اردو
Thursday 12th of December 2024
0
نفر 0

جہاداور دفاع

چونکہ خورشید اسلام کے طلوع ہونے کے بعد تمام مکاتب ومذاہب ؛باطل، منسوخ اور ناقابل قبول قرار پائے ہیں لہٰذا تمام انسانوں کو دین اسلام کے پروگرام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہونا چاہئے، اگر چہ وہ اسے تحقیق اور آگاہی کے ساتھ قبول کرنے میں آزاد ہیں۔ پیغمبر اکرم  ۖ اور آپ کے جانشینوں نے ابتداء میںاسلام کے نجات بخش پروگراموں کی لوگوں کے لئے وضاحت فرمائی اور انھیں اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی اور جو اسلام کے پروگراموں اور احکام سے روگردانی کریں، وہ غضب الٰہی اور مسلمانوں کی شمشیر قہرسے دوچار ہوں گے۔ اسلام کی ترقی کے لئے کوشش اور اس کو قبول کرنے سے انکار کرنے والوں سے مقابلہ کو ''جہاد'' کہتے ہیں۔اسلام کی ترقی کے لئے اس قسم کا اقدام ایک خاص ٹیکنیک اور طریقہ کار کا حامل ہے اور یہ صرف پیغمبر اکرم  ۖ اور آپ کے جانشینوں۔ (جو ہر قسم کی لغزش اور خطاء سے مبّرا ہیں)کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور معصومین علیہم السلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ا ورہمارے زمانہ میں کہ  امام معصوم کی غیبت کادورہے، واجب نہیں ہے لیکن دشمنوں سے مقابلہ کی دوسری قسم کانام دفاع'' ہے۔یہ تمام مسلمانوں کا مسلم حق ہے کہ ہر زمان ومکان میں دنیا کی کسی بھی جگہ میں اگر دشمنوں کے حملہ کا نشانہ بنیں یا ان کا مذہب خطرہ میں پڑے تو اپنی جان اور دین کے تحفظ کے لئے دشمنوں سے لڑیں اورانہیں نابود کردیں۔ ہم اس سبق میں اس واجب الٰہی یعنی''دفاع'' کے احکام واقسام سے آشنا ہوںگے۔

اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع:

 اگر دشمن اسلامی ممالک پر حملہ کرے۔

 یا مسلمانوں کے اقتصادی یا عسکری ذرائع پر تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے۔

*یا اسلامی ممالک پر سیاسی تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے ۔

* تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہر ممکن صورت میں ، دشمنوں کے حملہ کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیںاور ان کے منصوبوں کی مخالفت کریں۔

جان اور ذاتی حقوق کا دفاع :

١۔ مسلمانوں کی جان اور ان کا مال محترم ہے، اگر کسی نے ایک مسلمان، یا اس سے وابستہ افراد، جیسے، بیٹے، بیٹی، باپ ، ماں اور بھائی پر حملہ کیا تو دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے،اگرچہ یہ عمل حملہ آورکوقتل کرنے پر تمام ہوجائے۔

٢۔ اگر چور کسی کے مال کو چرانے کے لئے حملہ کردے، دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے۔

٣۔ اگر کوئی نامحرموں پر نگاہ کرنے کے لئے دوسروں کے گھروں میں جھانکے تو اسے اس کام سے روکنا واجب ہے، اگرچہ اس کی پٹائی بھی کرنا پڑے۔

عسکری تربیت:

عصر حاضر میں دنیا نے عسکری میدان میں کافی ترقی کی ہے اور اسلام کے دشمن جدید ترین اسلحہ سے لیس ہوچکے ہیں ، اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع،جدیدعسکری طریقوں کی تربیت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے ، چونکہ فوجی تربیت حاصل کرنا واجب ہے، جو اس ٹریننگ کی قدرت وصلاحیت رکھتے ہوں اور اسلام اور اسلامی ممالک کے دفاع کے لئے محاذجنگ پر ان کے حضور کا احتمال ہوتو فوجی ٹریننگ ان کے لئے واجب ہے۔

اسلامی ممالک کا دفاع اور دشمنوںکے حملوں کے مقابلے میں ان کا تحفظ صرف جنگ کے ایام سے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہر حالت میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دشمن کے احتمالی حملے کو روکنے کے لئے پوری فوجی تیاری کے ساتھ ملک کی سرحدوں پر چوکس رہے اور کچھ لوگ اندرونی دشمنوں اور بدکاروں سے مقابلہ کرنے کے لئے بھی آمادہ ہوں۔ اس لئے ان تمام تواناا فراد پر لازم ہے کہ اپنی زندگی کے ایک حصہ کواس مقدس فوجی خدمات انجام دینے کیلئے وقف کریں۔


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
اسلام اور اقتصادی انصاف
اسلامی بیداری 2
بہار آئي
والدین کے حقوق مکتب آل محمدمیں
امام خمینی(قدس سرہ)کی شخصیت علماء کرام کی نظر میں
جوانوں کی فکری تشویش
ہندوستان میں مسلم معاشرہ کی صورت حال
مثالی معاشرے کی ضرورت و اہمیت:
عالم اسلام کے مسائل امت کے اتحاد کے متقاضی

 
user comment