مدینہ رسول سے فرزند رسول کو طلب کرنے کی غرض چونکہ نیک نیتی پرمبنی نہ تھی،اس لیے عظیم شرف کے باوجود آپ حکومت وقت کی کسی رعایت کے قابل نہیں متصور ہوئے معتصم نے بغداد بلوا کرآپ کوقید کر دیا، علامہ اربلی لکھتے ہیں ، کہ چون معتصم بخلافت بہ نشست آنحضرت را ازمدینہ طیبہ بدارالخلافة بغداد آورد وحبس نمود(کشف الغمہ ص ۱۲۱) ۔
ایک سال تک آپ نے قید کی سختیاں صرف اس جرم میں برداشت کیں کہ آپ کمالات امامت کے حامل کیوں ہیں اورآپ کوخدا نے یہ شرف کیوں عطا فرمایا ہے بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ پراس قدرسختیاں تھیں اوراتنی کڑی نگرانی اورنظربندی تھی کہ آپ اکثراپنی زندگی سے بیزارہوجاتے تھے بہرحال وہ وقت آ گیا کہ آپ صرف ۲۵/ سال ۳ ماہ ۱۲/ یوم کی عمرمیں قیدخانہ کے اندرآخری ذی قعدہ (بتاریخ ۲۹/ ذی قعدہ ۲۲۰ ہجری یوم سہ شنبہ) معتصم کے زہرسے شہید ہو گئے
(کشف الغمہ ص ۱۲۱ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، ارشاد ص ۴۸۰ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ، انوارالحسینیہ ص ۵۴) ۔
آپ کی شہادت کے متعلق ملامبین کہتے ہیں کہ معتصم عباسی نے آپ کو زہرسے شہید کیا (وسیلة النجات ص ۲۹۷) علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ کو امام رضا کی طرح زہر سے شہید کیا گیا(صواعق محرقہ ص ۱۲۳) علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ”گویندیہ زہرشہیدشہ“ کہتے ہیں کہ آپ زہرسے شہید ہوئے (روضة الشہداء ص ۴۳۸) ۔ ملاجامی کی کتاب میں ہے ”قیل مات مسموما“ کہا جاتا ہے کہ آپ کی وفات زہرسے ہوئی ہے (شواہدالنبوت ص ۲۰۴)
۔علامہ نعمت اللہ جزائری لکھتے ہیں کہ ”مات مسموما قدسمم المعتصم“ آپ زہرسے شہید ہوئے ہیں اوریقینا معتصم نے آپ کوزہردیا ہے، انوارالعنمانیہ ص ۱۹۵)
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ انہ مات مسموما آپ زہرسے شہید ہوئے ہیں ”یقال ان ام الفضل بنت المامون سقتہ ،بامرابیہا“ کہا جاتا ہے کہ آپ کوآپ کی بیوی ام الفضل نے اپنے باپ مامون کے حکم کے مطابق (معتصم کی مددسے) زہردے کرشہید کیا (نورالابصارص ۱۴۷ ،ارحج المطالب ص ۴۶۰) ۔
مطالب یہ ہوا کہ مامون رشید نے امام محمد تقی کے والد ماجد امام رضا کو اوراس کی بیٹی نے امام محمد تقی کوبقول امام شبلنجی شہید کرکے اپنے وطیرہ مستمرة اوراصول خاندانی کوفروغ بخشا ہے ، علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ ”دخلت امراتہ ام الفضل الی قصرالمعتصم “ کہ امام محمد تقی کوشہید کرکے ان کی بیوی ام الفضل معتصم کے پاس چلی گئی بعض معاصرین لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے شہادت کے وقت ام الفضل کے بدترین مستقبل کا ذکرفرمایا تھا جس کے نتیجہ میں اس کے ناسور ہوگیا تھا اوروہ آخرمیں دیوانی ہوکرمری۔
مختصریہ کہ شہادت کے بعد امام علی نقی علیہ السلام نے آپ کی تجہیزوتکفین میں شرکت کی اورنمازجنازہ پڑھائی اوراس کے بعد آپ مقابرقریش اپنے جد نامدار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پہلومیں دفن کئے گئے چونکہ آپ کے دادا کا لقب کاظم اورآپ کالقب جواد بھی تھا اس لیے اس شہرت کوآپ کی شرکت سے ”کاظمین“ اوروہاں کے اسٹیشن کوآپ کے دادا کی شرکت کی رعایت سے ”جوادین“ کہا جاتا ہے۔
اس مقبرہ قریش میں جسے کاظمین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۳۵۶ ہجری میں مطابق ۹۹۸ ء میں معزالدولہ اور ۴۵۲ ہجری مطابق ۱۰۴۴ ء میں جلال الدولہ شاہان آل بویہ کے جنازے اعتقاد مندی سے دفن کئے گئے کاظمین میں جوشاندار روضہ بنا ہوا ہے اس پربہت سے تعمیری دورگزرے لیکن اس کی تعمیر تکمیل شاہ اسماعیل صفوی نے ۹۶۶ ہجری مطابق ۱۵۲۰ ء میں کرائی ۱۲۵۵ ہجری مطابق ۱۸۵۶ ء میں محمدشاہ قاچارنے اسے جواہرات سے مرصع کیا۔
source : http://www.tebyan.net