امام جعفر صادق(ع) کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ(ع) اور آپ(ع) کے والد بزرگوار حضرت امام باقر(ع) نے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا اس کے ساتھ ساتھ امام صادق(ع) نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رہبری ہمارا حق ہے۔
امام جعفر صادق(ع) نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جب کہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کر چکے تھے لیکن حکومت کو مضبوط کر نے کے لئے ہر مخالف کو تہہ تیغ کر رہے تھے۔ حضرت(ع) نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ہمارا حق ہے اس کے ساتھ ساتھ امام جعفر صادق(ع) نے ان شیعان حید ر کرار کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیز، ان کے لئے بھی یہ بات واضح کر دی کہ حکومت حق ولایت ہے اور ولایت فقط ہمارے لئے ہے مثال کے طور پر امام(ع) نے ایک دفعہ فرمایا کہ:
اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے نماز، زکوة ، حج، روزہ، اور ولایت۔
زرارہ نے امام(ع) سے سوال کیا ان میں سے بر تر کون سی چیز ہے؟
امام(ع) نے بلا جھجھک فرمایا:
"ولایت بر تر ہے کیونکہ ولایت تمام چیزوں کی چابی ہے اور حاکم، لوگوں کو ان کی طرف راہنمائی کر تا ہے"
(وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۸۰۷)
کس وضاحت کے ساتھ امام(ع) نے ان افراد کو جو کہ یہ سوچتے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں یہ ثابت کر دیا کہ دین کا اجراء اور اس کا کمال حکومت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، حکومت ہی ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ دین کا اجراء کماحقہ کر ے حکومت ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ قدرت عطا کرتی ہے کہ وہ دین کے خلاف ہو نے والی ہر سازش کو ختم کر دے اس لئے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہر ظالم و فاسق شخص خلافت کے عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا متقی اور پر ہیز گار ہو نا ضروری ہے۔
اسی زمانے میں جب کچھ علماء نے بنی عباس کی حکومت کو اپنے فائدے حاصل کر نے کے لئے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کی اور لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ یہ حکومت صحیح ہے تو امام جعفر صادق(ع) نے اس کے خلاف بھی اپنا جہاد شروع کیا اور اپنے اقوال کے ذریعے سے ایسے علماء کی مذمت کی جو ظالم اور جابر حکمرانوں کے دربار میں زندہ لاشوں کے عنوان سے جاتے تھے امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:
فقہاء انبیاء کے نمائندہ ہیں اور جب بھی یہ فقہاء سلاطین کے دربار کے چکر لگا نا شروع کر دیں تو ان کو متہم کر و (یعنی اس کے صحیح عالم ہونے کے بارے میں شک کرو۔)(کشف الغمہ جلد ۲ صفحہ۱۸۲)
کبھی امام(ع) نے اپنے درسوں میں یا اپنی تقریروں میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ حدیث نقل کر نی شروع کر دی کہ:
"فقہاء اس وقت تک انبیاء کے نمائندہ ہیں جب تک دنیا ان پر حاوی نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دنیا کب حاوی ہو گی تو فرمایا ظالم سلطان کی اطاعت کے وقت اور جب بھی تم ایسا دیکھو تو اپنے دین کو ان سے جداکر لو" (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۲)
ایک دفعہ امام صادق(ع) بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ عذافر دوکان پر کھڑے کچھ خرید رہے ہیں امام(ع) نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا عذافر سنا ہے کہ ابو ایوب اور ربیع (خلیفہ کے دو وزیر) کے لئے کام کر رہے ہو یاد رکھو قیامت کے دن تمہارا حال ان دو جیسا ہو گا سوچو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم کو ظالم کی مدد کر نے والے کے نام سے آواز دے کر بلایا جائے گا یہ سنتے ہی عذافر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
امام(ع) نے پھر فرمایا کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا فقط اسی چیز سے ڈرا رہا ہوں جس سے خدا وند نے مجھ کو ڈرایا ہے۔
یہ کہنے کے بعد امام(ع) آگے چل دئیے عذا فراس قدر متاثر ہوئے کہ کہتے ہیں کہ آخر عمر تک غمگین و افسردہ رہے۔ (وسائل الشعیہ جلد ۱۲صفحہ ۱۲۸)
امام نے سربازار اپنے ماننے والے کی مذمت کر نے کے لئے اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے یہ بات کہی یقینا امام(ع) یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ جو افراد اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بات سن لیں کہ ظالم کی مدد کر نا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود ظلم کر نا۔
ایک اور موقعہ پر امام صادق(ع) نے فرمایا:
"جو کوئی یہ چاہے کہ ظالمین باقی رہیں وہ ایسے ہے کہ جیسے وہ چاہتا ہو کہ خدا کی معصیت اور نافرمانی ہو تی رہے۔(وسائل شعیہ جلد ۲صفحہ۱۳۰)
ان اقوال کے ذریعے سے امام(ع) لوگوں کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے شیعہ یا ہمارے ماننے والے ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے کہ ہم ان ظالموں کو اقتدار سے ہٹا دیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں نہیں بلکہ ہمارا جہاد ظالموں سے جاری ہے اور وہ زبان کے ذریعے سے ہے جس کو ختم کر نے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ ہماری زبانوں کو کاٹ دیا جائے۔
امام صادق(ع) ہی کے زمانے میں بنی عباس کی حکومت کے قیام کے بعد لوگوں میں یہ باتیں کی گئیں کہ اگر یہ حکومتیں صحیح نہیں ہیں تو کم از کم ان کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام تو کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سے سادہ لوح افراد اس دھوکہ میں آگئے اور حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ امام(ع) نے حکومت کی اس حکمت عملی کو بھی فقط اپنے اقوال کے ذریعے سے شکست دی امام(ع) نے ایک موقعہ پر ایک چھوٹا سا جملہ ارشاد فرمایا کہ
"حتیٰ مسجد کی تعمیر میں بھی ظالموں کی مدد نہ کرو"۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ۱۳۴)
حضرت امام جعفر صادق(ع) نے معاشرے میں پھیلے ہوئے ان افراد کی بھی مذمت کی جو دولت کے لالچ میں جانتے ہوئے بھی کہ یہ حکمران غاصب اور ظالم ہیں ان کی مدح و سرا میں مشغول تھے۔
امام گرامی قدر فرماتے ہیں کہ:
"اگر کوئی ظالم حکمرانوں کی مدح کر ے اور اس کی دولت کے لالچ میں عزت کر ے تو وہ شخص اسی ظالم کا پڑوسی ہوگا آخرت میں"۔
(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۳)
لمحہ فکر یہ ہے ہم لوگوں کے لئے کہ آج ہم اگر کسی ایسے شخص کی مدح کریں کہ جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ظالم ہے لیکن کیونکہ وہ ہمارے ذاتی حقوق ہم کو دلادے گا یا پھر ہم کو کسی اچھی جگہ نوکری دلوا سکتا ہے اور ہم اس ظالم شخص کی مدح شروع کر دیں تو یاد رکھئے کہ ہماری جگہ بھی دوزخ میں ہو گی۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آئمہ(علیہم السلام) بار بار لوگوں تک یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ حکومت اور ولایت ہمارا حق ہے اور ہم ہی اس منصب کے اہل ہیں۔ اسی ضمن میں امام(ع) کی بھی سیاسی حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ اول اسلام سے لے کر انتہا تک جتنے بھی خلیفہ آئیں گے اگر وہ ہمارے علاوہ کوئی ہو تو غاصب ہے۔ ان نظریات کا اظہار ایسا تھا جیسے شیر کے منہ سے شکار چھین لینا امام(ع) نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے بیانات اس طرح سے دیئے کہ افراد تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ اس طرح سے ہوا کہ اس زمانے میں لوگ بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء کو امیرا لمومنین کہہ کر پکارتے تھے ایک شیعہ نے آپ سے سوال کیا کہ کیا امام قائم (عج) کے ظہور کے بعد ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کر سکیں گے؟
امام(ع) نے اس سوال کے جواب میں ایک پورا نظریہ دیااور فرمایا:
"یہ نام مخصوص ہے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے ان سے پہلے نہ کسی کو اس نام سے پکارا گیا اور نہ ان کے بعد کسی کو اس نام سے پکارا جائے گا مگر کافر"۔
(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۱۳)
امام(ع) نے کمال صراحت سے یہ بات لوگوں تک پہنچاد ی کہ جو بھی اپنے آپ کو امیرالمومنین کہلوائے وہ کافر ہے۔
اپنے آخر ی دور میں بھی امام(ع) نے سیاسی نزاکتوں کو سمجھااور اس کے توڑکے مطابق عمل کیا۔ منصور دوانیقی نے آپ(ع) کو بے انتہا پریشانیوں میں مبتلا کیا اور کئی مرتبہ آپ(ع) کو قتل کر نے کی دھمکی دی آپ(ع) نے منصور دواینقی کی ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وصی کی جان بچانے کے لئے ایک اور سیاسی حربہ استعمال کیا ۔
امام صادق(ع) نے اپنی وصیت میں اپنے پانچ وصی مقرر کئے۔
۱۔ ابو جعفر منصور دوانیقی خلیفہ وقت
۲۔ محمد بن سلیمان (مدینہ کا گورنر )
۳۔ عبداللہ افطح (آپ(ع) کے فرزند)
۴۔ موسیٰ بن جعفر(آپ(ع)کے فرزند)
۵۔ حمیدہ (آپ(ع) کی زوجہ محترمہ)
البتہ یہ وصیت جیسا کہ پہلے عرض کیا سیاسی تھی کیونکہ امام صادق(ع) کے وصی اور جانشین امام موسیٰ کا ظم(ع) تھے۔
جب امام(ع) کے انتقال کی خبر منصور کو ملی تو اس نے اپنے ایک وزیر کو بلایا اور کہا کہ والی مدینہ کے نام خط لکھو۔
"یہ خط والی مدینہ محمد بن سلیمان کے لئے خلیفہ وقت منصور کی طرف سے ہے اگر جعفر بن محمد نے کسی خاص شخص کو اپنا وصی بنایا ہو تو اس کو اپنے پاس بلاؤ اور اس کا سر تن سے جدوا کر دو"۔
یہ خط والی مدینہ کے پاس پہنچا تو اس کا جواب کچھ یوں آیا کہ جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی بنایا ہے۔
۔ منصور دوانیقی1
۲۔ محمد بن سلیمان
۳۔ عبداللہ افطح
۴۔ موسیٰ بن جعفر
۵۔ حمیدہ۔ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ۳۱۰)
جب منصور کو یہ خط ملا تو اس نے کہا کہ
"میرے پاس ان افراد کو قتل کر نے کا کوئی راستہ نہیں "۔
(اعلام الوری صفحہ ۱۹۰)
ٍ اس کے علاوہ امام(ع) نے ایک اور وصیت بھی کی کہ میری وفات کے سات سال بعد تک حج کے ایام میں عزاداری امام حسین(ع) کی جائے اور اس عزاداری کے لئے آپ(ع) نے اپنے مال کا کچھ حصہ مقرر فرمایا۔
یہ وصیت بھی سیاسی تھی کیونکہ ان مجالس کے ذریعے سے دوسرے افراد امام(ع) کی مظلومیت سے با خبر ہوتے اور ان کو پتہ چلتا کہ کس طرح امام(ع) پر ظلم ہوئے ہیں اور جب اس کے ذریعے ان کے دل اماموں کی طرف مائل ہوتے اور وہ آئمہ(ع) کی زندگی کے بارے میں جستجو کر تے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ باطل حکومت سے دوری اختیار کرتے اور صالح افراد لوگوں کے امور کو سنبھالتے۔
source : http://shiastudies.net