر منصوبے بنا تا ہے _

لہذا ذمہ دار اور آگاہ افراد كے ليے ضرورى ہے كہ ابتداميں ہى اپنى اطلاح كريں _ اگر ان كے اعمال ، كردار اور اخلاف عيب دار ہيں توا ان كى اطلاح كريں _ اچھى صفات اپنائيں نيك اخلاق اختيار كريں اور پسنديدہ كردار ادار كريں _ مختصريہ كہ اپنے آپ كو ايك اچھے اور كامل انسان كى صورت ميں ڈھاليں اس كے بعد نئے انسانوں كى توليد اور پرورش كى طرف قدم بڑھائيں _ ماں باپ كو پہلے سو چنا چا ہيے كہ و ہ كس طرح كا بچہ معاشر ے كے سپرد كرنا چاہتے ہيں اگر انھيں يہ پسند ہے كہ ان كا بچہ خوش اخلاق ، مہربان ، انسان دوست ، خير خواہ ، ديندار ، با ہدف شريف ، آگاہ حريت پسند ، شجاع ، مفيد ، فعال ، اور فرض شناس ہو تو خود انہيں بھى ايسا ہى ہو نا چاہيے تا مہ وہ بچے كے ليے نمونہ عمل قرار پائيں _ جس ماں كى خواہش ہو كہ اس كى بيٹى فرض شناس ، خوش اخلاق ، مہربان ، سمجھدار ، شوہر كى وفادار ، باتميز ، ہر طرح كے حالات ميں گزر لبسر كر لينے والى اور نظم و ضبط حيات حاصل كرے _ اگر ماں بد اخلاق ،بے ادب ، سست ، بے نظم ، بے مہر ، كثيف ، دوسروں سے زيادہ توقع با ند ھنے والى اور بہانہ ساز ہو تو وہ صرف و عظ و نصيحت سے ايك اچھى بيٹى پروان نہيں چڑھا سكتى _

ڈاكٹر جلالى لكھتے ہيں _

بچوں كو احساسات اور جذبات كے اعتبار سے وہى لوگ صحيح تربيت وے سكتے ہيں كہ جنہوں نے اپنے بچپن ميں اور باقى تمام عمر صحيح تربيت پائي ہو _ جوماں باپ آپس ميں ناراض رہتے ہوں اور چھوٹى باتوں پر جھگڑاتے ہوں ، يا جن لوگوں نے كاردبار كے طور پرپرورش كا سلسلہ شروع كيا ہو اور انھيں تربيت دينے كا كوئي ذوق و شوق نہ ہو _ اور جو بچوں كو نقرت كى نگاہ سے ديكھتے ہوں ، خود حوصلے سے عارى ہوں اور غصيلى طبيعت ركھتے ہوں اور جنيں خود اپنے آپ پر اعتماد نہ ہو وہ بچوں كے جذبات اور احساسات كو صحيح راستے پر نہيں ڈال سكتے

ڈاكٹر جلالى مزيد لكھتے ہيں : بچے كى تربيت جس كے بھى ذمے ہوا سے چاہيے كہ كبھى كبھى اپنى صفات كا بھى جائزہ لے اور اپنى ذمہ داريوں كے بار ے ميں سو چے اور اپنى خاميوں كو دور كرے

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں :

من نصب نفسہ اماماً فليبدا بتعليم نفسہ قبل تعليم غيرہ و ليكن تاديبہ بسيرتہ قبل تاديبہ بلسانہ و معلّم نفسہ و مؤدبہا احق بالاجلال من معلم النّاس و مؤدبہم _

جو شخص دوسروں كا پيشوا بنے چاہيے كہ پہلے وہ اپنے اصلاح كرے پھر دوسروں كى اصلاح كے ليے اٹھے اور دوسروں كو زبان سے ادب سكھانے سے پہلے اپنے كردار سے ادب سكھائے اور جو اپنے آپ كو تعليم اور ادب سكھاتا ہے وہ اس شخص كى نسبت زيادہ عزّت كا حقدار ہے جو دوسروں كو ادب سكھاتا ہے _ (نہج البلاغہ _كلامت قصار نمبر 73)

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

وقّروا كباركن يوقّركم صغاركم _

تم اپنے بزرگوں كا احترام كرو تا كہ تمہارے بچے تمہارا احترام كريں _(غرر الحكم _ ص 78)

پيغمبر اكرم (ص) نے حضرت ابوذر سے فرمايا:

جب كوئي شخص خود صالح ہوجاتا ہے تو اللہ تعالى اس كے نيك ہوجانے كے وسيلے سے اس كى اولاد اور اس كى اولاد كى اولاد كو بھى نيك بناديتا ہے _(مكارم الاخلاق _ ص 546)

امير المومنين (ع) فرماتے ہيں:

ان سمت ہمّتك لاصلاح النّاس فابدء بنفسك فانّ تعاطيك صلاح غيرك و انت فاسد اكبر العيب_

اگر تو دوسروں كى اصلاح كرنا چاہتا ہے تو اس سلسلے كا آغاز اپنى ذات كى اصلاح سے كر اور اگر تودوسروں كى اصلاح كرنا چاہے اور اپنے آپ كو فاسد ہى رہنے دے تو يہ سب سے بڑا عيب ہوگا _ (غرر الحكم ص 278)

تو يہ سب سے بڑا عيب ہوگا _

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

انّ الوعظ الّذى لا يمّجہ سمع و لا يعولہ نفع ما سكت عنہ لسان القول و نطق بہ لسان الفعل_

جس نصيحت كے ليے زبان گفتار خاموش ہو اور زبان كردار گويا ہو كوئي كان اسے باہر نہيں نكال سكتا اور كوئي فائدہ اس كے برابر نہيں ہوسكتا_ (غرر الحكم ص 232)

ايك خاتون اپنے ايك خط لكھتى ہے:

ميرے ماں باپ كے كردار نے مجھ پر بہت اثر كيا ہے انہوں نے ہميشہ ميرے ساتھ اور ميرے بہن بھائيوں كے ساتھ مہربانى كى ہے _ ميں نے كبھى بھى ان كے كردار اور گفتار ميں برائي نہيں ديكھى _ خود ہمارى بہت عادت ويسى ہى ہوگئي _ ميں ان كا اچھا اخلاق اور كردار بھلا نہيں سكتى _ اب جب كہ ميں خودمان بن گئي ہوں تو كوشش كرتى ہوں كہ كوئي برا كام خاص طور پر اپنے بچوں كے سامنے مجھ سے سرزد نہ ہو _ ميرے ماں اور باپ كا كردار ميرى زندگى ميں ميرے لئے نمونہ عمل بن گيا _ ميں كوشش كرتى ہوں كہ اپنے بچوں كى بھى اس طرح سے تربيت كروں _

ايك اور خاتون اپنے خط ميں لكھتى ہيں:

جب ميں اپنى گزشتہ زندگى كے بارے ميں سوچتى ہوں تو مجھے ياد آتا ہے _ كہ ميرى ماں چھوٹى چھوٹى باتوں ميں ايسے ہى چيختى چلاتى تھى _ اب جب كہ ميں خودماں بن گئي ہوں تو ميں ديكھتى ہوں كہ تھوڑى سى كمى كے ساتھ وہى ميرى حالت بھى ہے _ اس كى سارى بد اخلاقياں مجھ ميں پيدا ہوگئي ہيں اور عجيب مسئلہ يہ ہے كہ ميں جتنا بھى كوشش كرتى ہوں كہ اپنى اصلاح كروں نہيں كر پاتى ہوں _ يقينى طور پر ميرے لئے يہ بات ثابت ہوگئي ہے كہ ماں باپ كا كردار اور اخلاق اولاد كى تربيت پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور يہ جو كہا جاتا ہے : كہ ماں اپنى تربيت كے ذريعے ايك دينا كو بدل سكتى ہے بالكل درست بات ہے _


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کربلا اور اصلاح معاشرہ
مظلومیت ہی مظلومیت
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں

 
user comment